تم نہ رویا کرو!

ماہ قبل، اپنی ایک دوست، افزاؔ چنگیزی کے نام ایک نظم کی تھی۔ آپ احباب سے شریک کرتا ہوں۔ عنوان ہے، تم نہ رویا کرو۔

ہو جیسے چاند کے چہرے پہ چاندنی ٹھہری
رکے ہیں ویسے ہی آنسو تمہارے گالوں پر
ہمیشہ اشک تمہاری شرابی آنکھوں سے
جواب بن کے گرے ہیں مرے سوالوں پر

تمہارے دودھ سے زیادہ سفید چہرے پر
یہ آنسوؤں کے نگینے بڑے نمایاں ہیں
چمک ہے ان میں تمہارے تمام دردوں کی
اِنہیں میں صاف ہویدا تمہارے ارماں ہیں

تمہیں خبر ہے کہ روتی ہو تم تو ہلتے ہیں
تمام گنبد و مینار آسمانوں کے
تمہیں جو دیکھ لیں وہ کھلکھلا کے ہنستے ہوئے
تو کیوں نہ کانپ اٹھیں دل حسیں جوانوں کے

جو ہم سے یار لکھیں ہیں تمہاری قسمت میں
تو کیا لکیروں میں، ہاتھوں کی، کوئی غم ہوگا؟
حجازؔ ایک ہنسی پر تمہاری اے افزاؔ!
جو جاں نثار کرے گا تو وہ بھی کم ہوگا!

مہدی نقوی حجازؔ
 

حسان خان

لائبریرین
تمہیں جو دیکھ لیں وہ کھلکھلا کے ہنستے ہوئے
تو کیوں نہ کانپ اٹھیں دل حسیں جوانوں کے

واہ حجاز صاحب! :)
 

حسان خان

لائبریرین
اگر عنوان کو 'تم نہ رویا کرو' کی جگہ 'تم رویا نہ کرو' کر دیا جائے تو میری نظر میں مناسب ہے۔ کیا خیال ہے آپ کا؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اچھی نظم کہی ہے صاحب ۔۔
ایک جگہ لفظ ’’زیادہ‘‘ کی بندش درست نہیں۔ اور یہ ایک مصرع مجھ پر نہیں کھلا
بہر حال عمدہ ہے۔
زیادہ کی بندش میے خیال میں درست ہے( مطلب جائز حد میں ہے) ۔ تاہم بہتر وہی ہے جس کی جانب پیش نظر مراسلے میں آسی صاحب نے اشارہ فرمایا ہے ۔اس وجہ سےبھی کہ اسے آسانی سے باندھا یا ترتیب دیا جاسکتا ہے۔
دواسرا مصرع جو کتابت کی وجہ سے معنوی نوعیت کی تعقید پیدا کر رہا ہے وہ شاید لکھیں ہیں کو لکھےہیں (بمعنی لکھے گئے ہیں -مجہولہ ترکیب) کرنے سے ذرا کم ہو جاتی ہے ۔ لیکن بہتر ہو گا کہ بقیہ اشعار کی طرح ۔کسی احسن ترتیب سے کہہ لیا جائے۔
لیکن داد اپنی جگہ۔مہدی بھائی کو۔
 
Top