تبصرہ: باکمال بزرگ - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

نیرنگ خیال

لائبریرین
کس بات کا شکریہ ادا کرنا ہے فرحت :)
اگر آپ اجازت دیں تو ایک بار صرف ایک بار یہاں "لو آئے اصحاب کہف" لکھ سکتا ہوں۔۔۔۔۔ :laugh:

یہ تو آپ اندر کی خبر لائی ہیں :)
پروپیگنڈا اور جھوٹی خبروں پر جلد یقین کرکے نقصان مت اٹھائیے۔۔۔:p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اگر میری بات نے آپ کا موڈ خراب کیا ہو تو بطور ازالہ یہ پڑھ لیں
ویٹر: خان صاحب یہ دس روپے ٹپ میری انسلٹ ہے
خان صاحب: تو؟
ویٹر: بیس روپے تو دیں نا!
خان صاحب: نہیں میں تمہاری ڈبل انسلٹ نہیں کر سکتا
:laughing: ٹپ کا شکریہ۔۔۔۔:p
 

محمداحمد

لائبریرین
چونکہ اس سلسلے کی زیادہ تر تحریریں ہم نے "بائی پاس پروکسی" کے ذریعے پڑھی ہیں :grin::p تو خیال آیا کہ یہ پوری لڑی ایک بار "ری - وزٹ" کر لی جائے۔

ماشاءاللہ ۔۔۔۔! طنز و مزاح کے معاملے میں آپ کا قلم اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

اچھا رہتا کہ اگر یہ سب قسطیں الگ الگ لڑی میں ہوتیں یا پھر تبصروں کے لئے الگ دھاگہ ہوتا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
چونکہ اس سلسلے کی زیادہ تر تحریریں ہم نے "بائی پاس پروکسی" کے ذریعے پڑھی ہیں :grin::p تو خیال آیا کہ یہ پوری لڑی ایک بار "ری - وزٹ" کر لی جائے۔

ماشاءاللہ ۔۔۔۔! طنز و مزاح کے معاملے میں آپ کا قلم اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

اچھا رہتا کہ اگر یہ سب قسطیں الگ الگ لڑی میں ہوتیں یا پھر تبصروں کے لئے الگ دھاگہ ہوتا۔
بہت شکریہ احمد بھائی۔ آپ کی بائی پاس پروکسی بہت ہی Solid ہے ویسے۔۔۔ :)

میں سوچ رہا ہوں کہ یہ اور "حکایات" دونوں کے لئے انتظامیہ سے فرمائش داغ دوں۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ:

ہم دوستوں کی مجلس میں ان بزدل ڈاکوؤں اور تایا جی کی دیدہ دلیلی کا بڑا تذکرہ رہا ۔ چند ایک احباب کا خیال تھا کہ بزرگ نے فقط زیب داستاں کے لیے بات بڑھا دی ہے۔ الغرض چاہے کسی کو یقین آیا یا نہیں لیکن سب بزرگ کے انداز گفتگو اور بیان کی چاشنی کے لطف میں کھوئے رہے۔ سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی جب کہرا سرِشام ہی کھیتوں کو اپنے دبیز آنچل میں چھپانے لگا تو ہم سب یار دوست دوبارہ چوپال کا رخ کرنے لگے۔ ایسی ہی ایک شام میں عشاء کے بعد جب سب ایک انگھیٹی جلا کر اس کے گرد بیٹھے ہاتھ تاپ رہے تھے، مجلس یاراں میں مونگ پھلی اور گپ شپ سے دل بہلایا جا رہا تھا کہ اتنے میں بزرگ بھی چوپال میں تشریف لے آئے۔ ہم جوانوں نے فورا ان کے لیے جگہ خالی کی اور ان کو گھیر لیا۔ باتیں چلنی شروع ہوئیں تو گردش زمانہ کے باعث گرانی کا موضوع بھی زیرگفتگو آگیا۔ اس پر بزرگ نے کہا کہ میاں! یہ گرانی اشیاء صرف تمہارے دور کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ ہر دور میں اس کا رونا رہا ہے۔ ہمارے اسلاف ہمیں کہا کرتے تھے کہ اب بہت مہنگائی ہو گئی ہے اور ہم یہ چیزیں ان ان قیمتوں میں خریدا کرتے تھے۔ اور ہماری حیرت دیدنی ہوا کرتی تھی بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے دور میں ضروریات زندگی کی قیمتیں سن کر تمہارے دیدہ حیراں قابل دید ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہے کہ ہمارے دنوں میں یوں نفسا نفسی کا عالم نہ تھا۔ بلکہ ایک دوسرے کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا تھا۔ اس پر دوسرے بزرگ کے چہرے پر بڑی شرارتی سی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ ایک نوجوان فوراً ان کی طرف متوجہ ہو کر بولا۔ لگتا ہے آپ کو اس رضاکارانہ کام سے جڑا کوئی دلچسپ واقعہ یادآگیا ہے۔ تو وہ بزرگ ہنس پڑے۔ اور اس کے بعد انہوں نے پہلے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ مجھے اس کے رضاکارانہ کام سے جڑا ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ یاد آگیا ہے۔ پہلے بزرگ نے خالی نظروں سے انہیں دیکھا تو بزرگ نے اشارہ دینے کو کہا۔ یاد کر! جب وہ گورکن کا کام رضاکارانہ طور پر شروع کیا تھا۔ اس پر پہلے بزرگ قہقہے لگا لگا کر ہنسنا شروع ہوگئے۔ ہم سب کا تجسس بہت بڑھ چلا تھا سو ساری باتیں پس انداز کر کے اس واقعے کو سنانے کیفرمائش شروع کر دی گئی۔اس پر آخرِکار ان بزرگ کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور وہ واقعہ سنانے پر آمادہ ہوگئے۔

یہ واقعہ جو میں تم کو سنانے جا رہا ہوں یہ ہمار ے مکتب کے دور کی یاد ہے۔ میں اور یہ (دوسرے بزرگ کی طرف اشارہ کر تے ہوئے) نہم کلاس کے طلباء تھے۔ پڑھائی میں ہم درمیانے درجے کے تھے لیکن شرارتوں میں ہم اول درجے کے شیطان مشہور تھے۔ ہم دوستوں نے اس شہرت کا تفصیلی جائزہ لیا اور سوچا کہ ایسا کون سا کام کیا جائے جس سے یہ ساری شہرت ہماری نیک نامی میں بدل جائے۔ اس پر ایک نے کہا کہ گاؤں میں جب بھی کوئی فوت ہوجاتا ہے۔ تو قبر کھودنے کا مرحلہ کافی مسئلہ بن جاتا ہے سو اسی سلسلے میں ہم چار دوستوں نے مل کر ایک رضاکارانہ جماعت کی بنیاد رکھی کہ گاؤں میں کوئی بھی فوت ہوگا تو اس کی قبر ہم جا کر کھود آیا کریں گے۔ جب بھی کسی کے فوت ہونے کا اعلان گاؤں کی مسجد سے ہوتا ہم چاروں دوست بیلچہ کدال لے کر قبرستان کا رخ کرتے اور قبر کھود دیا کرتے تھے۔ ہمارے اس کام کو بڑے چھوٹے ہر کسی نے بہت سراہا جب تک یہ واقعہ نہ ہوا تھا۔

ہمارے ریاضی کے استاد بہت محنت اور لگن کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے لیکن تھے بہت سخت گیر۔ کام نہ کرنے پررتی برابر رعایت نہ کرتے اور روئی کی طرح دھنک دیا کرتے تھے۔ تمام طلباء بشمول ہمارے ان سے ڈرتے تھے۔ اور مکتب کے باہر اگر کبھی ان سے سامنا ہوجاتا تو آنکھ بچا کر نکل جانے میں ہی عافیت سمجھا کرتے تھے۔ ایک دن میرا استاد محترم کے گھر کے باہر سے گزرنا ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کہرام سا مچا ہے۔ بہت سے لوگ گھر کے اندر آ جا رہے ہیں۔ میں نے ایک کو روک کر ماجرا پوچھا۔ تو اس نے کہا کہ استاد محترم کی طبیعت بہت خراب ہے۔ شاید ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے۔ یہاں تک رہتا تو بات ٹھیک تھی۔ لیکن اس ظالم نے مجھ سے یہ بھی کہہ دیا کہ میرا خیال ہے اب بچ نہیں پائیں گے۔ میں نے فوراً اپنی رضاکارانہ جماعت کو اکھٹا کیا اور جا کر قبرستان میں ایک قبر کھود ڈالی۔ ادھر جب ہم قبر کھودنے میں مصروف تھے گاؤں کے لوگ کچھ سواری کا بندوبست کر کے استاد محترم کو قریبی ہسپتال لے گئے۔ بروقت طبی امداد نے زندگی بچانے میں مدد کی اور استاد محترم کچھ وقت کے بعد گھر واپس لوٹ آئے۔ ہمارا حال پوچھو تو ایسے کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ پورے گاؤں میں یہ بات پھیل گئی کہ ان چاروں نے تو قبر بھی کھود دی ہے۔ اور وہ تجزیہ نگار عین موقع پر یوں اپنی بات سے پھر گیا جیسے الیکشن جیتنے کے بعد نو منتخب وزیر اعظم پھر جاتا ہے۔ اس کے بعد استاد محترم کافی عرصہ تک حیات رہے لیکن جتنا عرصہ بھی حیات رہے ہم کو ایسی منتقمانہ نگاہوں سے گھورتے رہے جیسے وہ ہماری قبر کھود کر اپنی منتقم حس کی تسکین کا سامان کرنا چاہتے ہوں۔

(جاری ہے)

نوٹ:تبصرہ جات کے لیے علیحدہ لڑی موجود ہے۔

واہ واہ واہ ! (y)

لاجواب ہے۔ :applause::applause::applause:

اچھا کیا جو قبر کھود دی وہ کیا کہا ہے کسی نے کہ "نیکی اور پوچھ پوچھ!" :p:D:p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ واہ واہ ! (y)

لاجواب ہے۔ :applause::applause::applause:

اچھا کیا جو قبر کھود دی وہ کیا کہا ہے کسی نے کہ "نیکی اور پوچھ پوچھ!" :p:D:p
ہاہاہاہاااا۔۔۔۔ قبر کھودنا محاورہ اس کے بعد بنا تھا۔۔۔ :p

ڈھیروں دعائیں ۔۔۔۔سدا خوش رہیں
شکریہ سرکار۔۔۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
بزرگوں کی محفلیں بھی کیا مزے کی ہوتی ہیں۔ آپ نے تو ہمیں بھی اِن محفلوں میں پہنچا دیا ہے۔ بہت ہی دلنشیں اندزِ تحریر۔ اللہ کرے زورِ قلم اور بھی زیادہ!
 
Top