ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ایک طویل عرصے کے بعد بزمِ سخن میں حاضری کا موقع ملا ہے ۔ اس غیر حاضری کے دوران سات آٹھ تازہ غزلیں اور دو نظمیں پردۂ خیال سے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوئیں ۔ وعید ہو کہ میں ہر ہفتے عشرے ایک تازہ کلام آپ صاحبانِ ذوق کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ وارننگ دے دی ہے ۔ 😊 ایک غزل حاضر ہے ۔ امید ہے ایک دو اشعار آپ کو ضرور پسند آئیں گے ۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!
٭٭٭
تن زہر میں بجھے ہوئے ، دل آگ میں جلے ہوئے
کن منزلوں تک آ گئے ، کس راہ پر چلے ہوئے
جل بجھ گئی ہر آرزو جس خاکِ کوئے یار میں
ہم ہیں مثالِ مشکبو اُس راکھ کو مَلے ہوئے
چھیڑا ہے جب بھی سازِ نو سوزِ غمِ حیات نے
رقصاں ہوئے ہیں پا بہ گِل ہم گیت میں ڈھلے ہوئے
زنجیرِ ربط کٹ گئی لیکن گلوئے ہجر میں
اب تک دیارِ ناز کے کچھ طوق ہیں ڈلے ہوئے
سختی کشانِ راہِ عشق ، ذروں سے بن گئے نجوم
اوجِ فلک پر آ گئے پاتال سے چلے ہوئے
کچھ رہبروں کی بھول سے دیوارِ راہ بن گئے
سمتِ سفر کے مسئلے ، برسوں سے تھے ٹلے ہوئے
تاریکیوں میں جبر کی ایسا فشارِ وقت تھا
ہم کوہِ نور بن گئے ظلمات میں پلے ہوئے
راہِ فنا تھی راہِ حق ، دار و رسن تھے جابجا
دیکھا ورائے مرگ تو آسان مرحلے ہوئے
٭٭٭
ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۰ ء
تن زہر میں بجھے ہوئے ، دل آگ میں جلے ہوئے
کن منزلوں تک آ گئے ، کس راہ پر چلے ہوئے
جل بجھ گئی ہر آرزو جس خاکِ کوئے یار میں
ہم ہیں مثالِ مشکبو اُس راکھ کو مَلے ہوئے
چھیڑا ہے جب بھی سازِ نو سوزِ غمِ حیات نے
رقصاں ہوئے ہیں پا بہ گِل ہم گیت میں ڈھلے ہوئے
زنجیرِ ربط کٹ گئی لیکن گلوئے ہجر میں
اب تک دیارِ ناز کے کچھ طوق ہیں ڈلے ہوئے
سختی کشانِ راہِ عشق ، ذروں سے بن گئے نجوم
اوجِ فلک پر آ گئے پاتال سے چلے ہوئے
کچھ رہبروں کی بھول سے دیوارِ راہ بن گئے
سمتِ سفر کے مسئلے ، برسوں سے تھے ٹلے ہوئے
تاریکیوں میں جبر کی ایسا فشارِ وقت تھا
ہم کوہِ نور بن گئے ظلمات میں پلے ہوئے
راہِ فنا تھی راہِ حق ، دار و رسن تھے جابجا
دیکھا ورائے مرگ تو آسان مرحلے ہوئے
٭٭٭
ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۰ ء
آخری تدوین: