اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کا سارا دارومدار ہمارے ملکوں کی creamپر ہوتا ہے۔ اور اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں۔ جو کام ہم یہاں کرتے ہیں کیا ہمارے ملک میں ہم یہی خدمات سرانجام نہیں دے سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔ یقینا دے سکتے ہیں۔ لیکن ہم خودغرض بن چکے ہیں۔ ایک انسان جو بیرون ملک ریڈ سنگل پر انتظار کرتا ہے وہی اپنے ملک میںریڈ سنگل پر طنزیہ مسکراہٹ کیساتھ دائیں بائیں کسی کو نہ پاتے ہوئے سیدھا نکل جاتاہے۔ جس کے ساتھ ہمارے ساتھ ہماری انتظامیہ بھی برابر کی شریک ہے۔
موضوع حسب معمول کسی اور طرف جا رہا ہے ۔ جہاں تک cream کی بات ہے اس میں اس کا بھی کوئی قصور نہیں ہمارا نصاب ہمیں سائنس، آرٹس اور طب تو پڑھاتا ہے مگر کوئی ایسا مضمون یا مشن نہیں کہ جو اس کو انسانیت بھی پڑھاتا ہو۔ جو اس کوآئین بھی پڑھاتا ہو ۔۔۔۔۔۔ جو اس کی ذہن سازی کرتا ہو کہ اس کی تعلیم کا مقصد کیا ہے، ملک و قوم کا کیا حق ہے ، معاشرے کا کیا حق ہے اور اس کا کیا حق ہے، کتنے عرصے میں ہم نے کہاں تک جانا ہے کوئی مائل سٹون نہیں کوئی نظریہ نہیں بس پڑھنا ہے اور پیسے بنانے ہیں۔
سرکاری ادارے تو اچھے بھلے انسان کو زنگ لگا دیتے ہیں۔ وہاں ایک ڈاکٹر ایک انجینئر ایک سائنسدان کو دور غلامی کی یادگار گوراشاہی کا افسر بنادیا جاتا ہے۔ پھر وہ بھی آہستہ آہستہ اسی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔
اور اتنے سالوں بعد یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کوئی اوپر سے تبدیلی نہیں لائے گا یہ کام اب ہمیں خود انفرادی سطح پر کرنا پڑے گا۔ اپنے اپنے بچوں کو ٹیکنالوجی کی تعلیم ہر حالت میں دلوانا اور اس کے ساتھ ساتھ انکی ذہن سازی بھی کرنا اور ان کے ذہنوں سے تعلیم برائے حصول پیسہ کے بجائے تعلیم برائے حصول مقام ملک و قوم ڈالنا ہو گا۔ اور ایک نوجوان نسل ایسی تیار کرنا ہو گی کہ جو افسر شاہی کی خباثتوں سے پرے ہو کر صرف اور صرف کام پر توجہ دے۔ اور ہمیں اس کے لیے اپنے وقتی فائدے کو فراموش کرنا ہوگا۔ ایک نسل کو اپنے وقتی فائدے کی قربانی دینا ہو گی اگلی نسل کی سر بلندی کے لیے اور ایک مضبوط بنیاد کے لیے اور یہ ہمیں خود کرنا ہوگا اپنے اپنے گھر میں، دوستوں عزیوں میں۔