تقلید پر اجماع_صحابہ
اسی لئے امام غزالی (شافعی) رح فرماتے ہیں: "تقلید تو
اجماع_صحابہ سے بھی ثابت ہے، کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم (خود عربی دان ہو) اجتہاد کرو، اور یہ بات ان کے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل_ضروریات_دین ثابت ہے" [المستصفى:٢/٣٨٥]
ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید پر اجماع
ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر امت کا اجماع ہوچکا ہے، اور امت کے اجماع کی دو صورتیں ہیں:
اول یہ کہ امت کے قابل قدر علماء متفق ہوکر یہ کہیں کہ ہم نے اس مسئلہ پر اجماع کرلیا ہے، جب کہ مسئلہ کا تعلق قول سے ہو، یا اگر مسئلہ کا تعلق کسی فعل سے ہے تو وہ اس فعل پر عمل شروع کردیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ امت کے کچھ بڑے علماء مذکورہ طریقہ پر اجماع کریں اور دوسرے قابل قدر علماء اس پر سکوت کریں اور اس پر ان کی طرف سے کوئی رد نہ ہو اس کو اجماعِ سکوتی کہتے ہیں۔
اجماع کی یہ دونوں صورتیں معتبر ہیں۔ نور الانوار میں ہے: رکن الإجماع نوعان: عزیمة وھو التکلم منھم بما یوجب الاتفاق أي اتفاق أي الکل علی الحکم بأین یقولوا أجمعنا علی ھذا إن کان ذلک الشيء من باب القول أو شروعھم في الفعل إن کان من بابہ․ ورخصة: وھو أن یتکلم أو یفعل البعض دون البعض وسکت الباقون منھم ولا یردون بعد مضي مدة التأمل وھی ثلاثة أیام ومجلس العلم ویسمی ھذا إجماعا سکوتیًا وھو مقبول عندنا: ۲۱۹۔
چنانچہ جب علماء نے دیکھا کہ جو تقلید کا منکر ہوتا ہے وہ شتر بےمہار کی طرح زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی خواہشات پر عمل کرتا ہے، اس لیے علماء نے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع کیا، اگرچہ ان کا یہ اجماع ایک جگہ متفق ہوکر نہیں ہوا؛ لیکن ان سب کے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے اور عدم تقلید پر نکیر کرنے کی وجہ سے یہ اجتماع منعقد ہوا ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں بہت سے بڑے بڑے علماء نے عدم تقلید پر اپنی آراء کا اظہار کیا اور امت کے سامنے عدم تقلید کے مفاسد کو کھل کر بیان کیا۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں:
(۱) علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعلی ھذا ما ذکر بعض المتأخرین منع تقلید غیر الأربعة لانضباط مذاھبھم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمومہا ولم یدر مثلہ في غیرھم الآن لانقراض اتباعھم وہو صحیح۔
ترجمہ: اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور تقلید کا ان یہ چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ (التحریر في اصول الفقہ: ۵۵۲)
(۲) علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:
وما خالف الأئمة الأربعة فھومخالف للإجماع
یعنی ائمہ اربعہ کے خلاف فیصلہ اجماع کے خلاف فیصلہ ہے۔ (الأشباہ: ۱۳۱)
(۳) محدث ابن حجر مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین
یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور
امامکی جائز نہیں (فتح المبین ۱۶۶)
(۴) امام ابراہیم سرخسی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و أما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة
یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔ (الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)
(۵) مشہو رمحدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاھب، ولم یبق في فروع المسائل سوی ھذہ المذھب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکب علی بطلان قول من یخالف کلھم․ یعنی تیسری یا چوتھی صدی کے فروعی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے مذاہب رہ گئے، کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا، پس گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہے وہ باطل ہے (تفسیر مظہری:۲/۶۴)
(۶) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وھذہ المذاھب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد بھا منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا یعنی یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہوگئے ہیں، پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے۔ (اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے۔ (حجة اللہ البالغہ: ۱/۳۶۱)
(۷)شارح مسلم شریف علامہ نووی فرماتے ہیں:
أما الاجتہاد المطلق فقالوا اختتم بالأئمة الأربعة الخ یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہوگیا حتی کہ ان تمام مقتدر محققین علماء نے ان چار اماموں میں سے ایک ہی
امام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (نور الہدایہ: ۱/۱۰)
اصول دین یعنی عقائد میں تقلید جائز نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اصول دین میں ظن اور گمان پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا ہے، اس لئے کہ اعتقاد، دلیل و یقین محکم کا نام ہے اس کے برعکس احکام اور فروع دین میں تقلید کافی ہے، قابل ذکر بات ہے کہ اسلامی عقائد اور اعتقادات کے دو حصے ہیں- اس کا ایک حصہ اصول دین ہے اور اس کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے، اسلام کے محقق ہونے اور ایک انسان کے مسلمان ہونے کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے ،مثلاًتوحید ورسالت کا اقرار-اللہ تعالیٰ کے وجود کا اعتقاد یا انبیاء علیهم السلام کی نبوت اور حضرت محمد صلی الله علیه وآلہ وسلم کی رسالت کا اعتقاد ، معاد و قیامت کا اعتقاد کہ انسان مرنے کے بعد دوباره زنده ہوں گے، تاکہ اپنے اعمال کی جزا پا سکیں، جیسے اصولوں پر اعتقاد رکھنا علم و یقین پر مبنی ہونا ہے، اس سلسلہ میں گمان اور دوسروں کی تقلید کرنا کافی نہیں ہے- عقائد کا دوسرا حصہ، اصول دین کی تفصیل اور جزئیات ہیں، مثال کے طور پر کہ کیا اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی عین ذات ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی صفات کی کتنی قسمیں ہیں، صفات فعلی کے کیا معنی ہیں؟ اشیاء کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم کی کیفیت کیا ہے کیا نبوت میں عصمت ضروری ہے یا نہیں؟ عصمت کے حدود کیا ہیں؟ کیا معاد جسمانی ہے یا روحانی؟ بہشت کی کیفیت کیا ہے؟ کیا اهل دوزخ ہمیشہ دوزخ میں ہوں گے یا نہیں؟ مشرکانہ باتیں کیا ہیں ،کفریہ اعمال کیا ہیں - اگرچہ یہ بھی عقائد و اعتقادات میں شمار ہوتے ہیں، جن کو ہم اعتقاد کے فروعی مسائل کہہ سکتے ہیں ان فروعی مسائل میں ہم باعتبار تعلیم ہم کسی مستند اور معتبر عالم کی اقتدا کرسکتے ہیں۔ ۔ واضح ہے کہ انسان ، اصول دین کے بارے میں اعتقاد اور یقین حاصل کرنے کے لیے ۔۔۔ تعبدی و نقلی دلیل کے عنوان سے ۔۔۔ آیات و روایات کی طرف رجوع نهیں کر سکتا ہے، کیونکہ اس صورت میں تسلسل لازم آتا ہے- اس کے برخلاف احکام اور فروع دین کو آیات و روایات کی طرف رجوع کیئے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے- اس بنا پر، عقائد کا احکام سے موازنہ کرنا ایک بے جا موازنہ ہے- جس چیز کو احکام اور فروعات سے موازنہ کیا جا سکتا ہے، وہ عقائد کی تفصیلات اور جزئیات ہیں کہ ان میں تقلید کرنا جائز ہے، اگرچہ ان میں سےبہت سی چیزوں میں تقلید کرنا واجب اور ضروری نہیں ہے- مجتہد کی طرف رجوع کرنے اور مرجع تقلید کو پہچاننے کے سلسلہ میں دَور اور تسلسل لازم نهیں آتا ہے، کیونکہ مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کے لیے علم و فقہ میں مہارت اور اس مجتہدکے ساتھ معاشرت کی ضرورت نهیں ہے، بلکہ معاشره میں شائع ہونے اور مشہور ہونے یا چند قابل اعتماد افراد کے بیان جیسی راہوں سے بھی مجتہد و اعلم کوپہچانا جا سکتا ہے-