مقدس
لائبریرین
۷۶۔
ہے مزاج اہل عالم یہ قریب اعتدال
ساتوں اقلیمیں ہیں گویا ان بخط استوا
رکھیگا تعویذ اور گندا کوءی کیوں اپنے پاس
باغ عالم میں یہی عالم جو صحت کا رہا
دیگا طاوَس اپنے بال و پر سے سارے نقوش دھو
پھینک دیگی توڑ کر گنڈا گلے سے فاختا
(۳)
پائے نہ ایسا ایک بھی دن خوشتر آسماں
کھاءے اگر ہزار برس چکر آسماں
ہے بادہ نشاط و طرب سے لبالب آج
اک عمر سے پڑا تھا تہی ساغر آسماں
سیکھے نہ اس طرح کا تماشا جہان میں
گر ہو تمام چشم تماشاگر آسماں
اترا رہا ہے عطر سے عیش و نشاط کے
سچ ہے زمیں پہ پانوں رکھے کیونکر آسماں
افراط انبساط سے کیا عجب۔ اگر
مثل حباب جامے سے ہو باہر آسماں
شادی کی اس کی دھوم ہے آج آسمان تک
تابع زمانہ جس کا ہے فرماں بر آسماں
فرزند شاہ یعنی جواں بخت ذی وقار
تسلیم کو ہے کس کے جھکاتا سر آسماں
ہے اس کی بارگاہ میں مانند چوبدار
حاضر عصاے کاہکشاں لیکر آسماں
اس بیاہ کی نوید سے ہے اس قدر سرور
ہے پیر ۔ پر جوانوں سے ہے بہتر آسماں
پھرتا ہے اہتمام می شادی کے رات دن
مقدور کیا! کہ ٹحیر سکے دم بھر آسماں
فرد حساب صرف سے اس بیاہ کی ہو کم
گو لاکھ جمع و خرچ کا ہو دفتر آسماں
خواجہ الطاف حسین حالی
ہے عید یہ کس جشن کی یا رب۔ کہ سراسر
ہے جیوبلی ہے جیوبلی اک ایک کی زباں پر
یہ عہد کہ گزرے ہین برس جس کو پچاس اب
ست جگ سے ہء یہ ہند کے حق میں کہیں بہتر
وہ دور تعصب تھا، یہ ہے دورہ اخلاق
وہ جنگ کا موجد تھا۔ یہ ہے صلح کا رہبر
۷۷۔
اس دور خجستہ میں وہ سب بجھ گئے شعلے
تھی جن کی جہاں سوز لپٹ آگ سے بڑھکر
اس عہد نے وہ خون بھرے ہاتھ کئے قطع
جو پھیرتے تھے بیٹیوں کے حلق پہ خنجر
بیٹوں کی طعح چاہتے ہیں بیٹیوں کو اب
جو لوگ روا رکھتے تھَ خونریزی دختر
جب بیٹیوں نے زندگی اس طرح پائی
دی زندگی ایک اور انھیں علم پڑھا کر
اس عہد نے کی آکے غلاموں کی حمایت
انساں کو نہ سمجھا کسی انسان سے کمتر
دی اس نے مٹا ہند سے ہوں رسم ستی کی
گویا وہ ستی ہو گئی خود عہد کہن پر
نابود کیا اس نے زمانہ سے ٹھگی کو
ایک قہر تھا اللہ کا جو نوع بشر پر
اس عہد میں انساں ہی نہیں ظلم سے محفوظ
مظلوم نہ اب بیل۔ نہ گھوڑا ہے۔ نہ خچر
اے نازش برانیہ۔ اے فکر برنزک
اے ہند کے گلہ کی شباں۔ ہند کی قیصر
سچ یہ ہء کہ فاتح کوئی تجھ سا نہیں گزرا
محمود نہ تیمور۔ ہنیبل نہ سکندر
تسخیر فقط اگلوں نے عالم کو کیا تھا
اور تو نے کیا ہے دل عالم کو مسضر
بند اپنے فرائض میں مسلماں ہیں۔ نہ ہندو
معمور مساجد ہیں۔ تو آباد ہیں مندر
بجتا ہے فقط چرچ میں اتوار کا گھنٹا
سنکھ اور اذاں گونجتے ہیں روز برابر
گو منت قیصر سے ہے ہر قوم گرانبار
احساں مگر اسلام پہ ہیں اس کے گراں تر
اب ہند میں کشمیر سے تا راس کماری
ہر قوم کے ہیں پیرو جواں متفق اس پر
امید نہیں ہند کے راحت طلبوں کو
راحت کی کسی سایہ میں جز سایہ قیصر
گر برکتیں اس عہد کی سب کیجیے تحریر
کافی ہء نہ وقت اس کے لئے اور نہ دفتر
ہے ان یہ دعا حق سے کہ آفاق میں جب تک
آزادی و انصاف حکومت کے ہیں رہبر
قیصر کے گھرانے پہ رہے سایہ یزداں
اور ہند کی نسلوں پہ رپے سایہ قیصر
۷۸۔
قطعات
خواجہ الطاف حسین حالی
(۱) بے تمیزی ابناے زماں
ازرہ فخر آبگینہ سے یہ ہیرے نے کہا
ہے وجود اے مبتذل تیرا برابر اور عدم
جنس تیری کس میرس اور قدر و قیمت تیری ہیچ
تیرے پانے کی خوشی کچھ اور نہ گم ہونے کا غم
سے کے دھوکا ےو اگر الماس بنجائے تو کیا!
امتحاں کے وقت کھل جاتا ہے سب تیرا بھرم
مسکرا کر آبگینہ نے یہ ہیرے سے کہا
گو کہ ہے رتبہ ترا مجھ سے بڑا اے محترم
مجھ میں اور تجھ میں مگر کر سکتے ہیں جو امتیاز
ہیں مبصر ایس اس بازار ناپرساں میں کم
تیرے جوہر گو نہیں موجود اپنی ذات میں
تجھ سے اے المس لین اچھے پڑ رہتے ہیں ہم
(۲) جس قوم میں افلاس ہو اس میں بخل اتنا بدنما نہیں جتنا اسراف
حالی سے کہا ہم نے کہ ہے اس کا سبب کیا
جب کرتی ہو تم کرتے ہو مسرف کی مذمت
لیکن بخلاف آپ نے سب اگلے سخنور
جب کرتے تھے کرتے تھے بخیلوں کو ملامت
اراف بھی مذموم ہے۔ پر بخل سے کمتر
ہے جس سے انساں کو بالطبع عداوت
حالی نے کہا روکے نہ پوچھو سبب اس کا
یاروں کے لئے ہے یہ بیاں موجب رقت
کرتے تھے بخیلوں کو ملامت سلف اس وقت
جب قوم میں اراط سے تھی دولت و ثروت
وہ جانتے تھے قوم ہو جس وقت تونگر
پھر اس میں نہیں بخل سے بدتر کوئی خصلت
اور اب کہ نہ دولت ہے نہ ثروت نہ اقبال
گھر گھر پہ ہے چھایا ہوا افلاس و فلاکت
ہے مزاج اہل عالم یہ قریب اعتدال
ساتوں اقلیمیں ہیں گویا ان بخط استوا
رکھیگا تعویذ اور گندا کوءی کیوں اپنے پاس
باغ عالم میں یہی عالم جو صحت کا رہا
دیگا طاوَس اپنے بال و پر سے سارے نقوش دھو
پھینک دیگی توڑ کر گنڈا گلے سے فاختا
(۳)
پائے نہ ایسا ایک بھی دن خوشتر آسماں
کھاءے اگر ہزار برس چکر آسماں
ہے بادہ نشاط و طرب سے لبالب آج
اک عمر سے پڑا تھا تہی ساغر آسماں
سیکھے نہ اس طرح کا تماشا جہان میں
گر ہو تمام چشم تماشاگر آسماں
اترا رہا ہے عطر سے عیش و نشاط کے
سچ ہے زمیں پہ پانوں رکھے کیونکر آسماں
افراط انبساط سے کیا عجب۔ اگر
مثل حباب جامے سے ہو باہر آسماں
شادی کی اس کی دھوم ہے آج آسمان تک
تابع زمانہ جس کا ہے فرماں بر آسماں
فرزند شاہ یعنی جواں بخت ذی وقار
تسلیم کو ہے کس کے جھکاتا سر آسماں
ہے اس کی بارگاہ میں مانند چوبدار
حاضر عصاے کاہکشاں لیکر آسماں
اس بیاہ کی نوید سے ہے اس قدر سرور
ہے پیر ۔ پر جوانوں سے ہے بہتر آسماں
پھرتا ہے اہتمام می شادی کے رات دن
مقدور کیا! کہ ٹحیر سکے دم بھر آسماں
فرد حساب صرف سے اس بیاہ کی ہو کم
گو لاکھ جمع و خرچ کا ہو دفتر آسماں
خواجہ الطاف حسین حالی
ہے عید یہ کس جشن کی یا رب۔ کہ سراسر
ہے جیوبلی ہے جیوبلی اک ایک کی زباں پر
یہ عہد کہ گزرے ہین برس جس کو پچاس اب
ست جگ سے ہء یہ ہند کے حق میں کہیں بہتر
وہ دور تعصب تھا، یہ ہے دورہ اخلاق
وہ جنگ کا موجد تھا۔ یہ ہے صلح کا رہبر
۷۷۔
اس دور خجستہ میں وہ سب بجھ گئے شعلے
تھی جن کی جہاں سوز لپٹ آگ سے بڑھکر
اس عہد نے وہ خون بھرے ہاتھ کئے قطع
جو پھیرتے تھے بیٹیوں کے حلق پہ خنجر
بیٹوں کی طعح چاہتے ہیں بیٹیوں کو اب
جو لوگ روا رکھتے تھَ خونریزی دختر
جب بیٹیوں نے زندگی اس طرح پائی
دی زندگی ایک اور انھیں علم پڑھا کر
اس عہد نے کی آکے غلاموں کی حمایت
انساں کو نہ سمجھا کسی انسان سے کمتر
دی اس نے مٹا ہند سے ہوں رسم ستی کی
گویا وہ ستی ہو گئی خود عہد کہن پر
نابود کیا اس نے زمانہ سے ٹھگی کو
ایک قہر تھا اللہ کا جو نوع بشر پر
اس عہد میں انساں ہی نہیں ظلم سے محفوظ
مظلوم نہ اب بیل۔ نہ گھوڑا ہے۔ نہ خچر
اے نازش برانیہ۔ اے فکر برنزک
اے ہند کے گلہ کی شباں۔ ہند کی قیصر
سچ یہ ہء کہ فاتح کوئی تجھ سا نہیں گزرا
محمود نہ تیمور۔ ہنیبل نہ سکندر
تسخیر فقط اگلوں نے عالم کو کیا تھا
اور تو نے کیا ہے دل عالم کو مسضر
بند اپنے فرائض میں مسلماں ہیں۔ نہ ہندو
معمور مساجد ہیں۔ تو آباد ہیں مندر
بجتا ہے فقط چرچ میں اتوار کا گھنٹا
سنکھ اور اذاں گونجتے ہیں روز برابر
گو منت قیصر سے ہے ہر قوم گرانبار
احساں مگر اسلام پہ ہیں اس کے گراں تر
اب ہند میں کشمیر سے تا راس کماری
ہر قوم کے ہیں پیرو جواں متفق اس پر
امید نہیں ہند کے راحت طلبوں کو
راحت کی کسی سایہ میں جز سایہ قیصر
گر برکتیں اس عہد کی سب کیجیے تحریر
کافی ہء نہ وقت اس کے لئے اور نہ دفتر
ہے ان یہ دعا حق سے کہ آفاق میں جب تک
آزادی و انصاف حکومت کے ہیں رہبر
قیصر کے گھرانے پہ رہے سایہ یزداں
اور ہند کی نسلوں پہ رپے سایہ قیصر
۷۸۔
قطعات
خواجہ الطاف حسین حالی
(۱) بے تمیزی ابناے زماں
ازرہ فخر آبگینہ سے یہ ہیرے نے کہا
ہے وجود اے مبتذل تیرا برابر اور عدم
جنس تیری کس میرس اور قدر و قیمت تیری ہیچ
تیرے پانے کی خوشی کچھ اور نہ گم ہونے کا غم
سے کے دھوکا ےو اگر الماس بنجائے تو کیا!
امتحاں کے وقت کھل جاتا ہے سب تیرا بھرم
مسکرا کر آبگینہ نے یہ ہیرے سے کہا
گو کہ ہے رتبہ ترا مجھ سے بڑا اے محترم
مجھ میں اور تجھ میں مگر کر سکتے ہیں جو امتیاز
ہیں مبصر ایس اس بازار ناپرساں میں کم
تیرے جوہر گو نہیں موجود اپنی ذات میں
تجھ سے اے المس لین اچھے پڑ رہتے ہیں ہم
(۲) جس قوم میں افلاس ہو اس میں بخل اتنا بدنما نہیں جتنا اسراف
حالی سے کہا ہم نے کہ ہے اس کا سبب کیا
جب کرتی ہو تم کرتے ہو مسرف کی مذمت
لیکن بخلاف آپ نے سب اگلے سخنور
جب کرتے تھے کرتے تھے بخیلوں کو ملامت
اراف بھی مذموم ہے۔ پر بخل سے کمتر
ہے جس سے انساں کو بالطبع عداوت
حالی نے کہا روکے نہ پوچھو سبب اس کا
یاروں کے لئے ہے یہ بیاں موجب رقت
کرتے تھے بخیلوں کو ملامت سلف اس وقت
جب قوم میں اراط سے تھی دولت و ثروت
وہ جانتے تھے قوم ہو جس وقت تونگر
پھر اس میں نہیں بخل سے بدتر کوئی خصلت
اور اب کہ نہ دولت ہے نہ ثروت نہ اقبال
گھر گھر پہ ہے چھایا ہوا افلاس و فلاکت