محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
ہاں تم خوب جانتی ہو کہ اس کی ناراضی کا خمیازہ تمہیں نہیں بھگتنا پڑے گا۔ اسی لیے "سانوں کی" کہا جا رہا ہےپچھلے کسی مراسلے میں پڑھا نہیں کہ دنگا فساد سے رونق لگائے رکھنی ہے۔ بس ہم نے تو وہی نصیحت اپنے پلو میں باندھ لی ہے۔ اب بھابھی ناراض ہوتی ہیں تو ہوتی رہیں ۔ سانوں کی۔