چھٹی سالگرہ تبصرہ: اردو محفل کی چھٹی ( سالگرہ )

آہم۔۔
کہانی کچھ آگے بڑھ نہیں رہی۔
چلو کچھ لقمہ دیتے ہیں۔

سیالکوٹ میں بین الاقوامی مشاعرہ ہو رہا تھا۔ دنیا بھر سے قلمکار اورشعرا اکٹھے ہوئے ہوئے تھے اور اپنے اپنے شاہکار کلام کے نمونے پیش کر رہے تھے اور حاضرین مشاعرہ سے داد وصول کر رہے تھے۔ اسی مشاعرے میں ایک عجیب سا واقعہ پیش آ رہا تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد کوئی ایک شاعر چیختا چلاتا مشاعرے کے پنڈال سے باہر دوڑتا ہوا نظر آتا تھا اور وہ سامنے کے تالاب پر جا کر پانی میں بیٹھتا تو بھاپ اڑتی نظر آتی۔ دراصل صدر مشاعرہ محمد وارث اپنی عینک گھر بھول آئے تھے اور حسب معمول چین سموکنگ کر رہے تھے۔ اور جب بھی سگریٹ ختم ہونے والا ہوتا تو اسے غلطی سے کسی سخن سنج، سخن شناش، سخن ور قسم شاعر کی پشت پر بجھا دیتے۔

:devil:
جواب آں غزل خوب کہی جناب:laughing3:
 
گذشتہ سے پیوستہ
بادشاہ سلامت کے جانے کے بعد حادثاتی طور پر وجود آنا والا دربار برخاست ہوگیا ۔ مشیرِ خاص اور فہیم نے وہیں فرش پر پرانے اخبار بچھا کر ڈیرا لگا لیا ۔
” مشیرِ خاص ! اردو محفل کی تیاریاں کہاں تک پہنچیں ۔ ”
فہیم نے ایک بار پھر انگڑائی لیتے ہوئے استفار کیا۔
” یار ۔۔۔ تمہاری انگڑائی اگر حسرت موہانی دیکھ لیتے تو وہ اصل شعر کے دوسرے مصرعے کو یوں کہتے ۔

انگڑائی بھی لینے نہیں پائے تو اٹھا کر دونوں ہاتھ
جس نے بھی دیکھا تو آنکھوں پر رکھ لیئے دونوں ہاتھ

”یہ تم عوام الناس میں اس طرح کی انگڑائیوں کا تسلسل ختم کرو۔ جانے کب کوئی خود کش حملہ ہوجائے ۔ ”
مشیرِ خاص نے فہیم کی ہوش روبا انگڑائیوں سے زچ کھا کر اس کو مشورہ دیا۔
” بس جناب ۔۔۔ ۔ کام کی زیادتی اور نیند کی کمی کے باعث اضطراری کیفیت پر قابو نہیں رہتا ۔ خیر میں احتیاط رکھوں گا ۔
” ضرور رکھنا ۔۔۔ کیونکہ اس دفعہ محفل کی سالگرہ میں وزیرستان سے بھی ایک گروپ آرہا ہے ۔ کہیں ان کو کسی قسم کی وڈیو بنانے کا موقع نہ مل جائے ۔ ”
” یار ایسی خوفناک باتیں تو نہ کرو ۔ میں نے کہا ناں کہ احتیاط رکھوں گا ۔ ”
فہیم نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا ۔
اسی دوران وزیرِ اعظم نے انٹری دی ۔
دونوں صاحبان بدستور احترامًا بیھٹے رہے ۔ مگر وزیر اعظم نے ان کی گستاخی کو نظر انداز کرتے ہوئے چائے کا تقاضا کر ڈالا ۔
مشیر خاص نے محفلِ چائے خانہ کی طرف منہ کر کے ایک چائے بنانے کو کہا ۔
محفلِ چائے خانہ سے مقدس اور ناعمہ کی کورس میں آواز برآمد ہوئی ۔
” آج کل اردو محفل کی گھمبیر صورتحال کی وجہ سے ادھار قطعی بند ہے ۔ وزیرِ خزانہ زیک نے ہر قسم کے ادھار پر پابندی لگادی ہے ۔ صرف وہ لوگ اس پابندی سے مستثنیٰ ہونگے ۔ جن کی عمریں 99 سال سے زائد ہیں ۔ اور وہ بھی ان کے والدین کے کہنے پر ان کو ادھار دیا جائے گا ”
یہ سن کر وزیر اعظم کے چہرے پر مایوسی چھا گئی ۔
یہ دیکھ کر فہیم نے کہا کہ ” جنابِ والا ! آپ فکر کیوں کرتے ہیں ۔ اللہ آپ کو آپ کے پیغامات جتنی عمر دے ۔ ایک دن تو آپ مقررہ ہدف تو پہنچیں گے ۔ ”
” مگر شرط کی دوسری شق کیا ہوگا ۔ ؟ ”
وزیرِ اعظم نے فکرمندی سے سوال کیا ۔
” ارے اس شق کیا اہمیت ہے ۔ ! جب تک منتخب صدر صاحب موجود ہیں۔ ہم شقوں میں بھی شگاف ڈلوا دیں ۔ ”
فہیم نے ایک غیر سیاسی صدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کی ہمت بندھوائی ۔
” یہ رضوان اور محب بہت دنوں سے نظر نہیں آرہے ہیں ۔”
اچانک وزیرِ اعظم نے اردو محفل کے دو پرانے باسیوں کا تذکرہ کر ڈالا ۔
” رضوان تو جنگِ پلاسی کے دوران اپنے ہاتھی کے بریک فیل ہونے پر اسے ٹھیک کرانے کے لیئےگئے تھے کہ بریک فیل ہونے کی وجہ سے ہاتھی کا ریورس گئیر خودبخود لگ رہا تھا ۔ جس کی وجہ سے اردو محفل کی وہ تحریریں بھی روندیں گئیں جو رضوان کے شوخ قلم سے وجود میں آنے والی تھیں ۔ ”
” یعنی حسرت ان غنچوں پر جو بن کِھلے مرجھا گئے ” وزیرِ اعظم نے تاسف بھرے لہجے میں کہا ۔
”مگر اب تک تو ان کو آجانا چاہیئے تھا ۔ ”
وزیرِ اعظم نے پھر سوال کیا ۔
” اصل قصہ یوں ہوا جناب ۔۔۔ کہ جس ہاتھی کے وہ بریک ٹھیک کرانے گئے تھے ۔ ان بریکوں کے فاضل پرزوں کی ترسیل پر یہاں ڈیوٹی بہت تھی ۔ بادشاہ سلامت کی اقتصادی حالت تو آپ کو معلوم ہی ہے ۔ سو وہ پڑوسی ملک چلے گئے ۔ جہاں ان کے اپنے بھی فاضل پرزے دستیاب تھے ۔ لہذاٰ انہوں نے واپسی کا ارادہ موخر کردیا ہے ۔ ”
مشیرِ خاص نے فیس بک پر جھومتی ڈولتی ہوئی خبروں سے مستفید ہوتے ہوئے وزیرِاعظم کی معلومات میں اضافہ کیا ۔
” اور محب ۔۔۔ ۔۔ ؟ ”
” وہ اپنے ہیئر پلانٹیشن کے لیئے امریکہ گئے تھے ۔ مگر تجربہ ناکام ہوگیا ہے ۔ آج کل بالوں سے محروم 6 گز کی پگڑ باندھ کر اپنے محلے کی مسجد میں امامت کر رہے ہیں ۔ ہر قسم کی اسکرین کو اپنے لیئے شجرِ ممنوعہ قرار دیکر خود کوآن لائن ہونے سے دور رکھا ہوا ہے ۔ فارغ وقت میں جنید جمیشد کے پاس جاکر درس سنتے ہیں ۔ ”
” خیر ۔۔۔ ۔۔ ہم کو اردو محفل کی تقریب کا انتظام کرنا ہے ۔ وقت بہت کم رہ گیا ہے ۔ ہم نے دعوت نامے جو تم کو دیئے تھے ۔ وہ تم نے سب کو ارسال کردیئے ہیں ۔ ”
” جی حضور ! دعوت نامے ارسال ہوچکے ہیں ۔ تمام ضلع کے ناظمین کو پہلے ہی مطلع کیا جاچکا ہے ۔ کچھ موڈریٹر کو تنبیہہ کیساتھ ارسال کیئے گئے ہیں کہ وہ موڈریٹر بننے کے بعد سرکاری ملازمین کی طرح اپنے فرائض سے غافل ہوکر میز کے نیچے سوتے رہتے ہیں ۔ پچھلے دنوں ہم نے ظفری کو ان کی میز کے نیچے سے باہر نکالا تو ان کی پتلون کی جیب سے بلی کے کئی بچے برآمد ہوئے ۔ جو ایک مستقل قیام کی غرض سے وہاں سکونت پذیر تھے ۔ ”
مشیر ِ خاص نے وزیرِ اعظم کےسامنے ذمہ داروں کی مکمل فہرست رکھ دی ۔
” ایسی ہی کاہلی اور سستی کی وجہ سے اس خداداد اردو محفل کی سلطنت میں ترقی نہیں ہو رہی ہے ۔ بڑی مشکل سے ہم نے چند مخیر افراد کو اغوا کرکے اس سلطنت کی ہوسٹنگ کے اخراجات پورے کیئے ۔ ہمہ وقت ہم اپنی تلوار نکال کر انہیں گولی مارنے کی بھی دھمکیاں دیتے رہے ۔ تب کہیں جاکر انہوں نے اپنی جیبیں ہلکیں کیں ۔ اور بادشاہ سلامت کو کبوتر بازی کے سوا کچھ نہیں سوجھتا ۔ وزیرِ خزانہ چندے کے لیئے ہاتھ میں لوٹا لیکر نکلے تھے ۔ مگر ابھی تک لوٹا لیکر نہیں لوٹے ۔ البتہ ایسی خبریں ضرور ملیں ہیں کہ جگہ جگہ وہ لوٹے کو ساتھ رکھ کر بیھٹے پائے گئے ہیں ۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ سلطنت کا نظام کیسے چلے گا ۔ اور اوپر سے یہ سالگرہ کی تقریب کا انعقاد ۔۔۔ ۔ ”
وزیرِ اعظم نے تفکر کے عالم میں اپنے سر سے ٹوپی اتارکر اپنی چُندیا پر ہاتھ پھرتے ہوئے کہا ۔
” وزیراعظم صاحب ۔۔۔ یہ آپ اپنی ٹوپی مت اتارا کریں ۔ آپ کے اس ٹکلے سر سے روشنی کا جو انعکاس ہوتا ہے ۔ وہ ہماری آنکھوں کو بہت برا لگتا ہے ۔ ”
فہیم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آنکھوں پر رکھتے ہوئے وزیرِ اعظم سے استدعا کی ۔
” اور تم بھی ذرا اپنی انگڑائیوں کو قابو میں رکھو ۔ آج کل وہاب خاں یہاں بہت چکر لگا رہے ہیں ۔ کہیں وہ تمہیں اپنی کسی پشتو فلم میں شوٹ نہ کرلیں ۔ ”
وزیرِ اعظم سے اپنے سر کی شان میں گستاخی سنی نہ گئی ۔
” ہم نے دیکھا ہے کہ آج کل صوبہِ شعراء کے ناظم وارث بھائی ۔۔۔ ۔ سگریٹوں پر سگریٹیں پیتے ہوئے پائے جا رہے ہیں ۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ شاہی شاعر فاتح کی شادی کے گھوڑے پر بھی انہوں نے اپنا سگریٹ بجھا دیا تھا ۔ ”
وزیرِ اعظم نے مشیر خاص استفار کیا ۔
” جی جناب ۔۔۔ ۔ مگر اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ فاتح اپنی شادی کے گھوڑے پر نہیں بلکہ اپنے کسی دوست کی شادی کی شادی پر مدعو تھے کہ یہ حادثہ پیش آیا ۔ انہوں نے بھابھی کے ڈر سے نفسِ بہ نفیس خود آکر محفل پر اس شادی کے بارے میں اپنا تحریری بیان دیا ہے کیونکہ ان کے گھریلو ظہرانے اور عشایئے کے لوازمات پابندی کے خطرے سے دو چار ہوگئے تھے ۔ ایک دن کے فاقے کے فوراً بعد آکر انہوں نے اپنا بیان یہاں داغ دیا ہے ۔ ”
” ہممم م ۔۔۔ فہیم تم نے بادشاہ سلامت کو قصیدہ لکھ کر دیا ۔ ؟ ”
وزیرِ اعظم نے فہیم سے سوال کر ڈالا ۔
” جی حضور ۔۔۔ مگر بادشاہ سلامت نے اس میں بہت سی ایسی غلطیاں نکالیں ہیں کہ ان کی تصحیح ضروری ہے ۔ اس کام کے لیئے میں فاتح بھائی کو تلاش کر رہا ہوں ۔”
” تم وارث بھائی سے کیوں مدد نہیں لیتے ۔”
” جناب ان کی طرف بھی گیا تھا ۔ جب ان کے حجرے پہنچا تو ان کی سگریٹ نوشی کی وجہ سے اندر اس قدر دھواں تھا کہ ان کے ہاتھ چومنے کے بجائے ان کے ہاتھ میں دبی ہوئی سگریٹ کے اس سرے کو چوم لیا جس کے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ ” یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے ۔ ”
جناب پورے دو ہفتے بعد یہ منہ دکھانے کے قابل ہوا ہوں ۔ ”
فہیم نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا ۔
” خیر کوئی بات نہیں ۔۔۔ ۔ مگر تقریب سر پر آگئی ہے ۔ جلدی قصیدہ پورا کرلو ۔”
وزیرِ اعظم نے فہیم کے چہرے کا بغور معائنہ کرتے ہوئے آہستگی سے کہا ۔
’ اچھا ہم قیلولے کے لیئے اپنی گاڑی کی چھت پر سونےجا رہے ہیں ۔ ناظمین اور موڈریٹرز پہنچ جائیں تو ہمیں اس طرح مطلع کرنا کہ ہماری نیند میں کوئی خلل نہ پڑے ۔ ”
فہیم اور مشیر ِ خاص نے کسی اور جگہ کے خلل کے شبے میں وزیرِ اعظم کو غور سے دیکھا مگر خاموش رہے ۔

( تیاریاں جاری ہیں )
چائے خانے کا سارا کاروبار تو ادھار پر ہی چل رہا تھا بھائی
اب کیا خاک رونق ہو گی :idontknow:
 
تیسری قسط
وزیرِاعظم کے جانے کے بعد مشیرِ خاص نے فہیم سے پوچھا ۔“ تم تو محکمہِ جاسوس کے سربراہ تھے ۔ بادشاہ نے تم کو یہ کس کام پر لگا دیا ہے ۔ اس خداداد سلطنت میں تو ایک سے ایک اچھے شعراء موجود ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر استادِ محترم جناب عزت مآب اعجاز عبید صاحب کی قدآور شخصیت ہم میں موجود ہے ۔ یہ بادشاہ کو تم سے قصیدہ لکھوانے کی کیا تُک سوجھی ۔ “
“ بس کیا بتاؤں ۔۔۔ ۔۔ میری جاسوسی کی شہرت ملکہ تک پہنچ گئی ۔ انہوں نے مجھے بادشاہ کی جاسوسی پر خفیہ طور پر مامور کردیا ۔ جاسوسی کا نتیجہ جب سامنے آیا تو بادشاہ سلامت کے تین عدد موبائل فون ضبط ہوگئے اور نیٹ گردی پر بھی ملکہ کی طرف سے پابندی لگ گئی ۔ سزا کے طور پر بادشاہ نے ہمیں قصیدہ لکھنے کو کہہ دیا ۔ “
فہیم نے مشیرِ خاص کو صحیح صورتحال سے مطلع کیا ۔
“ اچھا تو اصل قصہ یہ ہے ۔ “ مشیر خاص نے اکلوتے بال پر مشتمل اپنی مونچھ کو تاؤ دیتے ہوئے کہا ۔
“ قصیدہ ، قصیدہ ، قصیدہ ۔۔۔ ۔ اپنا تو ہوگیا ہے ملیدہ “ فہیم نے ایک بار پھر منہ بسور لیا ۔
اچانک ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی ۔ برآمدے سے بادشاہ سلامت اور باہر گلی سے وزیرِ اعظم دوڑے دوڑے اندر آئے ۔
“ کیا ہوا ۔۔۔ کہیں ہماری سلطنت پر حملہ تو نہیں ہوگیا ۔ “
“ حضور ۔۔۔ ابھی دیکھ کر آتا ہوں کہ کیا ہوا ہے ۔ “
فہیم نے باہر کی جانب دوڑ لگائی ۔
تھوڑی دیر بعد فہیم واپس آیا اور اس سے پہلے وہ فرشی سلام کرتا ۔ بادشاہ نے اسے روک دیا ۔
“ سلام رہنے دو فہیم میاں ۔۔۔ ۔ تمہیں اس حالت میں دیکھنے کے لیئے انتہائی درجے کی اخلاقی جرات چاہیئے ۔ جو ہم میں نہیں ہے ۔ “
“حضور ۔۔۔ مجھ میں تو ہے “
وزیرِ اعظم نے شوخی سے کہا ۔
“ ہمیں خبر ہے ۔۔۔ اور ہمیں اس بات کی بھی خبر ہے کہ آپ چوری چھپے راجہ بازار کے عقب میں واقع نیٹ کیفے میں جاکر یو ٹیوب پر شیلا کی جوانی اور منی بدنام ہوئی ۔۔۔ باقاعدگی سے دیکھتے ہیں ۔ اور آپ نے ان سب کو اپنے فیورٹ میں بھی ایڈ کیا ہوا ہے ۔ “
وزیرِ اعظم نے غضبناک نظروں سے فہیم کو دیکھا تو فہیم سیٹی بجاتے ہوئے دائیں بائیں دیکھنے لگا ۔
“ یہ کس قسم کے دھماکے کی آواز تھی “
بادشاہ نے فہیم سے پوچھا ۔
“ حضورِ اعلی ۔۔۔ آپ نے انصاف کے لیئے جو گھنٹی باہر لٹکا رکھی تھی ۔ اس کی زنجیر اتنی بوسیدہ ہوچکی تھی کہ ایک غریب فریادی نے جیسے ہی اسے کھینچا ۔ زنجیر گھنٹی سمیت اس پر آگری ۔
وہ ملکِ عدم کی روانہ ہوگیا ۔ اور آپ کا انصاف ادھورا رہ گیا ۔ “
“ انصاف ہوگا ۔۔۔ ۔ اور ضرور ہوگا ۔۔۔ ۔ باشادہ نے شبِ خوابی کے لباس میں ٹہلتے ہوئے کہا جو صرف ایک لُنگی پر مشتمل تھا ۔ “
“ جس فریادی نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے ۔ اس کی ساری املاک ضبط کرلی جائے ۔ “
“ واہ ۔۔۔ واہ کیا انصاف ہے ۔ “
مشیرِ خاص ، وزیرِ اعظم اور فہیم نے داد و تحسین بلند کی ۔
“ جناب اعلی ۔۔۔ سلطنت ِ بلاگنگ سے عمار خاں بازیابی کی اجازت چاہتے ہیں ۔ “
باہر کھڑے ہوئے ایک درباری نے اندر منہ کرکے دربارِ خاص کو مطلع کیا ۔
“ حاضر کیا جائے ۔“
عمار خاں اندر داخل ہوئے تو وزیرِ اعظم سے کہا “ یہ دودھ والا آپ لوگوں کے ساتھ کیوں کھڑا ہے ۔ ؟ “
“ گستاخ یہ ہم ہیں ۔ بادشاہ سلامت دھاڑے ۔
“ معافی کا خواستگار ہوں جناب ۔۔۔ ۔ میں نے آپ کو پہچانا نہیں کہ پہلے کسی بادشاہ کو لنگی پہنے نہیں دیکھا ۔ “
“ ابے ۔۔۔ ہم غریب پرور بادشاہ ہیں ۔ “
“ جی ہاں وہ تو آپ لگ ہی رہے ہیں ۔ “ عمار نے بادشاہ کی لنگی کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا ۔
“ کیوں آئے ہو “ ؟
“ جناب سلطنتِ بلاگنگ میں آپ کی سلطنت کی چھٹی سالگرہ کا بہت چرچا ہے ۔ وہاں سے پیغام لیکر آیا ہوں کہ ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور ہمیں خدمت کا موقع دیجیئے گا ۔ “
“ ضرور ۔۔۔ ضرور ۔ اپنی سلطنت میں جو بھی مخیر افراد ہیں ۔ ان کی فہرست بناکر وزیرِ اعظم کی حوالے کردینا ۔ تاکہ آئندہ سال کی ویب ہوسٹنگ کا پیشگی بندوبست ہوسکے ۔ “
بادشاہ نے وزیرِ اعظم کو آنکھ مارتے ہوئے کہا ۔
“ جو حکم عالی جاہ “
عمار نے واپسی کی اجازت مانگی اور دربار سے رخصت ہوگئے
“ زین نے اپنے اخبار میں‌‌‌‌‌‌‌‌‌ کوئی خبر اردو محفل کی سالگرہ کے حوالے سے لگائی کہ نہیں‌ ۔ ؟ “
بادشاہ نے فہیم کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ۔ “ تم تو پچھلے دنوں زین کے پاس کوئٹہ بھی گئے ہوئے تھے “
“ جی حضور ۔۔۔ ۔۔ میری واپسی پچھلے ہفتے ہی ہوئی ہے ۔ اس بابت میری زین سے بات ہوئی تھی ۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ جب وہ اپنا اخبار نکالیں گے تو اس میں ضرور اس سالگرہ کی روئیداد لکھیں گے ۔ “
یہ سن کر بادشاہ سلامت بغلیں جھانکنے لگے
“ وزیر اعظم تم نے ہمارے لیئے جس نئے شاہی لباس کا آڈر دیا تھا ۔ اس کی تکمیل کہاں تک پہنچی ۔ “
“ بس جناب ۔۔۔ اپنے تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ۔ “
“ دھیان رہے کہ اس دفعہ شاہی لباس مضبوطی کے اعلیٰ پیکر کا نمونہ ہونا چاہیئے کہ پچھلی دفعہ تم نے ہمارے لیئے جو لباس بنوایا تھا ۔ اس میں کیلے کے پتوں کی بہتات اس قدر زیادہ تھی کہ ہم لالو کھیت سے محل آتے ہوئے بکریوں کے ریوڑ میں پھنس گئے ۔ اور جب وہ ریوڑ وہاں سےگذرا تو ہم شجرِ ممنوعہ بن چکے تھے ۔ اگر ہمارے ہاتھ میں اخبار نہیں ہوتا تو خدا جانے ہم محل کیسے پہنچتے ۔ اور سارے راستے ہماری رعایا ہم ہی کو مخاطب کرکے کہتی رہی کہ “ بابا ۔۔۔ ہمارے لیئے دعا کرنا ۔ “
بادشاہ نے دانت بھنچتے ہوئے کہا ۔
“ حضور بے فکر رہیں ۔ اس دفعہ ایسا نہیں ہوگا ۔ “
“ مشیرِ خاص ۔۔۔ تو پھر کیا طے پایا “ بادشاہ نے سوال کیا ۔
“ جی حضور ۔۔۔ ہمارے گھر پر رشتے لگانے والی آئیں تھیں ۔ مگر انہوں نے ہماری تنخواہ کی مسلسل دو سال کی عدم موجودگی دیکھتے ہوئے بات آگے بڑھانے سے انکار کردیا ۔ اس لیئے کچھ طے نہیں پایا ۔ “
مشیرِ خاص نے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہا ۔
“ ابے ۔۔۔ ہم تمہارے رشتے طے ہونے کی بات نہیں کر رہے ۔ بلکہ اردو محفل کی چھٹی سالگرہ کی تقریب کی تیاریوں کا پوچھ رہے ہیں جو کل منعقد ہونے والی ہے ۔ “
بادشاہ نے آگ بگولہ ہوتے ہوئے کہا ۔
“ اوہ ۔۔۔ جی حضور تیاریاں اپنے اختیام پر ہیں ۔ دعوت نامے سب کو ارسال کیئے جاچکے ہیں ۔ تمام ذمہ داران اپنے اپنے فرض سے آگاہ ہوگئے ہیں ۔ کل صبح پوَ پھٹنے پر تقریب کا آغاز کر دیا جائیگا ۔ “
“ پَو پھٹنے پر تو ہم رفع ِحاجت کے لیئے جاتے ہیں ۔ کوئی اور وقت مقرر کرو “
“ حضور ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ شام کا وقت بہت مناسب رہے گا ۔ “ ویسے بھی اس ملک خداداد اردو محفل میں کون شام سے پہلے اٹھتا ہے ۔ “
وزیرِ اعظم نے تقریب کا وقت مقرر کرتے ہوئے کہا ۔
“ ٹھیک ہے ۔۔۔ ۔ ہم پھر قیلولہ کرنے جا رہے ہیں ۔ وزیرِ اعظم تم اپنی تین پہیوں والی سائیکل پر جاؤ اور شاہی درزی سے ہمارا لباس لے آؤ ۔ “
“ جو حکم عالی جاہ ۔۔۔ ۔ “
“ جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ۔ “ مشیرِ خاص نے ڈرتے ڈرتے بادشاہ سے درخواست کی ۔
“ امان دی ۔۔۔ ۔ کہو کیا کہنا چاہتے ہو “
“ کل صوبہ ِ سیاست سے چودھری ساجد آئے تھے ۔ کہہ رہے تھے کہ اگر بادشاہ نے بھینس کے آگے بین بجانی بند کر دی ہو تو اُسے میں لے جاؤں “
“ ابھی نہیں ۔۔۔ ۔۔ کیونکہ ہماری بین سن کر بھینس نے گردن ہلانا شروع نہیں کیا ہے ۔ ملکہ عالیہ ہمارے سامنے سر جھکا نہیں سکتیں تو کم از کم بھینس تو اپنا سر ہلا لے ۔ “
“ حضور ۔۔ سیانے کہتے ہیں کہ بادشاہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک جگہ سے سن کر دوسری جگہ جاکر سنائیں ۔ “
“ ابے تُو پھر بولا ۔۔۔ ۔ یہ سب تیرا ہی کیا دھرا ہے ۔ تُو نے ہی ملکہ سے ہماری مخبری کی تھی ۔۔۔ ہمارے تین موبائل فون بھی ضبط ہوگئے اور ہماری نیٹ گردی پر بھی پابندی لگ گئی ۔ ہائے کیسی کیسی حیسنائیں نیٹ پر ہماری راہ تک رہیں ہونگیں ۔ “
“ جنابِ عالی ٰ ۔۔۔ وہ آپ کی نہیں بلکہ ان فلمی ہیروز کی راہ تک رہیں ہونگیں ۔ جن کو آپ نے اپنی تصویریں کہہ کر نیٹ پر لگایا تھا ۔ “ فہیم نے پھر لقمہ دیا ۔
“ حدِ ادب گستاخ ۔۔ ۔ اگر تمہاری کارستانیاں یونہی جاری رہیں تو ہم تمہارے ابا سے کہہ کر تمہاری شادی کروادیں گے ۔ اور پھر تمہیں معلوم ہوگا کہ ایک جاسوس اور بادشاہ کی زوجہ میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ “
بادشاہ کی آنکھوں میں پانی بھر آیا ۔
“ حضور ۔۔۔ آپ جذباتی نہ ہوں ۔ میں آپ کو خفیہ ٹی وی کبیل لگواکر دیدوں گا ۔ پھر آپ شیلا کی جوانی اور منی بدنام ہوئی ۔ بغیر کسی تعطل کے دیکھنا ۔“ وزیرِ اعظم نے اشتیاق بھرے لہجے میں کہا ۔
“ وزیرِ اعظم ۔۔۔ یہ پروگرام تم اپنے لیئے بنا رہے ہو یا ہمارے لیئے ۔ ؟ “
بادشاہ نے شکی نظروں سے وزیرِ اعظم کی طرف دیکھا ۔
مشیر ِ خاص اور محکمہِ جاسوس کے سربراہ فہیم کی ہنسی نکل گئی ۔
“ جائیں بادشاہ سلامت ۔۔۔ ہم نہیں کھیلتے “
وزیرِ اعظم پاؤں پٹختے ہوئے دربار سے نکل گئے ۔
تم دونوں بھی یہیں کہیں اخبار بچھا کر قیلولہ کرلو ۔۔۔ ۔ کل محفل کی سالگرہ کی تقریب ہے ۔ مخیر افراد پر نظر رکھنا “ بادشاہ نے شاہی اخراجات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہا ۔
دونوں نے سعادت مندی سے سر جھکا لیا ۔

( جاری ہے )
کیا کہنے جناب :)
سواد آ گیا بادشاہو
 
( چوتھی قسط )

بلآخر اردو محفل کی سالگرہ کا دن آپہنچا ۔ پنڈال میں زبردست انتظامات تھے ۔ سیکورٹی سے لیکر عشایئے تک تمام ضروری کام نمٹائے جاچکے تھے ۔۔۔ ۔ کیسے ؟ یہ ایک معمہ تھا ۔
بعض لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سب روحانی بابا کی کرامت کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اپنے موکلوں سے کہہ کر یہ سب انتظامات کرائے ہیں ۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ وزیرِ جاسوس نے بھائی لوگوں کی مدد سے زبردستی یہ عیدگاہ خالی کروائی ہے ۔ جہاں آج لنگر بٹنا تھا ۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے پائے گئے کہ اس سلسلے میں بادشاہ سلامت کے خفیہ بینک اکاؤنٹس کام آئے ۔ مگر اس بات کا امکان کم ہی تھا کہ بادشاہ سلامت کے پاس اپنی لُنگی کے رفو کے لیئے پیسے تک نہیں‌ تھے ۔ ( شاید یہی وجہ تھی کہ بادشاہ سلامت اپنے دو ہاتھوں کو لنگی کے دائیں بائیں کی ملکی شورشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے سوراخوں میں پتلون کی طرح ہاتھ ڈالے پھرتے تھے ! ) ۔ بعض باخبر ذرائع کے مطابق بادشاہ سلامت نے آئی ایم ایف سے پچاس سال کی معیاد پر قرضہ لے لیا تھا ۔ مشیرِ خاص کے سمجھانے کے باوجود بھی کہ حضور ۔۔۔ ۔ اتنی بڑی رقم آپ کیسے واپس لوٹائیں گے ۔ ؟ جس پر بادشاہ نے جواب دیا کہ “ ابے ! ہم کہاں ہونگے قرض لوٹانے کے لیئے اگلے پچاس سالوں میں ۔۔۔ ۔ ہم سے پہلے آنے والوں نے قرض لوٹایا ہے کیا ؟ ۔ ہم بھی غریب بادشاہ پچھلے بادشاہوں کے لیئے ہوئے قرضوں کی بدولت ہی بنے ہیں ۔ پھر ہماری رعایا کس مرض کی دوا ہے ۔ بھرتی رہے گی قرضہ ، چند دن شور کرے گی پھر اپنی روش پر لوٹ آئیگی ۔ “
قناطیں کھینچ گئیں تھیں ۔ کرسیاں رکھی جاچکی تھیں ۔ مستورات اور مرد حضرات کی کرسیوں کے درمیان میں واجد حیسن کی جہادی ، ‌ام نورالعین کی اخلاقی تعلیمات کی وجہ سے خاصا فاصلہ رکھا گیا تھا ۔ اور بیچ میں ایک بڑی قنات بھی کھڑی کردی گئی تھی ۔ مگر دونوں طرف فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ فہیم اور زین کے بنائے ہوئے وہ سوراخ بھی کام میں نہ آسکے جو انہوں نے دوسری طرف جھانکنے کی غرض سے قنات میں ڈالے تھے ۔
بادشاہ سلامت بیوٹی پالر گئے ہوئے تھے ۔ مشیرِ خاص پر آج غیر ضروری بوجھ تھا کہ وزیرِ اعظم کو گھر سے آنے میں تاخیر ہوگئی تھی ۔ فہیم کی اطلاع کے مطابق وہ اپنی ہوم منسٹر کے کپڑوں پر استری کرنے میں مشغول تھے ۔ اسٹیج سجایا جاچکا تھا ۔ مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہوچکا تھا ۔ بانی اردو محفل کو زبردستی جگا کر محفل پر آنے کی دعوت دی گئی تھی ۔ وزیرِ خزانہ زیک اپنی پیٹ کی اس بیماری سے بہت لاچار نظر آرہے تھے ۔ جو ان کو حالیہ بیرونی دورے میں لاحق ہوگئی تھی ۔ وہ لوٹا جس میں بیرونی امداد متوقع تھی ۔ اُسے وزیر خزانہ نے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا ۔ لوٹا پانی سے لبریز تھا کہ کب وزیرِ خزانہ کا صبر لبریز ہوتا اور وہ لوٹا اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر قومی خزانے میں واپس لوٹتا ۔ صوبہ محفل شعر و سخن کے وزیرِ اعلیٰ جناب وارث صاحب ، قنات کے ایک ڈنڈے سے ٹکے سگریٹ پر سگریٹ پھونکتے خلاء میں کچھ گھور رہے تھے ۔ ان پر استغراق کے عالم کا گماں ہوتا تھا ۔ سخنور بھیا اپنی بیاض ساتھ لیکر آئے تھے ۔ اور بہت بے دلی سے گڑی ہوئی قنات کو دیکھ رہے تھے ۔ فاتح بھی اپنی تین پہیوں والی سائیکل پر آئے کہ انہوں نے گھوڑے کے حوالے سے اپنی پچھلے تجربے سے شاید بہت کچھ سیکھا تھا ۔ آتے ہی انہوں نے ٹینٹ کے باہر کھڑے ہوئے ویلٹ پارکنگ بوائے کو اپنی تین پہیوں والی سائیکل کا ہینڈل پکڑواتے ہوئے کہا کہ “ جاؤ اسے پارک کردو “ ۔ اچانک دوست بھی م عثمان کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے پنڈال میں داخل ہوئے اور آتے کیساتھ ہی بلند آواز میں سب کو سلام سائیں کہا ۔ عمثان نے کچھ کہنے کے لیئے منہ کھولا ہی تھا کہ مشیرِ خاص نے التجا کی ۔۔۔ ۔ بھیا آج نہیں ۔۔۔ بس آج آپ کو کسی پر تنقید نہیں کرنی ۔ “ سو عثمان نے لب سی لیا ۔ راجہ صاحب بھی اپنے سنگھاسن پر تشریف لائے ۔ مگراچانک ان کے سنگھاسن سے کچھ چوہے نکلے اور خواتین کے حصے کی طرف چلے گئے ۔ جہاں سے چیخوں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ۔ مورخ وہاں کی منظر کشی سے قاصر رہا کہ اس حصے میں‌ کسی مرد کا جانا ممنوع تھا ۔ بعد میں بس اتنا ہی پتا چل سکا کہ سب سے زیادہ چوہے مقدس اور زونی نے مارے ۔
محمد صابر بھی اپنی ہری پگڑی کیساتھ آئے ۔ ان کیساتھ کچھ قوالوں کی آمد بھی متوقع تھی۔ مشیرِ خاص کے استفار پر صابر نے کہا “ مشیرِ خاص ! ہم صابر ہیں ، صابری برادران نہیں ۔ “ ۔ چناچہ اس طرح غلط فہمی دور ہوئی ۔ زین بھی محفل کی سالگرہ کی داستان رقم کرنے کے لیئے اپنے اخباری فوٹو گرافر کے ساتھ آئے اور آتے کیساتھ ہی قناتوں میں ‌بنے ہوئے سوراخوں میں کمرہ ڈال کر تصویریں لینا شروع کردیں ۔ دوسری طرف اچانک شور تھم گیا ۔ ( شاید سب نے چوہوں پر اپنا تشدد چند دیر کے لیئے روک دیا تھا ۔ جو اِن خواتین کو روایتی خواتین سمجھ کر ڈرانے گئے تھے ۔ بیچارے چوہے ۔۔۔ بقول شاعر ۔۔۔ ۔ وہ راہی جو تاریک راہوں میں مارے گئے ۔ ) ۔
ہمت علی بھی اپنی سیاسی پارٹی کے بینر کے ساتھ محفل میں داخل ہوئے ۔ بینر کے ایک طرف حسبِ معمول ہمت علی کی ڈبل پالیسی کے مطابق “ زرداری آوے ہی آوے اور دوسری طرف زرداری جاوے ہی جاوے “ کے نعرے کندہ تھے ۔ طالوت بھی حسبِ معمول غصے کی حالت میں آئے ۔ انہوں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا کہ کس پر غصہ اتاریں ۔ مشیرِ خاص نے دور سے ہاتھ جوڑ کر بیٹھنے کو کہا تو وہ خاموشی سے بیٹھ گئے ۔ اچانک ہی عبداللہ ڈولتے ہوئے پنڈال میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے اپنی پیشانی پر “ ٹُن “ کا سائن لگا رکھا تھا اور مسلسل گنگنا رہے تھے “ مجھے پینے کا شوق نہیں ، میں تو پیتا ہوں تپانے کے لیئے ۔۔۔ “ انہیں بڑی مشکل سے انہیں کرسی پر بٹھایا جاسکا ۔ مگر وہ بار بار ساتھ بیھٹے سخنور بھیا کے کندھے پر ہاتھ مار کر پوچھتے رہے کہ “ بھائی ! یہ بس کب چلے گی ۔ ؟ “
ایم اے راجہ بھی اپنے ہاتھ میں غزلوں کا ایک بڑا پلندہ لیئے ہوئے نظر آئے ۔ وہ کسی مصرعے سے مسلسل تکرار کر رہے تھے “ جو کہا تھا میں نے سچ تھا ۔۔۔ ۔ جو سنا تھا وہ نہیں تھا ۔ “ ۔ ان کو بھی پنڈال میں ایک کرسی دیدی گئی ۔ مگر ان کی تکرار کا تسلسل ختم نہ ہوا ۔ شاہی شاعر خرم جیسے ہی پنڈال میں داخل ہوئے ۔ مشیرِ خاص تیزی سے خرم کی طرف لپکے اور کہا ۔۔۔ ۔ “ ابے کہاں رہ گئے تھے ۔ ؟ بادشاہ سلامت کا قصیدہ مکمل ہوگیا ۔ ؟ وہ کل سے مسلسل پوچھ رہے ہیں ۔ “
“ بس بڑی مشکل سے لکھا ہے اور ایسا لکھا ہے کہ پوری محفل عیش عیش کر اٹھے گی جناب ۔ “ خرم نے سینہ پھلاتے ہوئے کہا ۔
“ ابے ۔۔ عش عش ہوتا ہے ، پتا نہیں تم نے کیسا قصیدہ لکھ مارا ہوگا ۔ مجھے تو اپنی تنخواہ کی پڑی ہے ۔ جو اس سالگرہ کے بعد متوقع ہے ۔ “ مشیرخاص نے تفکر کے عالم میں کہا ۔
‌دوسری جانب خواتین کی بھی آمد جاری تھی ۔ مگر مورخ اپنی آنکھوں کے سکھائی سے محروم رہا کہ وہاں جانے پر مسلسل پابندی تھی ۔
عارف کریم اور ڈی بی ایکس گرافکس بھی ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ ڈالے نظر آئے ۔ دونوں نے ہر معاملے میں‌ یوٹیوب کا حوالہ دینے اور ٹانگ اڑانے کی مشترکہ عادت کی بناء پر گوبل اتحاد کرلیا تھا ۔ جس کا پہلا اجلاس عارف کریم کے اس نامعلوم سیارے پر ہونا منظور پایا تھا ۔ جس کے بارے میں‌ ناسا کا کہنا تھا کہ کائنات میں ایسے کسی سیارے کا وجود نہیں ۔
ساجد بھائی ، فاروق سرور خان ، خرم سنئیر تینوں ایک ساتھ پنڈال میں‌داخل ہوئے ۔ تنیوں کسی سیاسی نکتہ پر بحث کرتے ہوئے پائے گئے کہ اس نکتہ کو مذہب سے کیسا جوڑا جائے ۔
محمود غزنوی جیسے ہی پنڈال میں داخل ہوئے تو راجہ صاحب اپنے سنگھاسن پر لیٹ گئے ۔ انہوں نے کہا کہ “ سومنات کا مندر گیا سو گیا ۔ مگر میں یہ سنگھاسن جانے نہیں دوں گا ۔ “
بڑی مشکل سے ان کو یقین دلایا گیا کہ یہ محمود غزنوی وہ غزنوی نہیں جس نے اپنی سستی کی وجہ سے ہندوستان پر سترہ حملے کیئے تھے ۔
ڈاکٹر افتخار راجہ نے آتے کیساتھ ہی دواؤں کے نسخے پنڈال میں ‌بانٹنا شروع کردیئے ۔ ساتھ ایک پمفلٹ بھی تھا ۔ جس پر درج تھا ۔ “ مطب کے دو وزٹ پر ایک وزٹ فری “ ۔
ابوشامل بھی اپنی مصروفیت میں سے کچھ دیر کے لیئے وقت نکال کر آئے ۔ کیونکہ انہوں واپس جاکر دوبارہ سونا بھی تھا ۔
محفل کی محترم ہستوں میں جناب اعجاز عبید ، جناب شاکر القادری بھی داخل ہوئے ۔ ان کے درمیان غالب کی کسی شعر کے بارے میں بحث چل رہی تھی ۔ جس کے بارے میں انہیں یہ شبہ تھا کہ یہ شعر غالب نے بہادر شاہ ظفر کو ایک بوتل کے عوض فروخت کردیا تھا ۔
میم نون بھی اپنے سیاحتی مقالے کے ساتھ حاضر ہوئے ۔ ان کی سیاحت پر مبصرین کو صرف یہ اعتراض تھا کہ یہ سیاحت ویزے کے بغیر کیسے ممکن ہوئی ۔
ایم بلال بھی ہمیشہ کی طرح اپنی کسی تحریر ہاتھ میں لیئے نظر آئے کہ بادشاہ کی منظوری کے بعد وہ اس کو محفل کو حصہ بنا سکیں ۔

( مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے )
مار دیا ہنسا ہنسا کر :rollingonthefloor:
 
( پانچویں قسط )

مہمانوں کی آمدو رفت کا سلسلہ جاری تھا ۔ مشیرِ خاص ہاتھ پر بندھی ہوئی گھڑی بار بار دیکھتے ہوئے وزیرِ اعظم کی راہ تک رہے تھے ۔ سلطنت کے اموری کاموں کے علاوہ رعایا سے زیادہ تر رابطے کی ذمہ داری وزیرِ اعظم کی سپرد تھی ۔ مگر فہیم کی اطلاع کے مطابق وہ گھر پر اپنی ہوم منسٹر کے جوڑوں پراستری کرنے میں مشغول تھے ۔ مہمانوں کی آمد و رفت میں قدرے اضافہ ہوچکا تھا ۔ مگر وزیرِ اعظم کی آمد کے آثار ابھی تک نمودار نہیں‌ ہوئے تھے ۔ مہمانوں کی نظریں قنات کے سوراخوں پر جمی ہوئیں تھیں یا پھر طعام کی اس میز پر جہاں خوردو نوشت کا سامان سجایا جانا تھا ۔
اچانک ہی محفل میں محسن حجازی کی آمد ہوئی ۔ وہ حسبِ معمول اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے نظر آئے ۔ وہ سلطنتِ محفل کے اس ادارے سے تعلق رکھتے تھے ۔ جس کے بارے بادشاہ سلامت کا فرمان تھا کہ وہ ایک دن یہ ادارہ ضرور بنائیں گے ۔ ( خدا جانے وہ کونسا ادارہ تھا ) مگر محسن حجازی کی فکری تنہائی کا سدِباب کا تدارک فلحال ممکن نظر نہیں آرہا تھا ۔
آبی ٹوکول اور باذوق بھی ایک ساتھ محفل میں داخل ہوتے نظر آئے ۔ اندورنی اور بیرونی سازشوں کی وجہ سے گو کہ انہوں‌ نے سلطنت ِاردو محفل کے دربار میں حاضری بہت کم کردی تھی ۔ مگر صوبہِ مذہب پر ہونے والی ہر گفتگو پر انہوں نے کڑی نظر رکھی ہوئی تھی ۔ اور جب بھی کوئی روشن خیال اپنی کوئی بات کہنے کی کوشش کرتا ۔ وہ وزیرِ اعظم کو ووٹ نہ دینے کی دھمکی دیکر اس روشن خیال کو پچھلی صفوں‌ میں بھیج دیتے ۔ مجبوراً وزیراعظم کو اس دھاگے پر قفل لگانا پڑ جاتا ۔
فیصل عظیم فیصل بھی کافی دنوں بعد نظر آئے ۔ اردو محفل میں حاضری کے لیئے ان کی ہوم منسٹری کا اجازت نامہ ان کی جیب میں صاف نظر آرہا تھا ۔
کاشفی بھی اپنی کئی بیاضوں سمیت محفل میں داخل ہوئے ۔ مگر اس بار ان کے ہاتھ میں ایک سابق حکمران کے نئی پارٹی میں شمولیت کے لیئے رجسٹریشن کے فارمز بھی نظر آئے ۔
سعود الحسن ، نایاب جی اور ابو کاشان ایک ساتھ داخل ہوئے ۔ معلوم ہوا کہ وہ ڈبل سواری کی پابندی کے باعث ایک ہی موٹر سائیکل پر سوار ہو کر آئے ۔ راستے میں پولیس نے صرف یہ دیکھ کر انہیں چھوڑا کہ وہ ڈبل نہیں ٹرپل تھے ۔
پپو اور چاند بابو بھی اپنے اپنے گلوں میں‌ بستہ ڈالے پنڈال میں داخل ہوئے ۔ لگتا تھا اسکول کی چھٹی کے بعد وہ سیدھا اس سالگرہ کی تقریب میں چلے آئے ہیں ۔
اچانک ہی وزیرِ اعظم عجلت میں بلکہ تقریباً دوڑتے ہوئے آئے ۔ انہیں‌ دیکھ کر مشیر ِ خاص نے سکون کا سانس اندر لینے کے بجائے غلطی سے باہر نکال دیا ۔ جس کہ وجہ سے ان کے پیٹ پر بندھا ہوا پاجامہ ڈھیلا ہوکر رکوع کے حالت میں آگیا ۔ اس سے پہلے پاجامہ سجدے میں جاتا ، مشیرِ خاص نے کمالِ تیزی سے پاجامے کو رکوع سے اٹھا کر دوبارہ قیام کی حالت میں کردیا ۔ اسی حالت میں اپنے دونوں ہاتھوں سے پاجامے کو پکڑے ہوئے مشیر ِ خاص نے کہا ۔ “ جناب ! آپ نے بھی حد کردی ۔ تقریباً سارے مہمان آچکے ہیں ۔ اور آپ کا پتا ہی نہیں ۔ بادشاہ سلامت کسی بھی وقت تشریف لاسکتے ہیں ۔ آپ کو تو ان کے آنےسے پہلے سب کے سامنے تمہید بھی باندھنی ہے ۔ “
وزیرِ اعظم نے ہانپتے ہوئے کہا ۔ “ کیا بتاؤں مشیرِ خاص ۔۔۔ ۔ ہوم منسٹر کا حکم تھا کہ تقریب میں جانے سے پہلے ان کے عید کے جوڑوں پر استری کر جاؤں ۔ بصورتِ دیگر میری لکھی ہوئی وہ تمہید نہیں ملے گی جو مجھے اس تقریب میں پڑھنی ہے ۔ سو اس لیئے دیر ہوئی ۔ مگر تم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پاجامے کو پکڑ کر ٹخنوں تک کیوں اٹھایا ہوا ہے، کیا کہیں بارش ہو رہی ہے ۔ “
“ جناب ۔۔۔ ۔ آپ اس قصے کیوں چھوڑیں ۔ اپنی ذمہ داری سنبھالیں ۔ میں اپنے پجامے میں دائیں بائیں سلائیاں لگوا کر آتا ہوں ۔ “
یہ کہتے ہی مشیرِ خاص یہ جا وہ جا ۔
مہمانوں کی آمد تقریباً مکمل ہوچکی تھی ۔( اگر کوئی مہمان قلم بند ہونے سے رہ گیا ہو تو اس کی پیشگی معافی کے لیئے مورخ خواہستگار رہیگا ) ۔
وزیرِ اعظم نے محکمہ جاسوس کے سربراہ فہیم کو بلایا اور محفل کے انتظامات کے بارے میں پوچھا ۔
“ جناب فکر کی کوئی بات نہیں ۔ میں نے حفظِ ماتقدم کے طور پر کسی بری صورتحال سے نمٹنے کے لیئے ہر کرسی کے نیچے ایک ایک بم نصب کردیا ہے کہ کوئی بھی دہشت گرد اگر یہاں داخل ہو تو اسے دہشت گردی بپا کرنے میں کوئی دقت نہ ہو ۔ “ فہیم نے فخریہ انداز سے وزیرِ اعظم کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
“ ابے ۔۔۔ سٹھیا گیا ہے کیا ۔۔۔ ۔ !!! “ وزیرِ اعظم نے سر پیٹ لیا ۔ “ تو کہیں دہشت گردوں سے تو نہیں ملا ہوا ۔ میں نے تو کہا تھا کہ ایک ایک بم سب سپاہیوں کو دیدینا کہ جب کوئی دہشت گرد یہاں اندر داخل ہونے کی کوشش کرے تو وہ اس کو صدر دروازے پر ہی بم مار کر روک لیں ۔ “
فہیم نے دانت نکال کر سر کجھانا شروع کردیا ۔
“ یا تو تم سر کجھا لو یا پھر دانت نکال لو ۔ تم پر یہ دونوں کام ایک وقت میں اچھے نہیں لگتے ۔ “ وزیرِ اعظم نے برہمی سے کہا ۔ ‘ مگر اب خیال رکھنا کہ کسی مہمان کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی کرسی کے نیچے کیا چھپا ہوا ہے ۔ ورنہ یہاں وہ افراتفری مچے گی کہ ساری تقریب غارت ہوجائے گی ۔ “
“ آپ بے فکر رہیں جناب ۔۔۔ میں ابھی جاکر فرداً فرداَ سب سے کہہ دیتا ہوں کہ آپ لوگوں کی کرسیوں کے نیچے کوئی بم نصب نہیں ہے ۔ “ فہیم نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔
“ ابے ۔۔۔ خاموش ہوجا ۔۔۔ ۔ کسی سے کچھ نہیں کہہ ۔ بس چپ چاپ جاکر ادھر بیٹھ جا ۔ “
وزیرِ اعظم نے عاجزی سے اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔
وزیرِ اعظم نے ناظمِ خاص وارث سے پوچھا “ آپ کے زیرِ نگرانی علاقوں کی کیا صورتحال ہے ؟ ۔ “
ناظم ِ خاص نے سگریٹ کا ایک بھرپور کش لیتے ہوئے قنات کے کسی سوراخ سے دوسری جانب دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
“ مجھ کو نہ اپنا ہوش نہ دنیا کا ہوش ہے
بیٹھا ہوں مست ہوکے تمہارے خیال میں “
“ جناب ۔۔۔ ۔ ہوش میں آجایئے ۔ بادشاہ سلامت ، ضیاءالحق کے دور میں پیدا ہوئے تھے ۔ انہوں نے اُس دور میں کچھ سزاؤں کا نفاذ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ مجھے تو ڈر ہے کہ آپ اور ظفری کی وجہ سے اُن سزاؤں کا اطلاق کہیں یہاں نہ ہوجائے ۔ “
“ دنیا کو علم کیا ہے، زمانے کو کیا خبر
دنیا بھلا چکا ہوں تمہارے خیال میں “
ناظم خاص نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے پھر ایک اور شعر پڑھا ۔
“ میں آپ کے لیئے شاہی معالج افتخار راجہ کو بھیجتا ہوں ۔ مگر خدارا بادشاہ سلامت کے آنے سے پہلے ٹھیک ہوجائیے گا ۔ “
“ ہاں خرم ۔۔۔ تمہارے قصیدہ کہاں تک پہنچا ۔۔۔ کیونکہ آج اگر یہ قصیدہ نہ سنایا گیا تو یقین جانو قیامت آجائے گی ۔ “
وزیرِ اعظم نے شاہی شاعر کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ۔
( سنیئر شاہی شاعر فاتح کی عدم موجودگی کے باعث جونئیر شاہی شاعر خرم جونئیر کو بلا انتخاب دھاندلی سے شاہی شاعر کا درجہ دیدگیا تھا )
“ یہ قیامت کون ہے جناب ۔۔۔ ۔ کچھ ہمیں بھی تو معلوم ہو ‘ شاہی شاعر نے بےقراری سے پوچھا ۔
“ ابے ۔۔۔ ۔ اس قیامت کا تعلق صنفِ نازک سے نہیں ، بلکہ بادشاہ کے جلال سے ہے ۔ “
وزیرِ اعظم نے ایک بار پھر سر پکڑ لیا ۔
“ اوہ ۔۔۔ ۔ سوری جناب ۔ ویسے قصیدہ مکمل ہے ۔ بادشاہ سلامت کے حکم پر پیش کردیا جائے گا ۔ “
“ شاباش ۔۔۔ ۔ “ وزیرِ اعظم نے کہا اور پھر پنڈال میں مہمانوں کی خیریت پوچھنے چکے گئے ۔
مشیر ِ خاص اپنے پاجامے میں سلائیاں لگوا کر واپس آچکے تھے ۔ وزیرِ اعظم مہمانوں سے محو گفتگو تھے ۔ سربراہ محکمہِ جاسوس سب پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے ۔ ناظمِ خاص بدستور قنات کے ڈنڈے سے ٹکے اور ایم اے راجہ کے مصرعے سے مسلسل تکرار کر رہے تھے ۔ “ جو کہا تھا میں نے ، سچ تھا ، جو سنا تھا وہ نہیں تھا ۔ “ ۔
بادشاہ سلامت کی آمد کسی بھی وقت متوقع تھی ۔

( جاری ہے )
قسمے کوئی بندہ ہنستے ہنستے گزر جائے تو آپ پر دفعہ 302 کا پرچہ ہو جائے گا :laughing:
 

آبی ٹوکول

محفلین
لاجواب میں نیری تو آج ہی نطر پڑھی اور ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی اس قدر باریک بینی سے مزاح واوووووو قسم سے مزاہ آگیا لاجواب ظفری بھائی لاجواب ، آپ کی اس ادا کا تو ہمیں علم ہی نہ تھا ، لاجواب ،
لگے رہو یونہی چہکتے مہکتے رہو
 

آبی ٹوکول

محفلین
محترم محمد وارث بھیا کی شئر کردہ غزل کا ایک شعر ذاتی تصرف کے ساتھ محمد وارث بھیا کی نذر۔
دنیا کو علم کیا ہے، زمانے کو کیا خبر
کہاں سگریٹ بجھا چکا ہوں تمہارے خیال میں
 
اف ظالم کی قلم پھر چل پڑی۔ ویسے اس دفعہ پہلے اور آخری پیرا گراف کو چھوڑ کر باقی سارے قدرے پھیکے رہے کیوں کہ ان میں ظفری میاں کے مشہور زمانہ مزاح کی سورشیں کم اور تعارف زیادہ تھا۔ :) :) :)
 
ارے واہ ظفری صاحب! آخری قسط پڑھی ہے، کیا پر لطف لکھا ہے آپ نے!

دیوارِ چین سے دیوارِ برلن تک کے اس سفرنامے کی سابقہ اقساط بھی پڑھنی ہوں گی کہ مزید کچھ فرما سکیں۔
کون جانے تب تک قصہ گو دیوارِ گریہ تک جا پہنچا ہو۔
 

ظفری

لائبریرین
دراصل تعارف پہلے ضروری ہےکہ محلفین کو احساس رہے کہ وہ اس سالگرہ کی تقریب میں شریک ہیں ۔ جب بادشاہ اور دیگر احباب کی تقاریر کا آغاز ہوگا تو مزاح اپنی روایتی انداز میں وہاں ضرور موجود ہوگا ۔ ;)
 
دراصل تعارف پہلے ضروری ہےکہ محلفین کو احساس رہے کہ وہ اس سالگرہ کی تقریب میں شریک ہیں ۔ جب بادشاہ اور دیگر احباب کی تقاریر کا آغاز ہوگا تو مزاح اپنی روایتی انداز میں وہاں ضرور موجود ہوگا ۔ ;)

ہمیں اندازہ ہے۔ وہ تو ہم نے سوچا کہ ایک ناقدانہ تبصرہ بھی ہونا چاہیے۔ ورنہ اس سلسلے کی کوئی ایسی قسط نہ تھی جس کو پڑھ کر پیٹ میں بل نہ پڑ گئے ہوں۔ :) :) :)
 

زبیر مرزا

محفلین
ظفری بھائی سوسنار کی اور ایک لوہار کی آپ آتے ہیں چھاجاتے ہیں اورہمیں خوشی ، حیرت اورانتظار میں مبتلا کرکے غائب ہوجاتے ہیں
چونکادینا اورنت نئے کارنامے سرانجام دے کر آپ پورے امریکہ لگنے لگے :)
پُرانے محفلین یوں تو اب اکثرغائب رہتے ہیں جب آتے ہیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ نیا نودن پُرانا سودن جہانزیب بھائی آئے ایسی شاعری پوسٹ کرگئے کہ پڑھتے رہیں
سردُھنتے رہیں اور ہمیں اُلٹا فون نمبرتھما کر چلتے بنے محب علوی کے بارے میں کیا کہا جائے بہتر نہ ہی کہا جائے اُس نے کون سا پڑھنا ہے یا کوئی جواب دینا ہے
ہاں ظفری بھائی آپ کی شاعری کا تو دل سا مداح ہوں اس لیے کہ مجھے اپنے دل کی آواز لگتی ہے اور اپنے دل کی آواز سب کو ہی اچھی لگتی ہے - آپ نثر اس قدر عمدہ
لکھتے ہیں اس کا اندازہ نہیں تھا اور دیکھ کر جلن ہورہی ہے کہ ہماری دال یہاں بھی نہیں گلے گی اور ہماراشمار کسی قطار میں نہیں ہوگا جی جلانے کو نیرنگ خیال ہی
کیا کم تھے جو ایسے نثرپارے تخلیق کرتے ہیں کے محفل میں وجد وحال کی کفیت پیدا ہوجاتی ہے اس پوت کے پاؤں تو پالنے میں نظر آرہے بڑا ہوکر آپ کی طرح گل کھلائے گا:)
 
ارے واہ۔ وہی اپنے ظفری بھائی اِن ایکشن۔ کیا بات ہے ، وہی چلبلاہٹ وہی شرارت، وہی تحریر کا انوکھا پن جو امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں مٹ سا رہا تھا۔ ہر سال ایک قسط ہی آ رہی تھی اور اب تو محفلیں مایوس ہوچلے تھے کہ شاید ہی کوئی نئی قسط منصہ الشود پر نمودار ہو کہ یکایک اس سوئے ہوئے آتش فشاں میں گُڑر گُڑر ہوئی اور کیا دیکھتے ہیں کہ نہایت لطیف اور پرلطف آتش گیر مادہ نکل کر فضائے بسیط میں تیرنے لگا۔ کہتے ہیں کہ ابھی تو تعارف ہورہا ہے آنے والوں کا۔ بھئی تعارف کا یہ عالم ہے تو تقریب کی آنکھوں دیکھی صورتحال کیا غضب ڈھائے گی۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ ہم منتظر ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ظفری بھائی سوسنار کی اور ایک لوہار کی آپ آتے ہیں چھاجاتے ہیں اورہمیں خوشی ، حیرت اورانتظار میں مبتلا کرکے غائب ہوجاتے ہیں
چونکادینا اورنت نئے کارنامے سرانجام دے کر آپ پورے امریکہ لگنے لگے :)
پُرانے محفلین یوں تو اب اکثرغائب رہتے ہیں جب آتے ہیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ نیا نودن پُرانا سودن جہانزیب بھائی آئے ایسی شاعری پوسٹ کرگئے کہ پڑھتے رہیں
سردُھنتے رہیں اور ہمیں اُلٹا فون نمبرتھما کر چلتے بنے محب علوی کے بارے میں کیا کہا جائے بہتر نہ ہی کہا جائے اُس نے کون سا پڑھنا ہے یا کوئی جواب دینا ہے
ہاں ظفری بھائی آپ کی شاعری کا تو دل سا مداح ہوں اس لیے کہ مجھے اپنے دل کی آواز لگتی ہے اور اپنے دل کی آواز سب کو ہی اچھی لگتی ہے - آپ نثر اس قدر عمدہ
لکھتے ہیں اس کا اندازہ نہیں تھا اور دیکھ کر جلن ہورہی ہے کہ ہماری دال یہاں بھی نہیں گلے گی اور ہماراشمار کسی قطار میں نہیں ہوگا جی جلانے کو نیرنگ خیال ہی
کیا کم تھے جو ایسے نثرپارے تخلیق کرتے ہیں کے محفل میں وجد وحال کی کفیت پیدا ہوجاتی ہے اس پوت کے پاؤں تو پالنے میں نظر آرہے بڑا ہوکر آپ کی طرح گل کھلائے گا:)

یعنی اب ہم کو باتوں باتوں میں جی جلانے کا سامان کرنے والا کہا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ :mad:
 
ظفری بھائی سوسنار کی اور ایک لوہار کی آپ آتے ہیں چھاجاتے ہیں اورہمیں خوشی ، حیرت اورانتظار میں مبتلا کرکے غائب ہوجاتے ہیں
چونکادینا اورنت نئے کارنامے سرانجام دے کر آپ پورے امریکہ لگنے لگے :)
پُرانے محفلین یوں تو اب اکثرغائب رہتے ہیں جب آتے ہیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ نیا نودن پُرانا سودن جہانزیب بھائی آئے ایسی شاعری پوسٹ کرگئے کہ پڑھتے رہیں
سردُھنتے رہیں اور ہمیں اُلٹا فون نمبرتھما کر چلتے بنے محب علوی کے بارے میں کیا کہا جائے بہتر نہ ہی کہا جائے اُس نے کون سا پڑھنا ہے یا کوئی جواب دینا ہے
ہاں ظفری بھائی آپ کی شاعری کا تو دل سا مداح ہوں اس لیے کہ مجھے اپنے دل کی آواز لگتی ہے اور اپنے دل کی آواز سب کو ہی اچھی لگتی ہے - آپ نثر اس قدر عمدہ
لکھتے ہیں اس کا اندازہ نہیں تھا اور دیکھ کر جلن ہورہی ہے کہ ہماری دال یہاں بھی نہیں گلے گی اور ہماراشمار کسی قطار میں نہیں ہوگا جی جلانے کو نیرنگ خیال ہی
کیا کم تھے جو ایسے نثرپارے تخلیق کرتے ہیں کے محفل میں وجد وحال کی کفیت پیدا ہوجاتی ہے اس پوت کے پاؤں تو پالنے میں نظر آرہے بڑا ہوکر آپ کی طرح گل کھلائے گا:)

میں پاکستان جا رہا ہوں ، اس لیے توجہ نہیں دے پا رہا ورنہ ایسا نہیں کہ پڑھ نہیں رہا ۔ گلے بڑھتے ہی نہیں جا رہے زبیر مرزا :)
 
Top