سرور عالم راز
محفلین
برادرم ظہیر صاحب: آپ کی غزل دیکھی۔ ماشاء اللہ !بارہ اشعار کی یہ غزل کسی قدر طویل اور اسی قدر جامع تبصرہ کی متقاضی ہے۔ محفل شاید اس کی متحمل نہ ہو سکے ۔ مزید یہ کہ طوالت اور مضامین تبصرہ کا ممکنہ تنوع احباب سے جس توجہ اورصبر کی توقع رکھتا ہے وہ آج کل کے مصروف دَور میں کم لوگوں کو میسر ہے۔ اس لئے میں تبصرے کو دو اقساط میں پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ زیر نظر تحریر اس تبصرے کی پہلی قسط ہے ۔ دوسری بشرط زندگی و فرصت جلدہی حاضر خدمت کروں گا۔یہا ں صرف ایک نکتہ پر گفتگو کروں گا۔اس سلسلہ میں کچھ فروعات بھی آ سکتی ہیں ۔ انھیں برداشت یا نظر انداز کرنے کی گزارش ہے۔شکریہ۔ تمہید کے طورپر آپ کی غزل کا مطلع اور ایک شعر لکھ رہا ہوں : تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کا م آوے: !
تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیںہم لوگ محبت ہیں ،مروت کی ادا ہیں
ہم نطق محبت میں ہیں الفا ظ پذیرائی
ہم چشم اُخوت میں عنایت کی نگاہیں
اب آمدم بر سرِ مطلب!
اس غزل کی ردیف :ہیں: ہے اور :ادا، پتا، ضیا: وغیرہ قوافی ہیں۔متعدد احباب نے غزل کی ایک الجھن کا ذکر کیا ہے اور آپ سے اس کی وضاحت کی درخواست کی ہے یعنی :نگاہیں: کی :ہیں: اور مثلا :اَدا ہیں: کی :ہیں: کے تلفظ یاادائیگی میں جو نمایاں فرق ہے اس کے جواز سے متعلق بین السطور یہ پوچھا گیا ہے کہ : کیا ایسے قوافی قابل قبول ہیں؟ اگر ہیں تو کیوں ہیں اور ان کی اسناد کیا اساتذہ کے یہاں ملتی ہیں؟ اوراگر نہیں ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ : آپ نے تا دم تحریر اس سوال کا کوئی شافی جواب نہیں دیا ۔ ایک جگہ آپ نے اپنے جواب میں :نگاہیں: کے حوالے سے قافیہ ءمعمولہ کا ذکر اور وضاحت مع ایک مثال کے کی ہے جس سے
خلط مبحث تو یقینا ہوالیکن قارئین کی مذکورہ الجھن کا علاج نہ ہو سکا کیونکہ یہ قافیہء معمولہ کا مسئلہ نہیں ہے۔دوسری جگہ آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر روانی سے مصرع پڑھا جائے تو دونوں :ہیں: کے تلفظ کا فرق نا پید ہو جاتا ہے ۔ میرے تجربے میں تلفظ کا مبینہ فرق مصرع کوروانی سے پڑھنے سے نا پید نہیں ہوتاہے اور ہماری الجھن بد ستور قائم رہتی ہے۔ چونکہ :ہیں: غزل کی ردیف ہے اس لئے ہمیں قافیہ اور ردیف دونوں کو
بہ نظرغائر دیکھنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ماہرین عروض نے اس ضمن میں بہت کوتاہی برتی ہے۔ علم عروض کی کتابوں میں بالعموم بحروں اور ان کی مزاحف شکلوں کی تفصیلات اور رموز بیان ہوتے ہیں لیکن قافیہ اور ردیف پر کما حقہ روشنی نہیں ڈالی جاتی۔کہیں کہیں قافیہ پر کچھ معلومات مل بھی جاتی ہے لیکن ردیف شاذو نادر ہی کسی مصنف کی توجہ اپنی جانب ملتفت کر پاتی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل میں ردیف کچھ بھی ہو سکتی ہے یہاں تک کہ اس کا بامعنی ہونا بھی ضروری نہیں ہے !مولوی نجم الغنی کی بیش بہا کتاب :بحر الفصاحت: میں قافیہ پر کافی معلومات ملتی ہے اور ردیف پر بھی انھوں نے مختصر روشنی ڈالی ہے جس کی تفصیل ہمارے سوال کے تناظر میں درج ذیل ہے:
بحر الفصاحت کی پہلی جلد میں ردیف کے بیان کے تحت دی گئی آپ کی مذکورہ قافیہ/ردیف سے مشابہ تین مثالیں مولوی نجم الغنی کے حاشیے کے ساتھ یہاں پیش کی جاتی ہیں۔ ان سے ہماری گتھی کا حل مل جاتا ہے۔ امید ہے کہ محفل کے احباب کی ان سے تشفی ہو جائے گی۔ انشا اللہ!
پہلی مثال میں مرزا محمد رفیع سودا کا یہ شعر درج ہے:
عاشق تو نا مراد ہیں بس اس قدر کہ ہم
دل کو گنوا کے بیٹھ رہے صبر کر کے ہم
پہلے مصرع میں :کہ: اور دوسرے مصرع میں :کے: کو ذہن میں رکھئے ۔ شعر میں :قدر: اور:کر: قوافی ہیں اور ان کے بعد کا دو لفظی ٹکڑہ ردیف ہےاور ظاہر ہے کہ غلط ہے۔ مولوی صاحب نے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اگرلفظ: اس قدر کہ ہم: کی کاف کو (کے)لکھیں تو یہ عیب نہ رہے گا مگر شعر بے معنی ہو جائے گا۔یعنی مولوی صاحب اس استعمال کو عیب تو مانتے ہیں لیکن اس کوشاید ضرورت شعری کے تحت جوں کا توں قبول بھی کرتے ہیں۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ مرزا سودا کے کسی ہم عصر استاد نے بھی اس شعر کو قافیہ/ردیف کے ایسے استعمال کی بنا پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا اور اسے رَد نہیں کیا ۔ یہی اس استعمال کا جواز ہے۔
دوسری مثال میں قلندر بخش جراءت کا یہ شعر لکھا ہے:
دیدہء حسن کو بھی دید کی ہوجس کے ہوس
ساق پا ہو یہ بلوریں کہ چلے اُس پہ ہوس
یہاں :کے: اور:پہ: کی صورت ہمارے مسئلہ کی آئینہ دار ہے۔ مولوی صاحب یہاں بھی لکھتے ہیں کہ اگر لفظ :اس پہ: کو: اس پے: لکھیں تو قافیہ کاعیب دور ہو جائے گا لیکن شعر بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔
تیسری مثال میں خواجہ میر درد کا یہ شعر دیکھئے جس کے دونوں مصرعے صرف قافیہ اور ردیف سے تشکیل پذیر ہوئے ہیں اور کوئی دوسرا لفظ ان میں شامل نہیں ہے ۔
اَے درد بہت تو نے ستایا ہم کو
بے درد بہت تو نے ستایا ہم کو
اس شعر میں :اَے، بے: قافیے ہیں اور بعد کا پورا حصہ:درد بہت تو نے ستایا ہم کو: ردیف ہے۔ پہلے مصرع میں لفظ درد شاعر موصوف کا تخلص ہے اور اسی حیثیت میں باندھا بھی گیا ہے۔:اَے: اور :بے:کے تلفظ کے فرق سے سب واقف ہیں۔ یہ فرق بالکل اسی نوعیت کا ہے جیسا آپ کے اوپر لکھے ہوئے اشعار میں مستعمل ہے۔ یہ شعر بھی اس عیب کے با وجود سب نے قبول کیا ہے اور کسی نے اس پر (میری معلومات کی حدتک )تنقید بھی نہیں کی ہے۔ گویا ضرورت شعری یہاں بھی مذکورہ استعمال الفاظ و تلفظ کا جواز بن گئی ہے۔ اس گفتگو کے بعد کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔ آپ کئ غزل کے مذکورہ شعر میں :ادا ہیں: اور :نگاہیں: کا لفظ :ہیں: اپنےتلفظ کے فرق کی بنا پر شعر میں عیب ضرور پیدا کرتا ہے لیکن ضرورت شعری کے تقاضے اس فرق کو نظر انداز کرتے ہیں اور شعر جوں کا توں قبول کیا جا سکتا ہے۔
طے کر چکا ہوں راہِ محبت کے مرحلے
اس سے زیادہ حاجت شرح وبیاں نہیں
خاکسار: سرور راز سرور
ہم نطق محبت میں ہیں الفا ظ پذیرائی
ہم چشم اُخوت میں عنایت کی نگاہیں
اب آمدم بر سرِ مطلب!
اس غزل کی ردیف :ہیں: ہے اور :ادا، پتا، ضیا: وغیرہ قوافی ہیں۔متعدد احباب نے غزل کی ایک الجھن کا ذکر کیا ہے اور آپ سے اس کی وضاحت کی درخواست کی ہے یعنی :نگاہیں: کی :ہیں: اور مثلا :اَدا ہیں: کی :ہیں: کے تلفظ یاادائیگی میں جو نمایاں فرق ہے اس کے جواز سے متعلق بین السطور یہ پوچھا گیا ہے کہ : کیا ایسے قوافی قابل قبول ہیں؟ اگر ہیں تو کیوں ہیں اور ان کی اسناد کیا اساتذہ کے یہاں ملتی ہیں؟ اوراگر نہیں ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ : آپ نے تا دم تحریر اس سوال کا کوئی شافی جواب نہیں دیا ۔ ایک جگہ آپ نے اپنے جواب میں :نگاہیں: کے حوالے سے قافیہ ءمعمولہ کا ذکر اور وضاحت مع ایک مثال کے کی ہے جس سے
خلط مبحث تو یقینا ہوالیکن قارئین کی مذکورہ الجھن کا علاج نہ ہو سکا کیونکہ یہ قافیہء معمولہ کا مسئلہ نہیں ہے۔دوسری جگہ آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر روانی سے مصرع پڑھا جائے تو دونوں :ہیں: کے تلفظ کا فرق نا پید ہو جاتا ہے ۔ میرے تجربے میں تلفظ کا مبینہ فرق مصرع کوروانی سے پڑھنے سے نا پید نہیں ہوتاہے اور ہماری الجھن بد ستور قائم رہتی ہے۔ چونکہ :ہیں: غزل کی ردیف ہے اس لئے ہمیں قافیہ اور ردیف دونوں کو
بہ نظرغائر دیکھنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ماہرین عروض نے اس ضمن میں بہت کوتاہی برتی ہے۔ علم عروض کی کتابوں میں بالعموم بحروں اور ان کی مزاحف شکلوں کی تفصیلات اور رموز بیان ہوتے ہیں لیکن قافیہ اور ردیف پر کما حقہ روشنی نہیں ڈالی جاتی۔کہیں کہیں قافیہ پر کچھ معلومات مل بھی جاتی ہے لیکن ردیف شاذو نادر ہی کسی مصنف کی توجہ اپنی جانب ملتفت کر پاتی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل میں ردیف کچھ بھی ہو سکتی ہے یہاں تک کہ اس کا بامعنی ہونا بھی ضروری نہیں ہے !مولوی نجم الغنی کی بیش بہا کتاب :بحر الفصاحت: میں قافیہ پر کافی معلومات ملتی ہے اور ردیف پر بھی انھوں نے مختصر روشنی ڈالی ہے جس کی تفصیل ہمارے سوال کے تناظر میں درج ذیل ہے:
بحر الفصاحت کی پہلی جلد میں ردیف کے بیان کے تحت دی گئی آپ کی مذکورہ قافیہ/ردیف سے مشابہ تین مثالیں مولوی نجم الغنی کے حاشیے کے ساتھ یہاں پیش کی جاتی ہیں۔ ان سے ہماری گتھی کا حل مل جاتا ہے۔ امید ہے کہ محفل کے احباب کی ان سے تشفی ہو جائے گی۔ انشا اللہ!
پہلی مثال میں مرزا محمد رفیع سودا کا یہ شعر درج ہے:
عاشق تو نا مراد ہیں بس اس قدر کہ ہم
دل کو گنوا کے بیٹھ رہے صبر کر کے ہم
پہلے مصرع میں :کہ: اور دوسرے مصرع میں :کے: کو ذہن میں رکھئے ۔ شعر میں :قدر: اور:کر: قوافی ہیں اور ان کے بعد کا دو لفظی ٹکڑہ ردیف ہےاور ظاہر ہے کہ غلط ہے۔ مولوی صاحب نے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اگرلفظ: اس قدر کہ ہم: کی کاف کو (کے)لکھیں تو یہ عیب نہ رہے گا مگر شعر بے معنی ہو جائے گا۔یعنی مولوی صاحب اس استعمال کو عیب تو مانتے ہیں لیکن اس کوشاید ضرورت شعری کے تحت جوں کا توں قبول بھی کرتے ہیں۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ مرزا سودا کے کسی ہم عصر استاد نے بھی اس شعر کو قافیہ/ردیف کے ایسے استعمال کی بنا پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا اور اسے رَد نہیں کیا ۔ یہی اس استعمال کا جواز ہے۔
دوسری مثال میں قلندر بخش جراءت کا یہ شعر لکھا ہے:
دیدہء حسن کو بھی دید کی ہوجس کے ہوس
ساق پا ہو یہ بلوریں کہ چلے اُس پہ ہوس
یہاں :کے: اور:پہ: کی صورت ہمارے مسئلہ کی آئینہ دار ہے۔ مولوی صاحب یہاں بھی لکھتے ہیں کہ اگر لفظ :اس پہ: کو: اس پے: لکھیں تو قافیہ کاعیب دور ہو جائے گا لیکن شعر بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔
تیسری مثال میں خواجہ میر درد کا یہ شعر دیکھئے جس کے دونوں مصرعے صرف قافیہ اور ردیف سے تشکیل پذیر ہوئے ہیں اور کوئی دوسرا لفظ ان میں شامل نہیں ہے ۔
اَے درد بہت تو نے ستایا ہم کو
بے درد بہت تو نے ستایا ہم کو
اس شعر میں :اَے، بے: قافیے ہیں اور بعد کا پورا حصہ:درد بہت تو نے ستایا ہم کو: ردیف ہے۔ پہلے مصرع میں لفظ درد شاعر موصوف کا تخلص ہے اور اسی حیثیت میں باندھا بھی گیا ہے۔:اَے: اور :بے:کے تلفظ کے فرق سے سب واقف ہیں۔ یہ فرق بالکل اسی نوعیت کا ہے جیسا آپ کے اوپر لکھے ہوئے اشعار میں مستعمل ہے۔ یہ شعر بھی اس عیب کے با وجود سب نے قبول کیا ہے اور کسی نے اس پر (میری معلومات کی حدتک )تنقید بھی نہیں کی ہے۔ گویا ضرورت شعری یہاں بھی مذکورہ استعمال الفاظ و تلفظ کا جواز بن گئی ہے۔ اس گفتگو کے بعد کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔ آپ کئ غزل کے مذکورہ شعر میں :ادا ہیں: اور :نگاہیں: کا لفظ :ہیں: اپنےتلفظ کے فرق کی بنا پر شعر میں عیب ضرور پیدا کرتا ہے لیکن ضرورت شعری کے تقاضے اس فرق کو نظر انداز کرتے ہیں اور شعر جوں کا توں قبول کیا جا سکتا ہے۔
طے کر چکا ہوں راہِ محبت کے مرحلے
اس سے زیادہ حاجت شرح وبیاں نہیں
خاکسار: سرور راز سرور