۳۲۔
(7)
نہٰن تم کو لازم برائی کی باتیں
بھلوں کو ہیں زیبا بھلائی کی باتیں
غضب ہے! کہ دم میں تو رکھو کدورت
کرو منہ پہ ہم سے صفائی کی باتیں
اگر سیدے ہوتے مرے بخت واژوں
تو کیوں کرتے وہ کگ ادائی کی باتیں
قفس میں ہے کیا فائدہ شوروغل سے
اسیرو! کرو کچھ رہائی کی باتیں
ظفر! کیا زمانہ برا آگیا ہے
جہاں دیکھو۔ ہیں وہاں برائی کی باتیں
(
گرد جو اے شہسوار! آئی نظر اڑتی ہوئی
تیرے آنے کی ہمیں پہنچی خبر اڑتی ہوئی
دل جلوں کی ہوتی قسمت میں نہ بربادی۔ تو کیوں
پھرتی پروانہ کی خاکستر سحر اڑتی ہوئی
وہ شکار انداز لے جب ہاتھ میں اپنے تفنگ
برق تھرا جاے رنجک دیکھکر اڑتی ہوئی
بےثباتی کیاکہوں ہستی کی؟ دیکھی ہی نہیں
سرخی رنگ حنا جلد اس قدر اڑتی ہوئی
ہے تو کچھ رونق صفائی میں ہی دلکی۔ ورنہ یاں
خاک ہی دیکھی کدورت مین ظفر ۔اڑتی ہوئی
(9)
کیا کیا آکر تری محفل میں ہم نے شمع ساں!
ہاں! مگر جلکر بروں کی جان کوہم رو گئے
حضرت دل تو گئے۔ پر کر گئے اور اک ستم
ساتھ اپنے مجکو بھی دونوں جہاں سے کھو گئے
شوق اپنا تم سے دونا ہی محبت میں رہا
جب وہاں سے ایک خط آیا۔ یہاں سے دو گئے
اے ظفر! جاؤ۔ دل دیوانہ کو ڈھونڈو کہیں
ہے خدا جانے کہاں؟ مدت ہوئی اس کو گئے
۳۳۔
ملک الشعرا شیخ ابراہیم ذوق
کلام نہایت عام پسند۔ محاوارات و ضرب الامثال خوب باندھتے ہیں۔ مفصل حال دیکھو صفحہ 73 حصہ نثر
(1)
اسے ہم نے بہت ڈھونڈا نہ پایا
اگر پایا۔ تو کھوج اپنا نہ پایا
جس انساں کو سگ دنیا نہ پایا
فرشتہ اس کا ہم پایا نہ پایا
مقدر ہی پہ گر سود وزیاں ہے
تو ہم نے یاں کچھ نہ کھویا۔ نہ پایا
سراغ عمر رفتہ ہو۔ تو کیونکر؟
کہیں جس کا نشان پا نہ پایا
رہ گم گشتگی میں ہم نے اپنا
غبار راہ بھی عنقا نہ پایا
رہا ٹیڑھا مثال نیش کژدم
کبھی کج فہم کو سیدھا نہ پایا
احاطے سے فلک کے۔ ہم تو کب کے
نکل جاتے۔ مگر رستا نہ پایا
جہاں دیکھا، کسی کے ساتھ دیکھا
کبھی ہم نے تجھے تنہا نہ پایا
کہے کیا ہائے زخم دل ہمارا!
دہن پایا۔ لب گویا نہ پایا
کبھی تو اور کبھی تیرا رہاغم
غرض۔ خالی دل شیدا نہ پایا
نظیر اس کو کہاں عالم میں! اے ذوق
کہیں ایسا نہ پائے گا۔ نہ پایا
(2)
نالہ اس زور سے کیوں میرا دہائی دیتا
اے فلک! اگر تجھے اونچا نہ سنائی دیتا
دیکھو چھوٹوں کو ہے اللہ بڑائی دیتا
آسماں آنکھ کے تل میں ہے دکھائی دیتا
کون گھر آئینہ کے جاتا؟ اگر وہ گھر میں
خاکساری سے نہ جاروب صفائی دیتا
منہ سے بس کرتے نہ ہر گز یہ خدا کے بندے
گر حریصوں کو خدا ساری خدائی دیتا۔
۳۴۔
دیکھ۔ اگر دیکھنا ہے ذوق! کہ وہ پردہ نشیں
دیدی روزن دل سے ہے دکھائی دیتا
(3)
بےنصیب اس کے ہیں گردیدار سے
سی دو آنکھوں کو نظر کے تار سے
اٹھ چکا وہ ناتواں۔ جو رہ گیا
دبکے تیرے سائی دیوار سے
اپنے دامن کو بچا کے جائیو
برق! میرے وادی پرخار سے
ناکسوں سے کیا رکیں وارستگاں!
الجھے کب دامن صبا کارخار سے
(4)
وہ خلق سے پیش آتے ہیں۔ جو فیضرساں ہیں
ہے شاخ ثمردار میں گل پہلے ثمر سے
فریاد ستم کش ہے وہ شمشیر کشیدہ
جس کا نہ رکے وار فلکی کی بھی سپر سے
اشکوں میں بہے جاتے ہیں ہم سوے دریار
مقصود رہ کعبہ ہے دریا کے سفر سے
اے ذوق! کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
(5)
کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے
ان کا بندہ ہوں جو بندے ہیں محبت والے
رہے جو شیشہ ساعت وہ مکدر دونوں
کبھی مل بھی گئے دو دل جو کدورت والے
حرص کے پھیلتے ہیں پانوں بقدر وسعت
تنگ ہی رہتے ہیں دنیا میں فراغت والے
نہیں جز شمع مجاور مرے بالین مزار
نہیں جز کثرت پروانہ زیارت والے
نہ ستم کا کبھی شکوہ۔ نہ کرم کی خواہش
دیکھ تو! ہم بھی ہیں۔ کیا صبر و قناعت والے!
کیا تماشا ہت! کہ مثل مہ نو اپنا فروغ
جانتے اپنی حقارت کو ہیں شہرت والے
کبھی افسوس ہے آتا۔ کبھی رونا آتا
دل بیمار لے ہیں دو ہی عیادت والے
۳۵۔
ناز ہے گل کو نزاکت پے چمن۔اے ذوق
اس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے
(6)
نہیں ثبات بلندی عزوشاں کے لئے
کہ ساتھ اوج کے پستی ہے آسمان کے لئے
نہ چھوڑ تو کسی عالم میں راستی۔ کہ یہ شے
عصا ہے پیر کو اور سیف ہے جواں کے لئے
جو پاس مہر و محبت کہیں یہاں بکتا
تو مول لیتے ہم اک اپنے مہرباں کے لئے
اگر امید نہ ہمسایہ ہو۔ تو خانہ یاس
بہشت ہے ہمیں آرام جادواں کے لئے
وبال دوش ہے اس ناتوں کو سر۔ لیکن
لگا رکھا ہے ترے خنجر و سناں کے لئے
بنایا آدمی کو ذوق! ایک جز و ضعیف
اور اس ضعیف سے کل کام دو جہاں کے لیے
(7)
ایسا نہ ہو کہ آتے ہی آتے جواب خط
قاصد! جواب زندگی مستعار دے
اے شمع تیری عمر طبعی ہے ایک رات
ہنسکر گزار یا اسے رو کر گزار سے
بے فیض گر ہے چشمہ آب بقا۔ تو کیا!
مانگو۔ تو ایک قطرہ نہ آئینہ وار دے
پشہ سے سیکھے شیوہ مردانگی کوئی
جب قصد خوں کو آئے۔ تو پہلے پکار دے
اس جبر پر تو ذوق! یہ انساں کا حال ہے
کیا جانے کیا کرے! جوخدا اختیار دے۔
(
لایہ حیات۔ آئے۔ قضا لے چلی۔ چلے
اپنی خوشی نہ آئے۔ نہ اپنی خوشی چلے
ہمسا بھی۔ اس بساط پے کم ہو گا بدقمار
جو چال ہم چلے۔ وہ نہایت بری چلے
بہتر تو ہے یہی۔ کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں! جو کام نہ بےدل لگی چلے
ہو عمر خضر بھی۔ تو ہو معلوم وقت مرگ
ہم کیا رہے یہاں! ابھی آئے۔ ابھی چلے
۳۶۔
حکیم مومن خان۔ مومن
مومن خان نام۔ مومن تخلص۔ وطن دلی۔ طبابت پیشہ آبائی۔ 1215 ہجری میں پیدا ہوئے۔ 1268ھ میں رحلت کی۔ نہایت ذکی و ذہین آدمی تھے۔ان کی روش خاص معاملہ بندی ہے۔ کہیں میر و درد کی سی سادہ بیانی۔ کہیں باریکی۔ ذوق اور غالب کے ہمعصر تھے۔
(1)
وعدہ وصلت سے ہو دل شاد کیا!
تم سے دشمن کی "مبارکباد" کیا!
کچھ قفس میں ان دنوں لگتا ہے جی
آشیاں اپنا ہوا برباد کیا؟
ہیں اسیر اس کے۔ جو ہے اپنا اسیر
ہم نے سمجھے صید کیا! صیاد کیا!
نالہ اک دم میں اڑا ڈالے دھوئیں
چرخ کیا اور چرخ کی بنیاد کیا!
جب مجھے رنج دل آزاری نہ ہو
بےوفا! پھر حاصل بیداد کیا؟
کیا کروں اللہ! سب ہیں بےاثر
ولولہ کیا!نالہ کیا! فریاد کیا!
ان نصیبوں پر کی اختر شناس
لب پہ مومن "ہرچہ باداباد" کیا؟
(2)
کیا رم نہ کرو گے۔ اگر ابرام نہ ہوگا
الزام سے حاصل بجز الزام نہ ہوگا
ہاں جوش تپز!چھیڑ چلی جائے۔ کہ پرتو
جھڑ جائینگے۔ فرسودا اگر دام نہ ہوگا
ناکامی امید پہ صبر آئے۔ تو کیا آئے
ہر بات میں کہتے ہو۔ کہ یہ کام نہ ہو گا
وہ مشق رہی اور نہ وہ شوق ہے۔ مومن!
کیا شہر کہیں گے۔ اگر الہام نہ ہوگا۔
۳۷۔
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
اس نے کیا جانے! کیا کیا لیکر!
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
آہ! طول امل ہے روز افزوں
گرچہ اک مدعا نہیں ہوتا
نارسائی کے دم رکے۔ تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب وئی دوسرا نہیں ہوتا
چارہ دل سواے صبر نہیں
سو تمھارے سوا نہیں ہوتا
کویں سنے عرض مومن مضطر
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
(4)
قابو میں نہیں ہے دل کم حوصلہ اپنا
اس جور پہ جب کرتے ہین تجھ سے گلہ اپنا
لبیک حرم ہم ہیں۔ نہ ناقوس کلیسا
پھر شیخ و برہمن میں ہے کیوں غلغلہ اپنا؟
تھے دشت میں ہمراہ مرے آبلہ چند
سو آپ ہی پامال کیا قافلہ اپنا
اس ھال کو پہنچے ترے قصے سے۔ کہ اب ہم
راضی ہیں۔ گراعدا بھی کریں فیصلہ اپنا
انصاف کے خواہاں ہیں۔ نہین طالب زرہم
تھسین سخن فہم ہے مومن صلہ اپنا
(5)
تم بھی رہنے لگے خفا۔ صاحب!
کہیں سایہ میرا پڑا۔ صاحب!
ستم۔آزار۔ظلم۔جور۔جفا
جو کیا۔سو بھلا کیا۔ صاحب!
کیوں الجھتے ہو جنبش لب سے
خیر ہے! میں نے کیا کہا؟ صاحب!
کیوں لگے دینے خط آذادی
کچھ گنہ بھی غلام کا؟ صاحب!
۳۸۔
نام عشق بتاں نہ لو۔ مومن
کیجیئے بس خدا خدا۔ صاحب
(6)
ٹھانی تھی دل میں۔ اب نہ ملینگے کسی سے ہم
پر کیا کریں! کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم
مجھ سے نہ بولو تم۔ اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجیئے۔ پوچھتے ہیں آپ سے ہم
صاحب نے کس غلام کو آذاد کر دیا؟
لو بندگی! کہ چھوٹ گئے بندگی ہم سے
کب گل کھلیگا! فصل گل تو دور
اور سوے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم
لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومن نہ ہوں۔ جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم
(7)
سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھے
کیو علم دھوم سے تیرے شہدا کے اٹھے
گو کہ ہم صفحہ ہستی پہ تھے اک حرف غلط
لیک اٹھے بھی۔ تو اک نقش بٹھا کے اٹھے
اس رے گرمی محبت! کہ ترے سوختہ جاں
جس جگہ بیٹھ گئے۔ آگ لگا کے اٹھے
میں دکھاتا تمھیں تاثیر۔ مگر ہاتھ مرے
ضعف کے ہاتھ سے کب وقت دعا کے اٹھے
شعر مومن کے پڑھے بیٹھ کے اس کے آگے
خوب احوال دل زار سنا کے اٹھے
(
اگر غفلت سے باز آیا۔ جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے۔ تو کیا کی
فلک کے ہاتھ مین جا چھپوں۔ گر
خبر لا دے کوئی تحت الثرےٰ کی
جفا سے تھک گئے۔ تو بھی نہ پوچھا
کہ تو نے کس توقع پر وفا کی؟
کہا اس شوخ سے "مرتا ہے مومن"
کہا "میں کیا کروں! مرضی خدا کی"
۳۹۔
نواب مصطفے خان شفیتہ
مصطفٰے خان نام۔ شفیتہ تخلص۔ جہانگیر آباد ضلع شہر کے جاگیر دار اور عمائد دہلہ سے تھے۔ ان کی ذات ستودہ صفات امارت، فقر اور علم و فضل کی جامع تھی۔ ریختہ میں حکیم مومن خان مومن سے مشورہ کرتے تھے۔ کلام نہایت متین و سنجیدہ۔ فارسیت کا رنگ غالب۔ 1277 ہجری میں رحلت فرمائی۔
(1)
اے جان بیقرار ذرا صبر چاہیے
بےشک ادھر بھی آئیگا جھونکا نسیم کا
جس کی سرشت صاف نہ ہو آدمی نہیں
نیرنگ و عشوہ کام ہے دیو رحیم کا
طاعت اگر نہیں۔ تو نہ ہو۔ یاس کس لئے!
وابستہ سبب ہے کرم کب کریم کا
جس وقت تیرے لطف کے دریا کو جوش آئے
فوارہ جناں ہو زبانہ حجیم کا
اے شیفتہ! عذاب جہنم سے کیا مجھے؟
میں امتی ہوں نار و جناں کے قسیم کا
(2)
دل زار کا ماجرا کیا کہوں!
فسانہ ہے مشہور سیماب کا
کہاں پھر وہ نایاب! پایا جسے
غلط شوق ہے جنس نایاب کا
نہ کیجو غل۔ ے خوشنوایان صبح!
یہ ہے وقت ان کے شکر خواب کا
محبت نہ ہر گز جتائی گئی
رہا ذکر کا اور ہر باب کا
ویاں تیری روزوں کی پرواہ کسے
جہاں شغل ہو سیر مہتاب کا
میں بیجرم رہتا ہوں خائف۔ کہ واں
جفا میں نہیں دخل اسباب کا
نہ کرنا خطا پر نظر شیفتہ!
کہ اغماض شیوہ ہے احباب کا