توبہ ہے توبہ۔۔۔
انٹرویو ادھورا ہی رہ گیا۔
کافی کچھ تو پتا پڑگیا تھا کہ ذہنی حالت مخدوش ہونے کے سبب یادداشت کمزور تھی اسی مارے پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا.
آٹھویں میں تیسری بار فیل ہونے کے بعد والد نے اپنے دوست کے یہاں جاب پر لگوا دیا جہاں غالبا اسٹورکیپر تھا فائلیں درست کرتا تھا.
دوستوں کا حلقہ محدود تھا. سب سے قریبی دوست ایک سندھی تھا جسے یہ اپنے سے قابل سمجھ کر مشورے لیا کرتا تھا. اس حلقہ کے اتحاد کا واحد سبب گٹکا تھا.
رہائش شاہ فیصل کالونی میں ایئر پورٹ کے سامنے والی گلی میں داخل ہوکر بائیں طرف کی کسی گلی میں. علاقہ میں اتنا مشہور تھاکہ نام بتانے پر اہل محلہ نووارد کو سیدھااس کے گھر پہنچادیتے تھے.
گھریلو حالات عام پاکستانیوں جیسے، تھوڑے مذہبی تھوڑا خاندانی نظام. اماں کا بچوں پر روایتی تشدد، میاں پر ہر وقت کڑا شک.
مسجد کے امام صاحب سے ذہنی اٹیچمینٹ کے سبب جابجا ان کی باتیں کوٹ کرنا. لڑکیوں کو کبھی گھورنا کبھی اماں کی نصحیت یاد کرکے پرہیز کرنا.
سیکھنے کی لگن شوق اور جستجو وافر مقدار میں موجود تھی. اسی لیے جسے استاد سمجھتا اس کے پیچھے پڑ کر منتیں سماجتیں کرتا. مگر کوئی اچھا استاد میسر نہ آیا جو اس کی ذہنی حالت کے مطابق سمجھوتہ کرکے اسے کچھ سمجھتا سمجھاتا!!!
.
.
.
.
ایسا لگ رہا ہے میٹرک کے امتحان میں اردو کا پرچہ حل کررہے ہیں. سوال ہے ایک مشہور افسانے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں تحریر کریں!!!