حروف چن کر الفاظ کے کیا خوبصورت محل کھڑے کیے ہیں۔ سچی اور کھری بات۔۔۔ کہ اندر کی تبدیلی چاہیے۔۔ مگر وہ کرپشن جو رگ رگ میں رچی ہے۔۔ آپ کو اک بات بتاتا ہوں
پرانے دور میں مغل بادشاہوں کے لیے اک کھانا بنا کرتا تھا۔۔۔ اس کا نام شاید دم پخت تھا۔ یا کچھ اور۔۔ لیکن اس کے نام سے کچھ ایسا خاص لینا دینا نہیں۔ وہ مرغے کو جب انڈے سے نکلتا تو اس کو زعفران، بادام اور پستے کھلائے جاتے۔۔ عرق گلاب میں ڈبو ڈبو کر خوراک دی جاتی۔۔ جب وہ مرغا بڑا ہوتا۔ تو اسکا پیٹ چیرچاول بھر کر ہلکی آنچ پر پکایا جاتا۔ تو عفران اور عرق گلاب کی خوشبو سے وہ چاول مہک اٹھتے اور بادشاہ سلامت اس مرغے کے ذائقہ دار گوشت کے ساتھ تناول فرماتے۔۔
اب آتے ہیں اس بات سے تبدیلی کی طرف۔ بچپن سے اک بچہ کو کرپشن سکھائی جا رہی۔ ماں اسے کہہ رہی کہ ایسا کر لو۔۔ مگر دیکھو تمہارے باپ کو خبر ہوگئی تو بہت پٹو گے۔ باپ گھر پر ہے۔ وہ بچے کو کہہ رہا ہے کہ جاؤ۔۔۔ باہر جو بھی ہے اسے کہو کہ ابا گھر پر نہیں۔ اب وہ بچہ بڑا ہوا۔۔ اس نے دیکھا کہ تھوڑا سا جھوٹ بول کر بڑی مصیبتوں سے بچا جا سکتا ہے۔ استاد کو کہا سر کل پیٹ میں درد تھا۔ کام نہ کرسکا۔۔ معافی مل گئی۔۔ یہ کرپشن، جھوٹ اس کی رگوں میں رچتا بستا چلا گیا۔ بڑا ہوا یونیورسٹی میں داخلے کے لیے کرپشن۔۔۔ پھر جب ملازمت کے حصول کا وقت آیا تو کرپشن۔۔ اس نہج تک آتے آتے کرپشن، رشوت، جھوٹ اور دیگر بیماریاں اس طرح رگ و پے میں رچ بس گئیں، کہ ذات کا حصہ بن گئی۔ گناہ کا احساس ختم ہوگیا۔ برائی کو حق سمجھنا شروع ہوگیا۔
اب ایسے میں تبدیلی کی بات جب ہوگی تو اس سے مراد دوسروں کی تبدیلی ہے۔ کیوں کہ خود احتسابی کے عمل سے تو کبھی گزرا نہیں۔ ایمان کیا ہے۔ دین کیا ہے۔ شریعت کیا ہے۔ ان تمام الفاظ کے لغوی معنوں سے بھی ناآشنا۔۔ کجا یہ کہ ان سے وابستہ رمزوں کو سمجھ کر تبدیلی عمل میں لائی جائے۔
ان عوامل کی وجہ سے یہ سمجھ لیا جانا کہ ہاں تبدیلی کا عمل دوسروں سے شروع ہوتا ہے۔ اور کوئی دوسرا ہی آ کر سب سدھار سکتا ہے۔ اک فطری بات ہے۔ جب کوئی رشوت لے کر یہ سوچے کہ فلاں سیاسی سربراہ حکومت میں آئے گا تو یہ سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا۔ یا کوئی رشوت دیتے ہوئے سوچے کہ اگر فلاں کی حکومت ہوتی تو آج مجھے یہ نہ کرنا پڑتا۔ کسی دیوانے کا خواب ہی معلوم ہوتا ہے۔
اس تبدیلی کے عمل کو مدتیں لگیں گی۔ جذبہ چاہیے۔ پر وہ خطیب وہ جذبہ بیدار نہیں کر سکتا۔۔ جو خود اگر انتخابات کے عمل کا حصہ ہے تو کہہ رہا ہے کہ مجھے کامیاب کر کے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کریں۔ گویا دین کا ٹھیکیدار بنا ہے۔۔
باہمن بیٹھا ویکھ ریا واں
مسجد دے منمبر تے میں
ترجمہ:
برہمن بیٹھا دیکھ رہا ہوں
مسجد کے منمبر پر میں
پتا نہیں کیا کیا لکھتا جاتا ہوں۔ اوٹ پٹانگ باتیں کیے جا رہا ہوں۔ ذہن میں کیا کہانی ہے۔ آپ لوگوں کو بھی بور کر دیا۔۔ لیکن تبدیلی کا عمل شروع ہوگا۔ جس دن میں نے سوچ لیا کہ ہاں میں بدلوں گا۔ اس دن سے اس ملک میں اک آدمی بدل جائے گا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ تبدیلی صرف خود کو نیک کرنے سے نہیں آتی۔ برائی پر خاموش رہنے والا بھی برابر کا حصہ دار ہے۔ بقیہ اس ملک کے لوگوں کے لیے پھر دو اشعار پر بات ختم کروں گا۔
اوہی تاب تے اوہی کھنگاں
موسم کی سوا بدلے نیں
لکھاں وریاں تو ایہہ ریت ائے
ہوکے لوگ تباہ بدلے نیں
ترجمہ:
وہی غرور وہی تکبر
موسم کیا خاک بدلے ہیں
لاکھوں سالوں سے یہ ہے ریت
ہو کے لوگ تباہ بدلے ہیں