فرحان محمد خان
محفلین
واہ واہ واہ کیا کہنے
تابش بھائی ، کل جس وقت یہ بات ہورہی تھی تو ہم اورآپ بیک وقت ٹائپ کررہے تھے۔ اس لئے سوالیہ اور جوابی مراسلوں کی ترتیب آگے پیچھے ہوگئی۔یہ تو معلوم ہے۔
ادائیگی کے فرق پر بات واضح نہیں ہوئی ابھی تک۔
آداب! بہت نوازش عاطف بھائی ! آپ کی داد تو سند ہے ۔ بہت بہت شکریہ!مٹِتا ہوا اک نقش ہیں ہم لوحِ جہاں پر
بجھتے ہوئے خاموش ستاروں کی ضیا ہیں
واہ ظہیر بھائی واہ ۔ بہت پرلطف بیان ہے۔
کیا سماں باندھا ہے ۔
بہت شکریہ المٰی ! ذرہ نوازی ہے! اللہ آپ کو خوش رکھے !بہت خوب۔
نہایت عمدہ تخلیق ہے۔
“ نگاہیں” کے تلفظ کی کنفیوژن تا حال برقرار ہے۔
نوازش! بہت شکریہ یاسر بھائی ! قدر افزائی پر بہت ممنون ہوں ۔ ذرہ نوازی ہے!ما شاء اللہ ظہیر صاحب بہت پیاری غزل ہے -ہر شعر عمدہ ،ہر لفظ محبّت میں رچا بسا - قافیہ نگاہیں نے بھی لطف دیا-
بہت بہت شکریہ فرحان بھائی ! اللہ آپ کو خوش رکھے! شاد و آباد رکھے، تمام مشکلات اور پریشانیوں سے دور رکھے! آمین !واہ واہ واہ کیا کہنے
ورنہ مرجانے میں کچھ بھید نہیںبہت خوب۔
نہایت عمدہ تخلیق ہے۔
“ نگاہیں” کے تلفظ کی کنفیوژن تا حال برقرار ہے۔
سر جی "نگاہیں" کو "فضا ہیں، ادا ہیں" کی طرح پڑھنا ہے؟
پھر میرا خیال یہی ہے کہ عبید بھائی کا اشارہ اس جانب نہ تھا، بلکہ ہیں اور نگاہیں کی ادائیگی میں فرق کی جانب ہے۔
“ نگاہیں” کے تلفظ کی کنفیوژن تا حال برقرار ہے۔
ورنہ مرجانے میں کچھ بھید نہیں
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں
جام مے خاتمہ جمشید نہیں۔
ذرہ بے پرتو خورشید نہیں۔وغیرہ
دراصل یہ موضوع ہے ہی نہیں۔غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی
کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں غالبؔ
بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی
دراصل سوال کا مقصد ہی تلفظ تھا۔بقیہ موضوع کی طرف تو شاید اشارہ ہو ہی چکا تھا ۔
دراصل یہ موضوع ہے ہی نہیں۔
شروع سے جو سوال ہے وہ ادائیگی کے حوالے سے ہے۔ قافیہ معمولہ کا نہیں۔
آنے کی اور نیکی میں نے کی آواز ایک ہی ہے۔
جبکہ ہیں اور نگاہیں میں ہیں کی آواز تھوڑی مختلف ہے۔
کھینچنے کو نظر انداز بھی کریں تو فرق موجود ہے۔ ظہیر بھائی کی بات درست ہے کہ معمولی فرق ہے، مگر فرق نہیں ہے، یہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟تابش بھائی باریک فرق مائی نے کر دیا ہے ایک کو زیادہ کھینچ کر دوسرے کو کم کھینچ کر ورنہ ہائے مفتوح ہے دونوں <ہیں >میں
آپ نے پھوڑ، توڑ، جوڑ کے ساتھ دَوڑ کو قافیہ بنانے پر کچھ نہیں فرمایا۔ شاید مناسب نہیں جانا ہو گا، مجھے خیال آ گیا سو توجہ دلا دی۔ معذرت!
میں بھی انسان ہوں آسی بھائی، ضروری نہیں کہ ہر خطا پر میری نظر جائے۔ دوڑ پر واقعی میری نظر نہیں پڑی۔
نگاہیں کا ی ہیں کی ی کی نسبت کچھ لیٹا ہوا ہے۔
کافی اشعار تو واقعی آپ پہ منطبق ہیں۔تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں
ہم لوگ محبت ہیں ، مروت کی ادا ہیں
دستِ محبت میں علمدارِ مساوات!
ہم دُور سے آتی ہوئی مانوس صدا ہیں
ہم نطقِ محبت میں ہیں الفاظِ پذیرائی!
ہم چشمِ اخوت میں عنایت کی نگاہیں !
خوشبو کی طرح پھیلے ہیں ہم راہ گزر پر
تاریکیٔ شب تار میں جگنو کی ضیا ہیں
ہم کفر سمجھتے ہیں حقارت کی نظر کو
نفرت کی زمینوں میں عنایت کی فضا ہیں
کھُل جائے گا اک بابِ اثر دل میں تمہارے
مانگو تو سہی ہم کو ہمی حرفِ دعا ہیں
ہمم!!بہت ہی خوبصورت غزل۔
زبردست پہ ڈھیروں ڈھیر زبریں۔
کافی اشعار تو واقعی آپ پہ منطبق ہیں۔
بھئی وہ آج کل آپ جنوں بھوتوں وغیرہ کے کوچے میں زیادہ آتی جاتی رہتی ہیں تو اس وجہ سے کچھ شبہ سا پیدا ہوگیا تھا ۔ الحمدللہ اب دور ہوگیا ۔اللہ اکبر!
ہم تو گلستان سے گل بوٹے لاتے ہیں۔
آسمان سے تارے لاتے ہیں۔
فضاؤں سے جگنو لاتے ہیں۔
ہواؤں میں گھلے پرندوں کے نغمے لاتے ہیں۔
وغیرہ وغیرہ