نعمان رفیق مرزا
محفلین
سلام قارئین۔ تبدیلی کے موضوع پر میرے کچھ رینڈم خیالات۔ آپ سے استدعا ہے کہ اگر ہو سکے تو بہتری کی راہ سجائیں۔ خدا جانے محفل پر کتنا وقت رہنا ہے، کوشش ہے کہ جب تک رہوں؛ آپ کے پند و نصائح کے جتنے موتی مل سکیں، سمیٹ کر لیے چلوں۔شکریہ۔
’تبدیلی‘ پر کچھ خیالات
’تبدیلی‘ وہ اصطلاح ہے، جو آج کل وطنِ عزیز میں زباں زدِ عام ہے۔ کسی شے کے حالات و واقعات میں فرق کا نام تبدیلی ہے۔ یہ مثبت بھی ہو سکتی ہے، اور منفی بھی۔ حال ہی میں ہماری youth نے پاکستان میں تبدیلی کی ٹھانی، اک ’نئے پاکستان‘ کا خواب دیکھا۔بدقسمتی سے اس نیک خواب کو اور ’تبدیلی‘ کے اس concept کو ایک سیاسی جماعت اور اس کے سربراہ کے ساتھ مشروط کر دیا گیا۔بہت مہینوں ایسا چلتا رہا اور آج جب الیکشن2013 کے نتائج سامنے آ رہے ہیں، تومیرے ہم وطن کہتے ہیں کہ پاکستان ویسا کا ویسا ہی ہے، جاہل، intellectually stagnant ، تبدیلی سے عاری! لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہی گتھم گتھا ہیں۔ تبدیلی والے شرمسار اور باقی ماندہ سرفراز!ملک تقسیم ہو گیا۔Physically نہ سہی، Meta-physically ہی سہی۔ تو آخر خرابی ہوئی کہاں؟ اتنا نادر اور موتی خواب، سچ پرمبنی،جس کی بنیاد نیک ارادوں پر رکھی گئی ہو، کیا اس کی تقدیر میں ٹوٹنا ہی لکھا تھا؟ کیا خدا کے ہم سے کیے سب وعدے جھوٹے ہیں؟ کیا ہر وہ چیز، جس کی بنیاد خلوص دل اور نیک خیالات پر رکھی جائے گی، اس کی آزمائش ضروری ہے؟ کیا اب وطنِ عزیز میں کبھی تبدیلی اور ترقی نہیں آئے گی؟ مستقبل میں کیا ہو گا؟ کیا سب جمود کا شکار ہو جائے گا؟ آخر تبدیلی والے تو شرمسار ہو ہی گئے۔ تو ایسا ہر گز نہیں ہے! تبدیلی کا تعلق، کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق تو بندے کے اپنے من سے، اس کے دل سے ہوتا ہے۔کایا تو تب پلٹتی ہے نا جی، جب بندے کا دل بدل جائے۔ جب اس میں رب آ سمائے۔نیک خیالات آنے لگیں، اچھائی کی امنگ کروٹیں لینے لگے۔ کرنا نہ سہی، خیال تو آئے نا۔۔۔آخریہی تو رب کے بلاوے کا اشارہ ہے۔ کبھی بھی سیاسی جماعتیں اقوام کی تقادیر نہیں بدلتیں۔ لوگ ہوتے ہیں، جو تاریخ رقم کرتے ہیں۔ دل نرم ہوں، تو ان کی کایا پلٹ جانا آسان؛ دل ہی پتھر ہو جائیں، تو پھر تبدیلی کیسی؟تاریخ کو اٹھا کر دیکھئے، یہ تو لوگوں کے دل تھے جو بدل گئے اور اسی تبدیلی نے ان کے باہر کے حالات بھی بدل ڈالے۔اسلام کا ماخذ، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دل تھا۔ وہیں سے تبدیلی شروع ہوئی، اور پھر باہر کی طرف پھیلی؛ اور ایسی پھیلی کہ دنیا کا اور دنیا میں رہنے والوں کا نقشہ ہی بدل ڈالا؛ سب حالات بدل کر رکھ دئیے۔ تو کہنے کی بات یہ ہوئی کہ ایک تو تبدیلی اپنے دل کی پاکیزگی کا نام ہے، اس کی کایا پلٹ جانے کا نام ہے۔ اس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔ اور دوسرا یہ کہ تبدیلی آنا ایک outward phenomenon ہے، نہ کہ inward ۔ہمیں غلط فہمی یہ ہوئی کہ شاید یہ ایک inward phenomenon ہے، کہ کوئی ایک خاص سیاسی جماعت آئے گی، اور ہمارے دلوں کو بدل دے گی۔ نہ! ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ خود کو بدل لیا، تو سمجھئے باہر کی سب دنیا کو بدل لیا۔ کیا سیاسی جماعت اور کیا معاشرہ!
توبندہ پوچھتا ہے کہ اب کیا کرے؟اللہ لوک! سیاسی جماعت کو چھوڑ، اوروں کو برا بھلا مت کہہ، کسی کا تمسخر مت بنا، اپنے من پر توجہ کر۔ رب تو وہاں ہے، تبدیلی وہی کرنے والا ہے اور وہیں سے سب اچھائیوں کی شروعات ہیں۔ توکتنی نعمت ہے ہم پر کہ بابا بلھے شاہ (رحمتہ اللہ علیہ) یہ فارمولابہت خوبصورتی سے بتاگئے۔ کہا کرتے تھے:
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا ۔ کدے اپنے آپ نوں پڑھیا نئیں
جا جا وڑدا مسجداں مندراں اندر ۔ کدے من اپنے وچ وڑیا نئیں
ایویں روز شیطان نال لڑدا ایں۔ کدی نفس اپنے نال لڑیا نئیں
بلھے شاہ اسمانی اڈدیاں پھڑدا ایں ۔ جیہڑا گھر بیٹھا اونوں پڑھیا نئیں
دل کا کنٹرول ہمارے اور ہمارے رب کے پاس ہے، نہ کہ کسی سیاسی جماعت کے پاس۔ تو آئیے، irrespective of the political party مل کر، آج ’تبدیلی‘ کے اس خواب کو پورا کرنا شروع کریں، ایک ’نئے پاکستان‘ کی بنیاد رکھیں جو ہمارا ایک بہت معصوم سا، محبت بھرا خواب ہے۔ اقرباءپروری کو چھوڑیں، رشوت ستانی کوdiscourage کریں۔ دوسروں کا تمسخر نہ اڑائیں۔مختصر یہ کہ بھائی بھائی کی عزت اس وجہ سے نہ کرے کہ اس سے خونی رشتہ ہے، بلکہ انصاف اور قابلیت کو معیار بنا کرآگے چلا جائے۔خود کو اور خود کی سوچ کو بدلیں۔دیکھئے، نیک سوچ کا؛ مثبت تبدیلی کا دل میں خیال آنا بھی نعمت ہے۔ تو اس نعمت کو رائیگاں نہ کریں۔ اسے خدا کے فضل میں تبدیل کریں۔ یہ کام ہو گیا، تو ’نیا پاکستان‘ خود بخود معرضِ وجود میں آجائے گا۔ ایک ایسا پاکستان، جہاں محبت کی حکومت ہو گی، نیک تمناﺅں کا راج ہو گا۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ہی نفس کے شر سے محفوظ فرمائے؛ اورہمارے لیے ہماری مشکلات اور آزمائشوں کو آسان فرمائے (آمین)۔نعمان (میونخ)۔