محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
خوبصورت۔ ہمارا تو گلا رُندھ گیا اور قلم نے ساتھ چھوڑ دیا۔ کیا لکھیں بجز اس کے کہ ہم استادِ محترم کے تبصرے سے متفق ہیں۔
افففف اتنی لمبی تقریر کس لئے کی جا رہی ہے بھائیباسمہ سبحانہ
مورخہ: 16 جون، 2014
دلاری بٹیا رانی! السلام علیکم!
خیریت دارم و خواہم۔
بٹیا کا خط ملا، بھیا نہال ہو گئے۔ خوبصورت فقرے، موتی کے مثل اجلی اجلی باتیں، اور ملائم لب و لہجہ۔ تحریر پڑھیے تو ایسا محسوس ہو جیسے ہواؤں کے دوش پر تیر رہے ہیں، کہیں دور دور تک ثقل کا شائبہ تک نہیں۔ خط کیا تھا، ایسے لگا جیسے بٹیا نے گاجر کا حلوہ پیالی میں سجا کر کیوڑے کی بوندیں چھڑک کر اس پر چاندی کا ورق چسپاں کر کے رکھ دیا ہو۔
چونکہ جواب لکھنا بھی لازم ٹھہرا لہٰذا سر شام ساحل دریا کے پاس ایستادہ لکڑی کی بنچ پر آ بیٹھے ہیں اور گلابی ورق پر نوک قلم رکھے سوچ رہے ہیں کہ کہاں سے ابتدا کریں۔
خوشگوار موسم۔۔۔ اٹکھیلیاں کرتی مدھم ہوائیں تا حد نگاہ پھیلے دریا کی سطح کو چھوچھو کر جیسے گدگدا رہی ہوں کہ سطح آب لرز رہی ہے اور مارے لاج کے اس کی جلد پر سرخ و سندوری رنگت اتر آئی ہے۔ دور افق کے پاس سورج کی ٹھوڑی پانی میں ڈوبی نظر آ رہی ہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ابھی ابھی سورج نے دور دور تک پھیلے پانی کو تیر کر پار کیا ہو اور تھک ہار کر دوسرے کنارے کو ہاتھوں سے تھامے اپنی سانسیں بحال کر رہا ہو۔ رنگین پانی کی مدھم لہریں دور تک سورج کا تعاقب کر رہی ہیں۔ جیسے سورج نے سندوری پانی سے بھیگے اپنے بالوں کو جھٹک کر افق پر شفق رنگ چھینٹے بکھیر دیے ہوں۔
نیلگوں آسمان سوائے اکا دکا سفید بادل کے ٹکڑوں کے پوری طرح صاف ہے اور رات کو ڈھانپنے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ دو پرندے نصف دائرہ بنا کر پانی کو چومتے ہوئے پھر بلندیوں کی طرف پرواز کر گئے ہیں۔ کچھ اونچائی پر نو مولود چاند مسکراتے ہوئے سورج کو نہار رہا ہے، جیسے سورج سے کہہ رہا ہو کہ فکر کی کوئی بات نہیں ابھی میں یہیں ہوں، پھر رات گئے اس بے کراں آسمان کو تاروں کے حوالے کر کے سو جاؤں گا۔ سورج کی بدلتی رنگت دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے زبان حال سے چیخ کر کہہ رہا ہو کہ ابھی مجھے یہیں رکنا ہے، لیکن دن بھر کی تھکن سے پنجہ آزمائی میں کمزور پڑ رہا ہے۔
دائیں جانب دور سے آتا ہوا طیارہ نیلے آسمان کو دودھیا لکیر سے دو حصوں میں منقسم کر رہا ہے۔ شاید اسے شام کے وقت سرحدیں کھینچنے پر مامور کیا گیا ہے۔ یا پھر شاید دور دراز سرحد پار رہنے والوں کو اپنوں سے ملانے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اس دودھیا خط فاصل نے بالآخر مضمحل سورج اور مسکراتے چاند کے فراق کا تعین کر دیا۔ نصف سے زائد پانی میں ڈوب چکے سورج کی سرخ و سنہری کرنیں کسی ڈوبتے بچے کے مدد کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھوں کا مثل پیش کر رہی ہیں۔ گو کہ چنچل پر کیف ہواؤں نے مدد کی پوری کوشش کی، مگر اس سے قبل کہ وہ اس دودھیا لکیر کو مٹا کر سرحد کو دونوں اطراف سے ضم کر پاتیں، سورج پر مکمل غفلت طاری ہوچکی ہے۔
تھک گیا ہے بے چارہ۔۔۔ موسم کی پروا کیے بغیر روزآنہ فاصلہ بھی تو بہت طے کرتا ہے۔ صبح سے شام تک مشرق سے مغرب کا طویل سفر کچھ کم تھکا دینے والا تو نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ابھی اس پر شبنم کے قطرے عرق دافع غفلت کی مانند پڑیں گے تو صبح تک پھر سے تازہ دم ہو کر نئے سفر کے لیے پر عزم انداز میں اٹھ کھڑا ہو گا۔
چلیں اب ہم بھی گھر کی راہ لیتے ہیں کہ راستے میں یہ لفافہ ڈاک خانے کے سرخ صندوق کے حوالے کرنا ہے۔ امید ہے کہ صبح کی ڈاک کے ساتھ یہ بھی اپنی منزل کو روانہ ہو جائے گا۔ یہ مٹھی بھر مسکانیں بھی لفافے میں ڈل دیتے ہیں کہ دلاری بٹیا کے لبوں پر رقص کا سامان ہو۔
بے حد دلار اور پیار!
والسلام!
--
بٹیا کے بھیا
باسمہ سبحانہ
مورخہ: 16 جون، 2014
دلاری بٹیا رانی! السلام علیکم!
خیریت دارم و خواہم۔
بٹیا کا خط ملا، بھیا نہال ہو گئے۔ خوبصورت فقرے، موتی کے مثل اجلی اجلی باتیں، اور ملائم لب و لہجہ۔ تحریر پڑھیے تو ایسا محسوس ہو جیسے ہواؤں کے دوش پر تیر رہے ہیں، کہیں دور دور تک ثقل کا شائبہ تک نہیں۔ خط کیا تھا، ایسے لگا جیسے بٹیا نے گاجر کا حلوہ پیالی میں سجا کر کیوڑے کی بوندیں چھڑک کر اس پر چاندی کا ورق چسپاں کر کے رکھ دیا ہو۔
چونکہ جواب لکھنا بھی لازم ٹھہرا لہٰذا سر شام ساحل دریا کے پاس ایستادہ لکڑی کی بنچ پر آ بیٹھے ہیں اور گلابی ورق پر نوک قلم رکھے سوچ رہے ہیں کہ کہاں سے ابتدا کریں۔
خوشگوار موسم۔۔۔ اٹکھیلیاں کرتی مدھم ہوائیں تا حد نگاہ پھیلے دریا کی سطح کو چھوچھو کر جیسے گدگدا رہی ہوں کہ سطح آب لرز رہی ہے اور مارے لاج کے اس کی جلد پر سرخ و سندوری رنگت اتر آئی ہے۔ دور افق کے پاس سورج کی ٹھوڑی پانی میں ڈوبی نظر آ رہی ہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ابھی ابھی سورج نے دور دور تک پھیلے پانی کو تیر کر پار کیا ہو اور تھک ہار کر دوسرے کنارے کو ہاتھوں سے تھامے اپنی سانسیں بحال کر رہا ہو۔ رنگین پانی کی مدھم لہریں دور تک سورج کا تعاقب کر رہی ہیں۔ جیسے سورج نے سندوری پانی سے بھیگے اپنے بالوں کو جھٹک کر افق پر شفق رنگ چھینٹے بکھیر دیے ہوں۔
نیلگوں آسمان سوائے اکا دکا سفید بادل کے ٹکڑوں کے پوری طرح صاف ہے اور رات کو ڈھانپنے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ دو پرندے نصف دائرہ بنا کر پانی کو چومتے ہوئے پھر بلندیوں کی طرف پرواز کر گئے ہیں۔ کچھ اونچائی پر نو مولود چاند مسکراتے ہوئے سورج کو نہار رہا ہے، جیسے سورج سے کہہ رہا ہو کہ فکر کی کوئی بات نہیں ابھی میں یہیں ہوں، پھر رات گئے اس بے کراں آسمان کو تاروں کے حوالے کر کے سو جاؤں گا۔ سورج کی بدلتی رنگت دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے زبان حال سے چیخ کر کہہ رہا ہو کہ ابھی مجھے یہیں رکنا ہے، لیکن دن بھر کی تھکن سے پنجہ آزمائی میں کمزور پڑ رہا ہے۔
دائیں جانب دور سے آتا ہوا طیارہ نیلے آسمان کو دودھیا لکیر سے دو حصوں میں منقسم کر رہا ہے۔ شاید اسے شام کے وقت سرحدیں کھینچنے پر مامور کیا گیا ہے۔ یا پھر شاید دور دراز سرحد پار رہنے والوں کو اپنوں سے ملانے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اس دودھیا خط فاصل نے بالآخر مضمحل سورج اور مسکراتے چاند کے فراق کا تعین کر دیا۔ نصف سے زائد پانی میں ڈوب چکے سورج کی سرخ و سنہری کرنیں کسی ڈوبتے بچے کے مدد کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھوں کا مثل پیش کر رہی ہیں۔ گو کہ چنچل پر کیف ہواؤں نے مدد کی پوری کوشش کی، مگر اس سے قبل کہ وہ اس دودھیا لکیر کو مٹا کر سرحد کو دونوں اطراف سے ضم کر پاتیں، سورج پر مکمل غفلت طاری ہوچکی ہے۔
تھک گیا ہے بے چارہ۔۔۔ موسم کی پروا کیے بغیر روزآنہ فاصلہ بھی تو بہت طے کرتا ہے۔ صبح سے شام تک مشرق سے مغرب کا طویل سفر کچھ کم تھکا دینے والا تو نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ابھی اس پر شبنم کے قطرے عرق دافع غفلت کی مانند پڑیں گے تو صبح تک پھر سے تازہ دم ہو کر نئے سفر کے لیے پر عزم انداز میں اٹھ کھڑا ہو گا۔
چلیں اب ہم بھی گھر کی راہ لیتے ہیں کہ راستے میں یہ لفافہ ڈاک خانے کے سرخ صندوق کے حوالے کرنا ہے۔ امید ہے کہ صبح کی ڈاک کے ساتھ یہ بھی اپنی منزل کو روانہ ہو جائے گا۔ یہ مٹھی بھر مسکانیں بھی لفافے میں ڈل دیتے ہیں کہ دلاری بٹیا کے لبوں پر رقص کا سامان ہو۔
بے حد دلار اور پیار!
والسلام!
--
بٹیا کے بھیا
بے پر کی۔۔۔ فقط!افففف اتنی لمبی تقریر کس لئے کی جا رہی ہے بھائی
یقیناً آپ کی محبت ہے خلیل بھائی۔خوبصورت، خوبصورت۔ تبھی تو ہم نے اسے پسندیدہ اور زبردست جیسے دو خوبصورت تمغوں سے نوازا ہے۔
یہی ہوں بھائی آپ کے ساتھامید بٹیا کہاں گم تھیں؟
ہاں پھر ٹھیک ہے۔ ویسے اس وقت پراٹھا شریف ہمارے سامنے ہے اس لیے بلا تکلف شروع ہو جائیں۔یہی ہوں بھائی آپ کے ساتھ
پراٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میںہاں پھر ٹھیک ہے۔ ویسے اس وقت پراٹھا شریف ہمارے سامنے ہے اس لیے بلا تکلف شروع ہو جائیں۔
درمیان میں ایک عدد بھائی بھی پائے جاتے ہیں!پراٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں
باسمہ سبحانہ
مورخہ: 16 جون، 2014
دلاری بٹیا رانی! السلام علیکم!
خیریت دارم و خواہم۔
بٹیا کا خط ملا، بھیا نہال ہو گئے۔ خوبصورت فقرے، موتی کے مثل اجلی اجلی باتیں، اور ملائم لب و لہجہ۔ تحریر پڑھیے تو ایسا محسوس ہو جیسے ہواؤں کے دوش پر تیر رہے ہیں، کہیں دور دور تک ثقل کا شائبہ تک نہیں۔ خط کیا تھا، ایسے لگا جیسے بٹیا نے گاجر کا حلوہ پیالی میں سجا کر کیوڑے کی بوندیں چھڑک کر اس پر چاندی کا ورق چسپاں کر کے رکھ دیا ہو۔
چونکہ جواب لکھنا بھی لازم ٹھہرا لہٰذا سر شام ساحل دریا کے پاس ایستادہ لکڑی کی بنچ پر آ بیٹھے ہیں اور گلابی ورق پر نوک قلم رکھے سوچ رہے ہیں کہ کہاں سے ابتدا کریں۔
خوشگوار موسم۔۔۔ اٹکھیلیاں کرتی مدھم ہوائیں تا حد نگاہ پھیلے دریا کی سطح کو چھوچھو کر جیسے گدگدا رہی ہوں کہ سطح آب لرز رہی ہے اور مارے لاج کے اس کی جلد پر سرخ و سندوری رنگت اتر آئی ہے۔ دور افق کے پاس سورج کی ٹھوڑی پانی میں ڈوبی نظر آ رہی ہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ابھی ابھی سورج نے دور دور تک پھیلے پانی کو تیر کر پار کیا ہو اور تھک ہار کر دوسرے کنارے کو ہاتھوں سے تھامے اپنی سانسیں بحال کر رہا ہو۔ رنگین پانی کی مدھم لہریں دور تک سورج کا تعاقب کر رہی ہیں۔ جیسے سورج نے سندوری پانی سے بھیگے اپنے بالوں کو جھٹک کر افق پر شفق رنگ چھینٹے بکھیر دیے ہوں۔
نیلگوں آسمان سوائے اکا دکا سفید بادل کے ٹکڑوں کے پوری طرح صاف ہے اور رات کو ڈھانپنے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ دو پرندے نصف دائرہ بنا کر پانی کو چومتے ہوئے پھر بلندیوں کی طرف پرواز کر گئے ہیں۔ کچھ اونچائی پر نو مولود چاند مسکراتے ہوئے سورج کو نہار رہا ہے، جیسے سورج سے کہہ رہا ہو کہ فکر کی کوئی بات نہیں ابھی میں یہیں ہوں، پھر رات گئے اس بے کراں آسمان کو تاروں کے حوالے کر کے سو جاؤں گا۔ سورج کی بدلتی رنگت دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے زبان حال سے چیخ کر کہہ رہا ہو کہ ابھی مجھے یہیں رکنا ہے، لیکن دن بھر کی تھکن سے پنجہ آزمائی میں کمزور پڑ رہا ہے۔
دائیں جانب دور سے آتا ہوا طیارہ نیلے آسمان کو دودھیا لکیر سے دو حصوں میں منقسم کر رہا ہے۔ شاید اسے شام کے وقت سرحدیں کھینچنے پر مامور کیا گیا ہے۔ یا پھر شاید دور دراز سرحد پار رہنے والوں کو اپنوں سے ملانے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اس دودھیا خط فاصل نے بالآخر مضمحل سورج اور مسکراتے چاند کے فراق کا تعین کر دیا۔ نصف سے زائد پانی میں ڈوب چکے سورج کی سرخ و سنہری کرنیں کسی ڈوبتے بچے کے مدد کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھوں کا مثل پیش کر رہی ہیں۔ گو کہ چنچل پر کیف ہواؤں نے مدد کی پوری کوشش کی، مگر اس سے قبل کہ وہ اس دودھیا لکیر کو مٹا کر سرحد کو دونوں اطراف سے ضم کر پاتیں، سورج پر مکمل غفلت طاری ہوچکی ہے۔
تھک گیا ہے بے چارہ۔۔۔ موسم کی پروا کیے بغیر روزآنہ فاصلہ بھی تو بہت طے کرتا ہے۔ صبح سے شام تک مشرق سے مغرب کا طویل سفر کچھ کم تھکا دینے والا تو نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ابھی اس پر شبنم کے قطرے عرق دافع غفلت کی مانند پڑیں گے تو صبح تک پھر سے تازہ دم ہو کر نئے سفر کے لیے پر عزم انداز میں اٹھ کھڑا ہو گا۔
چلیں اب ہم بھی گھر کی راہ لیتے ہیں کہ راستے میں یہ لفافہ ڈاک خانے کے سرخ صندوق کے حوالے کرنا ہے۔ امید ہے کہ صبح کی ڈاک کے ساتھ یہ بھی اپنی منزل کو روانہ ہو جائے گا۔ یہ مٹھی بھر مسکانیں بھی لفافے میں ڈل دیتے ہیں کہ دلاری بٹیا کے لبوں پر رقص کا سامان ہو۔
بے حد دلار اور پیار!
والسلام!
--
بٹیا کے بھیا
واقعی حیرت ہے!حیرت ہے۔
اتنی خوبصورت تحریر کیسے لکھ لیتے ہیں سعود بھائی۔۔۔!
سطر سطر لاجواب ہے اور تمثیل نگاری ہے کہ آسمان کو چھو رہی ہے۔
سبحان اللہ۔ لطف آگیا۔
ہمیشہ شاد آباد رہیں۔
واقعی حیرت ہے!
ہم نے سوچا کہ عائش پری اور آپ تمثیل نگاری کو لے کر کچھ فرما رہے ہیں تو یقیناً ہم سے کوئی خطا سرزد ہوئی ہوگی لہٰذا ایک دفعہ پھر سے پڑھا لیکن ہماری کمزور بصارت کو تو کوئی قابل مواخذہ بات نظر نہیں آئی!
لا حول و لا قوۃ الا باللہ!آپ کی تحریر ہے ہی اتنی اچھی کہ دل بار بار پڑھنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔
لا حول و لا قوۃ الا باللہ!
ظالمو! لگتا ہے کوچہ فلاں و ڈھمکاں کے مہتمم سے کہہ کر آپ کے خلاف کوئی باقاعدہ تحریری اجلاس منعقد کروانا ہوگا اور موضوع ہوگا "ترک سخندازی برائے کل وقتی برادر پروری"۔
اس سے قبل کہ صاحبان کچھ مفہوم کے الٹ پھیر فرمائیں، ہم نے اپنے پچھلے مراسلے اور آپ کے اقتباس میں تھوڑی سی تحریف فرما دی ہے۔حد ہوگئی۔
اس پر لاحول ہماری طرف سے بنتی ہے۔
ویسے نیرنگ خیال بھائی تک یہ بات پہنچا دی ہے۔
واہ سعود بھائی کیا خوبصورت خط ہے۔ لاجواب۔۔۔ اب تو آپ کے خط بنام فلاں و فلاں پڑھنے کی آرزو بھی گدگدا رہی ہے۔۔۔۔ کبھی اس پر بھی کچھ ہوجائے۔۔۔باسمہ سبحانہ
مورخہ: 16 جون، 2014
دلاری بٹیا رانی! السلام علیکم!
خیریت دارم و خواہم۔
بٹیا کا خط ملا، بھیا نہال ہو گئے۔ خوبصورت فقرے، موتی کے مثل اجلی اجلی باتیں، اور ملائم لب و لہجہ۔ تحریر پڑھیے تو ایسا محسوس ہو جیسے ہواؤں کے دوش پر تیر رہے ہیں، کہیں دور دور تک ثقل کا شائبہ تک نہیں۔ خط کیا تھا، ایسے لگا جیسے بٹیا نے گاجر کا حلوہ پیالی میں سجا کر کیوڑے کی بوندیں چھڑک کر اس پر چاندی کا ورق چسپاں کر کے رکھ دیا ہو۔
چونکہ جواب لکھنا بھی لازم ٹھہرا لہٰذا سر شام ساحل دریا کے پاس ایستادہ لکڑی کی بنچ پر آ بیٹھے ہیں اور گلابی ورق پر نوک قلم رکھے سوچ رہے ہیں کہ کہاں سے ابتدا کریں۔
خوشگوار موسم۔۔۔ اٹکھیلیاں کرتی مدھم ہوائیں تا حد نگاہ پھیلے دریا کی سطح کو چھوچھو کر جیسے گدگدا رہی ہوں کہ سطح آب لرز رہی ہے اور مارے لاج کے اس کی جلد پر سرخ و سندوری رنگت اتر آئی ہے۔ دور افق کے پاس سورج کی ٹھوڑی پانی میں ڈوبی نظر آ رہی ہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ابھی ابھی سورج نے دور دور تک پھیلے پانی کو تیر کر پار کیا ہو اور تھک ہار کر دوسرے کنارے کو ہاتھوں سے تھامے اپنی سانسیں بحال کر رہا ہو۔ رنگین پانی کی مدھم لہریں دور تک سورج کا تعاقب کر رہی ہیں۔ جیسے سورج نے سندوری پانی سے بھیگے اپنے بالوں کو جھٹک کر افق پر شفق رنگ چھینٹے بکھیر دیے ہوں۔
نیلگوں آسمان سوائے اکا دکا سفید بادل کے ٹکڑوں کے پوری طرح صاف ہے اور رات کو ڈھانپنے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ دو پرندے نصف دائرہ بنا کر پانی کو چومتے ہوئے پھر بلندیوں کی طرف پرواز کر گئے ہیں۔ کچھ اونچائی پر نو مولود چاند مسکراتے ہوئے سورج کو نہار رہا ہے، جیسے سورج سے کہہ رہا ہو کہ فکر کی کوئی بات نہیں ابھی میں یہیں ہوں، پھر رات گئے اس بے کراں آسمان کو تاروں کے حوالے کر کے سو جاؤں گا۔ سورج کی بدلتی رنگت دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے زبان حال سے چیخ کر کہہ رہا ہو کہ ابھی مجھے یہیں رکنا ہے، لیکن دن بھر کی تھکن سے پنجہ آزمائی میں کمزور پڑ رہا ہے۔
دائیں جانب دور سے آتا ہوا طیارہ نیلے آسمان کو دودھیا لکیر سے دو حصوں میں منقسم کر رہا ہے۔ شاید اسے شام کے وقت سرحدیں کھینچنے پر مامور کیا گیا ہے۔ یا پھر شاید دور دراز سرحد پار رہنے والوں کو اپنوں سے ملانے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اس دودھیا خط فاصل نے بالآخر مضمحل سورج اور مسکراتے چاند کے فراق کا تعین کر دیا۔ نصف سے زائد پانی میں ڈوب چکے سورج کی سرخ و سنہری کرنیں کسی ڈوبتے بچے کے مدد کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھوں کا مثل پیش کر رہی ہیں۔ گو کہ چنچل پر کیف ہواؤں نے مدد کی پوری کوشش کی، مگر اس سے قبل کہ وہ اس دودھیا لکیر کو مٹا کر سرحد کو دونوں اطراف سے ضم کر پاتیں، سورج پر مکمل غفلت طاری ہوچکی ہے۔
تھک گیا ہے بے چارہ۔۔۔ موسم کی پروا کیے بغیر روزآنہ فاصلہ بھی تو بہت طے کرتا ہے۔ صبح سے شام تک مشرق سے مغرب کا طویل سفر کچھ کم تھکا دینے والا تو نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ابھی اس پر شبنم کے قطرے عرق دافع غفلت کی مانند پڑیں گے تو صبح تک پھر سے تازہ دم ہو کر نئے سفر کے لیے پر عزم انداز میں اٹھ کھڑا ہو گا۔
چلیں اب ہم بھی گھر کی راہ لیتے ہیں کہ راستے میں یہ لفافہ ڈاک خانے کے سرخ صندوق کے حوالے کرنا ہے۔ امید ہے کہ صبح کی ڈاک کے ساتھ یہ بھی اپنی منزل کو روانہ ہو جائے گا۔ یہ مٹھی بھر مسکانیں بھی لفافے میں ڈل دیتے ہیں کہ دلاری بٹیا کے لبوں پر رقص کا سامان ہو۔
بے حد دلار اور پیار!
والسلام!
--
بٹیا کے بھیا
یہ کیا ستم ظریفی ہے۔۔۔ ظالمولا حول و لا قوۃ الا باللہ!
ظالمو! لگتا ہے کوچہ فلاں و ڈھمکاں کے مہتمم سے کہہ کر آپ کے خلاف کوئی باقاعدہ تحریری اجلاس منعقد کروانا ہوگا اور موضوع ہوگا "ترک سخندازی برائے کل وقتی برادر پروری"۔