ہمیں اندازہ ہے کہ آپ کو ہماری تعریف سے زیادہ ہمارا رائے دینا پسند آئے گا ۔
صد فی صد متفق!
آپ نے شاید مذاقاً ارشاد کیا ہے مگر واللہ میرے لیے یہ واقعی اعزاز کی بات ہے۔ میں جس قدر آپ کو جانتا ہوں اس بنیاد پر میرا یہ خیال ہے کہ یہ گفتگو کم از کم میرے لیے نہایت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ کسی دانا کا فرمان ہے کہ ایماندارانہ مباحثے میں ہارنے والا زیادہ فائدے میں رہتا ہے۔
یونانی قوم (سکندریہ) نے عروج حاصل کیا ، ایرانیوں نے ایک طویل دور گزارا، منگول ایک دنیا پر چھائے ، کئی اور مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں، مگر کسی ایسی قوم کی مثال موجود نہیں جو تقدس کی بنیاد پر زوال پزیر ہوئی ہو، اصول کے دوسرے حصے میں عروج کی جو وجہ بیان کی جارہی ہے وہ بھی تاریخی دلائل کی متلاشی معلوم ہوتی ہے، یعنی ہم "جرات، جوانمردی، بہادری، اتحاد، نظریہ، تعصب، حمیت ، انتظامی و فکری صلاحیت کی بنیادوں پر تو قوموں کو عروج حاصل کرتا ہوا دیکھتے ہیں مگر بے باکی کی بنیاد پر عروج حاصل کرتا تاریخ انسانی میں کوئی گروہ نہیں ہے۔
میرا خیال ہے کہ میں آپ کو اپنی بات سمجھا نہیں سکا۔ میرا ادعا ہرگز یہ نہیں تھا کہ جرات و بےباکی قوموں کے عروج کا واحد سبب ہوتی ہے اور تقدیس ان کے زوال کی واحد وجہ۔ میں نے صرف اس قدر عرض کرنا چاہا تھا کہ عروج کے دور کی ایک بڑی خصوصیت جو خواہ مخواہ فاتح اور خوش بخت قوموں میں پیدا ہو جاتی ہے وہ بےباکی ہے۔ بالکل اسی طرح زوال کی علامات میں سے ایک بہت بڑی علامت بےجا تقدیس و تکریم بھی ہوتی ہے۔ علامت اور سبب کا فرق میں اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ میں نے ان خصوصیات کو سبب ہرگز قرار نہیں دیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ قوموں کے زوال کا دور تقدس سے عبارت ہوتا ہے اور عروج کا بےباکی سے۔
---
حدیث قرطاص، کو حوالہ کرتے ہوئے آپ نے جس "اصولِ بےباکی" کی دلیل اخذ کی ہے، یقین کیجئے یہ دلیل اس واقعہ سے نکلتی ہی نہیں ، مگر چونکہ آپ نے گفتگو کی بنیاد فلسفیانہ اور موضوع اسلامیات رکھا ہے اس لئے ہمیں تاریخ میں اسلامی مفکرین کی طرف ایک نظر ضرور دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے اس حدیث سے کیا رائے لی ہے ، میرا خیال ہے کسی ایک نے بھی اس حدیث سے وہ اصول اخذ نہیں کیا جو اوپر مذکور ہے۔
کسی اور نے اس حدیث سے یہ پہلو نہیں نکالا تو اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کی کماحقہ ضرورت پیش نہ آئی ہو۔ مگر یہ دلیل کچھ صائب نہیں معلوم ہوتی کہ چونکہ پہلے ایسا نہیں کیا گیا تو اب کرنا نامناسب ہے۔ اگر میرے استناد میں کوئی منطقی غلطی ہے تو اسے واضح فرمائیے ورنہ یہ بیان کیجیے کہ رسالت مآبﷺ کے سرھانے اس اختلاف کو آپ سرتابی کے برخلاف تسلیم و اطاعت کے خانے میں کس طرح بٹھائیں گے؟
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ صحابہ کے مابین اختلاف ہونے تک تو سبھی مکاتبِ اسلام متفق ہیں۔ بعد کے معاملات پر بحث ہوتی ہے اور اسی وجہ سے یہ حدیث مشہور بھی ہے کہ کیا ہوا اور کیا ہونا چاہیے تھا۔ میں نے تو ایک طرح سے متفق علیہ بات کی جانب توجہ دلائی ہے جس میں کسی کو شبہ یا اعتراض نہیں۔ میرا استدلال صرف اس قدر ہے کہ اس نوعیت اور درجے کا اختلاف صرف اسلام کی عطا کردہ جرات کے طفیل ہی ممکن ہو سکتا تھا۔
یہ معاملہ بھی تاریخ اسلامی سے ماخوذ ہے ، جس میں کسی طور بے باکی کی جا نہیں ہے بلکہ ایک مشورہ تھا جسے رد بھی کیا جاسکتا تھا قبول بھی ، اور امت مسلمہ میں یہ چلن عام ہے ، تاریخ اسلامی ان نظائر سے خالی نہیں، وہ بدر کے دن خیمہ لگانے کا معاملہ اور حدیبیہ سے سفیر مقرر کرنے کا معاملہ ہو مدینہ میں سیف البحر سے اس کی ابتدا کیجئے تو حج الودع تک یہ ایک عمومی بات نظر آتی ہے۔ مکی دور کا حوالہ میں اس لئے نہیں دے رہا کہ کہا جاسکتا ہے کہ انتظامی حثیت میں بہرحال فرق تھا۔
حدیبیہ کا معاملہ تو مجھے انتہا کا معلوم ہوتا ہے۔ میں نے طوالت اور گردن زنی کے خوف سے فقط ایک ایک مثال پر اکتفا کیا ہے۔ مگر یہ جو آپ نے فرمایا ہے کہ یہ بےباکی نہیں ہے، یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ خاتون کے اس اعلان میں کہ کوئی بھی شرعی عیب نہ ہونے کے باوجود میں اپنے شوہر کو پسند نہیں کرتی، اہلِ نظر کے لیے بہت سے اشارے پنہاں ہیں۔ اسی لیے جنابِ رسولﷺ نے بھی کریدنے کی بجائے معاملے کو فیصل کر دینا زیادہ مناسب سمجھا۔ جہاں تک بےباکی کا تعلق ہے تو وہ شاید اکیسویں صدی کے کراچی میں بسنے والے
ادب دوست بھائی کو نہ معلوم ہوتی ہو مگر اس معاشرے کے تناظر کو ملوظ رکھا جائے جس کا یہ قصہ ہے تو یہ ایک واقعہ ہی شاید اسلام کی پوری انقلابی روح کو سامنے لانے کو کافی ہو گا۔
یہ معاشرہ تھا عرب کا جس میں بیٹیاں پیدا ہوتے ہی مار ڈالی جاتی تھیں۔ یہ اعتراض کرنے والی ایک عورت تھی جسے بھیڑ بکری سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہوا کرتی تھی۔ اور یہ جرات دکھائی گئی تھی اس شخص کے سامنے جس سے زیادہ واجب الاحترام نہ کوئی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔
---
یہ بھی محض زورِ کلام میں کہا گیا جملہ محسوس ہوتا ہے ورنہ ہمیں بحیثیت اردو بولنے ، سمجھنے ، پڑھنے والے کے ایسا کوئی طبقہء فکر نظر نہیں آتا جو اس زبان کے محاورں کو اسلامیانے پر تلا ہو، البتہ ہم اپنے گھر میں ایسے سینکڑوں محاورے استعمال کرتے ہیں جن میں ہندوستان کی مذہبی تاریخ کی خوشبو محسوس ہوتی ہے ،
پروفیسر غازی علم دین کی کتاب "لسانی مطالعے" کے بارے میں سوال
اردو میں ایک ہزار سے زائد تراجم اور تفاسیر موجود ہیں فارسی کا دامن بھی بہت وسیع ہے عربی کا تو کہنا ہی کیا، یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک زندہ زبان میں کسی لفظ کے معنی اپنی اصل سے ہٹ جائیں اور کسی کو کان و کان خبر نہ ہو کہ تقدیس کے پردے میں لفظ ہاتھ سے گیا، جبکہ مذکورہ بالا تینوں زبانوں میں ایک بات بہت مشترک ہے وہ یہ کہ ان تینوں زبانوں کے بولنے والے اپنی انپی زبانوں سے بہت محبت کرتے ہیں ، اور تینوں زبانوں میں زبان کے ماہرین کثرت سے موجود ہیں۔
راحیل بھائی، اسلام کا فلسفہء زندگی دوسرے فلسفوں سے اس قدر مختلف ہے کہ اسے کسی دوسرے فلسفے پر قیاس کر کے نہیں دیکھا جاسکتا، اسلام انسان کو انسان ہونے کی تعلیم دیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اسلام کے اصول اس سلسلے میں کافی مختلف ہیں۔
آپ نے دو ایسی چیزوں کے درمیاں فرق کا ذکر کردیا جو سرے سے مذکور ہی نہیں۔ بلکہ فرق صرف "انسان" اور "صالح انسان" کا ہے۔ ظاہر سی بات ہے جو شخص بھی اسلام کا مطالعہ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ صالح انسان کو کسی طور فرشتہ ہونے کو نہیں کہا جاتا بلکہ اسے اس کے علاوہ کچھ اور تعلیمات دی جاتی ہیں۔ جس کا فرق ظاہر کیا جانا چاہیئے تھا
بہت ڈرتے ڈرتے بات واضح کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ جان کی امان تو معلوم ہے کہ اس زمانے میں ملتی نہیں۔ مگر اللہ کے آسرے پر اعلائے کلمۃ الحق کی کوشش کرنی ضروری ہے۔ جو مثال میں دینے جا رہا ہوں اس میں اگر آپ غور فرمائیں تو لسانی تاویلات سے لے کر بشریت کے تقاضوں تک ہر شے آ جائے گی۔
جنابِ موسیٰؑ کلیم اللہ جب فرعون کے دربار میں تشریف لے گئے ہیں تو اس نے نہایت غصے کا اظہار کیا۔ کہنے لگا کہ تم تو وہی نہیں جسے ہم نے پالا پوسا اور بڑا کیا۔ اور پھر تم نے ہمارے ساتھ وہ کیا جو تم نے کیا۔ اس پر قرآن کے الفاظ میں حضرتؑ نے یہ فرمایا:
قَالَ فَعَلْتُهَا إِذًا وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ
الشعراء-۲۰
(انھوں نے فرمایا کہ میں نے وہ کام تب کیا جب میں "ضالین" میں سے تھا۔)
اب ذرا سورۂِ فاتحہ کی آخری آیت دیکھیے:
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ
زیادہ حدِ ادب۔
میں اپنے وہ جملے حوالے کے لیے پھر نقل کیے دیتا ہوں جن پر آپ نے اس ضمن میں اعتراض فرمایا تھا:
صحت مند تمدن کا ایک لازمہ زبان و بیان کو غیرضروری تقدیس سے پاک کرنا بھی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں جو اعتدال روا رکھا تھا اور کلام میں جس بےساختگی، جرات اور سادگی کو رواج دیا تھا وہ مترجمین اور مفسرین کی عنایت سے اب چشمِ تصور سے بھی اوجھل ہو گیا ہے۔ ہمارے وہ فضلا جو اردو کے محاوروں کو اسلامیانے پر تلے ہوئے ہیں شاید اس بےلاگ طرزِ گفتگو سے واقف ہی نہیں رہے جو قرآن اور اہلِ قرآن نے اپنا رکھا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ گو میں نے خوفِ فسادِ خلق سے حوالے دینے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا ہے مگر پھر بھی انصاف کی نظر رکھنے والے احباب کے لیے آزادی اور بےباکی کی اس روح تک پہنچنا دشوار نہیں ہو گا جو اسلام نے مصنوعی آداب معاشرت کے گلتے ہوئے بدن میں پھونک دی تھی۔ اسلام کا دینِ فطرت ہونا دراصل اسی نکتے میں پوشیدہ ہے کہ اس نے انسان کو انسان ہونے کی ترغیب دی، فرشتہ ہونے کی نہیں۔
---
یہ بالکل عجیب معاملہ ہے کہ تمام جماعتِ صحابہ کو چھوڑ کر ابو محجن رضی اللہ عنہ کی روش کو نظیر بنایا جائے۔ یعنی پہلے تو فرق میں انسان اور صلح انسان کی بجائے انسان اور فرشتہ کی بات کی جائے اور پھر اس اصول کے تحت گروہ صحابہ میں محجن رضی اللہ کی روایت کو دلیل بنایا جائے۔ بنو ثقیف کا ایک مزاج ہے اور تاریخ کے قاری اس سے بخوبی واقف ہیں، پھر قادسیہ کے جس معرکے کا ذکر کیا گیا ہے اس کی اپنی ایک تاریخ ہے ان دو حوالوں کو نظر انداز کرکے اس واقعہ کو نظیر کی حثیت سے دیکھنا درست نہیں ہے۔ بلکہ سیاق و سباق کے اعتبار سے معاملے کو دیکھنا چاہیئے ۔
جنابِ ابو محجنؓ کی نظیر اس لیے پیش نہیں کی گئی کہ یہ روش خاکم بدہن لازمۂِ مسلمانی ہے۔ بلکہ صرف یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ انسان اپنی تمام تر خامیوں کے ساتھ بھی اچھا مسلمان ہو سکتا ہے۔ اس بات میں آپ کو کلام ہے تو وضاحت سے ارشاد فرمائیے۔
---
---
---
یہ تو تھا پچھلا مراسلہ جو آپ کے حکم کے موافق ہم نے چھپا لیا تھا۔ اب آگے بڑھتے ہیں۔
برصغیر میں تمدنی تصنع سے عرب کے خطے ، زبان، اور تمدن سے کسی طور موازنہ بنتا ہی نہیں ہے،، کجا یہ کہ برصغیر کے تمدنی تصنع کو عرب کے معاشرے پر قیاس کیا جائے اور وہ بھی جہالت کے دور سے ۔
ہم نے اپنے معاشرے کو عرب جاہلانہ معاشرے سے کاملاً مماثل نہیں قرار دیا۔ بلکہ اس سے ملتا جلتا قرار دیا ہے:
اہلِ اسلام اور بالخصوص مسلمانانِ پاک و ہند تمدنی تصنع کی کم و بیش اسی منزل پر پہنچ گئے ہیں جس پر ظہورِ اسلام سے قبل عرب کا معاشرہ موجود تھا۔
رہا سوال یہ کہ مماثلت کی بنیادیں کیا ہیں تو وہ واضح کرنے میں مجھے واقعی تامل تھا۔ میں نہیں چاہ رہا تھا کہ اس بحث میں کسی شخص، مسلک یا رویے وغیرہ کو مثال کے طور پر پیش کروں۔ اس لیے اشاروں پر اکتفا کرنا مناسب سمجھا۔ اب بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہوں کہ مآخذِ اسلامیہ سے جو نظائر میں نے پیش کیے ہیں ان سے کہیں زیادہ بین اور متعدد مثالیں انھی کتب میں میرے موقف کی تائید میں موجود ہیں۔ ضرورت صرف اسلام کو درسی نکتۂِ نظر سے ہٹ کر دیکھنے کی ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں اور جس طوراسے ادب میں برتا جاتا ہے اور نہ صرف اس کو بلکہ اس جیسی اور چیزوں کو وہ اس بات پر دلیل ہیں کہ ہمارے پاس اس نوعیت کی تنگ نظری موجود نہیں جس کا ہمیں مجرم ٹھہرایا جاتا ہے
مجھے اس میں کلام نہیں کہ یہ پرانی بات نہیں۔ مگر اب بہرحال یہ ناممکن ہے۔
یہ میرا ایک باقاعدہ موضوع ہے ، اپنی قوم کے خلاف میں اتنا کچھ پڑھ چکا ہوں کہ اب میں اس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں یہ ایک عمومی رویا بنتا جارہا ہے ۔ ۔۔۔۔۔ لیکن ابھی نہیں کیونکہ اس موضوع پر میں کچھ جذباتی ہو جاوں گا ایسا نہ ہو کسی سخت جملے کا روِ سخن آپ جناب کی طرف ہونے کا اہتمال ہو اور بے وجہ گستاخی کا سبب بنے۔
اپنی قوم کے دفاع کے لیے آپ کے جذبات کی میں قدر کرتا ہوں۔ اب اگر غالبؔ کے ساتھ زیادتی کا حکم نہ لگائیں تو میں عرض کروں:
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
قوم سے تجھ کو محبت ہی سہی !
ویسے میرے
ایک مضمون سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ میرا رویہ اہلِ وطن کے لیے خدانخواستہ معاندانہ کبھی نہیں رہا۔ جو نقد زیرِ نظر ہے یہ بھی میں نے اپنے تئیں فقط تجزیے اور تنقیح کی غرض سے لکھا ہے۔
راحیل بھائی یہاں بھی اختلافی نوٹ، اور وہ یہ کہ اس قسم کی رائے کے اظہار کے بعد آپ یہ ایک بہت بڑے دعویٰ کے علم بردار بن جاتے ہیں ، جسے پورا کرنا کم از کم انٹرینٹ کے کسی فورم کی گفتگو میں ممکن نہیں ہوسکے گا لہذا علاقائی بیماریوں کو سوادِ اعظم پر لاگو کرنا نامناسب معلوم ہوتا ہے۔
یہ بہت بڑی مجبوری ہے۔ آپ بجا فرماتے ہیں۔
---
---
باقی احباب کے خیالات پر کچھ رائیں محفوظ ہیں جو عند الضرورت ظاہر کروں گا۔ ویسے امید ہے کہ کسی حد تک تو یہ جوابات سبھی سے متعلق ہوں گے۔
دل آزاری اور ممکنہ کوتاہی پر معذرت خواہ ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ ان معروضات کو کسی بدنیتی پر محمول کرنے کی بجائے ایک طالبِ حق کی آشفتگیاں خیال کر کے حسبِ ضرورت اصلاح عمل میں لائی جائے گی۔