نواب صاحب کی تقریباََ تمام کہانیاں پڑھی ہیں۔ دیوتا کے لئے پرانے شمارے پڑھے ان کی تحریریں پہچاننا شاید کسی کے لئے مشکل نہیں۔۔ بلاشبہ اُن کو اللہ کی طرف سے بہت صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا۔
لیکن میرے خیال میں تین باتوں نے اُن کی تحریروں کی خوبصورتی کو زائل کیا۔
ایک یکسانیت
دوسری طوالت
تیسری بلا ضرورت ایسی ویسی باتیں
جب انہوں نے اپنی بیماری کے بعد اجل کے عنوان سے کہانیوں کا سلسہ شروع کیا تو میں نے سوچا کہ شکر ہے نواب صاحب دیر سے سہی ،راہ پہ تو آئے۔۔۔لیکن وہی کہ جیسے ہی تندرست ہوئے،اُن کے حواسوں پہ وہی سب کچھ سوار ہوگیا۔جہاں تک میں نے سمجھا۔ اُن کی شخصیت دو رُخوں میں تقسیم تھی۔ ایک ویسی،جیسی کہانیاں اںہوں نے صحت مندی کے دور میں لکھیں(یہ اُن کی اصل شخصیت تھی اور بوجہ وہ اِس پہ قابو نہیں پاسکتے تھے۔ وہ شاید مجبور تھے)،دوسری ویسی جیسی کہانیاں انہوں نے اجل کے عنوان سے لکھیں ( یہ اُن کی خواہش،یا آئیڈیل ازم تھا کہ انہیں ایسا ہونا چاہیے)
جیہ نے انہیں کرشن چندر کے مماثل کہا ہے۔ لیکن مجھے بالکل بھی ایسا نہیں لگتا۔ کرشن چندر بڑا افسانہ نگار تھا۔۔ اور معذرت کے ساتھ نواب صاحب فارمولہ کہانیان لکھنے والے تھے۔
وہ چاہتے تو اپنی صلاحیتوں کے سبب شاندار ترین کہانیاں لکھ سکتے تھے۔
بہرحال۔یہ حقیقت ہے کہ ڈائجسٹوں کی دنیا میں اُن کا بہت بڑا نام ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت فرمائے۔ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ ان کی قبر کو ٹھنڈا،روشن،ہودار،اور روشن کرے۔اس میں جنت کی کھڑکیاں کھولے۔ ان کے لواحقین کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور انہیں مرھوم کے لئے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین!