ہم پاکستانی اپنی قومی عادت سے مجبور ہیں، سو کوڑے کھاتے ہیں، سو پیاز بھی کھاتے ہیں اور مآل کار کرتے وہی ہیں جو امریکہ بہادر چاہتا ہے۔ ٹیکسٹ بک کے معاملے ہی کو لے لیجے: اردو محفل سمیت انٹرنیٹ فورمز پر، اخباری کالموں میں اور لاتعداد گرماگرم بحثوں کے باوجود سرکار وہی کررہی ہے جو حکم دیا گیا ہے۔
ادھر یہ عمل سرخ فیتہ اور دوسری سرکاری کارروائیوں سمیت قومی سستی کے باعث اس قدر سست رفتار ہے کہ گالیاں بھی اپنا مقدر ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی سفیرجناب جلیل عباس جیلانی نے امریکن رپورٹ" پاکستانی نصاب میں مذہبی عدم برداشت کا مواد" پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسلسل اپنے تعلیمی نظام میں بہتری لانے میں مصروف ہے۔ اور اس سلسلے میں بہتیرا قابلِ اعتراض مواد اپنی ٹیکسٹ بکس سے باہر نکال چکا ہے۔
محفلین کے جذباتی ڈائیلاگ سر آنکھوں پر، لیکن اس قسم کے تمام مواد کا ہمارے نصاب سے جانا ٹھہر گیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے تعلیمی نصاب کا واحد مقصد طالبان قسم کے مجاہد پیدا کرنا ہے جو مدرسے سے فارغ التحصیل ہوتے ہی ٹی ٹی اٹھا کر جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوں اور ایک قبائیلی معاشرے کے شایانِ شان ایک انفرادی جہادی کا فرض بخوبی نبھاسکیں؟
http://www.dawn.com/news/1252451/pa...ble-material-from-textbooks-ambassador-jilani