arifkarim
معطل
مشہور طبیعات اور ہیئت دان اسٹیفن ہاکنگ کی نئی کتاب کی اشاعت سے قبل یہ خبر حیرت انگیز ہے:
اسٹیفن ہاکنگ کے چاہنے والے ہر ملک و قوم و مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کائنات خدا کی تخلیق ہے، یہ ایمان شریعت ابراہیمی ؛ یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں یکساں ہے۔ شاید اسی لئے کسی مذہب سے تعلق رکھنے والا سائنسدان محض اپنے مذہب کی وجہ سے سائنسی مشاہدہ معائنہ سے حاصل شدہ علوم کو آگے نہیں بتلا سکتا۔ جبکہ ایک دہریہ کو ایسا کرنا میں کوئی دقت نہیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس دن سائنس ہمارے بنیادی ایمانوں کو چیلنج کرے گی، اس دن کیا ہم ان دہریوں کے آگے، سائنس کے نام پر گھٹنے ٹیک دیں گے؟
یاد رہے کہ سائنس میں کچھ بھی ’’منتخب‘‘ کرنے کی اجازت نہیں کہ جو میرے ایمان و مرضی کے مطابق ہے اسپر یقین کر لوں اور جو نہیں ہے اسکو رد۔ سائنس مشاہدہ معائنہ سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا سکتی ہے۔ بنیاد محض ظاہری اور قابل قبول اثبوتوں کی ہے۔ اگر آپ اسٹیفن ہاکنگ کی ماضی میں تصنیف شدہ علوم کو قبول کر لیں کہ وہ ہمارے ایمان کو ضرر نہیں پہنچاتے بلکہ الٹا تصدیق کرتے ہیں، جبکہ ساتھ ہی میں جدید علوم کو رد کر دیں کیونکہ وہ ہمارے جدی پشتی علوم کے برخلاف ہیں تو آپ سائنس کے پیچھے نہیں چل سکتے۔
یوں بعد کا رونا بیکار ہے کہ مسلمان سائنس میں آگے کیوں نہ بڑھے، بڑھتے کیسے، انہیں تو مذہبی عقائد پر تنقید کا حق ہی نہیں ہے ۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2010/09/100902_universe_without_god.shtml’تخلیق کائنات میں خدا کی ضرورت نہیں‘
کائنات کی تخلیق کے موجودہ نظریے کو چیلنج کرنے والے ماہر طبعیات پروفیسر ہاکنگ
دنیا کے ایک سرکردہ ماہر طبعیات سٹیون ہاکنگ نے کہا ہے کہ تخلیق کائنات کے لیے کسی خالق کائنات کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
اپنی تازہ تصنیف میں انھوں نے کہا ہے کہ کائنات کی تخلیق میں خدا کے کردار کے بارے میں انھوں نے اپنا نظریہ تبدیل کرلیا ہے۔ اوراب وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’بگ بینگ‘ محض ایک حادثہ یا پہلے سے پائے جانے والے سائنسی یا مذہبی عقائد کے مطابق خدا کے حکم کا نتیجہ نہیں بلکہ کائنات میں موجود طبعی قوانین کا ناگزیر نتیجہ تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ کائنات کا از خود بننا یعنی بلا ارادہ وجود میں آنا ہی یہ دلیل ہے کہ پہلے سے کچھ نہ کچھ موجود تھا۔
سٹیون ہاکنگ اپنی نئی کتاب ’ دی گرینڈ ڈیزائین` میں اپنے نظریے کی دلالت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آفاق میں موجود کشش ثقل کے قانون کے مطابق دنیا بغیر کسی مصمم ارادے یا منصوبے کے وجود میں آسکتی ہے۔
’ آپ سا ئنس کے قوانین کو ’خدا‘ کہہ سکتے ہیں ہاں مگر یہ آپ کا کوئی ایسا خدا نہیں ہوگا جس سے آپ مل سکیں اور سوال کرسکیں۔‘
پروفیسر ہاکنگ
سٹیون ہاکنگ اب کہتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق میں کسی ’ان دیکھے تخلیق کار‘ کا تصور سائنس کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ہا کنگ کا یہ نیا نظریہ نہ صرف ان کے اپنے ہی سابقہ نظریات کی نفی کررہا ہے بلکہ دنیائے طبعیات کے ایک سرکردہ نام سر آئزک نیوٹن کے اس نظریہ کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے کہ کائنا ت لازمی طور پر خدا کی تخلیق تھی کیونکہ یہ کسی بے ترتیب اور منتشر مادے سے وجود میں نہیں آسکتی تھی۔
اس کے برعکس ہا کنگ اب کہتے ہیں کہ دنیا، اس میں ہمارا وجود میں آنا اور ہماری بقا خود ایک ثبوت ہے کہ دنیا حادثتاً نہیں بلکہ کسی شے کے ہونے کا نتیجہ تھی۔
واضح رہے کہ ہاکنگ نے 1988 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’ بریف ہسٹری آف ٹائم‘ میں تخلیق کائنا ت میں خدا کے وجود کو مسترد نہیں کیا تھا بلکہ لکھا تھا کہ دنیا کی وجودیت کو سمجھنے کے لیے ایک ان دیکھے تخلیق کار کا تصور سا ئنسی قوانین سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ کتاب اس برس میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب تھی۔
دنیا طبعی قوانین کے ناگزیر قوانین کا نتیجہ ہے،پروفیسر ہاکنز
گو کہ موجودہ کتاب میں دنیا کے وجود میں آنے کے بارے میں ان کا نظریہ تبدیل ہوا ہے تاہم ہا کنگ خدا کے وجود کے امکانات سے انکاری نہیں بلکہ خدا کے خالق کائنات ہونے کے تصور کو مسترد کرتے ہیں۔
ہاکنگ نے اس سے پہلے ٹیلی وثن پرگفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ آپ سا ئنس کے قوانین کو خدا کہہ سکتے ہیں مگر یہ آپ کا کوئی ایسا خدا نہیں ہوگا جس سے آپ مل سکیں اور سوال کرسکیں۔‘
ہاکنگ نے یہ کتاب امریکہ کے ماہر طبعیات لیونارڈ ملاڈینو کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔
یہ کتاب قسط وار ’ٹائمز` روزنامے میں میں شائع ہورہی ہے۔
سٹیون ہاکنگ گزشتہ برس تک کیمرج یونیورسٹی میں شعبہ ’علم ریاضی‘ کے سربراہ تھے یہ عہدہ اس سے پہلے سر ائزک نیوٹن کے پاس تھا۔
اسٹیفن ہاکنگ کے چاہنے والے ہر ملک و قوم و مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کائنات خدا کی تخلیق ہے، یہ ایمان شریعت ابراہیمی ؛ یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں یکساں ہے۔ شاید اسی لئے کسی مذہب سے تعلق رکھنے والا سائنسدان محض اپنے مذہب کی وجہ سے سائنسی مشاہدہ معائنہ سے حاصل شدہ علوم کو آگے نہیں بتلا سکتا۔ جبکہ ایک دہریہ کو ایسا کرنا میں کوئی دقت نہیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس دن سائنس ہمارے بنیادی ایمانوں کو چیلنج کرے گی، اس دن کیا ہم ان دہریوں کے آگے، سائنس کے نام پر گھٹنے ٹیک دیں گے؟
یاد رہے کہ سائنس میں کچھ بھی ’’منتخب‘‘ کرنے کی اجازت نہیں کہ جو میرے ایمان و مرضی کے مطابق ہے اسپر یقین کر لوں اور جو نہیں ہے اسکو رد۔ سائنس مشاہدہ معائنہ سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا سکتی ہے۔ بنیاد محض ظاہری اور قابل قبول اثبوتوں کی ہے۔ اگر آپ اسٹیفن ہاکنگ کی ماضی میں تصنیف شدہ علوم کو قبول کر لیں کہ وہ ہمارے ایمان کو ضرر نہیں پہنچاتے بلکہ الٹا تصدیق کرتے ہیں، جبکہ ساتھ ہی میں جدید علوم کو رد کر دیں کیونکہ وہ ہمارے جدی پشتی علوم کے برخلاف ہیں تو آپ سائنس کے پیچھے نہیں چل سکتے۔
یوں بعد کا رونا بیکار ہے کہ مسلمان سائنس میں آگے کیوں نہ بڑھے، بڑھتے کیسے، انہیں تو مذہبی عقائد پر تنقید کا حق ہی نہیں ہے ۔