تمہید، انتباہ ، ترغیب ، استدعا

dxbgraphics

محفلین
اظہارِ خیال کا کوئی طریقہ ہوتا ہے ، کوئی موقع ہوتا ہے ، کوئی ماحول ہوتا ہے ۔ خیر میں یہ سب آپ کو کیوں ‌بتا رہا ہوں‌کہ ساجد بھائی کو مشورہ دیکر وہی کام تو اب میں کرنے سے رہا ۔ :notworthy:

ہر کسی کی سوچ کی اور قابلیت کی ایک حد ہوتی ہے۔ شاید میری حد یہی تھی ۔ اگر کسی کے معیار کے قابل نہیں تو اس پر میں اسی لئے لکھ چکا کہ اس سے کسی کا متفق نہ ہونا بجا ہے۔
 

arifkarim

معطل
عارف تم نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ میں نے کہاں‌ مغربی معاشرے کی تعریفیں کیں ہیں ۔ ہر بار ایک ہی راگ مختلف طریقوں‌ سے الاپتے ہو ۔ ویسے تم نے شاید اس دھاگے کی پہلی پوسٹ‌ نہیں پڑھی ورنہ مثبت اور منفی باتوں کا فرق سمجھ آجاتا ۔ :idontknow:

یہ لیں اسی دھاگے سے:
لوگوں نے چاند اور کہکشاؤں پر کمندیں ڈال دیں ہیں ۔اور ہم ایک دوسرے کے گھر ڈھانے کے لیئے بےتاب رہتے ہیں ۔ لوگوں نے سائنس و ٹیکنالوجی میں اس قدر ترقی کرلی ہے کہ دوسرے قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود بھی ان کے پیروں کی خاک چاٹتے رہتے ہیں ۔ دنیا نے اپنے اپنے صدیوں پرانے اختلافات بھلا کر ایکا کر لیا ہے ۔ یہاں‌ تک کہ کرنسی ایک کرلی ہے ۔ جہاں زبانوں پر صدیوں جنگیں جاری رہتیں تھیں ۔ جن کی شہر کی گلیوں میں گھٹنوں گھٹنوں کیچڑ پھیلا ہوا ہوتا تھا۔ وہاں اب ایک کاغذ کا فالتو ٹکڑا بھی نظر نہیں آتا ۔
کہکشاؤں پر کمند ڈالنے والے، کرنسی یکجا کرنے والے اور "سطحی" صفائی قائم کرنے والے سب سے پہلے لوگ مغربی ہی تھے :)
 

ظفری

لائبریرین
ہر کسی کی سوچ کی اور قابلیت کی ایک حد ہوتی ہے۔ شاید میری حد یہی تھی ۔ اگر کسی کے معیار کے قابل نہیں تو اس پر میں اسی لئے لکھ چکا کہ اس سے کسی کا متفق نہ ہونا بجا ہے۔
آپ میرے چھوٹے بھائی کی طرح‌ ہو ۔۔۔۔ اتنا دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔ کوشش کیا کرو کہ کبھی کبھی دوسروں کے نکتہِ‌ نظر کو بھی اہمیت دے دیا کرو ۔ اختلافِ رائے انسان کا شرف ہے ۔ اس کی عزت کرنی چاہیئے ۔ اور اسی پر اللہ تعالی کی ساری کائنات کی تخلیق کے سبب کا دارومدار ہے ۔
 

arifkarim

معطل
آپ کی بھی چند یو ٹیوب کی پوسٹوں کے علاوہ ساری بات ہی کسی اور دنیا سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس کا اطلاق اس دنیا پر نہیں ہوسکتا ۔
جی ہاں۔ دنیا تو چلتی ہی جمہوریت اور سرمایہ کاری سے ہے۔ اسلئے جو کوئی بھی "متبادل" دنیا کا تصور پیش کرے گا۔ ہم اسے ہرگز ہرگز تسلیم نہیں‌کریں گے۔ چاہے اسمیں کسی قدر انسانیت کا فائدہ ہی کیوں‌ہو! :)
 

ظفری

لائبریرین
یہ لیں اسی دھاگے سے:

کہکشاؤں پر کمند ڈالنے والے، کرنسی یکجا کرنے والے اور "سطحی" صفائی قائم کرنے والے سب سے پہلے لوگ مغربی ہی تھے :)

میرے خدا ۔۔۔ عارف مجھے یقین نہیں تھا تم اتنی حماقت کرو گے ۔۔۔۔۔ اس پورے اقتباس کا تم مفہوم ہی نہیں سمجھے ۔ میں‌اب کیا آگے بات کروں ۔۔۔۔۔ چلو شاباش جاؤ ۔۔۔ کچھ یو ٹیوب کی پوسٹیں ہی لگاؤ. بہت دن ہوئے تمہاری طرف سے کوئی نئے ثبوت نہیں آئے ۔ ;)
 
ش

شوکت کریم

مہمان
عارف تم نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ میں نے کہاں‌ مغربی معاشرے کی تعریفیں کیں ہیں ۔ ہر بار ایک ہی راگ مختلف طریقوں‌ سے الاپتے ہو ۔ ویسے تم نے شاید اس دھاگے کی پہلی پوسٹ‌ نہیں پڑھی ورنہ مثبت اور منفی باتوں کا فرق سمجھ آجاتا ۔ :idontknow:

اگرکوئی کسی معاشرے کی خوبیوں‌ کی تعریف کرتا ہے تو اس میں کوئی برائی بھی نہیں۔ شخصی ، تحریری آزادی اور ٹیکنالوجی میں ہمارا ان سے کیا مقابلہ اور اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا اس دورمیں کتنا حصہ ہے۔ اپنا مقام بنانے کے لیے ہمیں ان کی جائز خوبیوں‌کی تعریف بھی کرنے پڑی گی اور ان سے یہ سب سیکھنا اور لینا بھی پڑے گا۔ اور ہم اسی طرح‌ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو کیا عجب ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ انہیں ہی چن لیں۔

ہم جب کبھی مسجد میں‌ یا کسی بازار میں جاتے ہیں تو شدید تکلیف ہوتی ہے۔ کہ جب ہم دیکھتے ہیں‌ کہ ایک معمولی سے گائیکر کے لیے بھی ہم انہی کے محتاج ہیں۔ ہم اسلامی ویب سائٹس بناتے ہیں اور دین کی خدمت کرتے ہیں‌ مگر اس میں بھی ہم انہی کی ٹیکنالوجی کے محتاج ہیں۔ اور بڑے بڑے معاملات تو چھوڑ ہی دیں۔
 

arifkarim

معطل
اگرکوئی کسی معاشرے کی خوبیوں‌ کی تعریف کرتا ہے تو اس میں کوئی برائی بھی نہیں۔ شخصی ، تحریری آزادی اور ٹیکنالوجی میں ہمارا ان سے کیا مقابلہ اور اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا اس دورمیں کتنا حصہ ہے۔ اپنا مقام بنانے کے لیے ہمیں ان کی جائز خوبیوں‌کی تعریف بھی کرنے پڑی گی اور ان سے یہ سب سیکھنا اور لینا بھی پڑے گا۔
متفق! اسکی زندہ مثالیں مشرقی ممالک چین، جاپان، تائیوان اور کوریا وغیرہ ہمارے سامنے ہیں۔ ان قوموں نے مغربی ٹیکنالوجی کو تو لے لیا مگر اپنی تہذیب کو خاص کر چینیوں نے نقصان پہنچنے سے بہت حد تک روکے رکھا۔ جاپانی بہرحال مغربی تہذیب سے مرعوب ہیں اور شاید اسی لئے انکی اخلاقی حالت بعض علاقوں میں مغرب سے بھی بد تر ہے۔
ہمیں یقیناً مغرب کی مثبت چیزوں کو اپنے معاشرہ میں روشناس کروانا چاہئے جبکہ منفی چیزوں کو ہر حال میں روکنا چاہئے۔ مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب ہم انکے ہر فعل کی اندھی تقلید کرتے ہیں اور پھر نہ تین میں نہ تیرہ کے رہتے ہیں۔ :)
 

dxbgraphics

محفلین
آپ میرے چھوٹے بھائی کی طرح‌ ہو ۔۔۔۔ اتنا دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔ کوشش کیا کرو کہ کبھی کبھی دوسروں کے نکتہِ‌ نظر کو بھی اہمیت دے دیا کرو ۔ اختلافِ رائے انسان کا شرف ہے ۔ اس کی عزت کرنی چاہیئے ۔ اور اسی پر اللہ تعالی کی ساری کائنات کی تخلیق کے سبب کا دارومدار ہے ۔

امید پر دنیا قائم ہے۔
آپ کی پوسٹ کو میں نے اعتراض کے طور پر نہیں بلکہ اپنی طرف سے تھوڑی سی وضاحت کر کے اپنی نااہلی ظاہر کی تھی۔
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کا سارا دارومدار ہمارے ملکوں کی creamپر ہوتا ہے۔ اور اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں۔ جو کام ہم یہاں کرتے ہیں کیا ہمارے ملک میں ہم یہی خدمات سرانجام نہیں دے سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔ یقینا دے سکتے ہیں۔ لیکن ہم خودغرض بن چکے ہیں۔ ایک انسان جو بیرون ملک ریڈ سنگل پر انتظار کرتا ہے وہی اپنے ملک میں‌ریڈ سنگل پر طنزیہ مسکراہٹ کیساتھ دائیں بائیں کسی کو نہ پاتے ہوئے سیدھا نکل جاتاہے۔ جس کے ساتھ ہمارے ساتھ ہماری انتظامیہ بھی برابر کی شریک ہے۔ ایمپلی منٹیشن نہ ہونے کے باعث وزیر اعظم سے چپڑاسی سب ہر چیز کو اپنا سمجھتے ہیں۔ کسی او رکے حق پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ اگر ترقی یافتہ ملکوں کی ایکسپورٹ تعلیم ہوسکتی ہے تو تکنیکی معاملات میں ہمارے ملکوں کی ایکسپورٹ کو بھی سراہنا چاہئے ۔ نہ کہ اس کے ترقی یافتہ ہونے کا سہرا انہی کے سر پر رکھنا چاہئے۔ بحث برائے بحث کی آڑ میں ہم اپنے لوگوں کے کارناموں کو نظر انداز کر لیتے ہیں۔ بے شک یورپ آج ترقی کے عروج پر ہے اور اس ترقی میں ہمارے لوگوں کا بھی ایک کردار ہے۔ اگر ہم اپنے لوگوں کی تھوڑی سی بھی ترقی کو اچھے نظر سے دیکھں اور ان کو نظر انداز نہ کریں۔ تو اس سے ان کے جذبے کو اور بڑھاوا ملے گا۔حال ہی میں پاکستانی ڈاکٹرز نے ایڈز کے علاج کی دوا بنائی لیکن اس کو اتنی پذیرائی نہیں ملی اگر یہی دوا کوئی ترقی یافتہ ملک میں بنی ہوتی تو میڈیا پر بار بار اس کو اتنا دکھایا جاتا کہ لوگ اس کے قائل ہوجاتے۔ ۔۔۔۔۔
میرے خیال میں باتیں تو ختم نہیں ہوسکتی لیکن میں ایڈوانس معذرت کیساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
امید ہے چھوٹا بھائی کہا ہے تو ناراض نہیں‌ہونگے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کا سارا دارومدار ہمارے ملکوں کی creamپر ہوتا ہے۔ اور اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں۔ جو کام ہم یہاں کرتے ہیں کیا ہمارے ملک میں ہم یہی خدمات سرانجام نہیں دے سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔ یقینا دے سکتے ہیں۔ لیکن ہم خودغرض بن چکے ہیں۔ ایک انسان جو بیرون ملک ریڈ سنگل پر انتظار کرتا ہے وہی اپنے ملک میں‌ریڈ سنگل پر طنزیہ مسکراہٹ کیساتھ دائیں بائیں کسی کو نہ پاتے ہوئے سیدھا نکل جاتاہے۔ جس کے ساتھ ہمارے ساتھ ہماری انتظامیہ بھی برابر کی شریک ہے۔

موضوع حسب معمول کسی اور طرف جا رہا ہے ۔ جہاں‌ تک cream کی بات ہے اس میں اس کا بھی کوئی قصور نہیں ہمارا نصاب ہمیں سائنس، آرٹس اور طب تو پڑھاتا ہے مگر کوئی ایسا مضمون یا مشن نہیں کہ جو اس کو انسانیت بھی پڑھاتا ہو۔ جو اس کوآئین بھی پڑھاتا ہو ۔۔۔۔۔۔ جو اس کی ذہن سازی کرتا ہو کہ اس کی تعلیم کا مقصد کیا ہے، ملک و قوم کا کیا حق ہے ، معاشرے کا کیا حق ہے اور اس کا کیا حق ہے، کتنے عرصے میں ہم نے کہاں تک جانا ہے کوئی مائل سٹون نہیں کوئی نظریہ نہیں بس پڑھنا ہے اور پیسے بنانے ہیں۔

سرکاری ادارے تو اچھے بھلے انسان کو زنگ لگا دیتے ہیں۔ وہاں ایک ڈاکٹر ایک انجینئر ایک سائنسدان کو دور غلامی کی یادگار گوراشاہی کا افسر بنادیا جاتا ہے۔ پھر وہ بھی آہستہ آہستہ اسی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔

اور اتنے سالوں‌ بعد یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کوئی اوپر سے تبدیلی نہیں لائے گا یہ کام اب ہمیں‌ خود انفرادی سطح پر کرنا پڑے گا۔ اپنے اپنے بچوں کو ٹیکنالوجی کی تعلیم ہر حالت میں دلوانا اور اس کے ساتھ ساتھ انکی ذہن سازی بھی کرنا اور ان کے ذہنوں سے تعلیم برائے حصول پیسہ کے بجائے تعلیم برائے حصول مقام ملک و قوم ڈالنا ہو گا۔ اور ایک نوجوان نسل ایسی تیار کرنا ہو گی کہ جو افسر شاہی کی خباثتوں سے پرے ہو کر صرف اور صرف کام پر توجہ دے۔ اور ہمیں اس کے لیے اپنے وقتی فائدے کو فراموش کرنا ہوگا۔ ایک نسل کو اپنے وقتی فائدے کی قربانی دینا ہو گی اگلی نسل کی سر بلندی کے لیے اور ایک مضبوط بنیاد کے لیے اور یہ ہمیں‌ خود کرنا ہوگا اپنے اپنے گھر میں، دوستوں عزیوں میں۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
:rollingonthefloor:
:rollingonthefloor:
:rollingonthefloor:
:rollingonthefloor:
:rollingonthefloor:
ظفری بھائی کیسا لگا آپ کو کہ آپ کی تمہید، انتباہ، ترغیب اور استدعا کے دھاگے میں ہی ایک نہی بحث چل پڑی، لیکن جان کی امان پاوں تو کچھ عرض کروں کہ ایک موڈریٹر، منتظم میں قوت برداشت بھی کمال کی ہونی چاہیے کہ وہ خلاف طبعیت و قانون بات سن کر بھی ضبط کرے اور اگر آپ شروع سے ہی گرافک بھائی کی پوسٹ پر کچھ کمنٹ نہ دیتے تو یہ بحث آگے بڑھتی ہی نااور بات موضوع سے بایر نہ ہوتی، اور آپ کا یہ عمل ایک مثالی تقلید بن جاتا لیکن معاف کیجیئے گا کہ میرے لکھنے کا مقصد بحث کو آگے بڑھانا قطعا نہیں اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ خوامخواہ اس پر کچھ کمنٹس دیئے جائیں۔۔۔۔۔۔۔:tongue:
 
کیا خیال ہے برادرم ایس ایچ نقوی، اگر بحث کو آگے بڑھانا مقصد نہ ہو تو ذاتی پیغام کے ذریعہ مخاطب تک اپنی بات پہونچا دینے میں کیا حرج ہے؟ پبلک فورم میں ایسی باتیں لوگوں کو مہمیز کرتی ہیں اور بحث کو مزید جلا بخشتی ہیں۔ ہمارا یہ کہہ دینا کہ "از راہ مہربانی اس بات پر بحث نہ کریں" کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو ہر ہفتے بیسیوں بار دہرایا جانے والا ایسا جملہ کہ "عام گفتگو یا بحث میں ذاتی حملوں سے اجتناب کریں" اب تک ہر کسی کے دل میں نقش ہو چکا ہوتا۔ :)
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں سب سے پہلے ظفری کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اس قدر فکر انگیز پوسٹ کی۔ اور امید کرتا ہوں کہ یہ مراسلہ آئندہ کی موڈریشن پالیسی کے رہنما اصول مرتب کرنے میں معاون بھی ثابت ہوگا۔ میں انشاء اللہ جلد ہی ظفری کے تعاون سے سیاست اور مذہب فورمز پر پوسٹ کرنے کے بارے میں قواعد پر نظر ثانی کروں گا۔ کچھ شرپسند اور سازشی لوگوں کا کام ہی یہی ہے کہ وہ ہر تھریڈ میں جا کر گڑبڑ کریں اور گفتگو کو اپنی متعصبانہ اور بے تکی پوسٹس سے موضوع سے ہٹانے کی کوشش کریں۔ ان لوگوں کا اضطراب یہاں بھی نظر آ رہا ہے۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ آئندہ اس قسم کے لوگ سیاست اور مذہب فورمز میں کوئی پوسٹ نہیں کر سکیں گے۔ اور اگر ان لوگوں نے دوبارہ یہاں یا کسی اور سیکشن میں جا کر گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تو انہیں فوری طور پر بین کر دیا جائے گا۔
 

میر انیس

لائبریرین
بہت دیر کی مہر باں آتے آتے
ایک بہت اچھا خیال کافی دیر بعد آیا۔میں تو شروع سے کہتا ہوں بحث برائے اصلاح ہونی چاہئے بحث برائے بحث نہیں جیسے اس دھاگہ کا بھی وہی حشر ہونے لگا تھا کہ نبیل صاحب درمیان میں آگئے اور بڑی دانشمندی سے معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ بہر حال میں بھی کچھ دھاگوں میں جزباتی ہوگیا تھا اور مجھے خود بھی اس بات کا احساس ہے پر ڈاکٹر بھی کبھی کبھی اپنی ہی اس بد احتیاتی کی وجہ سے بیمار ہوجاتا ہے جس سے وہ اپنے مریضوں کو پر ہیز کرنے کے لئے کہتا ہے ۔ اب مجھکو امید ہے کہ کسی کےمذہب پریا کسی کی کسی بھی وابستگی پر ڈائریکٹ کوئی ضرب نہیں پڑے گی اور پھر اور کبھی میرے جیسا آدمی جذباتی ہوگا۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
بجا فرمایا آپ نے میرے محترم بھائی مگر میرا خیال تھا کہ ذاتی ہیغام ہو سکتا ہے ان کی طبیعت پر گراں نہ گزرے کہ کل آنے والا مجھے پوائنٹ آوٹ کرنا شروع ہو گیا ہے، پھر بھی آپ کی اس نشاندہی پر بہت شکریہ اور آپ کی پر خلوص راہنمائی جاری رہی تو میں ناکارہ و نا چیز بھی کسی کے لیے کارآمد بن جاوں گا۔بہ توفیق رب العالمین۔
 
ظفری بھائی سمیت سبھی منتظمین اور کئی محفلین ذاتی پیغامات کی ہمیشہ پذیرائی کرتے ہیں۔ ویسے اگر کسی کو ذاتی پیغام میں بھجا گیا مشورہ گراں گذرے گا تو پبلک فورم پر گراں ترین۔ :)
 
Top