حسان خان
لائبریرین
السلام علیکم
فارسی زبان کی عظمت و بزرگی کے تو سب قائل ہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ اردو یقینا تہذیبی طور پر دختر فارسی یا بقول شخصے فارسی کی ہندوستانی بہن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زبان نے کسی دوسری زبان کا اثر قبول نہیں کیا جتنا فارسی نے عربی کا، اور اردو نے فارسی کا اثر قبول کیا ہے۔ مگر شاید کچھ افراد اس بات سے ناواقف ہوں کہ فارسی نے نہ صرف اردو بلکہ اپنے پڑوس کی دیگر زبانوں کو، جنہیں درباری زبانیں ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا، بھی متاثر کیا ہے۔ ان زبانوں میں عثمانی ترکی، کلاسیکی آذربائجانی اور چغتائی زبانیں شامل ہیں۔
چغتائی وسطی ایشیا کے ترکستان کی بیسویں صدی تک علمی و ادبی زبان تھی۔ تیموریوں، ایلخانیوں، اور ابتدائی مغلوں کی مادری زبان بھی چغتائی تھی، اور بابر نے بابرنامہ اسی چغتائی میں لکھا تھا۔ وسطی ایشیا میں سوویت یلغار کے بعد اس زبان کا خاتمہ ہو گیا کیونکہ بولشیوکوں کے حساب سے یہ زبان درباری ہونے کی وجہ سے اشتراکی و عوامی خیالات کے لیے موزوں نہ تھی۔ انہوں نے اسی چغتائی کو سادہ کر کے، اور اس میں مفرس کی تعداد کم کر کے ایک نئی زبان کی داغ بیل ڈالی جسے آج ازبک کہتے ہیں، جو چغتائی کا ہی تسلسل ہے۔ جبکہ دوسری طرف اویغر، قزاق، ترکمن اور قرغز چغتائی کا دور ختم ہونے کے بعد اپنی اپنی علاقائی ترک بولیوں کوترقی دے کر اسی میں ادب لکھنا شروع ہو گئے۔ فی الوقت چغتائی ادب کو اپنا ادب کہنے والی قوم ازبک ہے۔ اور ابھی بھی ازبک کے تیس-چالیس فیصد الفاظ فارسی-عربی کے ہیں۔
اناطولیائی ترکی کا معاملہ دلچسپ ہے۔ اسلامی دنیا میں سب سے پہلے اقتدار پانے والا ترک طائفہ سلجوقیان کا تھا۔ انہوں نے فتح تو ایران کو کیا، مگر خود عجمی ثقافت کے ہاتھوں مفتوح ہو گئے۔ سلجوقی مغلوں کی طرح پوری طرح سے ایرانی رنگ میں رنگے حکمران تھے، اور انہوں نے اپنی درباری اور سرکاری زبان بھی فارسی کو ہی مقرر کیا۔ یہی حال ایلخانی منگولوں (خاندانِ ہلاکو خان) کا ہے کہ وہ حاکم تو ایران کے تھے مگر محکوم فارسی و فارسی تہذیب کے، کہ چند سالوں کے اندر ہی انہوں نے ایرانیت اور اسلام کو پوری طرح سے اپنا لیا۔ اناطولیہ میں فارسی کا تسلط اسی طرح چودھویں صدی میں عثمانیوں کے عروج تک جاری رہا۔ عثمانی خلفا اگرچہ فارسی زبان و ادب کے دلدادہ تھے اور خود بھی فارسی میں شعر کہتے تھے، مگر وہ پہلے ترک حکمران تھے جنہوں نے فارسی کے بجائے ترکی کو سرکاری زبان مقرر کیا۔ مگر انہوں نے اناطولیائی ترکی کا روپ ہی پورا بدل دیا، اسے وہ اس حد تک فارسی کے قریب لے آئے جتنا لا سکتے تھے۔ بعض اوقات تو فرق ہی کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ فارسی کونسی ہے اور ترکی کونسی۔ اناطولیائی ترکی کی اُسی شکل کو ترکی عثمانی یا لسانِ عثمانیہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ اتاترک کی اصلاحات تک مستعمل رہی۔ ہاں، اتاترک کے دور تک یورپی ادب کے زیرِ اثرعثمانی ترکی جدید اردو کی طرح فطری ہو چکی تھی اور اس میں مصنوعیت ختم ہو چکی تھی۔ مگر قوم پرست اتاترک کے نزدیک چونکہ عثمانی خط اور عثمانی زبان ان عربوں کی یادگار تھی جو جنگ عظیم اول میں عثمانیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکے تھے، اس لیے اس نے جدیدیت کے نام پر یکلخت رسم الخط تبدیل کر دیا، اور اپنی زبان میں مفرس اور معرب سے چھٹکارا پانے کا ارشاد سنا دیا۔ اور اس کے نتیجے میں ایک نئی ترکی زبان کی ایجاد کا کام شروع ہوا جو 1960 کے عشرے تک شدت سے جاری رہا۔ ہر بیرونی لفظ چن چن کر باہر نکالا گیا اور ان کی جگہ نئے نامانوس اور خود ساختہ الفاظ ٹھونسے گئے۔ اس لسانی اصلاحات کے نتیجے میں ترکوں کا اپنی ہی تاریخ سے تسلسل یکسر ختم ہوگیا۔ وہ اپنا ہی ادب اور تاریخ پڑھنے سے قاصر ہیں۔ 1960 کے پہلے تک کا جتنا ادب بھی شائع ہوتا ہے وہ نئی ترکی میں 'ترجمہ' ہو کر شائع ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ کہ عثمانی دور کے ادب کو ایک ترک سے زیادہ ایک ایرانی اور ایک پاکستانی زیادہ بہتر ڈھنگ سے سمجھ سکتا ہے۔ اس سے ہندوستان کے ان چند نادانوں کو سبق لینا چاہیے جو اردو کو دیوناگری خط میں رسمی طور پر لکھے جانے کی بات کرتے ہیں۔ دیوناگری میں اردو لکھنا اپنے ہی ہاتھ سے اردو کو گلا گھونٹنے کا مترادف ہوگا۔ ہمارا خط ہی ہماری تہذیب کا مخزن ہے، رومن یا دیوناگری صرف زبان کو ویران کریں گے، اور کچھ نہیں۔ خیر یہ تو الگ بحث ہے، موضوع کی طرف پلٹتا ہوں۔ مزے کی بات ہے، اتاترک خود ساری زندگی اسی خط میں اور اسی عثمانی ترکی میں لکھتا اور تقریر کرتا رہا۔ وہ عثمانی میں لکھ کر پریس کو دے دیتا، پریس والا مترجم اس میں سے سارے عربی-فارسی الفاظ نکال کر نئے الفاظ ٹھونستا تھا اور اخبار میں شائع کرتا تھا۔ کافی عرصے تک تو ترک بیچارے اخبار کی جعلی زبان سمجھنے سے ہی قاصر رہے، پھر آہستہ آہستہ تدریس کے ذریعے یہ جدید ترکی ملک میں رائج ہو گئی۔ اتاترک کی ساری تقریریں اور تحریریں بھی اب ترجمہ ہو کر شائع ہوتی ہیں۔ اتاترک کی شاید یہی خود بیزاری تھی جس کے باعث میں کبھی اس کے لیے مثبت خیالات نہیں پیدا کر پایا ہوں۔ ایک جیتی جاگتی خوبصورت ترین زبان کو جدیدیت اور قوم پرستی کے نام پر اُس نے برہنہ کر دیا۔ یعنی کل تک جس میں ساٹھ فیصد عربی-فارسی کے الفاظ تھے آج اس میں صرف پانج دس فیصد ہی ایسے الفاظ رہ گئے ہیں۔ ایزدِ بزرگ کا صد ہزار بار شکر کہ کسی نادان نے اردو کو چہرہ یوں بگاڑنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔۔۔۔ میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ صوتیاتی لحاظ سے عثمانی ترکی (بشمول جدید ترکی) جیسی خوبصورت اس کرہ ارض پر کوئی دوسری زبان نہیں۔ کانوں میں شہد گھولتی یہ زبان میں دن بھر سن سکتا ہوںِ۔
آذربائجانی بنیادی طور پر اناطولیائی ترکی کا ہی ایک علاقائی لہجہ ہے جو آذربائیجان میں بولا جاتا ہے۔ اہالیان آذربائجان آج سے پنج صد سال قبل فارسی گو شیعہ مسلمان تھے۔ مگر عثمانیوں کے آذربائجان پر تسلط کے بعد انہوں نے بتدریج ترکی زبان کو اپنا لیا۔ مگر عثمانیوں کے سنی المذہب ہونے اور آذربائجانیوں کے اہل تشیع ہونے کے باعث ترکوں اور آذربائجانیوں میں تعلق زیادہ دیر قائم نہیں رہا۔ بعد میں آذربائجان کے اردبیل سے صفوی اٹھے جنہوں نے ایران میں صفوی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس باعث صفویوں اور عثمانیوں کے آپسی تعلقات ہمیشہ کشیدہ ہی رہے۔ دوسری طرف آذری اس طرح بیسویں صدی تک پہلویوں کی آمد سے پہلے تک ایران پر راج کرتے رہے۔ آج بھی آذربائجان کا نصف سے زیادہ حصہ ایران میں ہی ہے۔ نیز ان کا ثقافتی دارالحکومت تبریز بھی ایران کا ہی نگینہ ہے۔ آذربائجانی پانچ سو سالوں سے بولتے تو ترکی آئے ہیں مگر ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے وہ ترکوں سے زیادہ ایرانیوں کے نزدیک ہیں، اور ان کی بیشتر آبادی قدیم ایرانیوں کی ہی اولاد ہے، یعنی نسلی طور پر ان کی اکثریت ترک نہیں ہے۔ آذربائجانی میں کبھی زیادہ اصلاحات نہیں ہوئیں اس لیے جدید آذربائجانی میں (جو فارسی آمیز کلاسیکی آذربائجانی کا جدید روپ ہے) تقریبا 20-30 فیصد تک الفاظ عربی فارسی کے ہیں۔ ایران میں آذری فارسی خط میں جبکہ جمہوریہ آذربائجان میں رومن خط میں لکھی جاتی ہے۔ ترکی اور آذری اتنی نزدیک ہیں کہ جسے ایک زبان آتی ہے وہ دوسری زبان بغیر کسی مشکل کے سمجھ سکتا ہے۔ ہاں بس آذری میں 'بیرونی' الفاظ کی تعداد زیادہ ہے۔
میرا یہ دھاگہ بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ کس طرح ہم ثقافتی طور پر ترکوں سے جڑے ہوئے ہیں، ہم ان سے اس سے کہیں زیادہ نزدیک ہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں، اور ان سے ہمارا صدیوں پر محیط گہرا ثقافتی رشتہ رہا ہے۔ میں بس یہ چاہتا ہوں کہ ہم اس رشتے کی دوبارہ قدردانی کر سکیں۔ میں اس دھاگے میں میں وقتا فوقتا کلاسیکی ترکی اور آذری ادب ترجمے کے ساتھ شراکت گزاری کرنے کی کوشش کروں گا۔ امید ہے آپ سب لوگوں کو میری یہ کاوش پسند آئے گی۔ اپنی خراب اردو کے لیے دل سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ جانتے ہوئے کہ میں اردو میں ٹھیک طرح لکھنے سے قاصر ہوں، آپ میری اغلاط اور جملوں کی بچکانہ و عامیانہ ساخت سے درگزر فرمائیں گے۔
والسلام
فارسی زبان کی عظمت و بزرگی کے تو سب قائل ہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ اردو یقینا تہذیبی طور پر دختر فارسی یا بقول شخصے فارسی کی ہندوستانی بہن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زبان نے کسی دوسری زبان کا اثر قبول نہیں کیا جتنا فارسی نے عربی کا، اور اردو نے فارسی کا اثر قبول کیا ہے۔ مگر شاید کچھ افراد اس بات سے ناواقف ہوں کہ فارسی نے نہ صرف اردو بلکہ اپنے پڑوس کی دیگر زبانوں کو، جنہیں درباری زبانیں ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا، بھی متاثر کیا ہے۔ ان زبانوں میں عثمانی ترکی، کلاسیکی آذربائجانی اور چغتائی زبانیں شامل ہیں۔
چغتائی وسطی ایشیا کے ترکستان کی بیسویں صدی تک علمی و ادبی زبان تھی۔ تیموریوں، ایلخانیوں، اور ابتدائی مغلوں کی مادری زبان بھی چغتائی تھی، اور بابر نے بابرنامہ اسی چغتائی میں لکھا تھا۔ وسطی ایشیا میں سوویت یلغار کے بعد اس زبان کا خاتمہ ہو گیا کیونکہ بولشیوکوں کے حساب سے یہ زبان درباری ہونے کی وجہ سے اشتراکی و عوامی خیالات کے لیے موزوں نہ تھی۔ انہوں نے اسی چغتائی کو سادہ کر کے، اور اس میں مفرس کی تعداد کم کر کے ایک نئی زبان کی داغ بیل ڈالی جسے آج ازبک کہتے ہیں، جو چغتائی کا ہی تسلسل ہے۔ جبکہ دوسری طرف اویغر، قزاق، ترکمن اور قرغز چغتائی کا دور ختم ہونے کے بعد اپنی اپنی علاقائی ترک بولیوں کوترقی دے کر اسی میں ادب لکھنا شروع ہو گئے۔ فی الوقت چغتائی ادب کو اپنا ادب کہنے والی قوم ازبک ہے۔ اور ابھی بھی ازبک کے تیس-چالیس فیصد الفاظ فارسی-عربی کے ہیں۔
اناطولیائی ترکی کا معاملہ دلچسپ ہے۔ اسلامی دنیا میں سب سے پہلے اقتدار پانے والا ترک طائفہ سلجوقیان کا تھا۔ انہوں نے فتح تو ایران کو کیا، مگر خود عجمی ثقافت کے ہاتھوں مفتوح ہو گئے۔ سلجوقی مغلوں کی طرح پوری طرح سے ایرانی رنگ میں رنگے حکمران تھے، اور انہوں نے اپنی درباری اور سرکاری زبان بھی فارسی کو ہی مقرر کیا۔ یہی حال ایلخانی منگولوں (خاندانِ ہلاکو خان) کا ہے کہ وہ حاکم تو ایران کے تھے مگر محکوم فارسی و فارسی تہذیب کے، کہ چند سالوں کے اندر ہی انہوں نے ایرانیت اور اسلام کو پوری طرح سے اپنا لیا۔ اناطولیہ میں فارسی کا تسلط اسی طرح چودھویں صدی میں عثمانیوں کے عروج تک جاری رہا۔ عثمانی خلفا اگرچہ فارسی زبان و ادب کے دلدادہ تھے اور خود بھی فارسی میں شعر کہتے تھے، مگر وہ پہلے ترک حکمران تھے جنہوں نے فارسی کے بجائے ترکی کو سرکاری زبان مقرر کیا۔ مگر انہوں نے اناطولیائی ترکی کا روپ ہی پورا بدل دیا، اسے وہ اس حد تک فارسی کے قریب لے آئے جتنا لا سکتے تھے۔ بعض اوقات تو فرق ہی کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ فارسی کونسی ہے اور ترکی کونسی۔ اناطولیائی ترکی کی اُسی شکل کو ترکی عثمانی یا لسانِ عثمانیہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ اتاترک کی اصلاحات تک مستعمل رہی۔ ہاں، اتاترک کے دور تک یورپی ادب کے زیرِ اثرعثمانی ترکی جدید اردو کی طرح فطری ہو چکی تھی اور اس میں مصنوعیت ختم ہو چکی تھی۔ مگر قوم پرست اتاترک کے نزدیک چونکہ عثمانی خط اور عثمانی زبان ان عربوں کی یادگار تھی جو جنگ عظیم اول میں عثمانیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکے تھے، اس لیے اس نے جدیدیت کے نام پر یکلخت رسم الخط تبدیل کر دیا، اور اپنی زبان میں مفرس اور معرب سے چھٹکارا پانے کا ارشاد سنا دیا۔ اور اس کے نتیجے میں ایک نئی ترکی زبان کی ایجاد کا کام شروع ہوا جو 1960 کے عشرے تک شدت سے جاری رہا۔ ہر بیرونی لفظ چن چن کر باہر نکالا گیا اور ان کی جگہ نئے نامانوس اور خود ساختہ الفاظ ٹھونسے گئے۔ اس لسانی اصلاحات کے نتیجے میں ترکوں کا اپنی ہی تاریخ سے تسلسل یکسر ختم ہوگیا۔ وہ اپنا ہی ادب اور تاریخ پڑھنے سے قاصر ہیں۔ 1960 کے پہلے تک کا جتنا ادب بھی شائع ہوتا ہے وہ نئی ترکی میں 'ترجمہ' ہو کر شائع ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ کہ عثمانی دور کے ادب کو ایک ترک سے زیادہ ایک ایرانی اور ایک پاکستانی زیادہ بہتر ڈھنگ سے سمجھ سکتا ہے۔ اس سے ہندوستان کے ان چند نادانوں کو سبق لینا چاہیے جو اردو کو دیوناگری خط میں رسمی طور پر لکھے جانے کی بات کرتے ہیں۔ دیوناگری میں اردو لکھنا اپنے ہی ہاتھ سے اردو کو گلا گھونٹنے کا مترادف ہوگا۔ ہمارا خط ہی ہماری تہذیب کا مخزن ہے، رومن یا دیوناگری صرف زبان کو ویران کریں گے، اور کچھ نہیں۔ خیر یہ تو الگ بحث ہے، موضوع کی طرف پلٹتا ہوں۔ مزے کی بات ہے، اتاترک خود ساری زندگی اسی خط میں اور اسی عثمانی ترکی میں لکھتا اور تقریر کرتا رہا۔ وہ عثمانی میں لکھ کر پریس کو دے دیتا، پریس والا مترجم اس میں سے سارے عربی-فارسی الفاظ نکال کر نئے الفاظ ٹھونستا تھا اور اخبار میں شائع کرتا تھا۔ کافی عرصے تک تو ترک بیچارے اخبار کی جعلی زبان سمجھنے سے ہی قاصر رہے، پھر آہستہ آہستہ تدریس کے ذریعے یہ جدید ترکی ملک میں رائج ہو گئی۔ اتاترک کی ساری تقریریں اور تحریریں بھی اب ترجمہ ہو کر شائع ہوتی ہیں۔ اتاترک کی شاید یہی خود بیزاری تھی جس کے باعث میں کبھی اس کے لیے مثبت خیالات نہیں پیدا کر پایا ہوں۔ ایک جیتی جاگتی خوبصورت ترین زبان کو جدیدیت اور قوم پرستی کے نام پر اُس نے برہنہ کر دیا۔ یعنی کل تک جس میں ساٹھ فیصد عربی-فارسی کے الفاظ تھے آج اس میں صرف پانج دس فیصد ہی ایسے الفاظ رہ گئے ہیں۔ ایزدِ بزرگ کا صد ہزار بار شکر کہ کسی نادان نے اردو کو چہرہ یوں بگاڑنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔۔۔۔ میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ صوتیاتی لحاظ سے عثمانی ترکی (بشمول جدید ترکی) جیسی خوبصورت اس کرہ ارض پر کوئی دوسری زبان نہیں۔ کانوں میں شہد گھولتی یہ زبان میں دن بھر سن سکتا ہوںِ۔
آذربائجانی بنیادی طور پر اناطولیائی ترکی کا ہی ایک علاقائی لہجہ ہے جو آذربائیجان میں بولا جاتا ہے۔ اہالیان آذربائجان آج سے پنج صد سال قبل فارسی گو شیعہ مسلمان تھے۔ مگر عثمانیوں کے آذربائجان پر تسلط کے بعد انہوں نے بتدریج ترکی زبان کو اپنا لیا۔ مگر عثمانیوں کے سنی المذہب ہونے اور آذربائجانیوں کے اہل تشیع ہونے کے باعث ترکوں اور آذربائجانیوں میں تعلق زیادہ دیر قائم نہیں رہا۔ بعد میں آذربائجان کے اردبیل سے صفوی اٹھے جنہوں نے ایران میں صفوی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس باعث صفویوں اور عثمانیوں کے آپسی تعلقات ہمیشہ کشیدہ ہی رہے۔ دوسری طرف آذری اس طرح بیسویں صدی تک پہلویوں کی آمد سے پہلے تک ایران پر راج کرتے رہے۔ آج بھی آذربائجان کا نصف سے زیادہ حصہ ایران میں ہی ہے۔ نیز ان کا ثقافتی دارالحکومت تبریز بھی ایران کا ہی نگینہ ہے۔ آذربائجانی پانچ سو سالوں سے بولتے تو ترکی آئے ہیں مگر ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے وہ ترکوں سے زیادہ ایرانیوں کے نزدیک ہیں، اور ان کی بیشتر آبادی قدیم ایرانیوں کی ہی اولاد ہے، یعنی نسلی طور پر ان کی اکثریت ترک نہیں ہے۔ آذربائجانی میں کبھی زیادہ اصلاحات نہیں ہوئیں اس لیے جدید آذربائجانی میں (جو فارسی آمیز کلاسیکی آذربائجانی کا جدید روپ ہے) تقریبا 20-30 فیصد تک الفاظ عربی فارسی کے ہیں۔ ایران میں آذری فارسی خط میں جبکہ جمہوریہ آذربائجان میں رومن خط میں لکھی جاتی ہے۔ ترکی اور آذری اتنی نزدیک ہیں کہ جسے ایک زبان آتی ہے وہ دوسری زبان بغیر کسی مشکل کے سمجھ سکتا ہے۔ ہاں بس آذری میں 'بیرونی' الفاظ کی تعداد زیادہ ہے۔
میرا یہ دھاگہ بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ کس طرح ہم ثقافتی طور پر ترکوں سے جڑے ہوئے ہیں، ہم ان سے اس سے کہیں زیادہ نزدیک ہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں، اور ان سے ہمارا صدیوں پر محیط گہرا ثقافتی رشتہ رہا ہے۔ میں بس یہ چاہتا ہوں کہ ہم اس رشتے کی دوبارہ قدردانی کر سکیں۔ میں اس دھاگے میں میں وقتا فوقتا کلاسیکی ترکی اور آذری ادب ترجمے کے ساتھ شراکت گزاری کرنے کی کوشش کروں گا۔ امید ہے آپ سب لوگوں کو میری یہ کاوش پسند آئے گی۔ اپنی خراب اردو کے لیے دل سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ جانتے ہوئے کہ میں اردو میں ٹھیک طرح لکھنے سے قاصر ہوں، آپ میری اغلاط اور جملوں کی بچکانہ و عامیانہ ساخت سے درگزر فرمائیں گے۔
والسلام