عمران خان صاحب اگر عاجزی کا پیکر بن جائیں تو بلاشک و شبہ عوام ان کو اس سے بھی زیادہ پذیرائی دیں گے، اُن کا مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد کو سامنے دیکھ کر خود کو بھٹو سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ عمران خان صاحب ایک ایسے رہنما ہرگز نہیں جو بابصیرت ہوں، وہ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر ضرور ثابت ہو سکتے ہیں لیکن ایک ہجوم کو قوم بنانا ان کے بس کی بات نہیں لگتی ۔۔۔ وہ سب کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے ۔۔۔ پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی خامی ہے ۔۔۔ ان کو چاہیے کہ وہ دوسری پارٹی کے رہنماؤں کے بارے میں سخت الفاظ کہنے سے گریز کریں ۔۔۔ کل کلاں اگر وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو جاتے ہیں تو وہ ان لوگوں کو اہم داخلی و خارجی معاملات کے حوالے سے کیسے اکھٹا کر پائیں گے؟ بڑے شہروں میں ان کو خوب پذیرائی مل رہی ہے لیکن چھوٹے شہروں میں ابھی ان کے نام کا ڈنکا نہیں بج رہا ۔۔۔ شاید اس بار وہ چند سیٹیں جیت جائیں لیکن یہ سیٹیں بھی وہی لوگ جیتیں گے جو پہلے ہی سے جیتتے چلے آ رہے ہیں ۔۔۔ نئے لوگوں کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے ۔۔۔ اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ عمران خان صاحب غیر روایتی انداز میں "روایتی" سیاست ہی کر رہے ہیں ۔۔۔ ان کے پاس بھی کوئی نئی بات نہیں ہے جو عوام کی بڑی اکثریت کو غیر روایتی سیاست کی طرف مائل کر دے۔۔۔ ان کے "پیروکار" سوشل میڈیا پر جس "انقلابی دانش" کا مظاہرہ کرتے ہیں اور خود خان صاحب بھی اپنے جلسوں میں جس طرح دوسرے سیاست دانوں کو "منافق" اور "نورے" کہہ کر پکارتے ہیں، اس سے بھی کافی حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کسی انقلاب کی داغ بیل نہیں ڈال رہی ۔۔۔ یہ محض لاہوری تھیٹر کی طرز کا "انقلاب" ہے۔۔۔ جو کسی سنجیدہ فرد اور گروہ کے لیے قابل قبول نہیں ۔۔۔
عمران خان کی شخصیت میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں اب وہ اینگری ینگ مین نہیں رہے۔
عاجزی کا پیکر بننے کے لئے آپ کے خیال میں اُنہیں کیا کرنا چاہیئے ؟
سادہ لباس پہنتے ہیں، حفاظتی حصار نہیں بنواتے، سادہ چارپائی پر بھی بیٹھ جاتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں اللہ سے مدد مانگتے ہیں
ہجوم کو قوم تو بھٹو صاحب بھی نہیں بنا سکے تھے اس کے لئے تعلیم کی ضرورت ہے اور تعلیم عمران خان کی اولین ترجیہات میں شامل ہے
یہ محض ایک اندازہ ہے کہ وہ چند سیٹیں لے جائیں گے وہ ایک بڑا سرپرائز دے سکتے ہیں۔ میرے خیال میں پرانے لوگوں سے زیادہ نئے لوگوں کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے اندر اور باہر پرانے سیاستدانوں کی شمولیت پر ہی تنقید ہو رہی ہے
وہ روایتی سیاست ہر گز نہیں کر رہے یہ محض الزام ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آصف احمد علی رشید بھٹی اور دیگر کچھ لوگ پارٹی سے علیحدہ نہ ہوتے یہاں وہ روایتی ماحول نہ تھا جس کے یہ لوگ متمنی تھے
جلسوں میں شہباز شریف زرداری کو کیا کیا نہیں کہتے یا دیگر راہنما کیا کیا ڈرامے نہیں کرتے عمران خان اگر دوسروں کی بدعنوانی یا غیر اصولی مفاہمت پر اُنگلی اُٹھاتا ہے تو لوگ بُرا مان جاتے ہیں۔ یعنی بُرے کو بُرا نہ کہو
اب آپ سے ایک سوال ہے سنجیدہ گروہ کے لئے کیسا لیڈر یا جماعت قابلِ قبول ہے کچھ صفات گنوا دیجیے