ماہ قبل، اپنی ایک دوست، افزاؔ چنگیزی کے نام ایک نظم کی تھی۔ آپ احباب سے شریک کرتا ہوں۔ عنوان ہے، تم نہ رویا کرو۔
ہو جیسے چاند کے چہرے پہ چاندنی ٹھہری
رکے ہیں ویسے ہی آنسو تمہارے گالوں پر
ہمیشہ اشک تمہاری شرابی آنکھوں سے
جواب بن کے گرے ہیں مرے سوالوں پر
تمہارے دودھ سے زیادہ سفید چہرے پر
یہ آنسوؤں کے نگینے بڑے نمایاں ہیں
چمک ہے ان میں تمہارے تمام دردوں کی
اِنہیں میں صاف ہویدا تمہارے ارماں ہیں
تمہیں خبر ہے کہ روتی ہو تم تو ہلتے ہیں
تمام گنبد و مینار آسمانوں کے
تمہیں جو دیکھ لیں وہ کھلکھلا کے ہنستے ہوئے
تو کیوں نہ کانپ اٹھیں دل حسیں جوانوں کے
جو ہم سے یار لکھیں ہیں تمہاری قسمت میں
تو کیا لکیروں میں، ہاتھوں کی، کوئی غم ہوگا؟
حجازؔ ایک ہنسی پر تمہاری اے افزاؔ!
جو جاں نثار کرے گا تو وہ بھی کم ہوگا!
مہدی نقوی حجازؔ