ہماری ماسی ایک مرتبہ ہمیں اپنے گھر لے گئی. چونکہ اندر نہیں لے گئی اس لیے اگر کسی کے زرخیز دماغ میں فساد کی کسی کونپل نے سر اٹھانے کا سوچا بھی ہو تو اس کا سر کچل دیا جائے...
مزید یہ کہ ہمارے ساتھ بچے بھی تھے (ہمارے اپنے). اس پر مستزاد ماسی اتنی عمر رسیدہ تھی کہ نانی دادی بن چکی تھی...
اب اگر کوئی کہے کہ اتنی عمر والی گھر کے کام کاج کیسے کرلیتی تھی تو اطلاعا عرض ہے کہ ہاتھ پاؤں اتنے مضبوط تھے کہ گھر کے کام کرلیتی تھی تاہم دیگر افعال خبیثہ جن کی طرف کسی کا ذہن بھٹکنے کا سوچ رہا ہو کرنے سے قاصر تھی...
اگرچہ یہاں تبصرہ تو تصویر پہ کرنا تھا تاہم ماسی نامہ بلاوجہ چھڑ گیا. اور نہ چھڑتا اگر آپ لوگوں کا ذہن بلاوجہ ادھر ادھر مٹر گشتی پر نکلنے والا نہ ہوتا...
ہم سیدھا سیدھا یہ لکھتے کہ ہم ماسی کے ساتھ اس کے گھر گئے. گلی میں تصویر بالا جیسی سواری پر ہاتھ ہاؤں توڑے ایک بندہ بیٹھا ملا. یہ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی نِجکوا کے نام سے شہرت پا چکا تھا...
خاصااس کا یہ تھا کہ ہاتھ پاؤں ٹوٹے ہوئے ہونے کے باوجود کمال چابکدستی سے مذکورہ سواری برق رفتاری سے چلاتا تھا. چنانچہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے یہ جا وہ جا...
بستی والوں نے بتایا نجکوا نہایت باعزت طریقہ سے باوقار انداز میں دست طلب دراز کرکے روزگار کماتا ہے...
بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ حصول رزق حلال کے لیے کسی خاص جگہ کا محتاج نہیں بلکہ اپنی ایجاد کردہ اس سواری پہ بیٹھ کر گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے نکل جاتا ہے...
ہم نے جا کر دیکھا تو واقعی اگلے اسٹاپ والے ہوٹل پر شاہانہ بے نیازی سے دست طلب دراز کرنے کے بعد سوڈا واٹر پی رہا تھا...
بستی میں یہ منصوبہ زبان زد عام ہے کہ نجکوا اس سواری میں پر و انجن لگائے گا تاکہ ارض خدا کی وسعتیں ماپنے سے دامن فقیری میں کسی قسم کی محرومی کے کنکر پتھر جمع نہ ہوں. چنانچہ جلد ہی نجکو ا اس مصرع کی عملی تصویر بنا بہتی ہواؤں میں ملکوں ملکوں اڑا پھرا کرے گا...
صحرا است کہ دریاست تہ بال و پرِ ماست
خبردار:
آپ لوگوں کے ذہن بلا خیز کی چیرہ دستیوں کا شکار ہونے سے قبل ہی تنبیہ کی جاتی ہے کہ اس کہانی کو اِس ملک یا اُس ملک کے کسی سربراہ سے منسوب کرنے کا سوچیں تک نہیں کہ جو اڑ اڑ کر ملکوں ملکوں مانگنے جاتا ہے وہ یہی ہو. یہ خالصتا نجکوا ہی کی کہانی ہے!!!