نواب صاحب کی تحریر کا اسٹائل وکھرا قسم کا ہی ہے ۔ بندے کو قابو کے کے باندھ لیتا ہے ۔ میں نے دیوتا اتنا پڑھا اتنا پڑھا کہ ایک وقت تھا دیوتا ہی میرا اوڑنا بچھونا بن گیا تھا۔ مجھے اپنا ہوش نہیں ہوتا تھا ۔ دیوتا کا ایک ایک حصہ کبھی کبھی تو میں دو دن کے اندر ختم کر جایا کرتا تھا بغیر ڈکار لیے۔ ۔ ۔ قصہ مختصر۔۔۔۔ نواب صاحب آج بھی میرے پسندیدہ مصنف ہیں ۔ لائبریرمیں شاید ہی کوئی کتاب ہو ان کی جو میں نے نہ پڑھیی ہو۔
فروری 2013 میں اردو ڈائجسٹ میں محی الدین نواب کا انٹر ویو شائع ہوا تھا ۔آپ حضرات کی دلچسپی کی بنا پر یہاں دے رہا ہوں ۔
س:اپنی اولین زندگی کے بارے کچھ بتائیے؟
ج: میں ۴ ستمبر ۱۹۳۰ء کو بنگال کے شہر کھڑگ پور میں پیدا ہوا۔ نسلی طور پر ہم بنگالی ہیں، مگر اُردو بولنے والے بنگالی۔ میرے دادا مصور تھے اور والد ریلوے میں انٹیریئر ڈیکوریٹر ۔ وہ بھی کمال کے فن کار تھے۔ ریل میں جب کسی راجا، مہاراجا، وائسرائے گورنر یا اور بڑی شخصیت وغیرہ نے سفر کرنا ہوتا تو انھیں مامور کر دیا جاتا۔ وہ ریل کا ایک ڈبا سجاتے اوراُسے متعدد ایسی سفری سہولیات سے مزین کرتے جو ریل میں میسر نہ ہوتیں۔ میرے والد نے ایک بار ریل کا نام ’’انڈین ریلوے‘‘ دو شفاف شیشوں کے اندر نقش کر کے انھیں آپس میں یوں جوڑا کہ ایک ہی شیشہ بن گیا۔ یہ شیشہ پھر ایک اے کلاس ڈبے کی کھڑکی میں جوڑا گیا۔ اس شیشے کا بڑا ڈنکا بجا ،مگر کوشش کے باوجود میں کوئی اور ایسا شیشہ تیار نہ کر سکا۔
س:گویا مصوری اور ہنر مندی آپ کو میراث میں ملی، ایسی میراث کے حامل انسان کا بچپن کیسا رہا؟
ج:معصوم رہا۔ تعلیم حاصل کرنا، کھیلنا کودنا، کھانا پینا اور پھر لمبی تان کے سو جانا۔ میں شرارتی ہرگز نہیں تھا بلکہ دوسرے بچوں کی شرارتوں کا نشانہ بنتا۔ وہ بڑا سنہرا دور تھا،نہ جانے کہاں جا چھپا؟ تب ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی بڑی خوشیاں پاتے تھے۔ ایک بار میں شام کو گھر پہ تھا کہ میرے سنگی ساتھی مجھے کھیل کے لیے بلانے آئے۔ انھوں نے آواز دی ’’نواب!‘‘ میری والدہ ناراض ہوئی، انھوں نے بچوں سے کہا کہ آپ اسے’’ نواب صاحب‘‘ کہہ کر کیوں نہیں پکارتے؟
س: لڑکپن میں تو سنا ہے کہ آپ کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے؟
ج: روس میں انقلاب برپا ہو چکا تھا اور کمیونزم برصغیر میں سخت یلغار کر رہا تھا۔ میں بھی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گیا کہ وسائل کی مساوی تقسیم اور سرمایہ داری کی بیخ کنی ہی میںانسان کی بقا ہے۔ تاہم میری واپسی جلد ہو گئی کہ میری تعلیمات میں دینِ اسلام بہت راسخ ہے۔ اسلام نے جب آجر اور اجیر، مالک اور ملازم کے رشتوں کے حقوق و فرائض بیان کیے تو صاف ظاہر ہے کہ وسائل کی ناہمواری بھی سماجی بقا کا حصہ ہے۔
س: آپ کے دوستوں میں دیگر مذاہب کے لوگ شامل تھے؟
ج: بالکل تھے۔ وہاں مسلم، ہندو، عیسائی اور بدھ مت کی کھچڑی پکی ہوئی تھی۔ غیر مسلم ہمارے ساتھ نماز عید ادا کرتے۔ میں ان کے مندروں ،گرجا گھروں میں جاتا رہا۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہ ہمارے ساتھ رکوع و سجود کرتے تھے مگر میں ان کی عبادت گاہ میں خاموش کھڑا ہو کر لوٹ آتا۔ پھر میں نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔ تب تقسیمِ ہند ہو گئی اور بنگال کا وہ حصہ جس میں ہم مقیم تھے، بھارت کے حصے میں آیا۔ سو ہمیں وہاں سے بے سروسامانی کے عالم میں نکلنا پڑا۔ ہم آگ اور خون کے دریا میں تیر کر مشرقی پاکستان چلے گئے۔ میں ۲۰ سال کا تھا کہ میری پیاری والدہ انتقال کر گئیں۔ میری شادی بھی جلد ہو گئی تھی۔ اب تو اکثر نوجوان ۳۰ سال یا اس سے زیادہ عمر میں بیاہے جاتے ہیں۔میرے وہ جگری یار اسی بنگال میں کھو گئے، مجھے ان کے بارے کچھ معلوم نہیں۔
س: قلم کب اور کیوں کر سنبھالا؟
ج: قلم سنبھالنے کی وجہ ایک تو بنگالی خون تھا۔ بنگال بڑا فن پرور علاقہ ہے۔ بنگالی نسل بڑی ذہین اور آرٹ کی عاشق ہے۔ دوسری وجہ ہمارے آباء میں فن ایک میراث تھا۔ تیسری وجہ ادب سے میری دل چسپی تھی۔ میں کئی زبانیں جانتا ہوں۔ اُردو میں نے گھر سے سیکھی، فارسی اور عربی مسجد سے، پھر سکول گیا تو ہندی اور انگریزی سے آشنا ہوا۔ تقسیمِ ہند کے بعد خالص بنگالی علاقے میں جا کر بنگلا بھاشا بھی سیکھی۔ یوں میں بھانت بھانت کا ادب پڑھتا رہا۔ کرشن چندر، منٹو، پریم چند اور اگاتھا کرسٹی پھر… ٹیگور، قاسمی، اقبال اور غالب… تب عمر خیام، ایچ جی ویلز اور اوہنری۔ ادب نے مجھے لکھنے کی طرف راغب کیا۔
س: پہلی تحریر کا معاوضہ کتنا ملا تھا اور اب کتنا ہے؟
ج: کراچی کے بڑے رسالے ’’رومان‘‘میں چھپنے والی پہلی تحریر تھی: ’’ایک دیوار، ایک شگاف‘‘۔ افسوس یہ میرے پاس موجود نہیں۔ اگر کسی کے پاس ہو تومیں معاوضہ دے کر بھی خریدنے کو تیار ہوں۔ اس کا معاوضہ ۶۰ روپے تھا۔ اس دور میں بکرے کا اچھا گوشت چار آنے کلو تھا۔ اب بکرے کا اچھا گوشت ۶۰۰ روپے کلو ہے۔گویا آج کے ۲۰ ہزار روپے ادا کیے گئے تھے۔ اس وقت میں ۲۳ برس کا تھا۔ اب میں ناول کا فی قسط معاوضہ ۴۰ ہزار روپے اور داستان کا ۵۰ ہزار روپے وصول کرتا ہوں۔ پھر یہ کتابی شکل میں چھپتے ہیں تو ناشر سے ۱۰ سالہ معاہدہ مزید کرتا ہوں۔
س: آپ نے کرشن چندر کو بہت پڑھا؟
ج:کرشن چندر کے فن میں گہرائی بہت ہے۔ زرگائوں کی رانی، شکست، کالو بھنگی، جوتا، کارا سورج، اُلٹا درخت…کرشن کو میں کئی ناول اور افسانہ نگاروں پر فوقیت دیتا ہوں۔ نمبر ون اور ٹو والا معاملہ فلمی لڑکیوں جیسا ہے، اسے چھوڑ دیں۔
س: بنگال میں اپنی سرگرمیوں کے متعلق کچھ بتائیں۔ کیاکِیا؟
ج: میں وہاں لکھتا بھی رہا اور فلمی صنعت میں ملازم بھی رہا۔ یوں مجھے لکھنے اور فلم ڈائریکشن سیکھنے کا موقع ملا۔ میںنے وہاں دو فلمیں لکھی تھیں:’’جنم جنم کی پیاسی‘‘ اور ’’باون پتے‘‘۔ بنگال میں حالات بگڑ رہے تھے وہاں، اُردو جرم بن رہی تھی۔ میں نے آخر کار لاہور آنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں ۱۹۷۰ء میں فلم سٹار دیبا کی مدد سے، ہوائی جہاز میں ڈھاکے سے لاہور آ گیا۔ وہاں اس وقت ۱۹۴۷ء سے بھی بدتر حالات تھے۔ دیبا نے مجھے بہت دلاسا دیا۔ میں دیباخانم کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے میری دامے، درمے قدمے، سُخنے بہت مدد کی۔ ۱۹۷۱ء میں سقوطِ بنگال کے وقت میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے بہت پریشان تھا۔ میں لاہور میں تھا اور وہ بنگال میں تھے، میں روز گار کی وجہ سے مجبور تھا۔ اہلِ خانہ بھی آخر کار لاہور آ گئے۔ میں نے بڑا کڑا وقت گزارا۔ بڑے رسالے نئے ادیب کو کس طرح قبول کرتے ہیں، سب لوگ جانتے ہیں۔ تب میں نے ’’دیبا خانم‘‘ کے نام سے بہت سے ناول لکھے اور بہت مقبول ہوئے۔ ابنِ صفی کے کرداروں پر ’’عمران بٹا عمران‘‘ بھی لکھا جو اچھا رہا۔ -
ماحذ