صد فی صد متفق!
آپ نے شاید مذاقاً ارشاد کیا ہے مگر واللہ میرے لیے یہ واقعی اعزاز کی بات ہے۔ میں جس قدر آپ کو جانتا ہوں اس بنیاد پر میرا یہ خیال ہے کہ یہ گفتگو کم از کم میرے لیے نہایت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ کسی دانا کا فرمان ہے کہ ایماندارانہ مباحثے میں ہارنے والا زیادہ فائدے میں رہتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ میں آپ کو اپنی بات سمجھا نہیں سکا۔ میرا ادعا ہرگز یہ نہیں تھا کہ جرات و بےباکی قوموں کے عروج کا واحد سبب ہوتی ہے اور تقدیس ان کے زوال کی واحد وجہ۔ میں نے صرف اس قدر عرض کرنا چاہا تھا کہ عروج کے دور کی ایک بڑی خصوصیت جو خواہ مخواہ فاتح اور خوش بخت قوموں میں پیدا ہو جاتی ہے وہ بےباکی ہے۔ بالکل اسی طرح زوال کی علامات میں سے ایک بہت بڑی علامت بےجا تقدیس و تکریم بھی ہوتی ہے۔ علامت اور سبب کا فرق میں اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ میں نے ان خصوصیات کو سبب ہرگز قرار نہیں دیا۔
---
کسی اور نے اس حدیث سے یہ پہلو نہیں نکالا تو اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کی کماحقہ ضرورت پیش نہ آئی ہو۔ مگر یہ دلیل کچھ صائب نہیں معلوم ہوتی کہ چونکہ پہلے ایسا نہیں کیا گیا تو اب کرنا نامناسب ہے۔ اگر میرے استناد میں کوئی منطقی غلطی ہے تو اسے واضح فرمائیے ورنہ یہ بیان کیجیے کہ رسالت مآبﷺ کے سرھانے اس اختلاف کو آپ سرتابی کے برخلاف تسلیم و اطاعت کے خانے میں کس طرح بٹھائیں گے؟
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ صحابہ کے مابین اختلاف ہونے تک تو سبھی مکاتبِ اسلام متفق ہیں۔ بعد کے معاملات پر بحث ہوتی ہے اور اسی وجہ سے یہ حدیث مشہور بھی ہے کہ کیا ہوا اور کیا ہونا چاہیے تھا۔ میں نے تو ایک طرح سے متفق علیہ بات کی جانب توجہ دلائی ہے جس میں کسی کو شبہ یا اعتراض نہیں۔ میرا استدلال صرف اس قدر ہے کہ اس نوعیت اور درجے کا اختلاف صرف اسلام کی عطا کردہ جرات کے طفیل ہی ممکن ہو سکتا تھا۔
حدیبیہ کا معاملہ تو مجھے انتہا کا معلوم ہوتا ہے۔ میں نے طوالت اور گردن زنی کے خوف سے فقط ایک ایک مثال پر اکتفا کیا ہے۔ مگر یہ جو آپ نے فرمایا ہے کہ یہ بےباکی نہیں ہے، یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ خاتون کے اس اعلان میں کہ کوئی بھی شرعی عیب نہ ہونے کے باوجود میں اپنے شوہر کو پسند نہیں کرتی، اہلِ نظر کے لیے بہت سے اشارے پنہاں ہیں۔ اسی لیے جنابِ رسولﷺ نے بھی کریدنے کی بجائے معاملے کو فیصل کر دینا زیادہ مناسب سمجھا۔ جہاں تک بےباکی کا تعلق ہے تو وہ شاید اکیسویں صدی کے کراچی میں بسنے والے
ادب دوست بھائی کو نہ معلوم ہوتی ہو مگر اس معاشرے کے تناظر کو ملوظ رکھا جائے جس کا یہ قصہ ہے تو یہ ایک واقعہ ہی شاید اسلام کی پوری انقلابی روح کو سامنے لانے کو کافی ہو گا۔
---
پروفیسر غازی علم دین کی کتاب "لسانی مطالعے" کے بارے میں سوال
بہت ڈرتے ڈرتے بات واضح کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ جان کی امان تو معلوم ہے کہ اس زمانے میں ملتی نہیں۔ مگر اللہ کے آسرے پر اعلائے کلمۃ الحق کی کوشش کرنی ضروری ہے۔ جو مثال میں دینے جا رہا ہوں اس میں اگر آپ غور فرمائیں تو لسانی تاویلات سے لے کر بشریت کے تقاضوں تک ہر شے آ جائے گی۔
جنابِ موسیٰؑ کلیم اللہ جب فرعون کے دربار میں تشریف لے گئے ہیں تو اس نے نہایت غصے کا اظہار کیا۔ کہنے لگا کہ تم تو وہی نہیں جسے ہم نے پالا پوسا اور بڑا کیا۔ اور پھر تم نے ہمارے ساتھ وہ کیا جو تم نے کیا۔ اس پر قرآن کے الفاظ میں حضرتؑ نے یہ فرمایا:
قَالَ فَعَلْتُهَا إِذًا وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ
الشعراء-۲۰
(انھوں نے فرمایا کہ میں نے وہ کام تب کیا جب میں "ضالین" میں سے تھا۔)
اب ذرا سورۂِ فاتحہ کی آخری آیت دیکھیے:
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ
زیادہ حدِ ادب۔
میں اپنے وہ جملے حوالے کے لیے پھر نقل کیے دیتا ہوں جن پر آپ نے اس ضمن میں اعتراض فرمایا تھا:
---
جنابِ ابو محجنؓ کی نظیر اس لیے پیش نہیں کی گئی کہ یہ روش خاکم بدہن لازمۂِ مسلمانی ہے۔ بلکہ صرف یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ انسان اپنی تمام تر خامیوں کے ساتھ بھی اچھا مسلمان ہو سکتا ہے۔ اس بات میں آپ کو کلام ہے تو وضاحت سے ارشاد فرمائیے۔
---
---
---
یہ تو تھا پچھلا مراسلہ جو آپ کے حکم کے موافق ہم نے چھپا لیا تھا۔ اب آگے بڑھتے ہیں۔
ہم نے اپنے معاشرے کو عرب جاہلانہ معاشرے سے کاملاً مماثل نہیں قرار دیا۔ بلکہ اس سے ملتا جلتا قرار دیا ہے:
رہا سوال یہ کہ مماثلت کی بنیادیں کیا ہیں تو وہ واضح کرنے میں مجھے واقعی تامل تھا۔ میں نہیں چاہ رہا تھا کہ اس بحث میں کسی شخص، مسلک یا رویے وغیرہ کو مثال کے طور پر پیش کروں۔ اس لیے اشاروں پر اکتفا کرنا مناسب سمجھا۔ اب بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہوں کہ مآخذِ اسلامیہ سے جو نظائر میں نے پیش کیے ہیں ان سے کہیں زیادہ بین اور متعدد مثالیں انھی کتب میں میرے موقف کی تائید میں موجود ہیں۔ ضرورت صرف اسلام کو درسی نکتۂِ نظر سے ہٹ کر دیکھنے کی ہے۔
مجھے اس میں کلام نہیں کہ یہ پرانی بات نہیں۔ مگر اب بہرحال یہ ناممکن ہے۔
اپنی قوم کے دفاع کے لیے آپ کے جذبات کی میں قدر کرتا ہوں۔ اب اگر غالبؔ کے ساتھ زیادتی کا حکم نہ لگائیں تو میں عرض کروں:
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
قوم سے تجھ کو محبت ہی سہی !
ویسے میرے
ایک مضمون سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ میرا رویہ اہلِ وطن کے لیے خدانخواستہ معاندانہ کبھی نہیں رہا۔ جو نقد زیرِ نظر ہے یہ بھی میں نے اپنے تئیں فقط تجزیے اور تنقیح کی غرض سے لکھا ہے۔
یہ بہت بڑی مجبوری ہے۔ آپ بجا فرماتے ہیں۔
---
---
باقی احباب کے خیالات پر کچھ رائیں محفوظ ہیں جو عند الضرورت ظاہر کروں گا۔ ویسے امید ہے کہ کسی حد تک تو یہ جوابات سبھی سے متعلق ہوں گے۔
دل آزاری اور ممکنہ کوتاہی پر معذرت خواہ ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ ان معروضات کو کسی بدنیتی پر محمول کرنے کی بجائے ایک طالبِ حق کی آشفتگیاں خیال کر کے حسبِ ضرورت اصلاح عمل میں لائی جائے گی۔