تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام! تقریباً ساڑھے تین سال پہلے اپنی منظومات کو اردو محفل میں اس خیال کے تحت پوسٹ کرنا شروع کیا تھا کہ اس طرح سارا کلام ایک جگہ جمع ہوجائے گا۔ اندازہ تھا کہ کچھ ہی دنوں میں اس کارِ بیکار سے فارغ ہوجاؤں گا ۔ لیکن یہ سلسلہ غیر متوقع طور پر ایک مشہور ہستی کی آنت کی طرح دراز ہوتا چلا گیا ۔ اشعار تھے کہ گھر میں موجود کاغذ کے ہر پرزے سے برآمد ہوتے چلے گئے ۔ :) تقریباً ایک سال پہلے جبکہ یہ سلسلہ اختتام کے قریب تھا بوجوہ مجھےمحفل سے ایک طویل رخصت لینی پڑی ( اور یوں قارئین کو کچھ سانس لینے کا موقع بھی مل گیا)۔ :):):) ۔ آپ حضرات کی بدقسمتی سے کچھ غزلیں ابھی باقی ہیں ۔ دس پندرہ تو ہوں گی ۔ ان سب کو وقفے وقفے سے آپ کی خدمت عالیہ میں پیش کرنے کا شرف حاصل کروں گا ۔
یہ ایک غزل آپ احباب کے ذوق کی نذر!
 
احبابِ کرام! تقریباً ساڑھے تین سال پہلے اپنی منظومات کو اردو محفل میں اس خیال کے تحت پوسٹ کرنا شروع کیا تھا کہ اس طرح سارا کلام ایک جگہ جمع ہوجائے گا۔ اندازہ تھا کہ کچھ ہی دنوں میں اس کارِ بیکار سے فارغ ہوجاؤں گا ۔ لیکن یہ سلسلہ غیر متوقع طور پر ایک مشہور ہستی کی آنت کی طرح دراز ہوتا چلا گیا ۔ اشعار تھے کہ گھر میں موجود کاغذ کے ہر پرزے سے برآمد ہوتے چلے گئے ۔ :) تقریباً ایک سال پہلے جبکہ یہ سلسلہ اختتام کے قریب تھا بوجوہ مجھےمحفل سے ایک طویل رخصت لینی پڑی ( اور یوں قارئین کو کچھ سانس لینے کا موقع بھی مل گیا)۔ :):):) ۔ آپ حضرات کی بدقسمتی سے کچھ غزلیں ابھی باقی ہیں ۔ دس پندرہ تو ہوں گی ۔ ان سب کو وقفے وقفے سے آپ کی خدمت عالیہ میں پیش کرنے کا شرف حاصل کروں گا ۔
یہ ایک غزل آپ احباب کے ذوق کی نذر!
ارشاد ارشاد!!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں
ہم لوگ محبت ہیں ، مروت کی ادا ہیں

مٹِتا ہوا اک نقش ہیں ہم لوحِ جہاں پر
بجھتے ہوئے خاموش ستاروں کی ضیا ہیں

ہم دستِ محبت میں علمدارِ مساوات!
ہم دُور سے آتی ہوئی مانوس صدا ہیں

ہم نطقِ محبت میں ہیں الفاظِ پذیرائی!
ہم چشمِ اخوت میں عنایت کی نگاہیں !

ہر اک کو لگاتے ہیں گلے نام پر اُس کے
سینہ بھی کشادہ ہے تو بازو بهی یہ وا ہیں

خوشبو کی طرح پھیلے ہیں ہم راہ گزر پر
تاریکیٔ شب تار میں جگنو کی ضیا ہیں

تاراجِ محبت ہیں اٹھائے ہوئے کشکول
آوارۂ دنیا نہیں الفت کے گدا ہیں

جھُلسے ہوئے منظر میں ہیں سائے کی نشانی
گرتی ہوئی دیوارِ روایت کا پتہ ہیں

ہم کفر سمجھتے ہیں حقارت کی نظر کو
نفرت کی زمینوں میں عنایت کی فضا ہیں

کھُل جائے گا اک بابِ اثر دل میں تمہارے
مانگو تو سہی ہم کو ہمی حرفِ دعا ہیں

بجھتے ہیں گھڑی بھر کو جل اُٹھنے کیلئے پھر
ہم لوگ ہواؤں کے نشیمن میں دیا ہیں

آجائے نہ تیشے میں کہیں ضربتِ ایمان
اِس خوف میں اب امّتِ آزر کے خدا ہیں


ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔ 2013

 
تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں
ہم لوگ محبت ہیں ، مروت کی ادا ہیں

مٹِتا ہوا اک نقش ہیں ہم لوحِ جہاں پر
بجھتے ہوئے خاموش ستاروں کی ضیا ہیں

ہم دستِ محبت میں علمدارِ مساوات!
ہم دُور سے آتی ہوئی مانوس صدا ہیں

ہم نطقِ محبت میں ہیں کلماتِ پذیرائی!
ہم چشمِ اخوت میں عنایت کی نگاہیں !

ہر اک کو لگاتے ہیں گلے نام پر اُس کے
سینہ بھی کشادہ ہے تو بازو بهی یہ وا ہیں

خوشبو کی طرح پھیلے ہیں ہم راہ گزر پر
تاریکیٔ شب تار میں جگنو کی ضیا ہیں

تاراجِ محبت ہیں اٹھائے ہوئے کشکول
آوارۂ دنیا نہیں الفت کے گدا ہیں

جھُلسے ہوئے منظر میں ہیں سائے کی نشانی
گرتی ہوئی دیوارِ روایت کا پتہ ہیں

ہم کفر سمجھتے ہیں حقارت کی نظر کو
نفرت کی زمینوں میں عنایت کی فضا ہیں

کھُل جائے گا اک بابِ اثر دل میں تمہارے
مانگو تو سہی ہم کو ہمی حرفِ دعا ہیں

بجھتے ہیں گھڑی بھر کو جل اُٹھنے کیلئے پھر
ہم لوگ ہواؤں کے نشیمن میں دیا ہیں

آجائے نہ تیشے میں کہیں ضربتِ ایمان
اِس خوف میں اب امّتِ آزر کے خدا ہیں


ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔ 2013

خوبصورت خوبصورت۔ بہت سی داد قبول فرمائیے۔
 
تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں
ہم لوگ محبت ہیں ، مروت کی ادا ہیں

مٹِتا ہوا اک نقش ہیں ہم لوحِ جہاں پر
بجھتے ہوئے خاموش ستاروں کی ضیا ہیں

ہم دستِ محبت میں علمدارِ مساوات!
ہم دُور سے آتی ہوئی مانوس صدا ہیں

ہم نطقِ محبت میں ہیں الفاظِ پذیرائی!
ہم چشمِ اخوت میں عنایت کی نگاہیں !

ہر اک کو لگاتے ہیں گلے نام پر اُس کے
سینہ بھی کشادہ ہے تو بازو بهی یہ وا ہیں

خوشبو کی طرح پھیلے ہیں ہم راہ گزر پر
تاریکیٔ شب تار میں جگنو کی ضیا ہیں

تاراجِ محبت ہیں اٹھائے ہوئے کشکول
آوارۂ دنیا نہیں الفت کے گدا ہیں

جھُلسے ہوئے منظر میں ہیں سائے کی نشانی
گرتی ہوئی دیوارِ روایت کا پتہ ہیں

ہم کفر سمجھتے ہیں حقارت کی نظر کو
نفرت کی زمینوں میں عنایت کی فضا ہیں

کھُل جائے گا اک بابِ اثر دل میں تمہارے
مانگو تو سہی ہم کو ہمی حرفِ دعا ہیں

بجھتے ہیں گھڑی بھر کو جل اُٹھنے کیلئے پھر
ہم لوگ ہواؤں کے نشیمن میں دیا ہیں

آجائے نہ تیشے میں کہیں ضربتِ ایمان
اِس خوف میں اب امّتِ آزر کے خدا ہیں


ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔ 2013

سر جی "نگاہیں" کو "فضا ہیں، ادا ہیں" کی طرح پڑھنا ہے؟ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کے ہزاروں چاہنے والے محفین کی طرح ہمارے لیے یہ عرصہ بہت مشکل تھا۔
بہت بہت بہت محبت ہے آپ کی خلیل بھائی ! اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ آپ کی محبت کو سلامت رکھے ۔ اردو محفل اور آپ احباب میرے لئے ایک اثاثہ ہیں جس کے لئے میں رب کا شکر گزار ہوں ۔ لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ کاروبارِ حیات اپنی ترجیحات خود طے کرتا ہے ۔ یہ کب کسی کی چلنے دیتا ہے ۔ بس کچھ ایسا ہی ایک دور گزرا مجھ پر ۔ احمد بھائی کے لئے دعائیں نکلتی ہیں کہ انہوں نے اس دوران بہت خبر گیری کی اور ہمت افزائی کی ۔ اللہ کا کرم ہے کہ اب کچھ ذہنی یکسوئی واپس آنے لگی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اب مجھے شرمندگی بھی ہوتی ہے اپنا کلام پوسٹ کرتے ہوئے ۔ ایک خود غرضی کا سا احساس ہوتا ہے ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سر جی "نگاہیں" کو "فضا ہیں، ادا ہیں" کی طرح پڑھنا ہے؟ :)
اگر میں ہاں کہہ دوں تو پھر آپ پوچھیں گے کہ یہ "نگا" کیا چیز ہے ۔ اس لئے میرا جواب نہیں میں ہے ۔ :):):)
عبید بھائی یہ قافیے کی ایک قسم ہے یا اسے صنعت کہہ لیں ۔ قافیہ معمولہ کہلاتا ہے ۔ بطورِ خاص آپ کے لئے ہم اس شعر کو یوں کہے دیتے ہیں :
ہم نطقِ محبت میں کلماتِ پذیرائی!
ہم چشمِ اخوت میں عنایت کی نگاہیں !
 
تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں
ہم لوگ محبت ہیں ، مروت کی ادا ہیں

مٹِتا ہوا اک نقش ہیں ہم لوحِ جہاں پر
بجھتے ہوئے خاموش ستاروں کی ضیا ہیں

ہم دستِ محبت میں علمدارِ مساوات!
ہم دُور سے آتی ہوئی مانوس صدا ہیں

ہم نطقِ محبت میں ہیں الفاظِ پذیرائی!
ہم چشمِ اخوت میں عنایت کی نگاہیں !

ہر اک کو لگاتے ہیں گلے نام پر اُس کے
سینہ بھی کشادہ ہے تو بازو بهی یہ وا ہیں

خوشبو کی طرح پھیلے ہیں ہم راہ گزر پر
تاریکیٔ شب تار میں جگنو کی ضیا ہیں

تاراجِ محبت ہیں اٹھائے ہوئے کشکول
آوارۂ دنیا نہیں الفت کے گدا ہیں

جھُلسے ہوئے منظر میں ہیں سائے کی نشانی
گرتی ہوئی دیوارِ روایت کا پتہ ہیں

ہم کفر سمجھتے ہیں حقارت کی نظر کو
نفرت کی زمینوں میں عنایت کی فضا ہیں

کھُل جائے گا اک بابِ اثر دل میں تمہارے
مانگو تو سہی ہم کو ہمی حرفِ دعا ہیں

بجھتے ہیں گھڑی بھر کو جل اُٹھنے کیلئے پھر
ہم لوگ ہواؤں کے نشیمن میں دیا ہیں

آجائے نہ تیشے میں کہیں ضربتِ ایمان
اِس خوف میں اب امّتِ آزر کے خدا ہیں


ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔ 2013

بہت عمدہ واپسی۔ :)
لاجواب غزل
 
اگر میں ہاں کہہ دوں تو پھر آپ پوچھیں گے کہ یہ "نگا" کیا چیز ہے ۔ اس لئے میرا جواب نہیں میں ہے ۔ :):):)
عبید بھائی یہ قافیے کی ایک قسم ہے یا اسے صنعت کہہ لیں ۔ قافیہ معمولہ کہلاتا ہے ۔ بطورِ خاص آپ کے لئے ہم اس شعر کو یوں کہے دیتے ہیں :
ہم نطقِ محبت میں کلماتِ پذیرائی!
ہم چشمِ اخوت میں عنایت کی نگاہیں !
دوسرا جہاں تک میں سمجھا ہوں تو عبید بھائی کا اشارہ دو الگ الفاظ ہونے کی جانب نہیں بلکہ "ہیں" کی ادائیگی کی جانب ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک مبتدی کی حیثیت سے اس کے بارے میں مزید جاننا چاہوں گا۔
تابش بھائی ، اگر ردیف کا کچھ حصہ یا پورے کا پورا ردیف قافیے میں شامل کردیں تو یہ قافیہ معمولہ کہلاتا ہے۔ ایک دو سال پہلے اس پر میں نے تفصیلی لکھا تھا کہیں ۔ ڈھونڈھ کر دیتا ہوں آپ کو ۔فی الوقت یہ مثال دیکھئے ۔اس سے بات فوراً سمجھ میں آجائے گی :
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہُوا بُرا نہ ہوا
رہزنی ہے کہ دلستانی ہے
لے کے دل دلستاں روانہ ہوا

اسی طرح میر کی ایک غزل کے قوافی اثر ، خبر، نظر اور ردیف "سے" ہے ۔ لیکن اس غزل کا ایک شعر "ابر برسے" پر ختم ہوتا ہے ۔
 
تابش بھائی ، اگر ردیف کا کچھ حصہ یا پورے کا پورا ردیف قافیے میں شامل کردیں تو یہ قافیہ معمولہ کہلاتا ہے۔ ایک دو سال پہلے اس پر میں نے تفصیلی لکھا تھا کہیں ۔ ڈھونڈھ کر دیتا ہوں آپ کو ۔فی الوقت یہ مثال دیکھئے ۔اس سے بات فوراً سمجھ میں آجائے گی :
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہُوا بُرا نہ ہوا
رہزنی ہے کہ دلستانی ہے
لے کے دل دلستاں روانہ ہوا

اسی طرح میر کی ایک غزل کے قوافی اثر ، خبر، نظر اور ردیف "سے" ہے ۔ لیکن اس غزل کا ایک شعر "ابر برسے" پر ختم ہوتا ہے ۔
پھر میرا خیال یہی ہے کہ عبید بھائی کا اشارہ اس جانب نہ تھا، بلکہ ہیں اور نگاہیں کی ادائیگی میں فرق کی جانب ہے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پھر میرا خیال یہی ہے کہ عبید بھائی کا اشارہ اس جانب نہ تھا، بلکہ ہیں اور نگاہیں کی ادائیگی میں فرق کی جانب ہے۔ :)
"ہیں" اور "نگاہیں" کے ہیں کے تلفظ میں انتہائی معمولی سا فرق ہے اور لفظ نگاہیں کو روانی میں پڑھنے سے وہ مٹ جاتا ہے ۔ ایسا کرنا معیوب نہیں ۔ اس وقت تو بہت رات ہوگئی ہے ۔ سونے کا وقت ہوگیا ۔ کل مثالیں ڈھونڈ کر بتاتا ہوں آپ کو۔ ان شاء اللہ۔
 
"ہیں" اور "نگاہیں" کے ہیں کے تلفظ میں انتہائی معمولی سا فرق ہے اور لفظ نگاہیں کو روانی میں پڑھنے سے وہ مٹ جاتا ہے ۔ ایسا کرنا معیوب نہیں ۔ اس وقت تو بہت رات ہوگئی ہے ۔ سونے کا وقت ہوگیا ۔ کل مثالیں ڈھونڈ کر بتاتا ہوں آپ کو۔ ان شاء اللہ۔
ضرور۔ ابھی آرام کیجیے۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مٹِتا ہوا اک نقش ہیں ہم لوحِ جہاں پر
بجھتے ہوئے خاموش ستاروں کی ضیا ہیں
واہ ظہیر بھائی واہ ۔ بہت پرلطف بیان ہے۔
کیا سماں باندھا ہے ۔
 

La Alma

لائبریرین
ہم کفر سمجھتے ہیں حقارت کی نظر کو
نفرت کی زمینوں میں عنایت کی فضا ہیں

کھُل جائے گا اک بابِ اثر دل میں تمہارے
مانگو تو سہی ہم کو ہمی حرفِ دعا ہیں
بہت خوب۔
نہایت عمدہ تخلیق ہے۔
“ نگاہیں” کے تلفظ کی کنفیوژن تا حال برقرار ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ما شاء اللہ ظہیر صاحب بہت پیاری غزل ہے -ہر شعر عمدہ ،ہر لفظ محبّت میں رچا بسا - قافیہ نگاہیں نے بھی لطف دیا-
 
Top