تذکرہ : نامور مصنف " محی الدین نواب " کا ۔۔۔۔۔

نیرنگ خیال

لائبریرین
میرا ای میل ایڈریس تو پتہ ہے نا آپ کو؟ پھر بھی اتنا تکلف کیوں؟
دیوتا تو دیکھوں گا قیصرانی بھائی؛ پتہ نہیں موجود ہے یا نہیں۔ لیکن اس وقت ایمان کا سفر پڑی ہے 21 ایم-بی پر۔۔۔۔۔ کوالٹی بھی ٹھیک ہے۔ اس میں سدا سہاگن ، آئینہ خانہ ، چور رشتہ، میٹھا زہر بھی شامل ہیں۔ وہ حکم کریں تو بھیج دیتا ہوں۔ :)
 

قیصرانی

لائبریرین
دیوتا تو دیکھوں گا قیصرانی بھائی؛ پتہ نہیں موجود ہے یا نہیں۔ لیکن اس وقت ایمان کا سفر پڑی ہے 21 ایم-بی پر۔۔۔ ۔۔ کوالٹی بھی ٹھیک ہے۔ اس میں سدا سہاگن ، آئینہ خانہ ، چور رشتہ، میٹھا زہر بھی شامل ہیں۔ وہ حکم کریں تو بھیج دیتا ہوں۔ :)
محفل پر کھلے عام اس طرح کا لین دین ممنوع ہے جناب۔ ای میل کون چیک کرتا ہے کہ کس نے کس کو کیا بھیجا :)
 

دوست

محفلین
یہ اسکین کر کے اپلوڈ کرنے کی بھی اچھی رہی۔ ایک فورم پر ہر مہینے کے شمارے اسکین کر کے اپلوڈ کیے جاتے ہیں مقبول رسالوں کے۔ اس دن کمپیوٹنگ والے امانت علی گلہ کر رہے تھے دیکھو یار یہ کیا ہو رہا ہے ہم نے کیا کمانا ہے۔ میں نے جائزہ لیا تو سارے فورم کا یہی کام نظر آیا، یہی مشورہ دے سکا کہ بھائی ہوئیز سے پتا لو اور ایک کاپی رائٹ لیگل نوٹس بھجوا دو۔ امید ہے باز آ جائیں گے۔
 

باذوق

محفلین
موجود ہے بھائی۔لیکن چونکہ زیادہ تر حصوں کی کوالٹی اتنی اچھی نہیں تھی اس لیے آج کل دوبارہ ڈاؤن لوڈ کر رہا ہوں پاکستانی پوائنٹ سے۔اب تک وہاں 12 حصے اسکین شدہ اپلوڈ ہو چکے ہیں۔
ذرا میرے ایمیل پر بھی قیصرانی بھائی والا میل کاپی کر دیں :) شکریہ
اور ہاں ۔۔۔ ایک اور مشہور افسانہ ہے نواب صاحب کا ، عنوان ہے "سدا سہاگن" ۔۔۔۔ مجھے اس وقت اس کی ضرورت اس لیے ہے کہ میرے ایک واقفکار کو اپنے ایک تحقیقی مقالے میں اس کے اقتباسات دینے ہیں۔ اگر آپ کے پاس موجود ہو تو ایمیل کر دیں ، نوازش ہوگی۔
 
ذرا میرے ایمیل پر بھی قیصرانی بھائی والا میل کاپی کر دیں :) شکریہ
اور ہاں ۔۔۔ ایک اور مشہور افسانہ ہے نواب صاحب کا ، عنوان ہے "سدا سہاگن" ۔۔۔ ۔ مجھے اس وقت اس کی ضرورت اس لیے ہے کہ میرے ایک واقفکار کو اپنے ایک تحقیقی مقالے میں اس کے اقتباسات دینے ہیں۔ اگر آپ کے پاس موجود ہو تو ایمیل کر دیں ، نوازش ہوگی۔
ضرور۔ابھی لیجیے۔میں آپ کو قیصرانی بھائی والے مکالمے میں ٹیگ کر دیتا ہوں۔آپ وہاں سے لے لیجیے۔سدا سہاگن،نواب صاحب کی کتاب ایمان کا سفر میں ہے۔اس کا لنک ڈھنڈنے میں کچھ وقت لگے گا۔پھر میں وہ بھی اسی مکالمے میں شامل کر دوں گا۔
 

تعمیر

محفلین
نواب صاحب کی جو چند تخلیقات میری نظروں سے گزری ہیں ان میں سے بیشتر ماہنامہ ہما میں شائع شدہ ہیں۔ مثلاً

بھئی میں تو نواب صاحب کے مداحوں میں سے ہوں۔ اردو دنیا کا طویل ترین ناول دیوتا کا تو صرف اشتہار ہی دیکھ سکا ہوں اب تک کبھی اتفاق نہیں ہوا پڑھنے کا۔ ویسے سماج کا کڑوا سچ نچوڑ کر صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کا فن تو کوئی موصوف سے سیکھے۔
ہندوستان ٹائمز کے شمس عدنان علوی کی ایک دلچسپ تحریر :
Legend in Lifetime: Magical Urdu storyteller Mohiuddin Nawab wants his stories to be translated in English and Hindi
(C) By INDSCRIBE

http://www.anindianmuslim.com/2014/02/legend-in-lifetime-magical-urdu.html
 

شیزان

لائبریرین
میرے پسندیدہ رائٹرز میں سے ایک محی الدین نواب ہیں۔
ان کی تحریر کی روانی، بےساختگی سیدھا دل پر اثر کرتی ہے۔۔ دیوتا جو ان کی پہچان بنا۔۔سے ہٹ کر ان کی دیگر کہانیاں بہت ہی دل چھو لینے والی ہیں۔
لڑکپن سے ان کی تحاریر کے فین ہیں اور ابھی بھی ان کی تحریر مل جائے تو سب سے سے پہلے اسے پڑھتا ہوں۔ کیا انداز ہے صاحب۔
 

ساقی۔

محفلین
نواب صاحب کی تحریر کا اسٹائل وکھرا قسم کا ہی ہے ۔ بندے کو قابو کے کے باندھ لیتا ہے ۔ میں نے دیوتا اتنا پڑھا اتنا پڑھا کہ ایک وقت تھا دیوتا ہی میرا اوڑنا بچھونا بن گیا تھا۔ مجھے اپنا ہوش نہیں ہوتا تھا ۔ دیوتا کا ایک ایک حصہ کبھی کبھی تو میں دو دن کے اندر ختم کر جایا کرتا تھا بغیر ڈکار لیے۔ ۔ ۔ قصہ مختصر۔۔۔۔ نواب صاحب آج بھی میرے پسندیدہ مصنف ہیں ۔ لائبریرمیں شاید ہی کوئی کتاب ہو ان کی جو میں نے نہ پڑھیی ہو۔


فروری 2013 میں اردو ڈائجسٹ میں محی الدین نواب کا انٹر ویو شائع ہوا تھا ۔آپ حضرات کی دلچسپی کی بنا پر یہاں دے رہا ہوں ۔



محی الدین نواب کہتے ہیں
mohi-u-din-nawab1-300x336.jpg

س:اپنی اولین زندگی کے بارے کچھ بتائیے؟

ج: میں ۴ ستمبر ۱۹۳۰ء کو بنگال کے شہر کھڑگ پور میں پیدا ہوا۔ نسلی طور پر ہم بنگالی ہیں، مگر اُردو بولنے والے بنگالی۔ میرے دادا مصور تھے اور والد ریلوے میں انٹیریئر ڈیکوریٹر ۔ وہ بھی کمال کے فن کار تھے۔ ریل میں جب کسی راجا، مہاراجا، وائسرائے گورنر یا اور بڑی شخصیت وغیرہ نے سفر کرنا ہوتا تو انھیں مامور کر دیا جاتا۔ وہ ریل کا ایک ڈبا سجاتے اوراُسے متعدد ایسی سفری سہولیات سے مزین کرتے جو ریل میں میسر نہ ہوتیں۔ میرے والد نے ایک بار ریل کا نام ’’انڈین ریلوے‘‘ دو شفاف شیشوں کے اندر نقش کر کے انھیں آپس میں یوں جوڑا کہ ایک ہی شیشہ بن گیا۔ یہ شیشہ پھر ایک اے کلاس ڈبے کی کھڑکی میں جوڑا گیا۔ اس شیشے کا بڑا ڈنکا بجا ،مگر کوشش کے باوجود میں کوئی اور ایسا شیشہ تیار نہ کر سکا۔

س:گویا مصوری اور ہنر مندی آپ کو میراث میں ملی، ایسی میراث کے حامل انسان کا بچپن کیسا رہا؟

ج:معصوم رہا۔ تعلیم حاصل کرنا، کھیلنا کودنا، کھانا پینا اور پھر لمبی تان کے سو جانا۔ میں شرارتی ہرگز نہیں تھا بلکہ دوسرے بچوں کی شرارتوں کا نشانہ بنتا۔ وہ بڑا سنہرا دور تھا،نہ جانے کہاں جا چھپا؟ تب ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی بڑی خوشیاں پاتے تھے۔ ایک بار میں شام کو گھر پہ تھا کہ میرے سنگی ساتھی مجھے کھیل کے لیے بلانے آئے۔ انھوں نے آواز دی ’’نواب!‘‘ میری والدہ ناراض ہوئی، انھوں نے بچوں سے کہا کہ آپ اسے’’ نواب صاحب‘‘ کہہ کر کیوں نہیں پکارتے؟

س: لڑکپن میں تو سنا ہے کہ آپ کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے؟

ج: روس میں انقلاب برپا ہو چکا تھا اور کمیونزم برصغیر میں سخت یلغار کر رہا تھا۔ میں بھی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گیا کہ وسائل کی مساوی تقسیم اور سرمایہ داری کی بیخ کنی ہی میںانسان کی بقا ہے۔ تاہم میری واپسی جلد ہو گئی کہ میری تعلیمات میں دینِ اسلام بہت راسخ ہے۔ اسلام نے جب آجر اور اجیر، مالک اور ملازم کے رشتوں کے حقوق و فرائض بیان کیے تو صاف ظاہر ہے کہ وسائل کی ناہمواری بھی سماجی بقا کا حصہ ہے۔

س: آپ کے دوستوں میں دیگر مذاہب کے لوگ شامل تھے؟

ج: بالکل تھے۔ وہاں مسلم، ہندو، عیسائی اور بدھ مت کی کھچڑی پکی ہوئی تھی۔ غیر مسلم ہمارے ساتھ نماز عید ادا کرتے۔ میں ان کے مندروں ،گرجا گھروں میں جاتا رہا۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہ ہمارے ساتھ رکوع و سجود کرتے تھے مگر میں ان کی عبادت گاہ میں خاموش کھڑا ہو کر لوٹ آتا۔ پھر میں نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔ تب تقسیمِ ہند ہو گئی اور بنگال کا وہ حصہ جس میں ہم مقیم تھے، بھارت کے حصے میں آیا۔ سو ہمیں وہاں سے بے سروسامانی کے عالم میں نکلنا پڑا۔ ہم آگ اور خون کے دریا میں تیر کر مشرقی پاکستان چلے گئے۔ میں ۲۰ سال کا تھا کہ میری پیاری والدہ انتقال کر گئیں۔ میری شادی بھی جلد ہو گئی تھی۔ اب تو اکثر نوجوان ۳۰ سال یا اس سے زیادہ عمر میں بیاہے جاتے ہیں۔میرے وہ جگری یار اسی بنگال میں کھو گئے، مجھے ان کے بارے کچھ معلوم نہیں۔

س: قلم کب اور کیوں کر سنبھالا؟

ج: قلم سنبھالنے کی وجہ ایک تو بنگالی خون تھا۔ بنگال بڑا فن پرور علاقہ ہے۔ بنگالی نسل بڑی ذہین اور آرٹ کی عاشق ہے۔ دوسری وجہ ہمارے آباء میں فن ایک میراث تھا۔ تیسری وجہ ادب سے میری دل چسپی تھی۔ میں کئی زبانیں جانتا ہوں۔ اُردو میں نے گھر سے سیکھی، فارسی اور عربی مسجد سے، پھر سکول گیا تو ہندی اور انگریزی سے آشنا ہوا۔ تقسیمِ ہند کے بعد خالص بنگالی علاقے میں جا کر بنگلا بھاشا بھی سیکھی۔ یوں میں بھانت بھانت کا ادب پڑھتا رہا۔ کرشن چندر، منٹو، پریم چند اور اگاتھا کرسٹی پھر… ٹیگور، قاسمی، اقبال اور غالب… تب عمر خیام، ایچ جی ویلز اور اوہنری۔ ادب نے مجھے لکھنے کی طرف راغب کیا۔

س: پہلی تحریر کا معاوضہ کتنا ملا تھا اور اب کتنا ہے؟

ج: کراچی کے بڑے رسالے ’’رومان‘‘میں چھپنے والی پہلی تحریر تھی: ’’ایک دیوار، ایک شگاف‘‘۔ افسوس یہ میرے پاس موجود نہیں۔ اگر کسی کے پاس ہو تومیں معاوضہ دے کر بھی خریدنے کو تیار ہوں۔ اس کا معاوضہ ۶۰ روپے تھا۔ اس دور میں بکرے کا اچھا گوشت چار آنے کلو تھا۔ اب بکرے کا اچھا گوشت ۶۰۰ روپے کلو ہے۔گویا آج کے ۲۰ ہزار روپے ادا کیے گئے تھے۔ اس وقت میں ۲۳ برس کا تھا۔ اب میں ناول کا فی قسط معاوضہ ۴۰ ہزار روپے اور داستان کا ۵۰ ہزار روپے وصول کرتا ہوں۔ پھر یہ کتابی شکل میں چھپتے ہیں تو ناشر سے ۱۰ سالہ معاہدہ مزید کرتا ہوں۔

س: آپ نے کرشن چندر کو بہت پڑھا؟

ج:کرشن چندر کے فن میں گہرائی بہت ہے۔ زرگائوں کی رانی، شکست، کالو بھنگی، جوتا، کارا سورج، اُلٹا درخت…کرشن کو میں کئی ناول اور افسانہ نگاروں پر فوقیت دیتا ہوں۔ نمبر ون اور ٹو والا معاملہ فلمی لڑکیوں جیسا ہے، اسے چھوڑ دیں۔

س: بنگال میں اپنی سرگرمیوں کے متعلق کچھ بتائیں۔ کیاکِیا؟

ج: میں وہاں لکھتا بھی رہا اور فلمی صنعت میں ملازم بھی رہا۔ یوں مجھے لکھنے اور فلم ڈائریکشن سیکھنے کا موقع ملا۔ میںنے وہاں دو فلمیں لکھی تھیں:’’جنم جنم کی پیاسی‘‘ اور ’’باون پتے‘‘۔ بنگال میں حالات بگڑ رہے تھے وہاں، اُردو جرم بن رہی تھی۔ میں نے آخر کار لاہور آنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں ۱۹۷۰ء میں فلم سٹار دیبا کی مدد سے، ہوائی جہاز میں ڈھاکے سے لاہور آ گیا۔ وہاں اس وقت ۱۹۴۷ء سے بھی بدتر حالات تھے۔ دیبا نے مجھے بہت دلاسا دیا۔ میں دیباخانم کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے میری دامے، درمے قدمے، سُخنے بہت مدد کی۔ ۱۹۷۱ء میں سقوطِ بنگال کے وقت میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے بہت پریشان تھا۔ میں لاہور میں تھا اور وہ بنگال میں تھے، میں روز گار کی وجہ سے مجبور تھا۔ اہلِ خانہ بھی آخر کار لاہور آ گئے۔ میں نے بڑا کڑا وقت گزارا۔ بڑے رسالے نئے ادیب کو کس طرح قبول کرتے ہیں، سب لوگ جانتے ہیں۔ تب میں نے ’’دیبا خانم‘‘ کے نام سے بہت سے ناول لکھے اور بہت مقبول ہوئے۔ ابنِ صفی کے کرداروں پر ’’عمران بٹا عمران‘‘ بھی لکھا جو اچھا رہا۔ -

ماحذ
 

جیہ

لائبریرین
محی الدین نواب صاحب پاکستان کے پاپولر ادب یا یوں کہیں کہ ڈائجسٹی ادب میں ایک بہت بڑا نام ہے۔ میں نے ان کو اتنا تو نہیں پڑھا البتہ سسپنس ڈائجسٹ میں چھپنے والے ان کے سلسلے وار کہانی "دیوتا" کو کافی حد تک پڑھا ہے۔ اس کے علاوہ اسی ڈائجسٹ کے آخری صفحات میں چھپنے والی چند کہانیاں بھی پڑھی ہیں۔ ان کا ناول آدھا چہرہ پڑھنا شروع کیا تھا مگر وائے مصروفیت کہ پورا ابھی تک نہ پڑھ سکی۔

نواب صاحب ایک منفرد سٹائل اور اسلوب کے مالک ہیں ایک پیرا پڑھ کر کوئی بھی آسانی سے جان سکتا ہے کہ یہ محی الدین نواب کا لکھا ہے۔ مگر بعض اوقات ان کے تحاریر کو پڑھ کر کوفت بھی ہوتی ہے ۔ وجہ اس کی غیر ضروری تفصیل ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ بچوں کا کلاس لے رہے ہوں۔ مگر بحیثیت مجموعی ان کو پڑھنا اچھا لگتا ہے۔

نواب صاحب کے بارے میں میری معلومات مجھے اپنے والد صاحب سے ملی ہیں۔ ان کی زبانی ہی لکھ لیتی ہوں۔

نواب صاحب سے میری صرف تین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ دمے کے مرض اور کراچی کے آلودگی کی وجہ سے ، جس سے اب کی تکلیف بڑھ جاتی ہے، وہ 4سالوں سے سوات میں گرمیاں گزارنے آتے ہیں۔ مئی سے ستمبر تک مگر افسوس سوات کے حالات کی وجہ سے شاید وہ اب یہاں کبھی نہ آ سکے۔
میری ان سے پہلی ملاقات جون 2005 میں فضل ربی راہی کے دکان پر ہوئی، جہاں اتوار کے دن آتے تھے اپنی دو بھتیجیوں یا شاید بانجھیوں کے ساتھ۔ ان کے ساتھ پہلی ملاقات نہایت دلچسپ رہی اور ہم نے گھنٹوں مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی ۔ یہ سن کر وہ بہت حیران ہوئے کہ میں نے دیوتا کے اولین قسط سے لے کر 2004 تک کے سارے قسطیں پڑھیں ہیں۔
ان سے دوسری ملاقات اس سے بھی دلچسپ رہی ، جب ہم ایک ساتھ سوات کے سیاحتی مقام مالم جبہ سیر کرنے گیے اور رات گیے واپس آئے تھے۔ اس ملاقات میں ان کی نجی زندگی کے بارے کافی جاننے کو ملا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ "دیوتا" کے ہیرو نے کیوں اتنی شادیاں کی ہیں؟ تو ہنس کے بولے "کیوں کہ میں نے بھی چار شادیاں کی ہیں" اور بھی بہت کچھ انہوں نے اپنے بارے میں بتایا مگر وہ آف دی ریکارڈ باتیں ہیں، یہاں ظاہر کرنا اچھا نہیں ہوگا۔
آخری ملاقات ان سے جولائی 2007 میں ہوئی ۔ پچھلے سال کسی مجبوری سے وہ ستمبر تک ٹھہر نہ سکے اور جلد ہی کراچی واپس چلے گیے۔ اب پتہ نہیں کہ ان سے ملاقات ہو کہ نہ ہو۔۔۔ ۔آخری ملاقات میں ان سے پتہ چلا تھا کہ انہوں نے "دیوتا" کے کتابی سلسلے "گینیس بک آف ورلڈ ریکارڈز" کے لیے بجھوائے تھے مگر چونکہ (بقول نواب صاحب) اس میں یہودیوں اور امریکیوں کے خلاف کافی مواد تھا اس وجہ سے "دیوتا" کو شامل کرنے سے انکار کیا گیا۔ نواب صاحب چاہتے تھے کہ دیوتا کو کسی سے انگریزی میں ترجمہ کراکے گینیس بک کے لیے بھیجا جائے، اس سلسلے میں ہمارے ایک جاننے والے عنایت اللہ عامر سے ان کی بات ہوئی تھی مگر ایک قسط ترجمہ کرنے کے بعد ہار مان گیے اور یوں یہ بیل منڈھے چڑھ نہ سکی۔
افسوس کہ نواب صاحب کا سوات انا 2007 سے موقوف ہے.
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
لوگ دوسری تصانیف کا سرقہ لگاتے ہیں۔ نواب صاحب کا کمال دیکھیے۔ کہ انھوں نے اپنے ایک ناول میں ایک غیر معروف بھارتی فلم "جنگل" کا سرقہ لگا ڈالا۔:applause:
 

عثمان

محفلین
گویا کسی فلم کے کردار اور اس کو درپیش حالات کو ا پنے ناول میں ہوبہو بیان کردیا جائے تو وہ سرقہ نہیں؟ بہت خوب!
ناول کا نام یاد نہیں ورنہ آپ کے گوش گذار ضرور کرتا۔ :)
ناول کا نام بتائیے ہو سکتا ہے فلم کے ڈائریکٹر نے چوری کی ہو ناول پہلے لکھی گئی ہو ۔۔۔۔۔
 
Top