ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
زباں فہمی: مشکور ، شاکر ، متشکر ، شکر گزار
از: سہیل احمد صدیقی
( یہ مضمون express.pk کی ویبگاہ پر سہیل صدیقی کے کالم فہمِ زباں سے نقل شدہ ہے)
واٹس ایپ بزم زباں فہمی اور حلقہ تحقیق برریختہ میں کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر زوردار بحث ہوئی کہ آیا شکر اَداکرنے والے کا اپنے آپ کو مشکور کہنا درست ہے۔ ہرچند کہ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ موضوع بحث ہی اب پامال ہوچکا ہے، مگر کیا کہیے۔ کم وبیش دونوں ہی واٹس ایپ حلقوں میں ایک ہی مواد نقل ہوا، کیونکہ دونوں کے بعض اراکین (بشمول خاکسار) مشترک اور بہ یک وقت دونوں جگہ فعال ہیں۔ (معاف کیجیے گا، یہ ترکیب توڑکر لکھنا اور بھی ضروری ہوگیا ہے، کیونکہ ناواقفین بشمول ٹی وی میزبان و خبررَساں وخبرخواں آج بھی بَیک[Back] وقت کہتے نظر آتے ہیں)۔ خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ عربی داں حضرات نے اس کا بالتحقیق فیصلہ کردیا۔ علمائے کرام کے مخصوص علمی انداز میں کہوں تو مقدمہ فیصل کردیا۔مگر کچھ دبی دبی چنگاریاں پھر بھی شعلہ بننے کی کوشش کرتی ہیں۔
خاکسار سے فرمائش کرنے والوں نے بھی کئی بار کہا کہ اس معاملے پر قلم اٹھائیں۔ یہاں صورت یہ ہے کہ اَب قلم نہیں اٹھتا، کمپیوٹر پر ہاتھ چلتا ہے یعنی براہ راست ٹائپنگ یا کمپوزنگ ہوتی ہے، جملہ مسائل کے ساتھ۔ ماضی قریب میں خاکسار بھی اس معاملے میں متشدد تھا اور یہی سمجھتا تھا کہ مشکور کا لغوی مطلب تو وہ شخص یا ہستی ہے جس کا شکر اَدا کیا جائے اور شکرگزار کے لیے لفظ شاکر مناسب ہے۔
جوش ملیح آبادی بھی اسی کے قائل و پرچارک تھے۔ مشہور روایتِ حدیث میں مذکور، اللہ تعالیٰ کے ننانوے )۹۹( اسمائے حسنہ کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست ان اسماء کی ملتی ہے، بعض جگہ تعداد ایک ہزار تک بیان کی گئی۔ ایسے ہی کسی مقام پر یہ نظر سے گزرا کہ مشکور بھی اللہ کا اسم ہے۔
بہرحال مشکور کے بطور شکرگزار استعمال کے متعلق عرض کردوں کہ اب اس بحث میں شرکت اور مطالعے نے یہ غلط فہمی دور کردی۔ دلائل کی نقل وترسیل میں ہمارے ایک فیس بک/واٹس ایپ بزرگ معاصر محترم اسامہ سَرسَری صاحب، مؤلف ’’فنونِ شاعری کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ کی تحریر بھی نظر سے گزری، جنھوں نے لکھا کہ اردو زبان میں ’’مشکور‘‘ بمعنی شکرگزار درست ہے، جبکہ اسم مفعول کے معنی میں غلط ہے۔ اسی طرح”میں آپ کا مشکور ہوں” فصیح جملہ ہے، جبکہ ”میں آپ کا شاکر ہو” غیرفصیح ہے۔ سرسری صاحب نے برملا علامہ شبلی نعمانی کا شعر بطور حوالہ نقل کیا:
آپ کے لطف و کرم سے مجھے انکار نہیں
حلقہ در گوش ہوں، ممنون ہوں، مشکور ہوں میں
اب اس شعر میں بہ یک وقت دونکات توجہ طلب ہیں۔ ایک تو انھوں نے ممنون (احسان مندیعنی جس پر احسان کیا جائے) اور مشکور ساتھ ساتھ استعمال کیے ہیں، حسن تکرارکے طور پر اور دوسرے یہ کہ ترکیب ’’حلقہ دَرگوش‘‘ استعمال کی ہے، بجائے، حلقہ بگوش کے۔ یہ علامہ کی عربی وفارسی پر یکساں گرفت اور عبور کی دلیل ہے۔ اسی ضمن میں علامہ کے شاگرد ِرشید، علامہ سید سلیمان ندوی کا حوالہ ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اُن سے کسی نے سوال کیا کہ شکرگزار کو مشکور کہنا کیونکر درست ہوگا، جبکہ عربی میں تو اس کا مطلب ہے، جس کا شکر اَدا کیا جائے۔
سلیمان ندوی نے بے ساختہ کہا تھا کہ اردو میں جو لفظ آگیا اور جن معانی میں مستعمل ہوگیا، ہوگیا۔ ایسی تصحیح کرنے والے اپنی عربی اپنے پاس رکھیں۔ یہاں یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ وہ عربی پر اس قدر حاوی تھے کہ فی البدیہہ قصیدہ کہہ دیا کرتے تھے۔
جناب سرسری نے ہماری معلومات میں یہ عبارت نقل کرکے اضافہ کیا: حتیٰ کہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’جب مشکور مدتوں سے ’احسان مند‘ کے معنی میں استعمال ہورہا ہے اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن اسی معنی کی طرف جاتا ہے تو اب ’قاموس‘ اور ’صراح‘ سے فتویٰ لے کر ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟”۔ محترم رشید حسن خاں نے یہاں یہ قول پنڈِت دتاتریہ کیفی سے منسوب کرتے ہوئے یوں بیان کیا: جب ’’عادی‘‘ اور ’’مشکور‘‘ مدتوں سے ’’عادت گیرندہ‘‘ اور ’’احسان مند‘‘ کے معنی میں استعمال ہورہے ہیں اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن انھی معنی کی طرف جاتا ہے، تو اب قاموس اور صراح سے فتویٰ لے کر، ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟(منثورات، ص 164)۔
مزید ملاحظہ کیجئے: عربی میں ’’مشکور‘‘ اس کو کہتے ہیں جس کا شکریہ ادا کیا جائے، مگر ہماری زبان میں اس کو کہتے ہیں جو کسی کا شکریہ ادا کرے؛ اسی لیے بعض عربی کی قابلیت جتانے والے، اس کو غلط سمجھ کر صحیح لفظ ’’شاکر‘‘ یا ’’متشکر‘‘ بولنا چاہتے ہیں، مگر ان کی یہ اصلاح شکریے کے ساتھ واپس کرنا چاہیے: مولانا سید سلیمان ندوی (نقوش سلیمانی، ص9)۔ یہاں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ علامہ سلیمان ندوی ماہرلسانیات نہیں تھے، مگر عربی دانی میں اُن کے پائے کے لوگ آج بھی کم کم ہی ملیں گے۔ اصل اعتراض یہ تھا اور ہے کہ آیا عربی لفظ اپنے متضاد معنی میں استعمال ہوسکتا ہے۔ یہی قضیہ محترم رشید حسن خاں نے ’’صحتِ تلفظ‘‘ میں اٹھایا ہے۔
انھوں نے فرہنگ آصفیہ کے فاضل مؤلف کے حوالے سے لکھا: اگر ممنون و مشکور کے بجائے، ممنون و شاکر کہیں تو بجا ہے۔(آصفیہ)، پھر نوراللغات کا حوالہ دیا: اہل علم اس معنی میں استعمال نہیں کرتے۔ مشکور، صفت اس شخص کی ہوگی جس نے احسان کیا ہے، نہ اس شخص کی جس پر احسان کیا گیا ہے۔(نوراللغات)۔ اب یہ دیکھیے کہ کس طرح مشکور کے استعمال کی مثالیں، ہمارے ادبی مشاہیر کے یہاں ثابت اور اس موضوع پر کی گئی تحقیق میں منقول ہیں:
جو کچھ ہو سکے وہ لکھا کرو اور ممنون و مشکور کیا کرو۔ امیرؔ مینائی (مکاتیب امیر مینائی، مرتبہ احسن اللہ خاں ثاقب، طبع دوم، ص 170)
ان کے سبب سے میں آپ کا نہایت ممنون و مشکور ہوں۔ سرسید(مکاتیب سرسید، مرتبہ مشتاق حسین، ص 274)
آپ کا خط پہنچا، میں ممنون و مشکور ہوں۔ سید حسن بلگرامی (تاریخ نثر اردو، ص 59)
خادم آپ کی عنایت بے غایت کا حد درجہ ممنون و مشکور ہوا۔ ابوالکلام آزاد (مرقع ادب، ص 45)
علی اوسط رشک نے ایک جگہ ’’شکور‘‘ اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔ شعر یہ ہے:
شکر خدا کہ عشق بتاں میں شکور ہوں
راحت ملی جو رنج مجھے یار سے ملا
(مجموعہ دواوِین رشکؔ، ص 69)
محولہ بالا تحریر میں یہ بھی لکھا ہے:’’شکور‘‘ نام کے طور پر مستعمل ہے، مگر اس معنی میں (یعنی مشکور) اس نے رواج نہیں پایا۔
ریختہ ڈاٹ کام نے یہ اشعار نقل کیے ہیں:
جذبۂ ہمدردیٔ الفت تِرا مشکور ہوں
جب کسی کی آنکھ بھیگی، میرا دامن نم ہوا
(مانیؔ ناگپوری)
اپنی آزادی پہ میں اک چور کا مشکور ہوں
پیر جس چادر میں پھیلاتا تھا، وہ لے کر گیا
(شمیمؔ انور)
رنگ رنگ اطمعہ ہیں بذل، پھر اس درجہ وفور
کیا خداوندی ہے اللہ، خدائی مشکور
(کلیاتِ میرؔ، مرتبہ مولانا آسی)
سید جواد حسین شمیمؔ امروہوی کا ایک بند:
سایہ کی طرح تھا تنِ بے سایہ
سیر ہو کر کبھی مولا نے نہ کھانا کھایا
فقر و فاقہ میں فقیروں پہ کرم فرمایا
سعی مشکور ہوئی، مدح میں سورہ آیا
صدقِ دل سے جو کرم آپ نے فرمایا ہے
ہَل اَتیٰ خاص پئے وصف عطا آیا ہے
رشید حسن خاں نے عبدالماجد دریا آبادی صاحب کا قول بھی نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ جب کسی زبان میں کسی غیرزبان کے الفاظ داخل ہوں تو اُن کا حسبِ منشاء استعمال اور معانی کا تبدّل، اُسی زبان کے بولنے والوں کا اختیار ہوتا ہے۔ ابوالکلام آزادؔ بھی اپنے علمی تبحر کے باوصف، اسی کے قائل تھے۔
یہاں خاکسار چند مثالیں اپنی یادداشت سے پیش کرتا ہے:
فارسی لفظ ’’استاد‘‘ عربی میں جاکر اُستاذ ہوگیا تو اَب عربی والے اُس کی جمع اَساتیذ بناتے ہیں، جبکہ فارسی میں ’’اساتید‘‘ ہی ہے، مثلاً اساتیدِ سُخن۔ اگر کوئی اردو والا ان دو باتوں کو خلط ملط، گڈ مڈ کرتا ہے تو یہ اُس کا قصور ہے۔ مثلاً ’’استادالاساتذہ‘‘ کہنا سرے سے غلط ہے، ہاں ’’استاذ الاساتذہ‘‘ ہوسکتا ہے۔
ایک اور بہت دوراَز کار مثال یہ ہے کہ لفظ چراغ فارسی سے عربی میں گیا تو ’’سراج ‘‘ ہوگیا۔ اب کوئی اردو میں بجائے چراغ، سراج کہنا چاہے تو ہرگز درست نہیں، کیونکہ یہ تو عربی میں رَوا ہے، انھوں نے عربا لیا ہے، اس لیے۔ اسی طرح اس بحث کے دائرے سے ذرا آگے نکل کر دیکھیں تو اور بھی مثالیں خود عربی ہی میں موجود ہیں۔ ہندی کا لفظ ’’کپور‘‘ عربی میں ’’کافور‘‘ ہوگیا، پھر وہیں سے اردو میں آیا تو ہم نے اس کی شکل میں کوئی تبدیلی نہیں کی، اب اسے دوبارہ برعکس کرکے لکھنا اور کہنا بالکل غلط ہے۔ (یہ اور بات کہ یہ ایک اسم معرفہ کے طور پر ہندی میں برقرار ہے جیسے راج کپور کا گھرانہ)۔
ہمارے ذی علم، خوردمعاصر، (عالم عربی و فارسی ، اردو شاعر)، غلام مصطفیٰ دائمؔ اعوان نے اسی موضوع پر تمام دلائل جمع کیے اور عنوان قایم کیا:’’اردو میں اخذِ الفاظ کا اصول اور لفظِ مشکور کا معمّہ‘‘۔ انھوں نے خالص علمی لہجے میں یہ نکتہ واضح کیا کہ ’’اس کا کلیدی اصول یہی ہے کہ وہ لفظ اپنے حقیقی تلفظ و معنیٰ کی رعایت کیے بغیر دوسری زبان میں دخیل ہوتا ہے اور یہاں آ کر اپنا نیا اور غیرحتمی معنیٰ زیبِ تَن کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف لفظ کو نیا استعاراتی پسِ منظر فراہم ہوتا ہے بلکہ اس میں بین المتن نئے علائم کا دخول بھی ممکن ہوتا ہے۔
اس کی مثال بہت سے الفاظ ہیں………..عربی حوالہ جات دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں عربی قواعد کو اردو پر لاگو کرنے کا بہت شوق ہے، انھیں معلوم ہو جائے کہ یہ اطلاقات عربی میں بھی ہوتے ہیں۔ مفعول کو فاعل کے معنیٰ میں اور فاعل کو مفعول کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض مرتبہ مخصوص معنوی اور تشکیلی پس منظر بھی کارفرما ہوتا ہے۔
بہرحال! عربی پسندوں کی یہ ضد اَب سرد پڑ جانی چاہیے۔ اور انھیں یہ مان لینا چاہیے کہ اردو میں مشکور کو شاکر کا معنیٰ دینے میں کوئی ایسی قیامت نہیں نیز یہ کہ اسے مخصوص لوگوں کا تفرّد کہا جائے‘‘۔ یہاں رک کر ذرا خاکسار سہیل کی ایک وضاحت ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنا یہ عمل ہے کہ قرآن کریم میں بعض اسماء الحسنیٰ اپنے علاوہ اپنے محبوب (علیہ الصلوٰۃ والتسلیم) کے لیے استعمال فرمائے۔ کریم، خداوند قدوس بھی ہے، اُس کا محبوب بھی، قرآن بھی، رمضان بھی۔ اسی طرح رحیم، رَؤف، مجید اور محمود کی مثال ہے کہ اپنے اور اپنے محبوب کے لیے استعمال فرمائے۔
رب ِذوالجلال کے اسماء الحسنیٰ میں شامل رشید، ارشد، علی، علیم، مومن، ولی، حفیظ، سمیع، اوّاب، توّاب، ثابت اور رافع بندوں کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ معانی کی وسعت دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مومن اور توّاب بہ یک وقت خدا اور بندے دونوں کے لیے کس طرح استعمال ہوسکتا ہے۔ بہت زیادہ توبہ کرنے والا بھی تواب ہے اور بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا بھی۔
دائمؔ اعوان نے انشاء اللہ خاں انشاء ؔ کا یہ مشہور قول برمحل نقل کیا ہے کہ ’’’’جاننا چاہیے کہ جو لفظ اردو میں آیا، وہ اردو ہوگیا، خواہ وہ لفظ عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو، سُریانی، پنجابی ہو یا پُوربی، اصل کی روح سے غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ، اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح۔ اس کی صحت اور غلطی، اس کے اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے۔ چونکہ جو چیز اردو کے خلاف ہے، وہ غلط ہے، گویا اصل میں صحیح ہو۔
اور جو اردو کے موافق ہے، وہی صحیح ہے، خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو‘‘۔ (دریائے لطافت)۔ یہاں مجھے ترکی کے لفظ ’’تلاشی‘‘ کی مثال یاد آتی ہے جو وہاں تلاش کرنے والے کے معنی میں مستعمل ہے، جبکہ اردو میں تلاش کرنے والے کو ’’متلاشی‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہاں بحث سمیٹتے ہوئے عرض کروں کہ مشکور کی جگہ شاکر کا استعمال تو غیرفصیح ہے اور علماء وماہرین لسان نے مشکور کو غلط العام فصیح قرار دیا ہے، جبکہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس کی جگہ شکرگزار کا استعمال افصح یعنی زیادہ فصیح ہے، نیز ممنون کا استعمال بدرجہ اتم درست ہے۔ اب ایک لفظ اور ہے، متشکر، سو اُس کا استعمال علمی تحریروں کے سوا خال خال ہی ملتا ہے۔
از: سہیل احمد صدیقی
( یہ مضمون express.pk کی ویبگاہ پر سہیل صدیقی کے کالم فہمِ زباں سے نقل شدہ ہے)
واٹس ایپ بزم زباں فہمی اور حلقہ تحقیق برریختہ میں کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر زوردار بحث ہوئی کہ آیا شکر اَداکرنے والے کا اپنے آپ کو مشکور کہنا درست ہے۔ ہرچند کہ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ موضوع بحث ہی اب پامال ہوچکا ہے، مگر کیا کہیے۔ کم وبیش دونوں ہی واٹس ایپ حلقوں میں ایک ہی مواد نقل ہوا، کیونکہ دونوں کے بعض اراکین (بشمول خاکسار) مشترک اور بہ یک وقت دونوں جگہ فعال ہیں۔ (معاف کیجیے گا، یہ ترکیب توڑکر لکھنا اور بھی ضروری ہوگیا ہے، کیونکہ ناواقفین بشمول ٹی وی میزبان و خبررَساں وخبرخواں آج بھی بَیک[Back] وقت کہتے نظر آتے ہیں)۔ خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ عربی داں حضرات نے اس کا بالتحقیق فیصلہ کردیا۔ علمائے کرام کے مخصوص علمی انداز میں کہوں تو مقدمہ فیصل کردیا۔مگر کچھ دبی دبی چنگاریاں پھر بھی شعلہ بننے کی کوشش کرتی ہیں۔
خاکسار سے فرمائش کرنے والوں نے بھی کئی بار کہا کہ اس معاملے پر قلم اٹھائیں۔ یہاں صورت یہ ہے کہ اَب قلم نہیں اٹھتا، کمپیوٹر پر ہاتھ چلتا ہے یعنی براہ راست ٹائپنگ یا کمپوزنگ ہوتی ہے، جملہ مسائل کے ساتھ۔ ماضی قریب میں خاکسار بھی اس معاملے میں متشدد تھا اور یہی سمجھتا تھا کہ مشکور کا لغوی مطلب تو وہ شخص یا ہستی ہے جس کا شکر اَدا کیا جائے اور شکرگزار کے لیے لفظ شاکر مناسب ہے۔
جوش ملیح آبادی بھی اسی کے قائل و پرچارک تھے۔ مشہور روایتِ حدیث میں مذکور، اللہ تعالیٰ کے ننانوے )۹۹( اسمائے حسنہ کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست ان اسماء کی ملتی ہے، بعض جگہ تعداد ایک ہزار تک بیان کی گئی۔ ایسے ہی کسی مقام پر یہ نظر سے گزرا کہ مشکور بھی اللہ کا اسم ہے۔
بہرحال مشکور کے بطور شکرگزار استعمال کے متعلق عرض کردوں کہ اب اس بحث میں شرکت اور مطالعے نے یہ غلط فہمی دور کردی۔ دلائل کی نقل وترسیل میں ہمارے ایک فیس بک/واٹس ایپ بزرگ معاصر محترم اسامہ سَرسَری صاحب، مؤلف ’’فنونِ شاعری کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ کی تحریر بھی نظر سے گزری، جنھوں نے لکھا کہ اردو زبان میں ’’مشکور‘‘ بمعنی شکرگزار درست ہے، جبکہ اسم مفعول کے معنی میں غلط ہے۔ اسی طرح”میں آپ کا مشکور ہوں” فصیح جملہ ہے، جبکہ ”میں آپ کا شاکر ہو” غیرفصیح ہے۔ سرسری صاحب نے برملا علامہ شبلی نعمانی کا شعر بطور حوالہ نقل کیا:
آپ کے لطف و کرم سے مجھے انکار نہیں
حلقہ در گوش ہوں، ممنون ہوں، مشکور ہوں میں
اب اس شعر میں بہ یک وقت دونکات توجہ طلب ہیں۔ ایک تو انھوں نے ممنون (احسان مندیعنی جس پر احسان کیا جائے) اور مشکور ساتھ ساتھ استعمال کیے ہیں، حسن تکرارکے طور پر اور دوسرے یہ کہ ترکیب ’’حلقہ دَرگوش‘‘ استعمال کی ہے، بجائے، حلقہ بگوش کے۔ یہ علامہ کی عربی وفارسی پر یکساں گرفت اور عبور کی دلیل ہے۔ اسی ضمن میں علامہ کے شاگرد ِرشید، علامہ سید سلیمان ندوی کا حوالہ ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اُن سے کسی نے سوال کیا کہ شکرگزار کو مشکور کہنا کیونکر درست ہوگا، جبکہ عربی میں تو اس کا مطلب ہے، جس کا شکر اَدا کیا جائے۔
سلیمان ندوی نے بے ساختہ کہا تھا کہ اردو میں جو لفظ آگیا اور جن معانی میں مستعمل ہوگیا، ہوگیا۔ ایسی تصحیح کرنے والے اپنی عربی اپنے پاس رکھیں۔ یہاں یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ وہ عربی پر اس قدر حاوی تھے کہ فی البدیہہ قصیدہ کہہ دیا کرتے تھے۔
جناب سرسری نے ہماری معلومات میں یہ عبارت نقل کرکے اضافہ کیا: حتیٰ کہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’جب مشکور مدتوں سے ’احسان مند‘ کے معنی میں استعمال ہورہا ہے اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن اسی معنی کی طرف جاتا ہے تو اب ’قاموس‘ اور ’صراح‘ سے فتویٰ لے کر ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟”۔ محترم رشید حسن خاں نے یہاں یہ قول پنڈِت دتاتریہ کیفی سے منسوب کرتے ہوئے یوں بیان کیا: جب ’’عادی‘‘ اور ’’مشکور‘‘ مدتوں سے ’’عادت گیرندہ‘‘ اور ’’احسان مند‘‘ کے معنی میں استعمال ہورہے ہیں اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن انھی معنی کی طرف جاتا ہے، تو اب قاموس اور صراح سے فتویٰ لے کر، ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟(منثورات، ص 164)۔
مزید ملاحظہ کیجئے: عربی میں ’’مشکور‘‘ اس کو کہتے ہیں جس کا شکریہ ادا کیا جائے، مگر ہماری زبان میں اس کو کہتے ہیں جو کسی کا شکریہ ادا کرے؛ اسی لیے بعض عربی کی قابلیت جتانے والے، اس کو غلط سمجھ کر صحیح لفظ ’’شاکر‘‘ یا ’’متشکر‘‘ بولنا چاہتے ہیں، مگر ان کی یہ اصلاح شکریے کے ساتھ واپس کرنا چاہیے: مولانا سید سلیمان ندوی (نقوش سلیمانی، ص9)۔ یہاں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ علامہ سلیمان ندوی ماہرلسانیات نہیں تھے، مگر عربی دانی میں اُن کے پائے کے لوگ آج بھی کم کم ہی ملیں گے۔ اصل اعتراض یہ تھا اور ہے کہ آیا عربی لفظ اپنے متضاد معنی میں استعمال ہوسکتا ہے۔ یہی قضیہ محترم رشید حسن خاں نے ’’صحتِ تلفظ‘‘ میں اٹھایا ہے۔
انھوں نے فرہنگ آصفیہ کے فاضل مؤلف کے حوالے سے لکھا: اگر ممنون و مشکور کے بجائے، ممنون و شاکر کہیں تو بجا ہے۔(آصفیہ)، پھر نوراللغات کا حوالہ دیا: اہل علم اس معنی میں استعمال نہیں کرتے۔ مشکور، صفت اس شخص کی ہوگی جس نے احسان کیا ہے، نہ اس شخص کی جس پر احسان کیا گیا ہے۔(نوراللغات)۔ اب یہ دیکھیے کہ کس طرح مشکور کے استعمال کی مثالیں، ہمارے ادبی مشاہیر کے یہاں ثابت اور اس موضوع پر کی گئی تحقیق میں منقول ہیں:
جو کچھ ہو سکے وہ لکھا کرو اور ممنون و مشکور کیا کرو۔ امیرؔ مینائی (مکاتیب امیر مینائی، مرتبہ احسن اللہ خاں ثاقب، طبع دوم، ص 170)
ان کے سبب سے میں آپ کا نہایت ممنون و مشکور ہوں۔ سرسید(مکاتیب سرسید، مرتبہ مشتاق حسین، ص 274)
آپ کا خط پہنچا، میں ممنون و مشکور ہوں۔ سید حسن بلگرامی (تاریخ نثر اردو، ص 59)
خادم آپ کی عنایت بے غایت کا حد درجہ ممنون و مشکور ہوا۔ ابوالکلام آزاد (مرقع ادب، ص 45)
علی اوسط رشک نے ایک جگہ ’’شکور‘‘ اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔ شعر یہ ہے:
شکر خدا کہ عشق بتاں میں شکور ہوں
راحت ملی جو رنج مجھے یار سے ملا
(مجموعہ دواوِین رشکؔ، ص 69)
محولہ بالا تحریر میں یہ بھی لکھا ہے:’’شکور‘‘ نام کے طور پر مستعمل ہے، مگر اس معنی میں (یعنی مشکور) اس نے رواج نہیں پایا۔
ریختہ ڈاٹ کام نے یہ اشعار نقل کیے ہیں:
جذبۂ ہمدردیٔ الفت تِرا مشکور ہوں
جب کسی کی آنکھ بھیگی، میرا دامن نم ہوا
(مانیؔ ناگپوری)
اپنی آزادی پہ میں اک چور کا مشکور ہوں
پیر جس چادر میں پھیلاتا تھا، وہ لے کر گیا
(شمیمؔ انور)
رنگ رنگ اطمعہ ہیں بذل، پھر اس درجہ وفور
کیا خداوندی ہے اللہ، خدائی مشکور
(کلیاتِ میرؔ، مرتبہ مولانا آسی)
سید جواد حسین شمیمؔ امروہوی کا ایک بند:
سایہ کی طرح تھا تنِ بے سایہ
سیر ہو کر کبھی مولا نے نہ کھانا کھایا
فقر و فاقہ میں فقیروں پہ کرم فرمایا
سعی مشکور ہوئی، مدح میں سورہ آیا
صدقِ دل سے جو کرم آپ نے فرمایا ہے
ہَل اَتیٰ خاص پئے وصف عطا آیا ہے
رشید حسن خاں نے عبدالماجد دریا آبادی صاحب کا قول بھی نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ جب کسی زبان میں کسی غیرزبان کے الفاظ داخل ہوں تو اُن کا حسبِ منشاء استعمال اور معانی کا تبدّل، اُسی زبان کے بولنے والوں کا اختیار ہوتا ہے۔ ابوالکلام آزادؔ بھی اپنے علمی تبحر کے باوصف، اسی کے قائل تھے۔
یہاں خاکسار چند مثالیں اپنی یادداشت سے پیش کرتا ہے:
فارسی لفظ ’’استاد‘‘ عربی میں جاکر اُستاذ ہوگیا تو اَب عربی والے اُس کی جمع اَساتیذ بناتے ہیں، جبکہ فارسی میں ’’اساتید‘‘ ہی ہے، مثلاً اساتیدِ سُخن۔ اگر کوئی اردو والا ان دو باتوں کو خلط ملط، گڈ مڈ کرتا ہے تو یہ اُس کا قصور ہے۔ مثلاً ’’استادالاساتذہ‘‘ کہنا سرے سے غلط ہے، ہاں ’’استاذ الاساتذہ‘‘ ہوسکتا ہے۔
ایک اور بہت دوراَز کار مثال یہ ہے کہ لفظ چراغ فارسی سے عربی میں گیا تو ’’سراج ‘‘ ہوگیا۔ اب کوئی اردو میں بجائے چراغ، سراج کہنا چاہے تو ہرگز درست نہیں، کیونکہ یہ تو عربی میں رَوا ہے، انھوں نے عربا لیا ہے، اس لیے۔ اسی طرح اس بحث کے دائرے سے ذرا آگے نکل کر دیکھیں تو اور بھی مثالیں خود عربی ہی میں موجود ہیں۔ ہندی کا لفظ ’’کپور‘‘ عربی میں ’’کافور‘‘ ہوگیا، پھر وہیں سے اردو میں آیا تو ہم نے اس کی شکل میں کوئی تبدیلی نہیں کی، اب اسے دوبارہ برعکس کرکے لکھنا اور کہنا بالکل غلط ہے۔ (یہ اور بات کہ یہ ایک اسم معرفہ کے طور پر ہندی میں برقرار ہے جیسے راج کپور کا گھرانہ)۔
ہمارے ذی علم، خوردمعاصر، (عالم عربی و فارسی ، اردو شاعر)، غلام مصطفیٰ دائمؔ اعوان نے اسی موضوع پر تمام دلائل جمع کیے اور عنوان قایم کیا:’’اردو میں اخذِ الفاظ کا اصول اور لفظِ مشکور کا معمّہ‘‘۔ انھوں نے خالص علمی لہجے میں یہ نکتہ واضح کیا کہ ’’اس کا کلیدی اصول یہی ہے کہ وہ لفظ اپنے حقیقی تلفظ و معنیٰ کی رعایت کیے بغیر دوسری زبان میں دخیل ہوتا ہے اور یہاں آ کر اپنا نیا اور غیرحتمی معنیٰ زیبِ تَن کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف لفظ کو نیا استعاراتی پسِ منظر فراہم ہوتا ہے بلکہ اس میں بین المتن نئے علائم کا دخول بھی ممکن ہوتا ہے۔
اس کی مثال بہت سے الفاظ ہیں………..عربی حوالہ جات دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں عربی قواعد کو اردو پر لاگو کرنے کا بہت شوق ہے، انھیں معلوم ہو جائے کہ یہ اطلاقات عربی میں بھی ہوتے ہیں۔ مفعول کو فاعل کے معنیٰ میں اور فاعل کو مفعول کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض مرتبہ مخصوص معنوی اور تشکیلی پس منظر بھی کارفرما ہوتا ہے۔
بہرحال! عربی پسندوں کی یہ ضد اَب سرد پڑ جانی چاہیے۔ اور انھیں یہ مان لینا چاہیے کہ اردو میں مشکور کو شاکر کا معنیٰ دینے میں کوئی ایسی قیامت نہیں نیز یہ کہ اسے مخصوص لوگوں کا تفرّد کہا جائے‘‘۔ یہاں رک کر ذرا خاکسار سہیل کی ایک وضاحت ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنا یہ عمل ہے کہ قرآن کریم میں بعض اسماء الحسنیٰ اپنے علاوہ اپنے محبوب (علیہ الصلوٰۃ والتسلیم) کے لیے استعمال فرمائے۔ کریم، خداوند قدوس بھی ہے، اُس کا محبوب بھی، قرآن بھی، رمضان بھی۔ اسی طرح رحیم، رَؤف، مجید اور محمود کی مثال ہے کہ اپنے اور اپنے محبوب کے لیے استعمال فرمائے۔
رب ِذوالجلال کے اسماء الحسنیٰ میں شامل رشید، ارشد، علی، علیم، مومن، ولی، حفیظ، سمیع، اوّاب، توّاب، ثابت اور رافع بندوں کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ معانی کی وسعت دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مومن اور توّاب بہ یک وقت خدا اور بندے دونوں کے لیے کس طرح استعمال ہوسکتا ہے۔ بہت زیادہ توبہ کرنے والا بھی تواب ہے اور بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا بھی۔
دائمؔ اعوان نے انشاء اللہ خاں انشاء ؔ کا یہ مشہور قول برمحل نقل کیا ہے کہ ’’’’جاننا چاہیے کہ جو لفظ اردو میں آیا، وہ اردو ہوگیا، خواہ وہ لفظ عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو، سُریانی، پنجابی ہو یا پُوربی، اصل کی روح سے غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ، اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح۔ اس کی صحت اور غلطی، اس کے اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے۔ چونکہ جو چیز اردو کے خلاف ہے، وہ غلط ہے، گویا اصل میں صحیح ہو۔
اور جو اردو کے موافق ہے، وہی صحیح ہے، خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو‘‘۔ (دریائے لطافت)۔ یہاں مجھے ترکی کے لفظ ’’تلاشی‘‘ کی مثال یاد آتی ہے جو وہاں تلاش کرنے والے کے معنی میں مستعمل ہے، جبکہ اردو میں تلاش کرنے والے کو ’’متلاشی‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہاں بحث سمیٹتے ہوئے عرض کروں کہ مشکور کی جگہ شاکر کا استعمال تو غیرفصیح ہے اور علماء وماہرین لسان نے مشکور کو غلط العام فصیح قرار دیا ہے، جبکہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس کی جگہ شکرگزار کا استعمال افصح یعنی زیادہ فصیح ہے، نیز ممنون کا استعمال بدرجہ اتم درست ہے۔ اب ایک لفظ اور ہے، متشکر، سو اُس کا استعمال علمی تحریروں کے سوا خال خال ہی ملتا ہے۔
آخری تدوین: