گُلِ یاسمیں
لائبریرین
السلام علیکم
بس جلدی میں یا یوں کہئیے کہ گھائل جسم و دماغ کے ساتھ یہی عنوان سوجھا تو یہی سہی۔ آخر اس بیزاری کو بھی تو اچھے سے رخصت کرنا ہے جو کل سے ہمیں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ لفظ اٹکھیلیاں لکھتے ہوئے ہم کچھ ٹھٹکے بھی اوراٹکے بھی کہ کہیں املا کی غلطی نہ کر دی ہو۔ پھر دل کو تسلی دی کہ کی بھی ہو تو یہاں ہمارے قابلِ احترام محفلین موجود ہیں، اصلاح کر دیں گے۔
کل ارادہ تو یہی تھا کہ افطاری اور نماز وغیرہ کے بعد جب مہمان اپنے گھروں کو رخصت ہو جائیں گے تو ہم اپنی ہنر مندی (جسےسیما علی جی بہت پیارے انداز میں سلیقہ مندی کا نام دیتی ہیں)تصاویر کی شکل میں آپ سے شئیر کریں گے۔ تصویری صورت میں ہی دیکھ کر ذائقہ اور مرچ مسالہ برابر ہونے کا اندازہ کر لیجئے گا۔
انسان جو سوچتا ہے، ویسا تو ہمیشہ نہیں ہوتا نا۔ تقدیر کے آگے سب وعدے ارادے دھرے رہ جاتے ہیں۔ 18 لوگوں کو افطاری کے لئے بلایا تھا۔ ایک دن پہلے کام شروع کیا کہ کھانے کی کچھ تیاری پہلے کر لی جائے۔کل صبح سویرے محفل میں حاضری لگانے کے بعد کچن کا رُخ کیا لیکن اس وقت تک ہمارے ذہن میں ایک بات جڑ پکڑ چکی تھی کہ ہم نے انجانے میں شاید کوئی غلطی کر دی ہے،جس سے کسی کا دل دکھا ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ ہم اپنی حساسیت کے ہاتھوں مجبور بس اسی ایک بات میں پھنس کر رہ گئے۔پھل لانے والا تھا تو مارکیٹ چلے گئے ۔ تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔دکان کے باہر شیڈ بنا کر وہاں پھلوں کے کریٹ رکھے ہوئے تھے۔ ہم وہاں دیکھ ہی رہے تھے کہ کسی نے زور سے آواز لگائی۔ ہم اپنی غائب دماغی کی وجہ سے سے سمجھ ہی نہ پائے کہ یہ پکار ہمیں وہاں سے ہٹانے کے لئے تھی۔ ہمیں ہٹنے میں دیر ہوئی سو ہوئی لیکن لوہے کے راڈ نے ہمارے سر کا نشانہ لینے میں ذرا دیر نہ لگائی۔ اللہ کا شکر کہ ہلکی سی چوٹ کے علاوہ خیر رہی۔ یہی سوچا کہ کچن کے کام تو ہاتھوں سے کرنے ہیں، اس میں سر کا کیا کام، سو خاص پرواہ نہ کی۔البتہ اس خیال نے مزید تقویت پکڑی کہ واقعی ہم سے کسی کی دل آزاری ہو گئی ہے۔اور اس کی سزا مل رہی ہے۔ خیر خریداری کر کے گھر آئے اور پکانے کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں چھوڑ کر گئے تھے۔
گھڑی کی سوئیاں ایک آدھ گھنٹہ ہی آگے سرکی ہوں گی کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو کارپٹ کی ڈلیوری والا آیا تھا۔اس نے کہا کہ آپ کا کارپٹ آ گیا ہےلیکن مدد چاہئیے اسے لانے کے لئے۔ہم اس کی مدد کرنے گئے۔کارپٹ چار میٹر چوڑا اور ساڑھے چار میٹر لمبا تھا جو رول کیا گیا تھا۔ اب کارپٹ کو اس طرح پکڑ کر گیراج سے ہوتے ہوئے ٹیرس پر لے کر آئےکہ ہم الٹا چل رہے تھے اور وہ سیدھا۔ کچن کے سامنے پہنچنے تک تو خیر رہی۔ لیکن اس سے اگلا حصہ 45۔40 سینٹی میٹر اونچا شروع ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی وہاں پہنچے تو بے خیالی میں اس سے ٹکرا گئے۔ہمارے لڑکھڑانے اور کارپٹ ہاتھ سے چھوٹنے کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ سے بھی کارپٹ چھوٹ گیا۔ ہماری طرف والا حصہ بہت سختی سے ہماری کلائی کو کہنی تک اچھے سے رگڑ کر خون آلودہ کرتا ہوا ٹانگوں سے ٹکرایا جس کی وجہ سے ہم توازن برقرار نہ رکھ پائے اور ٹیرس کے اونچے والے حصے پہ گرے۔ یہاں کارپٹ نے پھر سے اپنا کام دکھایا اور بہت بےدردی سے ٹانگوں پہ گرا۔ ساتھ ہی ستون تھا، سر اس سے جا ٹکرایا۔ سر پہ پھر سے لگی تو دن میں تارے نظر آ گئے اور ہم پھسلتے ہوئے ٹیرس کے اونچے حصے کی چوٹ کو کمر پر سہتے ہوئے بالکل اٹھنے یا ہلنے کے قابل نہ رہے۔ ذہن سوچنے کے لحاظ سے ابھی تک کام کر رہا تھا، اس نے دل کو جیسے یقین ہی دلا دیا کہ ہو نہ ہو تمہیں کسی کا دل دکھانے کی سزا مل رہی ہے۔ اور ہمیں بھی یقین آتا جا رہا تھا۔ اس کے بعد ایمبولینس، ہاسپٹل، ڈاکٹر ۔ ایکسرے۔۔کئی گھنٹوں پر محیط رہا یہ سلسلہ۔ البتہ یہ جان کر تسلی ہوئی کہ سب ہڈیاں سلامت ہیں۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ جو زخم اور جھٹکے لگے ہیں۔ میڈیسن اور ریسٹ سے دو ہفتے میں ٹھیک ہو جائیں گے۔
مہمانوں کے آنے سے پہلے ہماری واپسی ہو گئی۔ افطاری میں تھوڑا ٹائم بچا تھا۔ روٹیاں بنانی اور سموسے تلنے باقی تھے بس۔اس کے بعد ہم صوفے سے تکئیے لگائے ہائے ہائے کرتے رہے اور مہمانوں نے اپنی مہمان نوازی خود کی۔ گاہے بگاہے ہم یہ ضرور کہتے رہے کہ کوئی تکلف مت کیجئے گا۔
جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہےہمیں ایک بار پھر اس کی سمجھ آ گئی جب 36 ہاتھوں نے مل جل کر کھانے پہ ہاتھ صاف کرنے کے بعد سارا کچن بھی سنبھالا، ہر چیز جگہ پر رکھی۔ اس طرح کل کا دن کچھ یادیں، کچھ مسکراہٹیں اور بہت سارے درد دے کر رخصت ہوا۔ درد کی شدت ایسی ہےکہ ہر کروٹ پہ آہ نکلتی ہے لیکن دل پُر سکون ہے کہ جس بات کو سوچ سوچ کر ہمارا حشر نشر ہو گیا، ایسا کچھ غلط تو ہم سے ہوا ہی نہیں تھا۔ اللہ کا شکر ہے۔
ہنسنے بولنے کو بہت دل چاہ رہا ہے مگر ہنسنے سے بھی سر میں ٹیسیں اٹھتی ہیں ابھی۔ کل کے گرنے والے واقعہ نے ایسا نقشہ آنکھوں میں بھر دیا ہے کہ جس کے لئے حسرت موہانی بہت پہلے فرما گئے (حسرت موہانی صاحب سے معذرت کے ساتھ)
بس جلدی میں یا یوں کہئیے کہ گھائل جسم و دماغ کے ساتھ یہی عنوان سوجھا تو یہی سہی۔ آخر اس بیزاری کو بھی تو اچھے سے رخصت کرنا ہے جو کل سے ہمیں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ لفظ اٹکھیلیاں لکھتے ہوئے ہم کچھ ٹھٹکے بھی اوراٹکے بھی کہ کہیں املا کی غلطی نہ کر دی ہو۔ پھر دل کو تسلی دی کہ کی بھی ہو تو یہاں ہمارے قابلِ احترام محفلین موجود ہیں، اصلاح کر دیں گے۔
کل ارادہ تو یہی تھا کہ افطاری اور نماز وغیرہ کے بعد جب مہمان اپنے گھروں کو رخصت ہو جائیں گے تو ہم اپنی ہنر مندی (جسےسیما علی جی بہت پیارے انداز میں سلیقہ مندی کا نام دیتی ہیں)تصاویر کی شکل میں آپ سے شئیر کریں گے۔ تصویری صورت میں ہی دیکھ کر ذائقہ اور مرچ مسالہ برابر ہونے کا اندازہ کر لیجئے گا۔
انسان جو سوچتا ہے، ویسا تو ہمیشہ نہیں ہوتا نا۔ تقدیر کے آگے سب وعدے ارادے دھرے رہ جاتے ہیں۔ 18 لوگوں کو افطاری کے لئے بلایا تھا۔ ایک دن پہلے کام شروع کیا کہ کھانے کی کچھ تیاری پہلے کر لی جائے۔کل صبح سویرے محفل میں حاضری لگانے کے بعد کچن کا رُخ کیا لیکن اس وقت تک ہمارے ذہن میں ایک بات جڑ پکڑ چکی تھی کہ ہم نے انجانے میں شاید کوئی غلطی کر دی ہے،جس سے کسی کا دل دکھا ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ ہم اپنی حساسیت کے ہاتھوں مجبور بس اسی ایک بات میں پھنس کر رہ گئے۔پھل لانے والا تھا تو مارکیٹ چلے گئے ۔ تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔دکان کے باہر شیڈ بنا کر وہاں پھلوں کے کریٹ رکھے ہوئے تھے۔ ہم وہاں دیکھ ہی رہے تھے کہ کسی نے زور سے آواز لگائی۔ ہم اپنی غائب دماغی کی وجہ سے سے سمجھ ہی نہ پائے کہ یہ پکار ہمیں وہاں سے ہٹانے کے لئے تھی۔ ہمیں ہٹنے میں دیر ہوئی سو ہوئی لیکن لوہے کے راڈ نے ہمارے سر کا نشانہ لینے میں ذرا دیر نہ لگائی۔ اللہ کا شکر کہ ہلکی سی چوٹ کے علاوہ خیر رہی۔ یہی سوچا کہ کچن کے کام تو ہاتھوں سے کرنے ہیں، اس میں سر کا کیا کام، سو خاص پرواہ نہ کی۔البتہ اس خیال نے مزید تقویت پکڑی کہ واقعی ہم سے کسی کی دل آزاری ہو گئی ہے۔اور اس کی سزا مل رہی ہے۔ خیر خریداری کر کے گھر آئے اور پکانے کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں چھوڑ کر گئے تھے۔
گھڑی کی سوئیاں ایک آدھ گھنٹہ ہی آگے سرکی ہوں گی کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو کارپٹ کی ڈلیوری والا آیا تھا۔اس نے کہا کہ آپ کا کارپٹ آ گیا ہےلیکن مدد چاہئیے اسے لانے کے لئے۔ہم اس کی مدد کرنے گئے۔کارپٹ چار میٹر چوڑا اور ساڑھے چار میٹر لمبا تھا جو رول کیا گیا تھا۔ اب کارپٹ کو اس طرح پکڑ کر گیراج سے ہوتے ہوئے ٹیرس پر لے کر آئےکہ ہم الٹا چل رہے تھے اور وہ سیدھا۔ کچن کے سامنے پہنچنے تک تو خیر رہی۔ لیکن اس سے اگلا حصہ 45۔40 سینٹی میٹر اونچا شروع ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی وہاں پہنچے تو بے خیالی میں اس سے ٹکرا گئے۔ہمارے لڑکھڑانے اور کارپٹ ہاتھ سے چھوٹنے کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ سے بھی کارپٹ چھوٹ گیا۔ ہماری طرف والا حصہ بہت سختی سے ہماری کلائی کو کہنی تک اچھے سے رگڑ کر خون آلودہ کرتا ہوا ٹانگوں سے ٹکرایا جس کی وجہ سے ہم توازن برقرار نہ رکھ پائے اور ٹیرس کے اونچے والے حصے پہ گرے۔ یہاں کارپٹ نے پھر سے اپنا کام دکھایا اور بہت بےدردی سے ٹانگوں پہ گرا۔ ساتھ ہی ستون تھا، سر اس سے جا ٹکرایا۔ سر پہ پھر سے لگی تو دن میں تارے نظر آ گئے اور ہم پھسلتے ہوئے ٹیرس کے اونچے حصے کی چوٹ کو کمر پر سہتے ہوئے بالکل اٹھنے یا ہلنے کے قابل نہ رہے۔ ذہن سوچنے کے لحاظ سے ابھی تک کام کر رہا تھا، اس نے دل کو جیسے یقین ہی دلا دیا کہ ہو نہ ہو تمہیں کسی کا دل دکھانے کی سزا مل رہی ہے۔ اور ہمیں بھی یقین آتا جا رہا تھا۔ اس کے بعد ایمبولینس، ہاسپٹل، ڈاکٹر ۔ ایکسرے۔۔کئی گھنٹوں پر محیط رہا یہ سلسلہ۔ البتہ یہ جان کر تسلی ہوئی کہ سب ہڈیاں سلامت ہیں۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ جو زخم اور جھٹکے لگے ہیں۔ میڈیسن اور ریسٹ سے دو ہفتے میں ٹھیک ہو جائیں گے۔
مہمانوں کے آنے سے پہلے ہماری واپسی ہو گئی۔ افطاری میں تھوڑا ٹائم بچا تھا۔ روٹیاں بنانی اور سموسے تلنے باقی تھے بس۔اس کے بعد ہم صوفے سے تکئیے لگائے ہائے ہائے کرتے رہے اور مہمانوں نے اپنی مہمان نوازی خود کی۔ گاہے بگاہے ہم یہ ضرور کہتے رہے کہ کوئی تکلف مت کیجئے گا۔
جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہےہمیں ایک بار پھر اس کی سمجھ آ گئی جب 36 ہاتھوں نے مل جل کر کھانے پہ ہاتھ صاف کرنے کے بعد سارا کچن بھی سنبھالا، ہر چیز جگہ پر رکھی۔ اس طرح کل کا دن کچھ یادیں، کچھ مسکراہٹیں اور بہت سارے درد دے کر رخصت ہوا۔ درد کی شدت ایسی ہےکہ ہر کروٹ پہ آہ نکلتی ہے لیکن دل پُر سکون ہے کہ جس بات کو سوچ سوچ کر ہمارا حشر نشر ہو گیا، ایسا کچھ غلط تو ہم سے ہوا ہی نہیں تھا۔ اللہ کا شکر ہے۔
ہنسنے بولنے کو بہت دل چاہ رہا ہے مگر ہنسنے سے بھی سر میں ٹیسیں اٹھتی ہیں ابھی۔ کل کے گرنے والے واقعہ نے ایسا نقشہ آنکھوں میں بھر دیا ہے کہ جس کے لئے حسرت موہانی بہت پہلے فرما گئے (حسرت موہانی صاحب سے معذرت کے ساتھ)
آخری تدوین: