51
(پسر سلطان صلاح الدین) نے بعض احمقوں کی ترغیب سے اس کو ڈھانا چاہا۔ چنانچہ دربار کے چند معزز افسر اور بہت سے نقب زن اور سنگتراش اور مزدور اس کام پر مامور ہوئے۔ آٹھ مہینے تک برابر کام جاری رہا اور نہایت سخت کوششیں عمل میں آئیں۔ ہزاروں لاکھوں روپے برباد کردیے گئے۔ لیکن بجز اس کے کہ اوپر کی استر کاری خراب ہوئی۔ یا کہیں کہیں سے ایک آدھ پتھر اکھڑ گیا اور کچھ نتیجہ نہیں ہوا۔
مجبور ہوکر ملک العزیز نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔
اہرام کے قریب ایک بہت بڑا بت ہے جس کو یہاں کے لوگ ابوالہول کہتے ہیں۔ اس کا سارا دھڑ زمین کے اندر ہے۔ گردن اور سر اور دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ چہرہ پر کسی قسم کا سرخ روغن ملا ہے۔ جس کی آب اس وقت تک قائم ہے۔ ان اعضا کی مناسبت سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ پورا قد ساٹھ ستر گز سے کم نہ ہوگا۔ باوجود اس غیر معمولی درازی کے تمام اعضا ناک کان وغیرہ اس ترتیب اور مناسبت سے بنائے ہیں کہ اعضا کے باہمی تناسب میں بال برابر کا فرق نہیں۔ عبداللطیف بغدادی سے کسی شخص نے پوچھا تھا۔ کہ آپ نے دنیا میں سب سے عجیب تر کیا چیز دیکھی؟ اس نے کہا کہ ابوالہول کے اعضا کا تناسب۔ کیونکہ عالم قدرت میں جس چیز کا نمونہ موجود نہیں۔ اس میں ایسا تناسب قائم رکھنا آدمی کا کام نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔(شبلی نعمانی)۔۔۔۔۔۔۔۔
52
مولویہ عبدالحلیم صاحب شرر لکھنوی
بزم قدرت
دنیا کی سب محفلیں تغیرات زمانہ سے درہم و برہم ہو جاتی ہیں۔ مگر خدا کی مرتب کی ہوئی محفل جس میں انقلابات عالم سے ہر روز ایک نیا لطیف پیدا ہوتا رہتا ہے۔ ہمیشہ آباد رہی اور یونہیں قیامت تک جمی رہے گی۔ یہ وہ محفل ہے جس کی رونق کسی کے مٹانے سے نہیں مٹ سکتی۔ وہ پر غم واقعات اور وہ حسرت بھرے سانحے جن سے ہماری محفلیں درہم وہ برہم ہوجایا کرتی ہیں۔ ان سے بزم قدرت کی رونق اور دو بالا ہوجاتی ہے۔ ہماری صحبت کا کوئی آشنا حرماں نصیبی میں ہم سے بچھڑ کے مبتلاے دشت غربت ہوجاتا ہے۔ تو برسوں ہماری انجمنیں سونی پڑی رہتی ہیں۔ ہمارے عشرت کدوں کا کوئی زندہ دل نذر اجل ہوجاتا ہے تو سالہا سال کے لیے ماتم کدے ہوجاتے ہیں۔ مگر جب ذرا نظر کو وسیع کرو اور خاص صدمات کو خیال چھوڑ کے عالم کو عام نظر سے دیکھو۔ تو اس کی چہل پہل ویسی ہی رہتی ہے بلکہ نئی نسل کے دو چار پرجوش زندہ دل ایسے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ دنیا کی دلچسپیاں ایک درجہ اور ترقی کر جاتی ہیں۔ ایک شاعر کا قول ہے۔
دنیا کے جو مزے ہیں۔ ہرگز یہ کم نہ ہوں گے
چرچے یہی رہیں گے۔ افسوس! ہم نہ ہوں گے
جس نے کہا ہے بہت خوب کہا ہے۔ بزم قدرت ہمیشہ یونہیں دلچسپیوں سے آباد رہے گی۔ ہاں ہم نہ ہونگے اور ہماری جگہ زمانہ ایسے اچھے نعم البدل لاکے بیٹھا دیگا
53
کہ ہماری باتیں محفل والوں کو پھیکی اور بے مزہ معلوم ہونے لگیں گی۔
الغرض یہ محفل کبھی خالی نہیں رہی۔ کوئی نہ کوئی ضرور رہا۔ جو اس بزم کی رونق کو ترقی دیتا رہا۔ اسی مقام سے یہ نازک مسئلہ ثابت کیا جاتا ہے۔ کہ زمانہ کی عام رفتار ترقی ہے ایک قوم آگے بڑھتی اور دوسری پیچھے ہٹتی ہے۔ تنزل پذیر قوم کے لوگ اپنے مقام پر جب اطمینان سے بیٹھتے ہیں۔ زمانہ اور ملک کی شکاتیوں کا دفتر کھول دیتے ہیں اور ان کو دعویٰ ہوتا ہے کہ زمانہ تنزل پر ہے۔ مگر اصل پوچھئے۔ تو تنزل صرف ان کی غفلتوں اور راحت طلبیوں کا نتیجہ ہے۔ دنیا اپنی عام رفتار میں ترقی ہی کی طرف جارہی ہے۔
اے وہ لوگو! جو شکایت زمانہ میں زندگی کی قیمتی گھڑیا فضول گزران رہے ہو۔ ذرا بزم قدرت کو دیکھو تو کس قدر دل کش اور نظر فریب واقع ہوئی ہے۔ تمہارے دل میں وہ مذاق ہی نہیں پیدا کہ ان چیزوں کی قدر کرسکو۔ یہ وہ چیزیں ہے کہ انسانی جوش کو بڑھاتی ہیں اور طبیعت میں وہ مفید حوصلے پیدا کرتی ہیں۔ جن سے ہمیشہ نتیجے پیدا ہوئے اور پیدا ہونگے۔ اندھیری رات میں آسمان نے اپنے شب زندہ دار دوستوں کی محفل آراستہ کی ہے۔ تارے کھلے ہوئے ہیں۔ اور اپنی بے ترتیبی اور بے نظمی پر بھی عجب بہار دکھا رہے ہیں۔ دیکھو ان پیارے خوش نما تاروں کی صورت پر کیسی زندہ دلی اور کیسی تری و تازگی پائی جاتی ہے؟ پھر یکایک مہتاب کا ایسا حسین اور نورانی مہمان مشرق کی طرف سے نمودار ہوا۔ اور یہ گورے گورے تارے اپنی بے فروغی پر افسوس کرکے غائب ہونے لگے۔ ماہتاب آسمان کے نیلگوں اطلسی
54
دامن میں کھیلتا ہوا آگے بڑھا۔ وہ اگرچہ ہماری طرح دل داغدار لیکے آیا تھا۔ لیکن خوش خوش آیا۔ اور ہمارے غربت کدوں کو روشن کرکے بزم قدرت میں نہایت لطیف اور خوشگوار دلچسپیاں پیدا کرکے خوشی خوشی صحن فلک کی سیر کرتا ہوا مغرب کی طرف گیا اور غائب ہوگیا۔
ابھی آسمان کو اس مہمان کا انتظار تھا۔ جس سے نظام عالم کا سارا کاروبار چل رہا ہے۔ اور جس کی روشنی ہماری زندگیوں کی جان اور ہماری ترقیوں کا ذریعہ ہے۔ آفتاب بڑی آب و تاب سے ظاہر ہوا۔ رات کا خوبصورت اور ہم صحبت چاند اپنے اترے ہوئے چہرہ کو چھپا کے غائب ہوگیا۔ اور آسمان کا اسٹیج بزم قدرت کے دلفریب ایکٹروں سے خالی ہوگیا۔
خواب شب کا مزہ اٹھانے والوں کی آنکھیں کھل کھل کے افق مشرق کی طرف متوجہ ہوئی ہیں۔ آفتاب کی شعاعیں آسمان کے دور پر چڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس کے ساتھ مرغان سحر کے نغمہ کی آواز کانوں میں آئی ہے۔ اور آنکھیں مل کے دیکھا ہے تو ہماری نظر کی خیرگی نہ تھی۔ شمع حقیقت میں جھلملارہی ہے۔ یک بیک وفور طرف نے ایک ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ گھنٹے بجے ہیں۔ چڑیاں چہچہائیں۔ موذنوں نے اذانیں دیں۔ اور تمام جانوروں کی مختلف آوازوں نے ملکر ایک ایسا ہمہمہ پیدا کردیا ہے کہ نیچر کی رفتار میں بھی تیزی پیدا ہوگئی۔ باغ نیچر کے چابکدست کاریگر اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئے۔ نسیم سحر اٹکھیلیاں کرتی ہوئی آئی اور ضابط و متین غنچوں کے پہلو گد گدانے لگی۔ الغرض قدرت نے اپنی پوری بہار کا نمومہ آشکارا کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔(عبدالحلیم شرر)۔۔۔۔۔۔۔۔
55
خان بہادر۔ شمس العلما مولوی محمد ذکاء اللہ
وارن ہیسٹنگز کے اخلاق و عادات
شاید ہی کوئی دوسرا مدبر و منتظم ملکی ایسا گزرا ہو کہ جس کی تفضیح اور ہجو اس مبالغہ سے اور تعریف اس شد و مد سے ہوئی ہو۔ اور اس کی ساری زندگی کے افعال اور اعمال کی تحقیقات ایسی شہادت تحریری سے ہوئی ہو۔ مگر اس کی نسبت لکھنے والے طرف دار اور متعصب تھے۔ اگر نظر انصاف سے دیکھئے تو اس کی یہ بھلائیاں اور برائیاں معلوم ہونگی۔ جو ہم نیچے لکھتے ہیں۔ اس کی فطانت اور فراست و ذہانت کے سب دوست دشمن قائل ہیں۔ کوئی اس میں شبہ نہیں کرتا۔ کہ وہ بیدار مغز اور ہوشیار دل ایسا تھا۔ کہ امور خطیر اور معاملات عظیم کے انصرام اور سر انجام کرنے کی اس میں قابلیت اور لیاقت تھی۔ برسوں تک اس نے ایک سلطنت بزرگ اور مملکت عظیم کا نظم و نسق کیا۔ سوائے ذہین اور قابل ہونے کے وہ محنت شعار اور جفاکش پرلے درجہ کا تھا۔ کاہلی اس سے کروڑوں کوس دور رہتی تھی۔ اس کے جانشین جو ہوئے۔ ان میں دو چار قابلیت اور لیاقت میں تو ہم پلہ ہوئے مگر محنت مشقت و کار گزاری میں اس سے کہیں ہلکے تھے۔ یہی پہلا عالی دماغ تھا۔ جس نے یہ سوچا کہ انگریزی گورنمنٹ سب سے علیٰحدہ رہ کر قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ
56
وہ اور ہندوستانی رئیسوں سے آمیزش اور سازش کرے۔ یہی باب فتح و نصرت کی کنجی ہے۔ یہی وہ روشن عقل تھا کہ اس شاہراہ پر انگریزی گورنمنٹ کو رستہ دکھایا۔ جس پر چلنے سے وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئی۔ گو یہ خیالات اس وقت انگلستان میں عام نہ تھے مگر بری بھلی طرح سے تجربہ ہوکر آخر کار وہی صحیح ثابت ہوگئے۔
اس نے انگریزی صوبوں کے حسن انتظام میں اپنی عقل و ذہن کو بہت خرچ کیا۔ انقلابوں کے طوفان نے سارے ملک میں اندھیر مچا رکھا تھا۔ کسی سلطنت کا چراغ روشن نہ تھا۔ شمع افسردہ کی طرح سب میں دھواں نکل رہا تھا۔ مالی اور دیوانی عدالتوں کا بہت برا حال تھا۔ وہ نام کی عدالتیں تھیں۔ حقیقت میں اس کے طفیل وہ ظلم و ستم ہوتے تھے کہ قلم لکھ نہیں سکتا۔ اگر زمیندار تھا۔ تو ادارے مالگزاری کے لیے سر اس کا گنجہ بنایا جاتا تھا۔ اگر ساہوکار تھا۔ تو وہ شکنجے میں پھنسا ہوا تھا۔ غرض سارے زمانے کی عافیت تنگ تھی۔ اس نے ان سب عدالتوں کی اصلاح کی۔ گو ان کو اس نے درجہ کمال تک نہیں پہنچایا۔ اور نہ ان کو اچھا بنایا۔ مگر وہ ایک بنیاد اس کی ایسی ڈال گیا کہ پھر اس پر اوروں کو ردے لگا کر عمارت بنانی آسان ہوگئی۔ کوئی حکومت کا کارخانہ ایسا نہ تھا۔ کہ جس کی طرف اس نے توجہ نہ کی ہو۔ اور ان میں بہت سی مفید باتوں کا موجد نہ ہو۔
اس نے اپنی سرکار کی ہوا خواہی اور خیر اندیشی میں بھی کوئی دقیقہ
57
فرو گزاشت نہیں کیا۔ مگر اس میں اس نے اخلاق کی نیکی پر خیال نہیں کیا۔ جس وقت سرکار نے روپیہ مانگا۔ تو اس کے سر انجام کرنے میں کسی بات کا آگا پیچھا نہیں سوچا۔ از راہ ظلم و تعدی جو دولت کا سامان کیا۔ اہل انگلستان نے اس کو بے سر و سامانی سمجھا۔ اس کی طبیعت کا خمیر ایسا تھا کہ وہ عدالت اور صداقت کو ضرورت کے وقت کچھ چیز نہیں سمجھتا تھا اور مروت و فتوت کو انسانیت میں داخل نہیں جانتا تھا۔ "گر ضرورت بود روا باشند" پر عمل تھا۔ وہ خود رائی کے سبب بر خود غلط اتنا تھا کہ اپنے سامنے افلاطون کی بھی حقیقت نہیں جانتا تھا۔ ہر کام اس کا ایک راز سر بستہ اور سر پوشیدہ تھا۔ کسی کام کی اصل و حقیقت کھلنے ہی نہیں دیتا تھا۔ گو اس کے ظاہر ہوجانے سے نقصان نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہر کام کو بڑے پیچ پاچ سے کرتا تھا۔ غرض اس میں جو خوبیاں تھیں۔ وہ تحسین کے قابل تھیں اور جو برائیاں تھیں وہ نفریں کے لائق۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ رعایا پروری۔ سپاہ کی دلداری۔ لوگوں کو اپنا کرلینا۔ رفاہیت عباد اور معموری بلاد کا خیال یہ سب خوبیاں اس میں ایسی تھیں کہ وہ ایک طوطی خوش رنگ کی طرح خوش نما معلوم ہوتی تھیں۔ مگر اپنی سرکار کی نمک شناسی کے سبب سے اس کی گنجینہ آمائی۔ دولت افزائی ایسی ایک بلی اس میں تھی کہ وہ اس طوطی خوش رنگ کو نوچے کھاتی تھی۔ مگر اس بلی کے بھنبھوڑنے کے لیے اس کے پاس ایک کتا بھی موجود تھا۔ جو اس کی خود پرستی و خود رائی تھی۔
58
غرض یہ فضائل اور رذائل اس میں کام کررہے تھے۔ جو ایک بڑے بند مکان میں طوطی اور بلی اور کتا کام کریں۔ ہیسٹنگز صاحب کی سب سے زیادہ تعریف اس بات میں تھی کہ اس نے سارے کارخانوں اور کاموں کے لیے خود ہی مقدمات کو ترتیب دیا اور اس بات کو سر انجام کیا۔ جب وہ ولایت سے ہندوستان آیا۔ تو طفل مکتب تھا۔ نوکری ملی تو تجارت کے کارکانے میں۔ کبھی اس کو اہل علم اور منتظمان ملکی کی صحبت بھی میسر نہ ہوئی۔ جتنے اس کے یہاں جلیس و انیس تھے۔ اس میں کوئی اس سے زیادہ صاحب لیاقت نہ تھا۔ کہ اپنی لیاقت کو بڑھاتا۔ بلکہ اس کو خد استار بن کر سب کو لیاقت کا سبق پڑھانا پڑا۔ وہ سب کا رہنما تھا اور اس کا رہنما فقط اس کی عقل و دانش کا نور تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔(محمد ذکاء اللہ)۔۔۔۔۔۔۔۔
ادب
ادب کے معنی اس کی ریاضت محمودہ اور کوشش وسعی کے ہیں۔ جس سے کسب فضیلت ہو۔ ہر چیز کی حد نگہداشت کو اور ہر فعل محمودہ کی تعظیم کو بھی ادب کہتے ہیں۔
تو اپنے نفس کو وہ ادب سکھا کہ بے ادب اسے دیکھ کر با ادب ہوجائیں۔ جو ادب سکھانے کا ذوق رکھتا ہے۔ وہ بے ادبوں کو اپنا ہی سا بنالیتا ہے۔ جیسے آہوے وحشی جو گھر میں دانہ کھاتا ہے۔ وہ اور
59
آہوؤں کو پکڑ لاتا ہے۔ جو اپنے اخلاق کی بنیاد ادب پر رکھتا ہے۔ اس کا فکر استاد ہوجاتا ہے۔ بزرگی کی جڑ ادب سے مستحکم ہوتی ہے۔
تو لالہ و گل کی طرح تھوڑا سا خندہ کر۔ کہ سب کو مطبوع ہو۔ نہ یہ کہ ایسے قہقہے لگائے کہ سب کو بیہودہ معلوم ہوں۔ بے خرد جس کو مزاح کہتے ہیں۔ وہ خرد مندوں کے نزدیک نبرد و سلاح ہے۔ اگر تمہاری ڈاڑھی کوؤں کے پروں کی سی سیاہ ہو تو بڈھوں کی بگلا سی سفید ڈاڑھی کی ہنسی نہ اڑاؤ۔ اگر تم سمن عارض اور گلعذار ہو۔ تو زنگی کے سامنے آئینہ رکھ کر اسے نہ چڑاؤ۔ کیونکہ کوئی بدصورت دنیا میں بے مصلحت نہیں ہوتا۔ ایک چینی جس کا رنگ سرخ و سفید تھا ایک زنگی پر ہنسا۔ تو زنگی نے جواب دیا کہ میرا ایک نقطہ تیرے چہرے کے لیے زیب ہے اور تیرا ایک نقطہ میرے لیے ایک عیب ہے۔ تجھے چاہیے کہ جو تیرا عیب بیں ہو۔ تو اس کا ہنر دیکھ۔ جو تجھے زہر دے تو اس کو نبا دے۔ جو تجھے مارے تو اسے آب حیات پلا۔ تاکہ تیری عقل سلامت پسند ہو۔ اور تیرے خطبہ اخلاق میں بآواز بلند پڑھا جائے۔ خدا سے توفیق ادب کی دعا مانگ۔ کیونکہ ادب کے بغیر لطف رب سے آدمی محروم رہتا ہے۔ بے ادب اپنے لئے برا نہیں ہوتا۔ بلکہ اوروں کے لیے بھی برا نمونہ بنتا ہے۔ ادب انسان کو معصوم بناتا ہے۔ گستاخی اور بے باکی غموں کا ہجوم رکھتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔(محمد ذکاء اللہ)۔۔۔۔۔۔۔۔
60
حیا
حیا بھی طرح طرح کی ہوتی ہے۔ اور بے حیائی بھی قسم قسم کی۔ سب سے زیادہ سخت بے حیائی محبت میں اندھا ہونا ہے۔ جس میں اکثر انسان مبتلا ہیں۔ ایک شخص جو سرشت انسان سے بڑا ماہر ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ" آدمی اپنے سے سب کے بعد محبت کرے۔" مگر دنیا میں بہت سے آدمی ایسے دیکھنے میں آتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے اپنے سے محبت کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں ان صفات کا یقین کرتے ہیں۔ جو درحقیقت اس میں نہیں ہوتیں۔ اور اپنی ذات کی قدر و منزلت و قیمت میں مبالغہ کرتے ہیں۔ یہی سخت عیب ہے جس سے انسان جو اپنے آپ سے دھوکا کھا جاتا ہے۔ اور ذلت اٹھاتا ہے۔ خلق کی نظروں میں حقیر ہوجاتا ہے۔ جب آدمی خود ستائی کرتا ہے اور اس طرح اپنے تئیں دکھانا چاہتا ہے۔ جس سے معلوم ہو کہ وہ کوئی بڑی قابلیت و قدر منزلت کا آدمی ہے۔ تو ضرور اس کی ہنسی ہوتی ہے۔ ہم کو چاہیے کہ جب کوئی دوسرا شخص ہماری تعریف کرے تو اس کو حیا و شرم کے ساتھ قبول کریں۔ ظاہر اور باطن دونوں میں فروتنی اور عجز و انکسار اختیار کرنا چاہیے۔ جب آدمی اپنی نیک صفات کو۔ جو حقیقت میں اس کے اندر ہیں۔ نمود کے ساتھ دکھائے گا۔ تو شیخی کرکری ہوجائیگی۔
غرور کرنا بڑی بے حیائی ہے۔ مغرور بڑا بے حیا ہوتا ہے۔ مغرور اپنی نخوت کے زور سے مصیبتوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ وہ اپنے دگنے
61
زور سے اپنے شرکش دل کے ٹکڑے کرتا ہے۔ نرم پورا ہوا کے جھونکھوں کے آگے سر جھکاتا ہے اور اس کے تمام زور کو اپنے سے دور کردیتا ہے اور خود قائم رہتا ہے۔ ایسے ہی فروتن۔ متواضع۔ منکسر اور عجز و انکسار سے بلاؤن کو سر پر سے ٹال دیتا ہے۔
سفلے کم ظرف نا شائستہ اپنی اصلی لیاقتوں کی شیخیاں بگھارا کرتے ہیں۔ سچے مہذب اور شائستہ اپنے عجز و ناتوانی کو ظاہر کیا کرتے ہیں۔ علم میں جو لوگ تھوڑی لیاقت رکھتے ہیں۔ وہی اپنے عالم ہونے کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ مگر حقیقت میں جو عالم علم دستگاہ اور حقیقت آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آگے بہ نسبت پیچھے کے زیادہ دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے میں یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ ہم کیا جانتے ہیں بلکہ یہ کہ کیا نہیں جانتے۔ جتنا ان کا علم بڑھتا ہے۔ اتنا ہی ہی اپنی جہالت کے علم سے ان کی حیا زیادہ ہوتی ہے۔ وہ سمندر کے تیراک ہوتے ہیں ایک عمق کے بعد دوسرا عمق ان کے آگے ہوتا ہے۔ اس کی تھاہ کبھی ان کو نہیں ملتی۔ یہ کم علم ندی نالوں کے تیراک ہوتے ہیں۔ کہ جلدی سے تھاہ کو پاکے خوش ہوجاتے ہیں اور اس پر گھمنڈ اور فخر کرتے ہیں۔ عالموں کی نظروں کے روبرو۔ پہاڑ پر پہاڑ اور ایک ہمالہ پر دوسرا ہمالہ آتا جاتا ہے۔ جس سے اس کا منظر فراخ ہوتا جاتا ہے۔ جتنا یہ منظر وسیع ہوتا ہے۔ اتنی ہی ان کو حیا اپنی کوتاہ نظری کی بڑھتی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔(محمد ذکاء اللہ)۔۔۔۔۔۔۔۔
62
محنت
ہر بشر کے پیچھے سب حالتوں میں محنت کرنے کا فرض لگا ہوا ہے۔ خواہ وہ کسی جماعت کا ہو۔ جو شریف شرافت نسبی اور شرافت حقیقی تعلیم وہ تہذیب کے سبب رکھتا ہے۔ وہ اپنے دل سے اس امر کو اپنے اوپر فرض سمجھتا ہے کہ بہبود عوام اور رفاہ انام میں سعی کرکے محنت میں اپنا حصہ لوں۔ اس کو ہرگز یہ گوارے خاطر نہیں ہوتا کہ میں اوروں کی محنت سے کھاؤں پیوں۔ میں فراغت سے رہوں اور اس کا معاوضہ خود محنت کرکے اپنی سوسائٹی کو نہ دوں۔ عالی خیال نیک کردار اس تصور سے بھاگتا ہے کہ یونہیں بیٹھا رہے۔ اور دعوتیں اڑایا کرے۔ اور اس کا معاوضہ کچھ نہ دے۔ نکما پن اور سستی نہ کوئی عزت ہے نہ کوئی منفعت ہے۔ اس سے فرومایہ اور کمینہ طبائع راضی ہوجاویں۔ مگر عالی ہمت تو ایسی حالت کو مذلت سمجھتے ہیں اور حقیقی عزت اور عظمت سے اسے بعید جانتے ہیں۔
ایک دانشمند بلند خرد جو خود جدوجہد میں مجتہد تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو جو مدرسہ میں پڑھتا تھا۔ یہ پند سود مند ارقام فرماتا ہے کہ"اے میرے پیارے بیٹے! تیرے دل پر اس بات کا نقش شدت سے زور دیکر نہیں جما سکتا کہ ہر امیر۔ شریف۔ غریب۔ فقیر کی شرط زندگی محنت ہے۔ غریب کسان روٹی اپنی پیشانی کی عرقریزی سے کماتا ہے۔ اور امیر اپنی شکار کی جستجو میں سعی کرکے اپنی سستی کو کھوتا ہے۔
63
جیسے گہیوں کے کھیت میں بغیر ہل چلائے کاشتکار کو کچھ پیداوار ہاتھ نہیں لگتا۔ ایسے ہی مزرعہ دل میں تخم علم بغیر محنت کے بار آور نہیں ہوتا۔ مگر ہاں ان دونوں میں اتنا فرق ضرور ہے کہ ایسے اتفاقات اور واقعات پیش آسکتے ہیں۔ کہ ایک کسان کھیت بوئے اور وہ اس کی پیدا وار سے محروم رہے اور کوئی دوسرا آدمی اس سے متمتع ہو۔ مگر علم میں یہ نہیں ہوسکتا۔ کہ آتش زدگی یا وقوع حادثات سے کوئی شخص اپنے مطالعہ علمی کی ریاضت کے ثمر سے محروم ہوجائے اور یہ ثمر دوسرے کو ملجائے۔ اس کے تحصیل علم کی تکمیل اور توسیع خاص اسی کی ذاتی منفعت کے لیے ہے۔ اسی واسطے میرے پیارے بچے محنت کر اور وقت کو اچھی طرح کام میں لا۔ لڑکپن میں ہمارے قدم ہلکے ہوتے ہیں اور دل ملائم۔ اس میں علم خوب جڑ پکڑ سکتا ہے۔ آدمی کی بھی عمریں مثل فصلوں کے ہوتی ہیں کہ اگر ایک فصل کی کاشت میں غفلت کیجئے تو دوسری فصل میں حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ پس اگر ہم اپنی طفلی اور جوانی جو خریف و ربیع کی فصلیں ہیں۔ ضائع کردینگے۔ تو بڑھاپا ہمارا کہ کھرسا کا موسم ہے۔ نہایت خوار اور ذلیل ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔(محمد ذکاء اللہ)۔۔۔۔۔۔۔۔
64
شمس العلما مولوی سید محمد حسین آزاد
سید محمد حسین نام۔ آزاد تخلص۔ دہلوی۔ فن شعر میں ابراہیم ذوق کے شاگرد۔ علوم عربیہ و فارسیہ میں حظ وافی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی و فارسی کے پروفیسر تھے۔ اردو میں ان کی نثر پایہ عالی رکھتی ہے۔ تشبیہ و تمثیل کا استعمال نہایت خوبی و لطافت سے کرتے ہیں۔
اردو اور انگریزی انشا پردازی پر کچھ خیالات
اگر زبان کو فقط اظہار مطالب کا وسیلہ ہی کہیں۔ تو گویا وہ ایک اوزار ہے کہ جو کام ایک گونگے بچارے یا بچے نادان کے اشارے سے ہوتے ہیں۔ وہی اس سے ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ایک معمار ہے کہ اگر چاہے تو باتوں باتوں میں ایک قلعہ فولادی تیار کردے۔ جو کسی توپ خانے سے نہ ٹوٹ سکے۔ اور چاہے۔ تو ایک بات میں اسے خاک میں ملادے۔ جس میں ہاتھ ہلانے کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ زبان ایک جادوگر ہے۔ جو کہ طلسمات کے کارخانے الفاظ کے منتروں سے تیار کردیتا ہے اور جو اپنے مقاصد چاہتا ہے۔ ان سے حاصل کرلیتا ہے۔ وہ ایک نادر مرصع کار ہے۔ کہ جس کی دستکاری کے نمونے کبھی شاہوں کے سروں کے تاج اور کبھی شہزادیوں کے نو لکھے ہار ہوتے ہیں۔ کبھی علوم و فنون کے خزانوں کے زر و جواہر اس کے قوم کو مالا مال کرتے ہیں۔ وہ ایک چالاک عیار ہے۔ جو ہوا پر گرہ لگاتا ہے اور دلوں کے
65
قفل کھولتا اور بند کرتا ہے۔ یا مصور ہے کہ نظر کے میدان میں مرقع کھینچتا ہے۔ یا ہوا میں گلزار کھلاتا ہے۔ اور اسے پھول۔ گل۔ طوطی و بلبل سے سجا کر تیار کردیتا ہے۔
اس نادر دستکار کے پاس مانی اور بہزاد کی طرح مو قلم اور رنگوں کی پیالیاں دھری نظر نہیں آتی ہیں۔ لیکن اس کے استعاروں اور تشبیہوں کے رنگ ایسے خوش نما ہیں کہ ایک بات میں مضمون کو شوخ کرکے لال چہچہا کردیتا ہے۔ پھر بے اس کے کہ بوند پانی اس میں ڈالے۔ ایک ہی بات میں اسے ایسا کردیتا ہے کہ کبھی نارنجی۔ کبھی گلناری۔ کبھی آتشی۔ کبھی ایسا بھینا بھینا گلابی رنگ دکھاتا ہے کہ دیکھ کر جی خوش ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بو قلموں اور رنگا رنگ اور پھر سرتاپا عالم نیرنگ۔
جس زبان میں ہم تم باتیں کرتے ہیں۔ اس میں بڑے بڑے نازک قلم مصور گزر گئے ہیں۔ جن کے مرقعے آج تک آنکھوں اور کانوں کے رستے سے ہمارے تمہارے دلوں کو تازہ کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج کل گویا ان کے قلم گھس گئے ہیں اور پیالیاں رنگوں سے خالی ہوگئی ہیں۔ جس سے تمہاری زبان کوئی نئی تصویر یا باریک کام کا مرقع تیار کرنے کے قابل نہیں رہی۔ اور تعلیم یافتہ قومیں اسے سن کر کہتی ہیں کہ یہ نا کامل زبان ہر قسم کے مطالب ادا کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔
میرے دوستوں! یہ قول ان کا حققیت میں بیجا نہیں ہے۔ ہر ایک زبان تعلیم یافتہ لوگوں میں جو عزت پاتی ہے۔ تو دو سبب سے پاتی ہے۔ اول
66
یہ کہ اس کے الفاظ کے خزانے میں ہر قسم کے علمی مطالب ادا کرنے کے سامان موجود ہوں۔ دوم اس کی انشا پردازی ہر رنگ اور ہر ڈھنگ میں مطالب کے ادا کرنے کی قوت رکھتی ہو۔ ہماری زبان میں یہ دونوں صفتیں ہیں۔ مگر ناتمام ہیں۔ اور اس کے سبب ظاہر ہیں۔
علمی مطالب ادا کرنے کے سامانوں میں جو وہ مفلس ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تم جانتے ہو۔ کل ڈیڑھ سو برس تخمیناً اس کی ولادت کو ہوئے۔ اس کا نام اردو خود کہتا ہے کہ میں علمی نہیں۔ بازار کی زبان ہوں۔ اٹھنے بیٹھنے۔ لین دین کی باتوں کے لیے کام میں آتی ہوں۔ سلاطین چغتائیہ کے وقت تک اس میں تصنیف و تالیف کا رواج نہ تھا۔ مگر خدا کی قدرت دیکھو۔ کہ ایک بچہ شاہجہاں کے گھر میں پیدا ہوا اور انگریزی اقبال کے ساتھ ستارہ چمکے۔ جب صاحب لوگ یہاں آئے۔ تو انہوں نے ملکی زبان سمجھ کر اس کے سیکھنے کا ارادہ کیا۔ مگر سوائے چند دیوانوں کے اس میں نثر کی کتاب تک نہ تھی۔ ان کی فرمائش سے کئی کتابیں۔ کہ فقط افسانے اور داستانیں تھیں۔ تصنیف ہوئیں۔ اور انہی کے ڈھب کی صرف و نحو بھی درست ہوئی۔ 1835 عیسوی سے دفتر بھی اردو ہونے شروع ہوئے۔ 1836 عیسوی میں ایک اردو اخبار جاری ہوا۔ 1842 میں دہلی کی سوسائٹی میں علمی کتابیں اسی زبان میں ترجمہ ہونے لگیں اور اردو نے برائے نام زبان کا تمغا اور سکہ پایا۔ اب خیال کرنا چاہیے کہ جس زبان کی تصنیفی عمر کل ستر بہتر برس کی
67
ہو۔ اس کی بساط کیا۔ اور اس کے الفاظ کے ذخیرے کی کائنات کیا۔ پس اس وقت ہمیں اس کی کمی الفاظ سے دل شکستہ ہونا نہ چاہیے۔
میرے دوستو! کسی زبان کو لفظوں کے اعتبار سے مفلس یا صاحب سرمایہ کہنا بیجا ہے۔ ہر زبان اہل زبان کے با علم ہونے سے سرمایہ دار ہوتی ہے۔ اور کسی ملک والے یہ کہنا کہ علمی تصنیف یا بات چیت میں اپنے ہی ملک کے الفاظ بولیں۔ بالکل بیجا ہے۔
عربی بھی ایک علمی زبان تھی۔ مگر دیکھ لو۔ اس میں سارے لفظ تو عربی نہیں۔ صدہا رومی۔ صدہا یونانی۔ صدہا فارسی کے لفظ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور زبان فارسی کا تو کچھ ذکر ہی نہیں۔ انگریزی زبان آج علوم کا سر چشمہ بنی بیٹھی ہے۔ مگر اس زبان کے لفظوں کا طوفان آرہا ہے۔ زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ پہلے اہل ملک میں علم آتا ہے۔ پھر علمی اشیا کے لیے الفاظ یا تو اس علم کے ساتھ آتے ہیں یا وہیں ایجاد ہوجاتے ہیں۔
علمی الفاظ کا ذخیرہ خدا نے بناکر نہیں بھیجا۔ نہ کوئی صاحب علم پہلے سے تیار کرکے رکھ گیا۔ جیسے جیسے کام اور چیزیں پیدا ہوتی گئیں۔ ویسے ہی ان کے الفاظ پیدا ہوئے اور ہوتے جاتے ہیں۔ اول خاص و عام میں علم پھیلتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے الفاظ بھی عام ہوتے ہیں۔ مثلاً ریل کا انجن اور اس کے کارخانے کے صدہا الفاظ ہیں۔ کہ پہلے یہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔ جب کارخانے ہوئے۔ تو ادنےٰ ادنےٰ
68
ناخواندے سب جان گئے۔ اگر بے اس کے وہ الفاظ یہاں ڈھونڈتے یا پہلے یاد کراتے۔ تو کسی کی سمجھ میں بھی نہ آتے۔ اس طرح مثلاً میجک لینٹرن اس وقت یہاں کوئی نہیں جانتا۔ خواہ اس کا یہی نام لیں۔ خواہ فانوس جادو کہیں۔ خواہ اچنبھے کا تماشا کہیں۔ ہرگز کوئی نہیں سمجھے گا۔ لیکن اگر مشاہدے میں عام ہوجائے اور گھر گھر میں جاری ہوجائے۔ تو الٹے سے الٹا اس کا نام رکھ دیں۔ وہی بچے بچے کی زبان پر مشہور ہوجائے گا اور وہی سب سمجھیں گے۔
انگریزی میں جو علمی الفاظ ہیں مثلاً ٹیلیگراف یا ایلکٹریسٹی وغیرہ وغیرہ ان میں بھی بہت سے الفاظ ایسے ہیں کہ وہ اپنے اصل معنیٰ پر پوری دلالت نہیں کرتے۔ مگر چونکہ ملک میں علم عام ہے اور وہ چیزیں عام ہیں۔ اس لیے الفاظ مذکورہ بھی ایسے عام ہیں کہ سب بے تکلف سمجھتے ہیں۔ پس لفظوں کی کوتاہی ہماری زبان میں اگر ہے۔ تو اس سبب سے ہے کہ وہ بے علمی کے عہد میں پیدا ہوئی اور اسی عہد میں پرورش اور تربیت پائی۔ اب اس کی تدبیر ہوسکتی ہے۔ تو اہل ملک ہی سے ہوسکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ خود علوم و فنون حاصل کرو۔ اپنے ملک میں پھیلاؤ اور بھائی بندوں کو اس سے آگاہ کرو۔ جب اس میں سب قسم کے کاروبار ہونگے۔ تو ان کے الفاظ بھی ہونگے۔ ملک کے افلاس کے ساتھ زبان سے بھی افلاس کا داغ مٹ جائیگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔(محمد حسین آزاد)۔۔۔۔۔۔۔۔
69
تذکرہ ملک الشعرا خاقانی ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ
جب وہ صاحب کمال عالم ارواح سے کشور اجسام کی طرف چلا۔ تو فصاحت کے فرشتوں نے باغ قدس کے پھولوں کا تاج سجایا۔ جن کی خوشبو شہرت عام بنکر جہاں میں پھیلی اور رنگ نے بقائے دوام سے آنکھوں کو طراوت بخشی۔ وہ تاج سر پر رکھا گیا۔ تو آب حیات اس پر شبنم ہوکر برسا۔ کہ شادابی کو کملاہٹ کا اثر نہ پہنچے۔ ملک الشعرائی کا سکہ اس کے نام سے موزوں ہوا اور طغرائے شاہی میں یہ نقش ہوا۔ کہ اس پر نظم اردو کا خاتمہ کیا گیا۔ چناچہ اب ہرگز امید نہیں کہ ایسا قادر الکلام پھر ہندوستان میں پیدا ہو سبب اس کا یہ ہے کہ جس باغ کا بلبل تھا۔ وہ باغ برباد ہوگیا۔ نہ ہم صفیر رہے۔ نہ ہم داستان رہے۔ نہ اس بولی کے سمجھنے والے رہے۔ جو خراب آباد اس زبان کے لیے ٹکسال تھا۔ وہاں بھانت بھانت کا جانور بولتا ہے۔ شہر چھاؤنی سے بدتر ہوگیا۔ امرا کے گھرانے تباہ ہوگئے۔ گھرانوں کے وارث علم و کمال کے ساتھ روٹی سے محروم ہوکر حواس کو بیٹھے۔ وہ جادو کار طبیعتیں کہاں سے آئیں؟ جو بات بات میں دل پسند انداز اور عمدہ تراشیں نکالتی تھیں۔ آج جن لوگوں کو زمانہ کی فارغ بالی نے اس قسم کی ایجاد و اختراع کی فرصتیں دی ہیں۔ وہ اور اور اصل کی شاخیں ہیں۔ انہوں نے اور پانی سے نشو و نما پائی ہے۔ وہ اور ہی ہواؤں میں اڑ رہے ہیں۔ پھر اس زبان کی ترقی کا کیا بھروسا۔
70
کیسا مبارک زمانہ ہوگا۔ جب کہ شیخ مرحوم اور میرے والد مغفور ہم عمر ہونگے۔ تحصیل علمی ان کی عمروں کی طرح حالت طفلی میں ہوگی۔ صرف نحو کی کتابیں ہاتھوں میں ہونگی اور ایک استاد کے دامن شفقت میں تعلیم پاتے ہونگے۔ ان نیک نیت لوگوں کی ہر ایک بات استقلال کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی۔ وہ رابطہ ان کا عمروں کے ساتھ بڑھتا گیا اور اخیر وقت ایسا نبھ گیا کہ قرابت سے بھی زیادہ تھا۔ ان کے تحریر حالات میں بعض باتوں کے لکھنے کو سمجھیں گے۔ مگر کیا کروں جی یہ ہی چاہتا ہے کہ حرف اس گراں بہا داستان کا نہ چھوڑوں۔ یہ شاید اس سبب سے ہو کہ اپنے پیارے اور پیار کرنے والے بزرگ کی ہر بات پیاری ہوتی ہے۔ لیکن نہیں۔ اس شعر کے پتلے کا رونگٹا بھی بیکار نہ تھا۔ ایک صنعت کاری کی کل میں کونسے پرزے کو کہہ سکتے ہیں! کہ نکال ڈالو۔ یہ کام کا نہیں۔ اور کونسی حرکت اس کی ہے۔ جس سے کچھ حکمت انگیز فائدہ نہیں پہنچتا ہے اسی واسطے میں لکھونگا اور جو بات ان کے سلسلہ حالات میں مسلسل ہوسکے گی۔ اس کا ایک حرف نہ چھوڑونگا۔
شیخ مرحوم کے والد شیخ محمد رمضان ایک غریب سپاہی تھے۔ مگر زمانہ کے تجربہ اور بزرگوں کی صحبت نے انہیں حالات زمانہ سے ایسا با خبر کردیا تھا۔ کہ ان کی زبانی باتیں کتب تواریخ کے قیمتی سرمائے تھے۔ وہ دلی میں کابلی دروازے کے پاتے رہتے تھے۔ اور نواب لطف علی خان نے