سید عمران
محفلین
جیسا کہ کہہ چکا ہوں کہ صحیح کا مطلب اس کا عکس یعنی غلط نہیں بلکہ محدثین کی اصطلاح ہے۔۔۔راویوں اور اسناد سے متعلق۔۔۔مختصر یہ کیوں نہیں کہتے کے بہت ساری غلط احادیث میں سے جو صحیح تھی یہ ان کا مجموعہ ہے .... مجبوراً
جیسا کہ کہہ چکا ہوں کہ صحیح کا مطلب اس کا عکس یعنی غلط نہیں بلکہ محدثین کی اصطلاح ہے۔۔۔راویوں اور اسناد سے متعلق۔۔۔مختصر یہ کیوں نہیں کہتے کے بہت ساری غلط احادیث میں سے جو صحیح تھی یہ ان کا مجموعہ ہے .... مجبوراً
قبلہ میرے لیے بہر حال علماء کی بات حتمی ہو گی اور اس پر ایک تفصیل تحریر لکھنے کو جی بہت چاہا مارے سستی لکھ نہ پایا کہ رائے، اختلاف رائے اور احترام اختلاف رائے۔۔۔۔۔۔ بات موضوع سے کافی دور نکل رہی ہے۔بات وہیں جدا پیمانوں کی آجاتی ہے نا ... آپ ہر پوسٹ پر پسندیدگی کا ٹیگ کرتے ہیں یاد ہے بقول آپ کے سب کو خوش رکھو جس پر میں نے کہا تھا مشکل ہے بات اسی نہج پر اگائی ہے آپ کو میری بات سے خوشی نہیں ہوگی نہ آپ پسندیدگی کا اظہار کرینگے
قبلہ غلط قیاس معذرت کے ساتھ۔۔۔۔ احادیث کبھی بھی غلط صحیح نہیں ہوتی۔ جیسا شاہ جی بیان کر چکے کہ علم حدیث میں صحیح، غلط کا متضاد نہیں بلکہ ایک ٹیکنیکل ٹرم ہے۔ دوم صحیح یا ضعیف کا اعتبار راوی پہ ہوتا ہے۔۔۔۔ پھر وہی بات کہ یہ ٹیکنکل ٹرمزہیں اور بات اور رخ چلی جائے گی۔۔۔۔مختصر یہ کیوں نہیں کہتے کے بہت ساری غلط احادیث میں سے جو صحیح تھی یہ ان کا مجموعہ ہے .... مجبوراً
قبلہ میرے لیے بہر حال علماء کی بات حتمی ہو گی اور اس پر ایک تفصیل تحریر لکھنے کو جی بہت چاہا مارے سستی لکھ نہ پایا کہ رائے، اختلاف رائے اور احترام اختلاف رائے۔۔۔۔۔۔ بات موضوع سے کافی دور نکل رہی ہے۔
حکم سر آنکھوں پہ جناب۔۔۔۔۔ایک برادرانہ مشورہ کہ لازمی لکھئے اور الگ موضوع بنا کر لکھیں۔
اپنی ذہنی معذوری کے سبب خیالات اور الفاظ نے ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے ورنہ لکھ پاتا۔۔۔۔۔
حقیقت ہے اس سے انکار نہیں۔۔۔اسلام کے اصل سرچشمے تو قرآن و حدیث تھے ۔۔۔ان سے دوریت کی بنا پے اسلام کی روح سکرات الموت کی کیفیت میں ہے ۔۔۔ہمارا آج کا "مودب" اسلام اپنی اصل سے کس قدر دور جا پڑا ہے
فرشتہ بننے کی ترغیب واقعی نہیں دی مگر فرشتہ صفت ہو نے کی تر غیب ضرور دی ہے ۔۔جیسا کہ فرشتے اپنے مالک کے بے دام غلام ہیں ذرا بھی چوں چراں نہیں من و عن مالک کے احکامات کو بجا لاتے ہیں ۔۔۔انسانو ں کو عقل و شعور راستی ارو گمرہی میں تمیز کرنے والا بنا کر اور تمیز کروانے والا بھیج کر ۔۔۔چاہت وہی رکھی ہے ۔۔۔جسے فرشتے پورا کرتے ہیں۔۔اب فرشتے کوتاہی نہیں کرتے مگر انعام نہیں ۔۔۔انسان پہاڑوں کے برابر گناہ بھی کرلے ۔پھر مرنے سے پہلے سچے دل سے توبہ کرلے دل سے گناہ چھوڑنے کا عہد کرلے تو انعام ہے ۔۔۔اور وہ جنت ہے ۔۔۔تو فرشتہ بننا نہیں مگر فرشتہ صفت ضرور بننا ہے ۔۔بتقاضائے بشریت کوتاہیاں ہونا ۔۔ممکن ہیں ۔۔تو بہ کر نے نا کرنے کا ہمیں اختیار ہے ۔۔۔اسلام کا دینِ فطرت ہونا دراصل اسی نکتے میں پوشیدہ ہے کہ اس نے انسان کو انسان ہونے کی ترغیب دی، فرشتہ ہونے کی نہیں۔
اگر یہاں ان کا ذکر ہو جاتا تو تحریر کی چاشنی اور افادیت میں اضافہ ہو جاتا۔۔۔تمدنی تصنع سے میری مراد وہ تمام تر غیرفطری سماجی رویے اور معمولات ہیں جن کا شریعت یا فطرتِ انسانی سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔
بد قسمتی سے میں اس بات کا عینی شاہد ہوں ۔۔۔دین دار لوگوں کے گھر کنبے قبیلے گمراہیوں سے اٹے پڑے ہیں ۔۔اور ان کے گھروں میں وہ تمام خرافات موجود ہیں جن کا وہ اپنے مواعظ او رخطبات میں قرآن و سنت کا حوالہ دے کررکنے کا درس دیتے ہیں ۔۔ایسے تما م مواغظین اور خطباء حضرات سے درمندانہ اپیل ہے ۔۔۔پہلے اپنے گھروں میں انقلاب لایے ۔۔۔پھر گلی محلے گاؤں شہر ملک میں انقلاب آئے گا ۔۔آپ کے گھروں میں پر شکوہ دیدہ زیب شوکیسوں میں خوبصورت غلافوں میں لپٹا نسخہ قرآنی آپ کی توجہ کا محتاج ہے ۔۔اور چیخ و پکار میں مصروف عمل ہے ۔۔۔میں صرف دوسروں کے لے ہی نہیں ہوں تمھارے لیے بھی ہوں ۔۔۔مجھے پڑھو مجھے سمجھو پھر آگے پہنچاؤ۔۔یہ تمہاری ذمہ دار ی ہے ۔۔۔اور یاد رکھو تم سے تمھاری ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائےگا۔۔اہلِ اسلام کے سوادِ اعظم کی حیا اور تہذیب اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب شاید ان کے لیے گھروں میں قرآن پڑھنا بھی شاید ممکن نہ رہا ہو۔
کاش کوئی عمررضی اللہ عنہ جیسا حکمران پھر سے آجائے او رمارمار کے (دُرّے ) اس کی شرماہٹ کو درو کر دے جو دین و دنیا کے حوالہ سے ہے ۔۔۔یہ شرمیلی قوم اب چھوئی موئی بن چکی ہے
اپنے قول و فعل سے اسلام کی روح کی مردہ کر دینے کے بعد خود کو زندہ تصور کرکے تو ہین محسوس کرنے والی قوم اس رویے کو حماقت سے ہی متصور کیا جا سکتا ہے ۔۔اگر زندہ ہو تو کچھ ایسا کرکے تو دکھلاؤ کے پور ی دنیا میں یہ تہلکہ مچ جائے (خون مسلم میں ابھی زندگی باقی ہے ) اپنے قول و عمل سے ثابت کر و کے ہم مسلمان ہیں اور ہم ایک زندہ قوم ہے ۔۔۔تمھارا اپنے اعمال کو درست کر لینا اور قول و عمل میں قرآن اور حدیث کے مطابق ہو جانا ہی اغیار کے ماتھے پہ کلنک کا ٹیکہ ہوگا۔۔۔حد یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے اقبال کا مصرع "مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کر دے" نقل کرنے پر ایک صاحب میری جان کے لاگو ہو گئے تھے کہ امت کو مرحوم کہنا توہین کے زمرے میں آتا ہے۔
عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ; فَهُوَ رَدٌّ». وَفِي رِوَايَةٍ لِ۔ مُسْلِمٍ: «مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا; فَهُوَ رَدٌّ».ہمارے اس بناوٹی اور غیرفطرتی سماج میں بول چال سے لے کر مرد و زن کے تعلقات تک اکثر معاملات ایسے ہیں جن میں عجمی اور بالخصوص ہندی روایات کا دخل ہے۔ جس قسم کی رسوم کا قلع قمع رسول اللہ ﷺ نے عرب میں فرمانا چاہا تھا، ویسی ہی ہم نے ان کے نام پر جاری کر دی ہیں اور لطیفہ یہ ہے کہ اسے عین سعادت مندی خیال کرتے ہیں۔
بولہبی کے ایسی جرأت کہاں۔۔۔جہاں میں آگ لگانے کی ۔۔ دراصل تو یہ بو لہب کے پیروکار ہیں جنہوں نے لبادہ دین مصطفوی اوڑ رکھا ہے ۔۔۔اور بھر پور تیاری کے ساتھ دین مصطفوی پر یورش کیے ہوئے ہیں ۔۔۔کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
راحیل بھائی، محفل پر بہت سے اطلاعات میری منتظر تھیں ، مگر آپ کی تحریر دیکھی تو پہلے یہاں آگیا، ۔۔۔ تحریر پڑھی۔۔ پوری پڑھی۔۔ کچھ دیر ایک تک سوچتا رہا کہ اس تحریر کے محرکات کیا ہوسکتے ہیں۔ بہرحال نہیں سمجھ سکا ، پھر چونکہ آپ کی تحریر تھی اس لئے سوچا کہ اپنی رائے دی جائے، اگر آپ کے علاوہ کوئی اور یہ تحریر کرتا تو شاید مجھے ذرا برابر کشش محسوس نہ ہوتی، مگر یہ آپ کی تحریر ہے اور آپ ہمارے اچھے دوست ہیں، پھر یہ بھی ہمیں اندازہ ہے کہ آپ کو ہماری تعریف سے زیادہ ہمارا رائے دینا پسند آئے گا ۔تسنن کے لغوی معانی کسی راہ پر باقاعدہ چلنے کے ہیں اور اصطلاحی میں سنتِ نبویﷺ کی پیروی کرنے کے۔ دورانِ فلک کے طفیل یہ لفظ تشیع کے مقابل آ گیا ہے اور ہمارے سنی بھائی اس پر اپنا حقِ ملکیت خیال کرنے لگے ہیں۔ بہرحال، ہم اس لفظ کو اس مضمون میں ہر قسم کے فرقہ وارانہ مضمرات سے ہٹ کر محض اتباعِ سنتِ رسولﷺ کے مفہوم میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ قوموں کے زوال کا دور تقدس سے عبارت ہوتا ہے اور عروج کا بےباکی سے۔ممکن ہے عامۃ المسلمین کو یہ بات نہایت تعجب خیز لگے مگر ہمارے خیال میں حدیثِ قرطاس ان کی اس خوش گمانی کا کافی حد تک ازالہ کر سکتی ہے۔ اس مشہور روایت کے مطابق نبیِ اکرمﷺ کے وصال کے وقت صحابہ میں اس امر میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا کہ رسالت مآب کا حکم مانا جائے یا نہیں۔ بعض کا خیال تھا کہ کہ امتثالِ امر ضروری ہے جبکہ بعض، جن میں حضرت عمرؓ فاروق سرِ فہرست تھے، سمجھتے تھے کہ شدتِ مرض کے سبب حضورﷺ کا حکم لائقِِ اعتنا نہیں۔
بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہی عمرؓ فاروق اپنی خلافت کے دور میں منبر پر کھڑے ہوئے تو ایک شخص نے ان کے کپڑوں پر سوال کیا اور ایسی جرات سے کیا کہ جب تک جواب نہ ملتا اگلی بات سننے پر راضی نہ ہوتا تھا۔ پیر کے قدموں میں سر ٹیک دینے والی اور حکمران کے سامنے گنگ ہو جانے والی قوم کے لیے عملی طور پر اس جرات سے زیادہ ناقابلِ تصور شے کوئی اور نہیں۔
خواتین کے حقوق کے حوالے سے تو جو اقدامات اسلام نے کیے تھے ان کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ باقی حوالے تو شاید بہت ہی زیادہ گراں گزریں مگر ثابت بن قیسؓ کی بیگم کی طلاق آنکھیں کھول دینے کو کافی ہو سکتی ہے۔ موصوفہ نے آں حضرتﷺ کے حضور صاف کہہ دیا تھا کہ ان کے شوہر میں کوئی عیب نہیں مگر وہ انھیں پسند نہیں کرتیں اور آپﷺ نے طلاق کا حکم دے دیا تھا۔ یہ معاشرہ تھا عرب کا جس میں بیٹیاں پیدا ہوتے ہی مار ڈالی جاتی تھیں۔ یہ اعتراض کرنے والی ایک عورت تھی جسے بھیڑ بکری سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہوا کرتی تھی۔ اور یہ جرات دکھائی گئی تھی اس شخص کے سامنے جس سے زیادہ واجب الاحترام نہ کوئی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔
صحت مند تمدن کا ایک لازمہ زبان و بیان کو غیرضروری تقدیس سے پاک کرنا بھی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں جو اعتدال روا رکھا تھا اور کلام میں جس بےساختگی، جرات اور سادگی کو رواج دیا تھا وہ مترجمین اور مفسرین کی عنایت سے اب چشمِ تصور سے بھی اوجھل ہو گیا ہے۔ ہمارے وہ فضلا جو اردو کے محاوروں کو اسلامیانے پر تلے ہوئے ہیں شاید اس بےلاگ طرزِ گفتگو سے واقف ہی نہیں رہے جو قرآن اور اہلِ قرآن نے اپنا رکھا تھا۔ ملاحظہ ہو سورۂِ آلِ عمران کی ۵۴ ویں آیت:
وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
اور اس کے بعد "مکر" کے معانی کسی بھی مستند عربی لغت میں دیکھ لیجیے۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارا آج کا "مودب" اسلام اپنی اصل سے کس قدر دور جا پڑا ہے۔ مثالیں تو بےشمار ہیں مگر اور دوں گا تو شاید مجھے بھائیوں کی فاتحہ بھی نصیب نہ ہو!
میں سمجھتا ہوں کہ گو میں نے خوفِ فسادِ خلق سے حوالے دینے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا ہے مگر پھر بھی انصاف کی نظر رکھنے والے احباب کے لیے آزادی اور بےباکی کی اس روح تک پہنچنا دشوار نہیں ہو گا جو اسلام نے مصنوعی آداب معاشرت کے گلتے ہوئے بدن میں پھونک دی تھی۔ اسلام کا دینِ فطرت ہونا دراصل اسی نکتے میں پوشیدہ ہے کہ اس نے انسان کو انسان ہونے کی ترغیب دی، فرشتہ ہونے کی نہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ فرشتگی اور انسانیت کے درمیان فرق بھی ایک موٹی سی مثال سے واضح کر ہی دوں۔ اپنی فلسفہ زدگی کے دور میں بڑے تدبر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ فطرت انسان کا محاکمہ اس کی خامیوں نہیں بلکہ خوبیوں کی بنا پر کرتی ہے۔ روایاتِ اسلام سے بعد میں میرے اس خیال کی تائید بھی ہو گئی۔ ابو محجنؓ ثقفی ایک مشہور شاعر اور بہادر تھے۔ موصوف امتناعِ شراب کے حکم کے بعد بھی شراب نوشی سے مجتنب نہ ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرتِ عمرؓ نے ان پر سات یا آٹھ مرتبہ حد جاری کی مگر سزا بھگت لیتے تھے، باز نہ آتے تھے۔ ان کے اشعار مشہور ہیں جن میں انھوں نے اپنے بیٹے کو اپنی لاش انگور کی بیلوں کے پاس دفنانے کی وصیت کی ہے۔
جنگِ قادسیہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاصؓ کی کمان میں جو لشکر نکلا تھا اس میں شامل تھے۔ وہاں بھی پیا کیے اور ماخوذ ہو گئے۔ سپہ سالار نے زنجیروں میں جکڑوا دیا۔ اب زندان خانے سے بیٹھے لڑائی دیکھ رہے تھے کہ جوش آیا۔ سپہ سالار کی بیگم سے التجا کی کہ مجھے چپکے سے آزاد کر دو۔ اگر شہید نہ ہوا تو واپس آ کر خود بیڑیاں پہن لوں گا۔ انھیں ان کی بےقراری دیکھ کر رحم آ گیا۔ انھوں نے زنجیریں توڑ ڈالیں اور ابو محجنؓ نے میدان میں پہنچ کر وہ جوہر دکھائے کہ سعد بن ابی وقاصؓ ششدر رہ گئے۔ انھیں شبہ پڑتا تھا کہ یہ ابو محجنؓ ہی کے رنگ ڈھنگ ہیں پر یہ سوچ کر رہ جاتے تھے کہ وہ تو قید ہیں۔ بعد کو معاملے کی خبر ہوئی تو فوراً یہ کہتے ہوئے آزاد کر دیا کہ مسلمانوں کے ایسے جاں نثار پر میں حد جاری نہیں کروں گا۔ ابومحجنؓ بھی غیرت مند تھے۔ انھوں نے بھی تب قسم کھائی کہ آج کے بعد شراب نہ پیوں گا۔
دو باتیں اس قصے میں ایسی ہیں جو غور کیا جائے تو انتہائی چونکا دینے والی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جناب ابو محجنؓ جیسے لوگ قرونِ اولیٰ کے اسلامی معاشرے کا نمایاں حصہ تھے۔ اور دوسری یہ کہ حضرت سعدؓ جیسے جلیل القدر صحابی نے انھیں ایک ایسی رعایت دے دی تھی جو شریعت کے خلاف تھی۔ امید ہے میں یہ واضح کر سکا ہوں گا کہ ٹھیٹھ اسلام انسان سے فرشتہ ہو جانے کا تقاضا نہیں کرتا۔
فی زمانہ معاملہ یہ ہے کہ اہلِ اسلام اور بالخصوص مسلمانانِ پاک و ہند تمدنی تصنع کی کم و بیش اسی منزل پر پہنچ گئے ہیں جس پر ظہورِ اسلام سے قبل عرب کا معاشرہ موجود تھا۔ تمدنی تصنع سے میری مراد وہ تمام تر غیرفطری سماجی رویے اور معمولات ہیں جن کا شریعت یا فطرتِ انسانی سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ اس میں تقدس اس سطح تک پہنچ جاتا ہے کہ شریعت پوجا پاٹھ اور حقیقت دیومالا معلوم ہونے لگتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ اسلام میں اس تصنع کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب یہ جزیرۃ العرب سے نکل کر عجم پر غالب آیا تھا۔ مفتوحین پر اسلام کی ایسی دھاک بیٹھ گئی تھی کہ وہ ریاستی سے زیادہ نفسیاتی غلامی کا شکار ہو گئے تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے آج ہم ذہنی طور پر مغرب کے سحر میں جکڑے جا چکے ہیں۔ ایسی صورت میں مفتوح خود کو فاتح سے بھی زیادہ فاتح کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنے لگتا ہے جس سے تصنع کی بنا پڑتی ہے۔ آپ کو اپنے اردگرد بہت سے ایسے نوجوان مل جائیں گے جن کی مثلاً مغربی موسیقی پر نظر ایک عام مغربی شخص سے کہیں زیادہ گہری ہو گی۔ خود مجھے یاد ہے کہ بیس اکیس برس کی عمر میں میری ملاقات ایک جرمن شخص سے ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا تھا، "تو تم نطشے کے ملک سے ہو؟" اور پھر نطشے کی وہ مدح سرائیاں شروع کی تھیں کہ وہ شخص حیران رہ گیا۔ بالآخر اس نے کہا، "میں نطشے کو زیادہ نہیں جانتا۔" اور مجھے یقین نہیں آیا۔ آتا بھی کیسے؟ میں تو اپنے اس علم کے زور پر بات کر رہا تھا جس کے مطابق ہٹلر کی قوم پرستی کے پیچھے نطشے کی انانیت کا ہاتھ تھا اور جو بتاتا تھا کہ جرمن ہٹلر کے فسوں سے ابھی تک نہیں نکلے۔
اسلام بھی جب اپنے مرکز سے نکل کر ادھر ادھر پھیلنا شروع ہوا تو مغلوب اقوام اسی مرعوبیت کا شکار ہو گئیں۔ اس کا نتیجہ ایک ایسی انتہا پسندی اور ظاہر پرستی کی صورت میں نکلا جس کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ مثلاً زہد و ورع کو اس کمال پر پہنچا دیا گیا کہ شہر میں بکری چوری ہو جائے تو حرام کے خدشے سے بکری کا گوشت کھانا ہی ترک کر دیا جائے۔ ان بزرگوں کے خلوص میں کلام نہیں مگر سوال یہ ہے کہ آں حضرتﷺ کے دور میں تو اردگرد سودخوار یہودی بھی بستے تھے اور چیرہ دست کفار بھی۔ آپ نے تو کبھی ایسے کسی گمان پر کوئی شے کھانی ترک نہ فرمائی تھی۔ میں نے خود اپنے والد کو دیکھا کہ وضو کے بعد پانی کے چھینٹوں کے بارے میں بھی غیرمعمولی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اور میں حیران ہو کر سوچتا تھا کہ کیا حضرت محمدﷺ بھی نماز کو جاتے ہوئے یونہی قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہوں گے۔ میرے والد کے ہاں تو خیر اس قسم کے سوالات کی اجازت تھی مگر اس تقدس کا کیا کیجیے جو اب تصنع کا نگران بن کر بیٹھ گیا ہے اور کسی بےجا روایت پر انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔
اب اسلام کا یہ مصنوعی تاثر اس حد تک جم گیا ہے کہ ارضی حقائق تو ایک طرف رہے، خود اصل اسلام بھی سامنے لایا جائے تو یار لوگوں کو غیرت آ جائے گی۔ مجھے پچھلے کچھ عرصے میں کچھ ایسے تجربات ہوئے ہیں جن سے مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ اہلِ اسلام کے سوادِ اعظم کی حیا اور تہذیب اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب شاید ان کے لیے گھروں میں قرآن پڑھنا بھی شاید ممکن نہ رہا ہو۔ احادیث کے مجموعے تو خیر ایسے لاتعداد حقائق کے بیان پر مبنی ہیں جن سے ایک سلیم الفطرت شخص کو تو باک نہیں مگر ہمارے تہذیب یافتہ احباب کو اس سے دل کا دورہ پڑنا عین قرینِ قیاس ہے۔
جوشؔ ملیح آبادی نے یادوں کی برات میں بہت سے ایسے معاملات کے بارے میں یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ میری شرمیلی قوم اس کی تاب نہیں لا سکتی۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ جوشؔ کے وقت تک حالات پھر بھی بہت سازگار تھے۔ یہ شرمیلی قوم اب چھوئی موئی بن چکی ہے جس سے آگے صرف "موئی" ہی کا مقامِ محمود رہ گیا ہے۔ جوش نے تو بڑی سہولت سے بہت سے ایسے معاملات نقل کیے ہیں جو اس وقت تک قابلِ مواخذہ نہ سمجھے جاتے تھے۔ شراب نوشی اس کی بین مثال ہے۔
پرانا عہد اور بھی زیادہ آزاد معلوم ہوتا ہے۔ اساتذہ کے دواوین میں ایسے اشعار عموماً مل جاتے ہیں جو آج پڑھنے بھی یقیناً معیوب خیال کیے جائیں گے۔ نثر کا معاملہ تو پھر الگ ہی ہے۔ محمد علی صاحب رودولوی کا ہما خانم کے نام وہ خط اٹھا کر دیکھ لیجیے جس میں انھوں نے خدا سے اپنے تعلق کا ذکر کیا ہے۔ اگر کوئی آج ایسی جرات کرے تو علما کے فتویٰ سے پہلے ہی، جو بہرحال اپنی جگہ یقینی ہے، عوام کا انگوٹھا اس کے نرخرے پر ہو گا۔ حد یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے اقبال کا مصرع "مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کر دے" نقل کرنے پر ایک صاحب میری جان کے لاگو ہو گئے تھے کہ امت کو مرحوم کہنا توہین کے زمرے میں آتا ہے۔
مجھے کہنے دیجیے کہ اسلام کے اصل اخلاق اپنے جوہر میں کم و بیش وہی تھے جو آج مغرب کے ہیں۔ اپنی فطرتیت، سادگی اور برجستگی کے لحاظ سے ہمارے اسلاف کی معاشرت اور آداب ہرگز ہرگز وہ نہ تھے جیسے فی زمانہ ہم نے گھڑ رکھے ہیں۔ مغرب میں عریانیت اور فحاشی کا ڈھنڈورا ہمارے ہاں بہت پیٹا جاتا ہے مگر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ مغرب کے اخلاقی نظام کا اساسی حصہ نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف اچھا خاصا ردِ عمل خود وہیں سے اٹھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آزادئِ فکر و عمل کو غیرضروری طور پر یقینی بنانے کے خبط نے اس ردِ عمل کو بارآور نہیں ہونے دیا۔ لیکن اس معاملے سے قطعِ نظر کر کے دیکھا جائے تو اپنی طرزِ معاشرت میں جو اصلیت اور جرات اہلِ مغرب نے اپنائی ہے وہ درحقیقت عیناً وہی ہے جس کی اسلام نے نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ اسے لازم قرار دیا تھا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تسنن فی الحقیقت اس تقدس اور تصنع سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا جسے ہم نے بحیثیت مسلمانوں کے خود پر لازم کر رکھا ہے۔ ہمارے اس بناوٹی اور غیرفطرتی سماج میں بول چال سے لے کر مرد و زن کے تعلقات تک اکثر معاملات ایسے ہیں جن میں عجمی اور بالخصوص ہندی روایات کا دخل ہے۔ جس قسم کی رسوم کا قلع قمع رسول اللہ ﷺ نے عرب میں فرمانا چاہا تھا، ویسی ہی ہم نے ان کے نام پر جاری کر دی ہیں اور لطیفہ یہ ہے کہ اسے عین سعادت مندی خیال کرتے ہیں۔ ایک شعر یاد آ رہا ہے۔ معلوم نہیں کس کا ہے مگر اس گفتگو کے اختتام پر شاید مناسب رہے گا۔
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
ربا تیری جنت پچھےتسنن کے لغوی معانی کسی راہ پر باقاعدہ چلنے کے ہیں اور اصطلاحی میں سنتِ نبویﷺ کی پیروی کرنے کے۔ دورانِ فلک کے طفیل یہ لفظ تشیع کے مقابل آ گیا ہے اور ہمارے سنی بھائی اس پر اپنا حقِ ملکیت خیال کرنے لگے ہیں۔ بہرحال، ہم اس لفظ کو اس مضمون میں ہر قسم کے فرقہ وارانہ مضمرات سے ہٹ کر محض اتباعِ سنتِ رسولﷺ کے مفہوم میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ قوموں کے زوال کا دور تقدس سے عبارت ہوتا ہے اور عروج کا بےباکی سے۔ممکن ہے عامۃ المسلمین کو یہ بات نہایت تعجب خیز لگے مگر ہمارے خیال میں حدیثِ قرطاس ان کی اس خوش گمانی کا کافی حد تک ازالہ کر سکتی ہے۔ اس مشہور روایت کے مطابق نبیِ اکرمﷺ کے وصال کے وقت صحابہ میں اس امر میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا کہ رسالت مآب کا حکم مانا جائے یا نہیں۔ بعض کا خیال تھا کہ کہ امتثالِ امر ضروری ہے جبکہ بعض، جن میں حضرت عمرؓ فاروق سرِ فہرست تھے، سمجھتے تھے کہ شدتِ مرض کے سبب حضورﷺ کا حکم لائقِِ اعتنا نہیں۔
بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہی عمرؓ فاروق اپنی خلافت کے دور میں منبر پر کھڑے ہوئے تو ایک شخص نے ان کے کپڑوں پر سوال کیا اور ایسی جرات سے کیا کہ جب تک جواب نہ ملتا اگلی بات سننے پر راضی نہ ہوتا تھا۔ پیر کے قدموں میں سر ٹیک دینے والی اور حکمران کے سامنے گنگ ہو جانے والی قوم کے لیے عملی طور پر اس جرات سے زیادہ ناقابلِ تصور شے کوئی اور نہیں۔
خواتین کے حقوق کے حوالے سے تو جو اقدامات اسلام نے کیے تھے ان کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ باقی حوالے تو شاید بہت ہی زیادہ گراں گزریں مگر ثابت بن قیسؓ کی بیگم کی طلاق آنکھیں کھول دینے کو کافی ہو سکتی ہے۔ موصوفہ نے آں حضرتﷺ کے حضور صاف کہہ دیا تھا کہ ان کے شوہر میں کوئی عیب نہیں مگر وہ انھیں پسند نہیں کرتیں اور آپﷺ نے طلاق کا حکم دے دیا تھا۔ یہ معاشرہ تھا عرب کا جس میں بیٹیاں پیدا ہوتے ہی مار ڈالی جاتی تھیں۔ یہ اعتراض کرنے والی ایک عورت تھی جسے بھیڑ بکری سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہوا کرتی تھی۔ اور یہ جرات دکھائی گئی تھی اس شخص کے سامنے جس سے زیادہ واجب الاحترام نہ کوئی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔
صحت مند تمدن کا ایک لازمہ زبان و بیان کو غیرضروری تقدیس سے پاک کرنا بھی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں جو اعتدال روا رکھا تھا اور کلام میں جس بےساختگی، جرات اور سادگی کو رواج دیا تھا وہ مترجمین اور مفسرین کی عنایت سے اب چشمِ تصور سے بھی اوجھل ہو گیا ہے۔ ہمارے وہ فضلا جو اردو کے محاوروں کو اسلامیانے پر تلے ہوئے ہیں شاید اس بےلاگ طرزِ گفتگو سے واقف ہی نہیں رہے جو قرآن اور اہلِ قرآن نے اپنا رکھا تھا۔ ملاحظہ ہو سورۂِ آلِ عمران کی ۵۴ ویں آیت:
وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
اور اس کے بعد "مکر" کے معانی کسی بھی مستند عربی لغت میں دیکھ لیجیے۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارا آج کا "مودب" اسلام اپنی اصل سے کس قدر دور جا پڑا ہے۔ مثالیں تو بےشمار ہیں مگر اور دوں گا تو شاید مجھے بھائیوں کی فاتحہ بھی نصیب نہ ہو!
میں سمجھتا ہوں کہ گو میں نے خوفِ فسادِ خلق سے حوالے دینے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا ہے مگر پھر بھی انصاف کی نظر رکھنے والے احباب کے لیے آزادی اور بےباکی کی اس روح تک پہنچنا دشوار نہیں ہو گا جو اسلام نے مصنوعی آداب معاشرت کے گلتے ہوئے بدن میں پھونک دی تھی۔ اسلام کا دینِ فطرت ہونا دراصل اسی نکتے میں پوشیدہ ہے کہ اس نے انسان کو انسان ہونے کی ترغیب دی، فرشتہ ہونے کی نہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ فرشتگی اور انسانیت کے درمیان فرق بھی ایک موٹی سی مثال سے واضح کر ہی دوں۔ اپنی فلسفہ زدگی کے دور میں بڑے تدبر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ فطرت انسان کا محاکمہ اس کی خامیوں نہیں بلکہ خوبیوں کی بنا پر کرتی ہے۔ روایاتِ اسلام سے بعد میں میرے اس خیال کی تائید بھی ہو گئی۔ ابو محجنؓ ثقفی ایک مشہور شاعر اور بہادر تھے۔ موصوف امتناعِ شراب کے حکم کے بعد بھی شراب نوشی سے مجتنب نہ ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرتِ عمرؓ نے ان پر سات یا آٹھ مرتبہ حد جاری کی مگر سزا بھگت لیتے تھے، باز نہ آتے تھے۔ ان کے اشعار مشہور ہیں جن میں انھوں نے اپنے بیٹے کو اپنی لاش انگور کی بیلوں کے پاس دفنانے کی وصیت کی ہے۔
جنگِ قادسیہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاصؓ کی کمان میں جو لشکر نکلا تھا اس میں شامل تھے۔ وہاں بھی پیا کیے اور ماخوذ ہو گئے۔ سپہ سالار نے زنجیروں میں جکڑوا دیا۔ اب زندان خانے سے بیٹھے لڑائی دیکھ رہے تھے کہ جوش آیا۔ سپہ سالار کی بیگم سے التجا کی کہ مجھے چپکے سے آزاد کر دو۔ اگر شہید نہ ہوا تو واپس آ کر خود بیڑیاں پہن لوں گا۔ انھیں ان کی بےقراری دیکھ کر رحم آ گیا۔ انھوں نے زنجیریں توڑ ڈالیں اور ابو محجنؓ نے میدان میں پہنچ کر وہ جوہر دکھائے کہ سعد بن ابی وقاصؓ ششدر رہ گئے۔ انھیں شبہ پڑتا تھا کہ یہ ابو محجنؓ ہی کے رنگ ڈھنگ ہیں پر یہ سوچ کر رہ جاتے تھے کہ وہ تو قید ہیں۔ بعد کو معاملے کی خبر ہوئی تو فوراً یہ کہتے ہوئے آزاد کر دیا کہ مسلمانوں کے ایسے جاں نثار پر میں حد جاری نہیں کروں گا۔ ابومحجنؓ بھی غیرت مند تھے۔ انھوں نے بھی تب قسم کھائی کہ آج کے بعد شراب نہ پیوں گا۔
دو باتیں اس قصے میں ایسی ہیں جو غور کیا جائے تو انتہائی چونکا دینے والی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جناب ابو محجنؓ جیسے لوگ قرونِ اولیٰ کے اسلامی معاشرے کا نمایاں حصہ تھے۔ اور دوسری یہ کہ حضرت سعدؓ جیسے جلیل القدر صحابی نے انھیں ایک ایسی رعایت دے دی تھی جو شریعت کے خلاف تھی۔ امید ہے میں یہ واضح کر سکا ہوں گا کہ ٹھیٹھ اسلام انسان سے فرشتہ ہو جانے کا تقاضا نہیں کرتا۔
فی زمانہ معاملہ یہ ہے کہ اہلِ اسلام اور بالخصوص مسلمانانِ پاک و ہند تمدنی تصنع کی کم و بیش اسی منزل پر پہنچ گئے ہیں جس پر ظہورِ اسلام سے قبل عرب کا معاشرہ موجود تھا۔ تمدنی تصنع سے میری مراد وہ تمام تر غیرفطری سماجی رویے اور معمولات ہیں جن کا شریعت یا فطرتِ انسانی سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ اس میں تقدس اس سطح تک پہنچ جاتا ہے کہ شریعت پوجا پاٹھ اور حقیقت دیومالا معلوم ہونے لگتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ اسلام میں اس تصنع کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب یہ جزیرۃ العرب سے نکل کر عجم پر غالب آیا تھا۔ مفتوحین پر اسلام کی ایسی دھاک بیٹھ گئی تھی کہ وہ ریاستی سے زیادہ نفسیاتی غلامی کا شکار ہو گئے تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے آج ہم ذہنی طور پر مغرب کے سحر میں جکڑے جا چکے ہیں۔ ایسی صورت میں مفتوح خود کو فاتح سے بھی زیادہ فاتح کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنے لگتا ہے جس سے تصنع کی بنا پڑتی ہے۔ آپ کو اپنے اردگرد بہت سے ایسے نوجوان مل جائیں گے جن کی مثلاً مغربی موسیقی پر نظر ایک عام مغربی شخص سے کہیں زیادہ گہری ہو گی۔ خود مجھے یاد ہے کہ بیس اکیس برس کی عمر میں میری ملاقات ایک جرمن شخص سے ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا تھا، "تو تم نطشے کے ملک سے ہو؟" اور پھر نطشے کی وہ مدح سرائیاں شروع کی تھیں کہ وہ شخص حیران رہ گیا۔ بالآخر اس نے کہا، "میں نطشے کو زیادہ نہیں جانتا۔" اور مجھے یقین نہیں آیا۔ آتا بھی کیسے؟ میں تو اپنے اس علم کے زور پر بات کر رہا تھا جس کے مطابق ہٹلر کی قوم پرستی کے پیچھے نطشے کی انانیت کا ہاتھ تھا اور جو بتاتا تھا کہ جرمن ہٹلر کے فسوں سے ابھی تک نہیں نکلے۔
اسلام بھی جب اپنے مرکز سے نکل کر ادھر ادھر پھیلنا شروع ہوا تو مغلوب اقوام اسی مرعوبیت کا شکار ہو گئیں۔ اس کا نتیجہ ایک ایسی انتہا پسندی اور ظاہر پرستی کی صورت میں نکلا جس کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ مثلاً زہد و ورع کو اس کمال پر پہنچا دیا گیا کہ شہر میں بکری چوری ہو جائے تو حرام کے خدشے سے بکری کا گوشت کھانا ہی ترک کر دیا جائے۔ ان بزرگوں کے خلوص میں کلام نہیں مگر سوال یہ ہے کہ آں حضرتﷺ کے دور میں تو اردگرد سودخوار یہودی بھی بستے تھے اور چیرہ دست کفار بھی۔ آپ نے تو کبھی ایسے کسی گمان پر کوئی شے کھانی ترک نہ فرمائی تھی۔ میں نے خود اپنے والد کو دیکھا کہ وضو کے بعد پانی کے چھینٹوں کے بارے میں بھی غیرمعمولی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اور میں حیران ہو کر سوچتا تھا کہ کیا حضرت محمدﷺ بھی نماز کو جاتے ہوئے یونہی قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہوں گے۔ میرے والد کے ہاں تو خیر اس قسم کے سوالات کی اجازت تھی مگر اس تقدس کا کیا کیجیے جو اب تصنع کا نگران بن کر بیٹھ گیا ہے اور کسی بےجا روایت پر انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔
اب اسلام کا یہ مصنوعی تاثر اس حد تک جم گیا ہے کہ ارضی حقائق تو ایک طرف رہے، خود اصل اسلام بھی سامنے لایا جائے تو یار لوگوں کو غیرت آ جائے گی۔ مجھے پچھلے کچھ عرصے میں کچھ ایسے تجربات ہوئے ہیں جن سے مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ اہلِ اسلام کے سوادِ اعظم کی حیا اور تہذیب اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب شاید ان کے لیے گھروں میں قرآن پڑھنا بھی شاید ممکن نہ رہا ہو۔ احادیث کے مجموعے تو خیر ایسے لاتعداد حقائق کے بیان پر مبنی ہیں جن سے ایک سلیم الفطرت شخص کو تو باک نہیں مگر ہمارے تہذیب یافتہ احباب کو اس سے دل کا دورہ پڑنا عین قرینِ قیاس ہے۔
جوشؔ ملیح آبادی نے یادوں کی برات میں بہت سے ایسے معاملات کے بارے میں یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ میری شرمیلی قوم اس کی تاب نہیں لا سکتی۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ جوشؔ کے وقت تک حالات پھر بھی بہت سازگار تھے۔ یہ شرمیلی قوم اب چھوئی موئی بن چکی ہے جس سے آگے صرف "موئی" ہی کا مقامِ محمود رہ گیا ہے۔ جوش نے تو بڑی سہولت سے بہت سے ایسے معاملات نقل کیے ہیں جو اس وقت تک قابلِ مواخذہ نہ سمجھے جاتے تھے۔ شراب نوشی اس کی بین مثال ہے۔
پرانا عہد اور بھی زیادہ آزاد معلوم ہوتا ہے۔ اساتذہ کے دواوین میں ایسے اشعار عموماً مل جاتے ہیں جو آج پڑھنے بھی یقیناً معیوب خیال کیے جائیں گے۔ نثر کا معاملہ تو پھر الگ ہی ہے۔ محمد علی صاحب رودولوی کا ہما خانم کے نام وہ خط اٹھا کر دیکھ لیجیے جس میں انھوں نے خدا سے اپنے تعلق کا ذکر کیا ہے۔ اگر کوئی آج ایسی جرات کرے تو علما کے فتویٰ سے پہلے ہی، جو بہرحال اپنی جگہ یقینی ہے، عوام کا انگوٹھا اس کے نرخرے پر ہو گا۔ حد یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے اقبال کا مصرع "مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کر دے" نقل کرنے پر ایک صاحب میری جان کے لاگو ہو گئے تھے کہ امت کو مرحوم کہنا توہین کے زمرے میں آتا ہے۔
مجھے کہنے دیجیے کہ اسلام کے اصل اخلاق اپنے جوہر میں کم و بیش وہی تھے جو آج مغرب کے ہیں۔ اپنی فطرتیت، سادگی اور برجستگی کے لحاظ سے ہمارے اسلاف کی معاشرت اور آداب ہرگز ہرگز وہ نہ تھے جیسے فی زمانہ ہم نے گھڑ رکھے ہیں۔ مغرب میں عریانیت اور فحاشی کا ڈھنڈورا ہمارے ہاں بہت پیٹا جاتا ہے مگر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ مغرب کے اخلاقی نظام کا اساسی حصہ نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف اچھا خاصا ردِ عمل خود وہیں سے اٹھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آزادئِ فکر و عمل کو غیرضروری طور پر یقینی بنانے کے خبط نے اس ردِ عمل کو بارآور نہیں ہونے دیا۔ لیکن اس معاملے سے قطعِ نظر کر کے دیکھا جائے تو اپنی طرزِ معاشرت میں جو اصلیت اور جرات اہلِ مغرب نے اپنائی ہے وہ درحقیقت عیناً وہی ہے جس کی اسلام نے نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ اسے لازم قرار دیا تھا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تسنن فی الحقیقت اس تقدس اور تصنع سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا جسے ہم نے بحیثیت مسلمانوں کے خود پر لازم کر رکھا ہے۔ ہمارے اس بناوٹی اور غیرفطرتی سماج میں بول چال سے لے کر مرد و زن کے تعلقات تک اکثر معاملات ایسے ہیں جن میں عجمی اور بالخصوص ہندی روایات کا دخل ہے۔ جس قسم کی رسوم کا قلع قمع رسول اللہ ﷺ نے عرب میں فرمانا چاہا تھا، ویسی ہی ہم نے ان کے نام پر جاری کر دی ہیں اور لطیفہ یہ ہے کہ اسے عین سعادت مندی خیال کرتے ہیں۔ ایک شعر یاد آ رہا ہے۔ معلوم نہیں کس کا ہے مگر اس گفتگو کے اختتام پر شاید مناسب رہے گا۔
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
پھر اس کے بعد آپ نے اسی اصول ہر دوپہلوں پر کچھ دلائل جمع کئے، قران سے بھی استفادہ کیا تاریخ سے بھی مثالیں لیں، اور اپنا موقف ہمارے سامنے رکھا۔ چونکہ تحریر کے حوالے سے آپ کا بیان کردہ یہ اصول بنیاد کے پتھر کی طرح ہے اس لئے بجائے پوری تحریر پر بات کرنے کے اگر اس اصول پر بات کرلی جائے تو ہمیں ادھر ادھر الجھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، یعنی اگر یہ اصول درست ہے تو ہم آگے بات کریں گے اور اگر اس اصول میں ہی کوئی سقم ہے تو تحریر میں موجود باقی تمام باتیں بے معنی ہوجاتی ہیں کیونکہ وہ تمام باتیں تمام دلائل اسی ایک اصول کے "تحت" جمع کئے گے ہیں۔ چلیں اس اصول کے تحت ہم تاریخ اقوام عالم کا جائزہ لیتے ہیں ، یونانی قوم (سکندریہ) نے عروج حاصل کیا ، ایرانیوں نے ایک طویل دور گزارا، منگول ایک دنیا پر چھائے ، کئی اور مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں، مگر کسی ایسی قوم کی مثال موجود نہیں جو تقدس کی بنیاد پر زوال پزیر ہوئی ہو، اصول کے دوسرے حصے میں عروج کی جو وجہ بیان کی جارہی ہے وہ بھی تاریخی دلائل کی متلاشی معلوم ہوتی ہے، یعنی ہم "جرات، جوانمردی، بہادری، اتحاد، نظریہ، تعصب، حمیت ، انتظامی و فکری صلاحیت کی بنیادوں پر تو قوموں کو عروج حاصل کرتا ہوا دیکھتے ہیں مگر بے باکی کی بنیاد پر عروج حاصل کرتا تاریخ انسانی میں کوئی گروہ نہیں ہے۔ یعنی یہ اصول جس کے تحت بحث کا آغاز کیا گیا ہے وہ اصول ہی اپنی بنیادوں کا متلاشی نظر آتا ہے،۔ لہذا اس اصول کے تحت جو کچھ بھی دلائل اکھٹے کئے گئے ہیں وہ اس اعتبار سے قابلِ توجہ نہیں البتہ دوسرے اعتبار بلکہ اعتبارات سے انہیں دیکھا جاسکتا ہے ، اول تو اس میں یہی ہے کہ اگر اس اصول کو برائے گفتگو درست تسلیم بھی کرلیا جائے تب ان نظائر و دلائل سے اس اصول کا کیا واسطہ ہے، دوم یہ کہ آپ ہمارے دوست ہیں اور آپ نے بات کی ہے بہرحال اس پر بحث کرنا ہماری دوستانہ زمہ داری ہے۔قوموں کے زوال کا دور تقدس سے عبارت ہوتا ہے اور عروج کا بےباکی سے
حدیث قرطاص، کو حوالہ کرتے ہوئے آپ نے جس "اصولِ بےباکی" کی دلیل اخذ کی ہے، یقین کیجئے یہ دلیل اس واقعہ سے نکلتی ہی نہیں ، مگر چونکہ آپ نے گفتگو کی بنیاد فلسفیانہ اور موضوع اسلامیات رکھا ہے اس لئے ہمیں تاریخ میں اسلامی مفکرین کی طرف ایک نظر ضرور دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے اس حدیث سے کیا رائے لی ہے ، میرا خیال ہے کسی ایک نے بھی اس حدیث سے وہ اصول اخذ نہیں کیا جو اوپر مذکور ہے۔ آپ نے جو یہ نتیجہ دیا کہ "حکم لائق اعتنا نہیں" یہ محض ایک رائے ہو سکتی ہے جو آپ نے قائم کی مگر یہ کہنا کہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی "اسی وجہ" سے کہا تھا میں سمجھتا ہوں ایک طرح کی زیادتی ہے اور تاریخ پر فلسفہء تاریخ کو زبردستی لاگو کرنے والی بات ہے۔حدیثِ قرطاس
یہ معاملہ بھی تاریخ اسلامی سے ماخوذ ہے ، جس میں کسی طور بے باکی کی جا نہیں ہے بلکہ ایک مشورہ تھا جسے رد بھی کیا جاسکتا تھا قبول بھی ، اور امت مسلمہ میں یہ چلن عام ہے ، تاریخ اسلامی ان نظائر سے خالی نہیں، وہ بدر کے دن خیمہ لگانے کا معاملہ اور حدیبیہ سے سفیر مقرر کرنے کا معاملہ ہو مدینہ میں سیف البحر سے اس کی ابتدا کیجئے تو حج الودع تک یہ ایک عمومی بات نظر آتی ہے۔ مکی دور کا حوالہ میں اس لئے نہیں دے رہا کہ کہا جاسکتا ہے کہ انتظامی حثیت میں بہرحال فرق تھا۔
یہ ایک اور اہم اصول بیان کیا گیا ، گو کہ یہ خود ایک علیحدہ موضوع ہے جس پر علیحدہ بات کی جانی چاہیئے، لیکن اس ذیل میں جو آیات آپ نے حوالے کے طور سے دی ہے اس سے بات بالکل مختلف ہوگئی ہےصحت مند تمدن کا ایک لازمہ زبان و بیان کو غیرضروری تقدیس سے پاک کرنا بھی ہے
اس پر بحث کی جاسکتی ہے مگر ابھی اس کا وقت نہیں ہے۔وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
راحیل بھائی اس مقام پر آپ اپنے نظریے اور اصول کے دفاع میں کچھ سخت محسوس ہوئے، جبکہ ہمیں آپ سے یہ توقع نہیں ہے، اردو میں ایک ہزار سے زائد تراجم اور تفاسیر موجود ہیں فارسی کا دامن بھی بہت وسیع ہے عربی کا تو کہنا ہی کیا، یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک زندہ زبان میں کسی لفظ کے معنی اپنی اصل سے ہٹ جائیں اور کسی کو کان و کان خبر نہ ہو کہ تقدیس کے پردے میں لفظ ہاتھ سے گیا، جبکہ مذکورہ بالا تینوں زبانوں میں ایک بات بہت مشترک ہے وہ یہ کہ ان تینوں زبانوں کے بولنے والے اپنی انپی زبانوں سے بہت محبت کرتے ہیں ، اور تینوں زبانوں میں زبان کے ماہرین کثرت سے موجود ہیں۔مترجمین اور مفسرین کی عنایت سے اب چشمِ تصور سے بھی اوجھل ہو گیا
یہ بھی محض زورِ کلام میں کہا گیا جملہ محسوس ہوتا ہے ورنہ ہمیں بحیثیت اردو بولنے ، سمجھنے ، پڑھنے والے کے ایسا کوئی طبقہء فکر نظر نہیں آتا جو اس زبان کے محاورں کو اسلامیانے پر تلا ہو، البتہ ہم اپنے گھر میں ایسے سینکڑوں محاورے استعمال کرتے ہیں جن میں ہندوستان کی مذہبی تاریخ کی خوشبو محسوس ہوتی ہے ،محاوروں کو اسلامیانے پر تلے ہوئے ہیں
راحیل بھائی، اسلام کا فلسفہء زندگی دوسرے فلسفوں سے اس قدر مختلف ہے کہ اسے کسی دوسرے فلسفے پر قیاس کر کے نہیں دیکھا جاسکتا، اسلام انسان کو انسان ہونے کی تعلیم دیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اسلام کے اصول اس سلسلے میں کافی مختلف ہیں۔اسلام کا دینِ فطرت ہونا دراصل اسی نکتے میں پوشیدہ ہے کہ اس نے انسان کو انسان ہونے کی ترغیب دی، فرشتہ ہونے کی نہیں
اس خاص تناظر میں آپ نے دو ایسی چیزوں کے درمیاں فرق کا ذکر کردیا جو سرے سے مذکور ہی نہیں۔ بلکہ فرق صرف "انسان" اور "صالح انسان" کا ہے۔ ظاہر سی بات ہے جو شخص بھی اسلام کا مطالعہ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ صالح انسان کو کسی طور فرشتہ ہونے کو نہیں کہا جاتا بلکہ اسے اس کے علاوہ کچھ اور تعلیمات دی جاتی ہیں۔ جس کا فرق ظاہر کیا جانا چاہیئے تھافرشتگی اور انسانیت کے درمیان فرق
یہ ایک تیسرا اصول بیان کیا گیا ہے مگر چونکہ یہ اصول فلسفیانہ اور ذاتی ہے اس لئے اس پر پھر کبھی بات ہوگی، ابھی صرف اس بات کے ذیل میں آپ کا یہ کہنا کہ اسلام بھی یہی کچھ معاملہ رکھتا ہے اس پر بات کرتے ہیں ۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اسلام کا مطالعہ اسلام سے درست آگاہی فراہم کرنے کیلئے کافی نہیں بلکہ جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے تب تک اس کا درست طور سے ادراک ممکن نہیں۔ اس معاملے میں بھی یہ بات واضح ہوجانا ضروری ہے کہ شخصیتِ انسانی کا محاکمہ ایک بالکل علیحدہ شے ہے جبکہ اس انسان کے بعض افعال پر گرفت کرنا یا بعض افعال کی توصیف کرنا ایک الگ بات ہے ۔ ہم کسی طور ان دونوں باتوں کو یکساں نہیں کرسکتے۔ اسلام ، افعال کے معاملے میں کسی ایک طرف جھکاؤ کا قائل ہرگز نہیں۔ ویسے تو یہ بھی الگ موضوع ہے اگر بات اگے چلی تو اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات سے استفادہ کیا جائے گا۔فطرت انسان کا محاکمہ اس کی خامیوں نہیں بلکہ خوبیوں کی بنا پر کرتی
یہ بالکل عجیب معاملہ ہے کہ تمام جماعتِ صحابہ کو چھوڑ کر ابو محجن رضی اللہ عنہ کی روش کو نظیر بنایا جائے۔ یعنی پہلے تو فرق میں انسان اور صلح انسان کی بجائے انسان اور فرشتہ کی بات کی جائے اور پھر اس اصول کے تحت گروہ صحابہ میں محجن رضی اللہ کی روایت کو دلیل بنایا جائے۔ بنو ثقیف کا ایک مزاج ہے اور تاریخ کے قاری اس سے بخوبی واقف ہیں، پھر قادسیہ کے جس معرکے کا ذکر کیا گیا ہے اس کی اپنی ایک تاریخ ہے ان دو حوالوں کو نظر انداز کرکے اس واقعہ کو نظیر کی حثیت سے دیکھنا درست نہیں ہے۔ بلکہ سیاق و سباق کے اعتبار سے معاملے کو دیکھنا چاہیئے ۔ابو محجنؓ ثقفی
دیکھیئے میں عرض کرچکا ہوں کہ یہ معاملہ تو سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو کیونکر اس کی بنیاد پر ایک ایسی رائے قائم کی جاسکتی ہے جو تاحال منتظر دلیل ہے۔اسلام انسان سے فرشتہ ہو جانے کا تقاضا نہیں کرتا
اہلِ اسلام اور بالخصوص مسلمانانِ پاک و ہند تمدنی تصنع کی کم و بیش اسی منزل پر پہنچ گئے ہیں جس پر ظہورِ اسلام سے قبل عرب کا معاشرہ موجود تھا
تمدنی تصنع سے میری مراد وہ تمام تر غیرفطری سماجی رویے اور معمولات ہیں جن کا شریعت یا فطرتِ انسانی سے دور دور کا بھی تعلق نہیں
اب اسلام کا یہ مصنوعی تاثر اس حد تک جم گیا ہے کہ ارضی حقائق تو ایک طرف رہے، خود اصل اسلام بھی سامنے لایا جائے تو یار لوگوں کو غیرت آ جائے گی
مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ اہلِ اسلام کے سوادِ اعظم کی حیا اور تہذیب اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب شاید ان کے لیے گھروں میں قرآن پڑھنا بھی شاید ممکن نہ رہا ہو
یہ شرمیلی قوم اب چھوئی موئی بن چکی ہے جس سے آگے صرف "موئی" ہی کا مقامِ محمود رہ گیا ہے
محمد علی صاحب رودولوی کا ہما خانم کے نام وہ خط
مجھے کہنے دیجیے کہ اسلام کے اصل اخلاق اپنے جوہر میں کم و بیش وہی تھے جو آج مغرب کے ہیں۔
مراسلہ نمر 26 کا دوسرا پیراامید ہے میں یہ واضح کر سکا ہوں گا کہ ٹھیٹھ اسلام انسان سے فرشتہ ہو جانے کا تقاضا نہیں کرتا۔
مقام محمود کے علاوہ اور کوئی لفظ میسر نہیں تھا !یہ شرمیلی قوم اب چھوئی موئی بن چکی ہے جس سے آگے صرف "موئی" ہی کا مقامِ محمود رہ گیا ہے
عصر حاضر میں کوئی ایک ایسا سماج بتائیے جو اس سے پاک ہو اور آپ کے لیے رول ماڈل ہو !!! مرد وزن کے تعلقات کی کونسی نوعیت ؟ وضاحت فرما دیں گے۔ہمارے اس بناوٹی اور غیرفطرتی سماج میں بول چال سے لے کر مرد و زن کے تعلقات تک اکثر معاملات ایسے ہیں جن میں عجمی اور بالخصوص ہندی روایات کا دخل ہے
تحریر کے پہلے حصے میں آپ اسلام کے ابتدائی دور کی روایتیں اور مثالیں دے رہے ہیں شراب، درے، طلاق بلا بلا۔ لیکن جس نکتے پر لانے کے لیے آپ نے یہ سب مثالیں پیش کی اور قران مجید کے بے لاگ طرز گفتگو کا حوالہ تک دیا ہے وہاں آپ 'اکثر معاملات' اور 'جس قسم کی رسوم' کہہ کر بات کو گول مول کر گئے ہیں۔ واہ صاحب واہجس قسم کی رسوم کا قلع قمع رسول اللہ ﷺ نے عرب میں فرمانا چاہا تھا، ویسی ہی ہم نے ان کے نام پر جاری کر دی ہیں اور لطیفہ یہ ہے کہ اسے عین سعادت مندی خیال کرتے ہیں
عثمان بھائی، میں کوشش کرتا ہوں کہ لکھتے ہوئے حد درجہ احتیاط سے کام لوں۔ اس لیے اگر میری تحریروں کو غور سے پڑھا جائے تو شاید اکثر سوالات پیدا ہی نہ ہوں۔ مگر پھر میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ وقت کی قلت کے باعث مجھ ہیچ مدان کی معروضات پر اتنی توجہ صرف کرنا ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔آپ نے جدید مسلمان معاشروں کی تمدنی تضع کا قصور وار عجمی تہذیب کو ٹھہرایا ہے۔ جدید عرب معاشروں میں بھی ایسی ہی مصنوعی بناوٹ اور تمدنی تضع کی وضاحت آپ کیسے کریں گے ؟
کیا آپ کے خیال میں عرب معاشروں پر بھی اسی عجمی تمدنی تضع کی چھاپ ہے ؟
ایک دوسری جہت کی جانب اشارہ بھی میں نے اسی لیے کیا تھا:میرا خیال ہے کہ اسلام میں اس تصنع کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب یہ جزیرۃ العرب سے نکل کر عجم پر غالب آیا تھا۔
جہاں تک خاص عرب معاشرے کا تعلق ہے تو اس کا میں نباض نہیں۔ مگر میرا خیال ہے (جو غلط بھی ہو سکتا ہے) کہ فی زمانہ وہ اکثر جگہوں پر اس مرض سے ہماری نسبت زیادہ مامون ہیں۔ گو کہ چیدہ چیدہ معاملات میں ان کی شدت غضب کی ہے مگر من حیث المجموع وہ کسی حد تک اس فطرتیت اور اصلیت کو بحال رکھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس کا کچھ تعلق اسلام کے علاوہ بدویت سے بھی ہے۔ پھر تیل کے انقلاب نے چونکہ انھیں اچانک ہی دورِ جدید میں لا کھڑا کیا ہے تو مغرب کے تمدن سے وہ ہماری نسبت متاثر بھی زیادہ ہوئے ہیں جس نے انھیں تصنع کا ہماری حد تک شکار ہونے سے بچا لیا ہے۔ہمارے اس بناوٹی اور غیرفطرتی سماج میں بول چال سے لے کر مرد و زن کے تعلقات تک اکثر معاملات ایسے ہیں جن میں عجمی اور بالخصوص ہندی روایات کا دخل ہے۔
حکم کی تعمیل کی گئی، بھائی!راحیل بھائی میں نے آپ کا مراسلہ نہیں پڑھا۔ یہ "بئی مانٹی" ہے ۔ پہلے ہماری بات ختم ہونے دیتے پھر بات کرتے ، ورنہ آپ کی درمیان میں کی گئی بات میرے رائے پر اثر انداز ہو سکتی ہے جبکہ میں یہ چاہتاہوں کہ میری خالص رائے بغیر بیرونی اثرات کے آپ تک پہنچ جائے ۔ لہذا اپنا مراسلے حذف کیجئے اور جب میری بات مکمل ہوجائے تو دوبارہ اسے پوسٹ کردیجئے گا۔
راحیل فاروق
شعر علامہ جمیل مظہری کا ہے۔معلوم نہیں کس کا ہے مگر اس گفتگو کے اختتام پر شاید مناسب رہے گا۔
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
اس سے فساد خلق کا اندیشہ ہے۔ کیوں مذہبی عقیدت سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود کر دیتی ہے۔ بات راحیل کی نہیں۔ بات ان لوگوں کی ہے جو سامنے سے اندھا دھند حوالات و مقالات کے کاپی پیسٹ کا بازار گرم کر دیں گے۔نام لیکر بیان کیجیے، کہیے کہ آپ عید میلاد النبی ﷺ، عاشورہ محرم، سیرت کانفرنسوں، صحابہ کانفرنسوں، دعوت اسلامی اور رائے ونڈ کے مذہبی اجتماعوں، گیارہویں کے لنگروں، کونڈوں کی نیازوں، قلوں کے ختم وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ کے خلاف بات کر رہے ہیں۔
راحیل بھائی میرا خیال ہے یہاں ہمیں ٹھہر نا چاہیئے، اور رک کر ایک نظر پیچھے کی طرف دیکھنا چاہیئے کہ آیا ہم اس جملے کیلئے اپنی تحریر میں کسی نوعیت کا اہتمام کر آئے ہیں؟ اگر نہیں تو ایسی صورت میں یہ جملہ انتہائی سخت تصور کیا جائے گا۔ پہلی بات تو یہ کہ برصغیر میں تمدنی تصنع سے عرب کے خطے ، زبان، اور تمدن سے کسی طور موازنہ بنتا ہی نہیں ہے،، کجا یہ کہ برصغیر کے تمدنی تصنع کو عرب کے معاشرے پر قیاس کیا جائے اور وہ بھی جہالت کے دور سے ۔اہلِ اسلام اور بالخصوص مسلمانانِ پاک و ہند تمدنی تصنع کی کم و بیش اسی منزل پر پہنچ گئے ہیں جس پر ظہورِ اسلام سے قبل عرب کا معاشرہ موجود تھا
یہ بنیادی بات ہے، تمدنی تصنع سے آپ کی جو کچھ مراد ہے اس کے بعد کسی ذی فہم کو آپ کی بات سے اختلاف ممکن نہیں ، مگر اس سلسلے میں بھی وضاحت بہت ضروری ہو جاتی ہے کہ آیا وہ شے جس کے بارے میں گمان کیا جائے اپنی جنس میں بھی ویسی ہی ہے جیسا کہ گمان کیا گیا ہے۔ کیونکہ تمدن کی بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جنہیں عموماََ لوگ گیہوں کے ساتھ پیس دیا جاتا ہے جبکہ حقیقی اعتبار سے اس شے میں کوئی خرابی نہیںتمدنی تصنع سے میری مراد وہ تمام تر غیرفطری سماجی رویے اور معمولات ہیں جن کا شریعت یا فطرتِ انسانی سے دور دور کا بھی تعلق نہیں
اب اسلام کا یہ مصنوعی تاثر اس حد تک جم گیا ہے کہ ارضی حقائق تو ایک طرف رہے، خود اصل اسلام بھی سامنے لایا جائے تو یار لوگوں کو غیرت آ جائے گی
راحیل بھائی یہاں بھی اختلافی نوٹ، اور وہ یہ کہ اس قسم کی رائے کے اظہار کے بعد آپ یہ ایک بہت بڑے دعویٰ کے علم بردار بن جاتے ہیں ، جسے پورا کرنا کم از کم انٹرینٹ کے کسی فورم کی گفتگو میں ممکن نہیں ہوسکے گا لہذا علاقائی بیماریوں کو سوادِ اعظم پر لاگو کرنا نامناسب معلوم ہوتا ہے۔مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ اہلِ اسلام کے سوادِ اعظم کی حیا اور تہذیب اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب شاید ان کے لیے گھروں میں قرآن پڑھنا بھی شاید ممکن نہ رہا ہو
یہ میرا ایک باقاعدہ موضوع ہے ، اپنی قوم کے خلاف میں اتنا کچھ پڑھ چکا ہوں کہ اب میں اس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں یہ ایک عمومی رویا بنتا جارہا ہے ۔ ۔۔۔۔۔ لیکن ابھی نہیں کیونکہ اس موضوع پر میں کچھ جذباتی ہو جاوں گا ایسا نہ ہو کسی سخت جملے کا روِ سخن آپ جناب کی طرف ہونے کا اہتمال ہو اور بے وجہ گستاخی کا سبب بنے۔یہ شرمیلی قوم اب چھوئی موئی بن چکی ہے جس سے آگے صرف "موئی" ہی کا مقامِ محمود رہ گیا ہے
یہ زیادہ پرانی بات نہیں اور جس طوراسے ادب میں برتا جاتا ہے اور نہ صرف اس کو بلکہ اس جیسی اور چیزوں کو وہ اس بات پر دلیل ہیں کہ ہمارے پاس اس نوعیت کی تنگ نظری موجود نہیں جس کا ہمیں مجرم ٹھہرایا جاتا ہےمحمد علی صاحب رودولوی کا ہما خانم کے نام وہ خط
مجھے کہنے دیجیے کہ اسلام کے اصل اخلاق اپنے جوہر میں کم و بیش وہی تھے جو آج مغرب کے ہیں۔
چونکہ ابتدائی اسلامی تہذیب عرب کے بدو معاشرے میں اٹھی اسی لیے عرب بدومعاشرے کو اسلامی تہذیب کی "اصلیت" کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں باقی دنیا کو ظاہر ہے ایک چیلنج درپیش ہے کہ ایک عقائد پر مبنی نظام کو اپنے ہاں کے معاشرتی رواج سے ہم آہنگ کیا جائے۔جہاں تک خاص عرب معاشرے کا تعلق ہے تو اس کا میں نباض نہیں۔ مگر میرا خیال ہے (جو غلط بھی ہو سکتا ہے) کہ فی زمانہ وہ اکثر جگہوں پر اس مرض سے ہماری نسبت زیادہ مامون ہیں۔ گو کہ چیدہ چیدہ معاملات میں ان کی شدت غضب کی ہے مگر من حیث المجموع وہ کسی حد تک اس فطرتیت اور اصلیت کو بحال رکھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس کا کچھ تعلق اسلام کے علاوہ بدویت سے بھی ہے۔ پھر تیل کے انقلاب نے چونکہ انھیں اچانک ہی دورِ جدید میں لا کھڑا کیا ہے تو مغرب کے تمدن سے وہ ہماری نسبت متاثر بھی زیادہ ہوئے ہیں جس نے انھیں تصنع کا ہماری حد تک شکار ہونے سے بچا لیا ہے۔
[/USER]
رجال اور ضعیفی اور راویوں کی بحث چھیڑ دو
صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں لفظ "صحیح" لفظ لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی
اگر آپ کو اس سلسلے میں محفلین سے بات کرنی ہو تو ایک نیا دھاگہ کھولیں اور بات کرلیں ، مگر ایسے سستے فقروں کا استعمال بہرحال نامناسب ہے، یہ تو باقاعدہ اشتعال دلانا ہے، اگر کوئی پلٹ کر اسی نوعیت کے سوال داغ دے تو ؟ یہ فرقہ وارانہ انداز گفتگو مناسب نہیں ہے ، اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر لکھے جانے والے سو سو صفحہ کے کتابچوں سے متاثر ان جملوں سے دوستوں میں گفتگو کا مزہ ختم ہو جاتا ہے۔ میری ددرخواست ہے کہ آپ اپنے رویے پر نظر ثانی فرمائیں اور اس میں تبدیلی کی کوشش کیجئے، یقین کیجئے باقی احباب کا مطالعہ یقناََ مجھ سے زیادہ ہی ہوگا مگر یہ خاکسار بھی ان موضوعات پر پچیس پچاس سیر سیاہی مَلا کاغذ اپنی نظر سے گزار چکا ہے اس لئے بھر پور اندازہ ہے کہ یہ انداز کیوں کب اور کیسے اختیار کیا جاتا ہے۔مختصر یہ کیوں نہیں کہتے کے بہت ساری غلط احادیث میں سے جو صحیح تھی یہ ان کا مجموعہ ہے .... مجبوراً