توں سردار، میں کمّی کیوں؟؟؟

عاطف بٹ

محفلین
لوگ کہتے ہیں کہ اکیسویں صدی ٹیکنالوجی اور علم کی صدی ہے مگر آج ایک خاص واقعے کے بعد مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ صدی بھی گزشتہ صدیوں کی طرح جہالت اور تعصب ہی کی صدی ہے۔ میں ذاتی طور پر ایسے ہر قاعدے اور ضابطے کے سخت خلاف ہوں جو کسی انسان کی حرمت کی پامالی کے لئے بنایا جائے۔ میں ابنِ آدم ہوں اور بلاتفریق رنگ و مذہب و نسل ان سب کے برابر ہوں جو میری ہی طرح آدم کی اولاد ہیں۔
ہوا کچھ یوں کہ تھوڑی دیر پہلے مجھے کھانا کھانے کے لئے دفتر کی چوتھی منزل پر بنے کیفےٹیریا میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اندر گیا تو صرف تین چار میزوں پر لوگ بیٹھے تھے۔ میں نے ایک خالی میز دیکھی اور جا کر وہاں پر براجمان ہوگیا اور آج کے مینیو پر نظر ڈال کر سوچنے لگا کہ کیا کھایا جائے۔ اتنی دیر میں ایک ذرا سی تلخ آواز سنائی دی تو میں نے پلٹ کر دیکھا۔ مجھ سے تھوڑی دور ایک میز پر بیٹھے ہوئے خاکروب سے کیفے کا ملازم شہریار کہہ رہا تھا کہ ’تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ تمہیں پہلے بھی منع کیا تھا کہ یہاں مت بیٹھا کرو!‘ اس خاکروب نے کچھ نہیں کہا، اپنا چائے کا کپ اٹھایا اور کیفے سے نکل کر اس راہداری میں جا کر فرش پر بیٹھ گیا جہاں واش رومز بنے ہوئے ہیں۔
اس خاکروب نے اپنے اندر اس بات کا درد کتنا محسوس کیا ہوگا اس کا تو میں اندازہ نہیں لگا سکتا، البتہ مجھے اس وقت جو تکلیف ہوئی وہ ایسی تھی کہ میں الفاظ میں اس کا اظہار نہیں کرسکتا۔ میں نے شہریار کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ ’تم نے اسے میز سے اٹھنے کو کیوں کہا؟‘ ’سر، حبیب صاحب نے منع کیا ہوا ہے ان کو یہاں بیٹھے سے!‘ شہریار نے جواب دیا۔ ’یہ حبیب صاحب کون ہیں؟‘ میں کیفے کے مینیجر کا نام نہیں جانتا تھا۔ شہریار نے بتایا تو میں نے جان بوجھ کر انجان بنتے ہوئے اگلا سوال پوچھا کہ ’منع کرنے کی وجہ کیا ہے؟‘ ’سر، یہاں آنے والے لوگ ان کے یہاں بیٹھنے پر اعتراض کرتے ہیں‘ شہریار کا جواب بہت صاف اور سیدھا تھا۔ میں نے اسے جانے کا کہا اور خود سوچ میں ڈوب گیا کہ ہم لوگ کتنے رذیل اور کمینے ہیں کہ ہمیں خود سے کم تنخواہ پانے اور کم تر کام کرنے والے لوگوں کا ہمارے برابر بیٹھ کا کھانا پینا بھی ناگوار گزرتا ہے۔ شاید ہمارا بس چلے تو ہم ان لوگوں کے سانس لینے کے لئے بھی آکسیجن کی بجائے کسی دوسری گیس کا انتخاب کریں کہ ہم ’اعلٰی و ارفع‘ حیثیت کے حامل لوگوں کا سانس ان ’کمّی کمین‘ لوگوں جیسا تو نہیں ہے ناں۔
میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ کچھ دیر میں وہ خاکروب چائے پی کر آیا اور قریب سے گزرتے ہوئے میرا حال احوال پوچھا۔ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بات کا جواب دیدیا۔ اس وقت نجانے کیوں مجھے اس کی آنکھوں میں واضح طور پر یہ سوال دکھائی دے رہا تھا:
اکو تیری میری ماں​
اکو تیرا میرا پیو​
اکو ساڈی جمّن بھوں​
توں سردار، میں کمّی کیوں؟​
 

ساجد

محفلین
یہ ہمارا دہرا معیار منافقت کی حد تک گرا ہوا اور معاشرے کی چُولیں ہلا کر رکھ دینے والا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بٹ جی الحمداللہ ہمارے کیفے میں خاکروب بھی وہیں بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ پر کچھ پرانے دفتروں میں یہ ذہنی اذیت سے دوچار رہا ہوں۔ :)
 

نایاب

لائبریرین
تلخ حقیقت
بہت صاف سیدھا سوال
مگر اس کا جواب کون دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ ہم میں سے اکثر ابھی " ابن آدم سے انسان بننے کا سفر " طے کر رہے ہیں ۔
 

عاطف بٹ

محفلین
تلخ حقیقت
بہت صاف سیدھا سوال
مگر اس کا جواب کون دے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
کہ ہم میں سے اکثر ابھی " ابن آدم سے انسان بننے کا سفر " طے کر رہے ہیں ۔
بالکل صحیح کہہ رہے ہیں نایاب بھائی اور ہم سب کو مل کر وہ حالات بدلنا ہوں گے جو اس طرح کے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔
 

نیلم

محفلین
بےشک یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے،،،یہاں ہر شخص صرف امتحان دینےآیاہے،،اللہ کسی کو دے کےآزماتا ہے اور کسی سے لےکر،،
قبر تو سب کی ایک ہی جیسی ہوگی ،،کوئی امیر ہو یاغریب ،،لباس بھی سب کاایک ہی ہوگا بادشاہ ہو یا غلام،،،
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بےشک یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے،،،یہاں ہر شخص صرف امتحان دینےآیاہے،،اللہ کسی کو دے کےآزماتا ہے اور کسی سے لےکر،،
قبر تو سب کی ایک ہی جیسی ہوگی ،،کوئی امیر ہو یاغریب ،،لباس بھی سب کاایک ہی ہوگا بادشاہ ہو یا غلام،،،
حرف حرف رٹ کر بھی آگہی نہیں ملتی
آگ نام رکھنے سے روشنی نہیں ملتی
آدمی سے انساں تک آؤ گے تو سمجھو گے
کیوں چراغوں کے نیچے روشنی نہیں ملتی
 

فلک شیر

محفلین
یہ ہماری ثقافت کےکریہہ ترین phenomena میں سے ایک ہے.....آپ کو علم ہو گا، کہ دیہات میں ...ایک چھوٹی ذات والا، کسی جاٹ یا زمیندار کے برابر بیٹھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا.........بلکہ اگر اُن میں سے کوئی سرکاری ملازمت میں آ کر چھوٹا موٹا افسر بھی بن جائے، تب بھی اُس کے گاؤں کے ادنیٰ ترین زمیندار بھی اُس کے بارے میں یہ جملہ بولتے ہیں، کہ "ہے تو کمّی نا!!!!"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ننھیال، جوکہ بڑے زمیندار ہیں .........ایک مصلّی(مسلم شیخ، نومسلم) نانا لوگوں کی بھینسیں چرایا کرتا تھا.........اُس کا بیٹا پڑھ لکھ گیا.....سافٹ وئیر انجینیر ہے......دبئی میں ملازمت کرتا ہے............چند روز قبل میں نے گھر بیٹھ کے اُس کا تذکرہ کیا، تو ہمارے سب بزرگ کہنے لگے............"اوہ انّو مصلّی دا مُنڈا...........آہو....پڑھ گیااے، رُپیّے وی چنگے لاہندا اے.........پر ہین تے (beeeep) مصلّی نا.........."
اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، کہ ابھی تہذیب کے کس دور سے ہم گزر رہے ہیں...............
عاطف بٹ .......ٹھیک توجہ دلائی آپ نے.......اِس رویے کے خلاف مسلسل چوٹ لگاتے رہنا ہر صاحب علم کے ذمّہ ہے ۔:thumbsup2:
 

یوسف-2

محفلین
ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے ہی ”ہم“ میں سے ایک صاحب کسی مغربی ملک میں پہلی مرتبہ گئے اور ان کے ٹوائلیٹ میں کوئی ”فنی خرابی“ ہوئی تو انہوں نے کال کرکے ”سوئیپر “ کو طلب کیا۔ آنے والا اپنی گاڑی میں آیا۔ گھر میں داخل ہوتے وقت وہ سوٹیڈ بوٹیڈ تھا۔ ایک ہاتھ میں کور آل اور دوسرے ہاتھ میں ٹول باکس تھا۔ سوٹ اتار کر کور آل پہنا۔ واش روم میں جا کر کام نمٹایا۔ ہاتھ منہ دھو کر پھر سوٹ پہنا اور قریبی کچن ٹیبل میں بیٹھ کار کافی طلب کیا تو موصوف نے کوئی ایسی ویسی بات کردے کہ ہم سوئپرز کو اپنے ساتھ بٹھانا پسند نہیں کرتے، کافی پلانا تو دور کی بات ہے۔ ”سوئپر صاحب“ نے اس ”کالے صاحب“ کی باقاعدہ ”شکایت“ کردی تو ان کے ”مزاج ٹھکانے“ آگئے۔ اور آئندہ آنے والے ”سوئپرز“ ان کے کچن میں اپنے لئے اپنے ہی ہاتھوں سے کافی بنانے لگے :)
ویسے اب پاکستان میں عموماً ایسے کیسز کم کم ہی سننے کو ملتے ہیں۔ ستر اسی کی دہائیوں تک یہ واقعات عام تھے۔ میں تب بھی اپنے دفتر کے صفائی کے عملے کو چائے پانی میں شریک کرلیا کرتا تھا۔ کبھی کبھی تو ان سے سگریٹ لے کر بھی پی لیا کرتا تھا۔:) اندرون سندھ صفائی ستھرائی کا کام کرنے والے بیشتر اہلکار ہندو ہیں۔ میں انہیں بطور خاص ان کے مذہبی تہوار کے مواقع پر بھی انہیں کچھ رقم دے دیا کرتا ہوں۔ اپنی عیدوں کے موقع پر عیدی دینے کے علاوہ :) ہم تو انہیں اپنے دفتر میں اکثر چائے بھی پیش کرتے ہیں۔ بڑی اور اچھی کمپنیز میں تو صفائی کا عملہ بھی صاف ستھرا ہی رہتا ہے۔ البتہ شہری میونسپلٹی والے بالعموم گندے رہتے ہیں، لیکن وہ خود بھی اپنی اس حالت میں ہم جیسے نام نہاد ”سفید پوشوں“ سے فاصلہ برقرار رکھتے ہیں۔ ہمیں ان کی بھی کبھی دل شکنی نہیں کرنی چاہئے کہ وہ ہماری ہی پھیلائی ہوئی گندگی کو صاف کرتے ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
یہ ہماری ثقافت کےکریہہ ترین phenomena میں سے ایک ہے.....آپ کو علم ہو گا، کہ دیہات میں ...ایک چھوٹی ذات والا، کسی جاٹ یا زمیندار کے برابر بیٹھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا.........بلکہ اگر اُن میں سے کوئی سرکاری ملازمت میں آ کر چھوٹا موٹا افسر بھی بن جائے، تب بھی اُس کے گاؤں کے ادنیٰ ترین زمیندار بھی اُس کے بارے میں یہ جملہ بولتے ہیں، کہ "ہے تو کمّی نا!!!!"۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
ہمارے ننھیال، جوکہ بڑے زمیندار ہیں .........ایک مصلّی(مسلم شیخ، نومسلم) نانا لوگوں کی بھینسیں چرایا کرتا تھا.........اُس کا بیٹا پڑھ لکھ گیا.....سافٹ وئیر انجینیر ہے......دبئی میں ملازمت کرتا ہے............چند روز قبل میں نے گھر بیٹھ کے اُس کا تذکرہ کیا، تو ہمارے سب بزرگ کہنے لگے............"اوہ انّو مصلّی دا مُنڈا...........آہو....پڑھ گیااے، رُپیّے وی چنگے لاہندا اے.........پر ہین تے (beeeep) مصلّی نا.........."
اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، کہ ابھی تہذیب کے کس دور سے ہم گزر رہے ہیں...............
عاطف بٹ .......ٹھیک توجہ دلائی آپ نے.......اِس رویے کے خلاف مسلسل چوٹ لگاتے رہنا ہر صاحب علم کے ذمّہ ہے ۔:thumbsup2:
اللہ جنت نصیب فرمائے آمین میری والدہ (ساس ) کا انتقال ہوگیا ۔ میں جب پاکستان پہنچا تو میرے سسرال والے تعزیت کے لیئے آنے لگے ۔ میرے سسرالی گاؤں میں سادات کے ساتھ کئی دوسری بردریاں بھی آباد ہیں ۔ اک دن کو اک ضعیف العمر بابا جی جو کہ میرے والد سے بھی زیادہ عمر کے ہوں گے تعزیت کے لیئے آئے ۔ مجھے علم ہوا کہ بابا مہر جی تعزیت کے لیئے آئے ہیں ۔ میں جب کمرے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ بزرگ زمین پر دو زانو بیٹھے ہیں ۔ اور ان کے سامنے اک کرسی دھری ہوئی ہے ۔ میں نے بابا جی کے لیئے کرسی آگے گی اور کہا کہ بزرگو یہاں بیٹھ جائیں ۔ وہ بزرگ کہنے لگا "نہ نہ پتر میں ایتھے ہی ٹھیک آں ۔ " ماں جی افسوس کرنا اے ۔ تسی سید بادشاہ ہو تسی اتے بیٹھو میں تہاڈیاں لتاں گھٹناں آں " میرے لیئے یہ سب کچھ انتہائی حیرتناک و افسوسناک تھا ۔ میں نے زبردستی انہیں بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور کرسی پر بٹھا کر خود ان کے پاؤں دبانے چاہے ۔ کہ وہ سفید باریش ضعیفالعمر بزرگ تھے ۔ اور میرے والدین نے مجھے یہی سکھایا تھا ۔ وہ بزرگ تو ہزار دعائیں دیتے رخصت ہو گئے ۔ مگر ان کے جانے کے بعد میری " سادات برادری " نے جو کمی کمین بارےمجھے باتیں سنائیں ۔وہ اک جھگڑے کی بنیاد بن گئی بحث یہاں تک بڑھی کہ میرا " سادات " سے ہونا ہی مشکوک ٹھہر گیا ۔ اس برادری میں بہت پڑھے لکھے سرکاری ملازم اور بہت مشہور سیاستدان بھی شامل ہیں ۔ جو کہ گدیوں کے نام پر لاکھوں روپے سالانہ وصول فرماتے ہیں ۔
 

عاطف بٹ

محفلین
یہ ہماری ثقافت کےکریہہ ترین phenomena میں سے ایک ہے.....آپ کو علم ہو گا، کہ دیہات میں ...ایک چھوٹی ذات والا، کسی جاٹ یا زمیندار کے برابر بیٹھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا.........بلکہ اگر اُن میں سے کوئی سرکاری ملازمت میں آ کر چھوٹا موٹا افسر بھی بن جائے، تب بھی اُس کے گاؤں کے ادنیٰ ترین زمیندار بھی اُس کے بارے میں یہ جملہ بولتے ہیں، کہ "ہے تو کمّی نا!!!!"۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
ہمارے ننھیال، جوکہ بڑے زمیندار ہیں .........ایک مصلّی(مسلم شیخ، نومسلم) نانا لوگوں کی بھینسیں چرایا کرتا تھا.........اُس کا بیٹا پڑھ لکھ گیا.....سافٹ وئیر انجینیر ہے......دبئی میں ملازمت کرتا ہے............چند روز قبل میں نے گھر بیٹھ کے اُس کا تذکرہ کیا، تو ہمارے سب بزرگ کہنے لگے............"اوہ انّو مصلّی دا مُنڈا...........آہو....پڑھ گیااے، رُپیّے وی چنگے لاہندا اے.........پر ہین تے (beeeep) مصلّی نا.........."
اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، کہ ابھی تہذیب کے کس دور سے ہم گزر رہے ہیں...............
عاطف بٹ .......ٹھیک توجہ دلائی آپ نے.......اِس رویے کے خلاف مسلسل چوٹ لگاتے رہنا ہر صاحب علم کے ذمّہ ہے ۔:thumbsup2:
بالکل صحیح کہہ رہے ہیں چیمہ صاحب۔ ایسا ہی ہوتا ہے دیہات میں تو۔
 

فلک شیر

محفلین
اللہ جنت نصیب فرمائے آمین میری والدہ (ساس ) کا انتقال ہوگیا ۔ میں جب پاکستان پہنچا تو میرے سسرال والے تعزیت کے لیئے آنے لگے ۔ میرے سسرالی گاؤں میں سادات کے ساتھ کئی دوسری بردریاں بھی آباد ہیں ۔ اک دن کو اک ضعیف العمر بابا جی جو کہ میرے والد سے بھی زیادہ عمر کے ہوں گے تعزیت کے لیئے آئے ۔ مجھے علم ہوا کہ بابا مہر جی تعزیت کے لیئے آئے ہیں ۔ میں جب کمرے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ بزرگ زمین پر دو زانو بیٹھے ہیں ۔ اور ان کے سامنے اک کرسی دھری ہوئی ہے ۔ میں نے بابا جی کے لیئے کرسی آگے گی اور کہا کہ بزرگو یہاں بیٹھ جائیں ۔ وہ بزرگ کہنے لگا "نہ نہ پتر میں ایتھے ہی ٹھیک آں ۔ " ماں جی افسوس کرنا اے ۔ تسی سید بادشاہ ہو تسی اتے بیٹھو میں تہاڈیاں لتاں گھٹناں آں " میرے لیئے یہ سب کچھ انتہائی حیرتناک و افسوسناک تھا ۔ میں نے زبردستی انہیں بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور کرسی پر بٹھا کر خود ان کے پاؤں دبانے چاہے ۔ کہ وہ سفید باریش ضعیفالعمر بزرگ تھے ۔ اور میرے والدین نے مجھے یہی سکھایا تھا ۔ وہ بزرگ تو ہزار دعائیں دیتے رخصت ہو گئے ۔ مگر ان کے جانے کے بعد میری " سادات برادری " نے جو کمی کمین بارےمجھے باتیں سنائیں ۔وہ اک جھگڑے کی بنیاد بن گئی بحث یہاں تک بڑھی کہ میرا " سادات " سے ہونا ہی مشکوک ٹھہر گیا ۔ اس برادری میں بہت پڑھے لکھے سرکاری ملازم اور بہت مشہور سیاستدان بھی شامل ہیں ۔ جو کہ گدیوں کے نام پر لاکھوں روپے سالانہ وصول فرماتے ہیں ۔
بالکل درست فرمایا آپ نے..........
 

فلک شیر

محفلین
یادش بخیر.......یارِ عزیز شناور اسحاق.....انوکھے لہجے اور بڑے کینوس کا شاعر ہے......وہ کہا کرتا ہے، کہ "ہم لوگ کتنے عجیب ہیں.......کہ گندگی ہم پھیلاتے ہیں اور اپنے تئیں اونچے اور بہتر گردانتے ہیں............اور جو بےچارے ہماری پھیلائی گندگی صاف کرتے ہیں، انہیں ہم گھٹیا اور ملیچھ جانتے ہیں"..............:sad:
 

عاطف بٹ

محفلین
ویسے اب پاکستان میں عموماً ایسے کیسز کم کم ہی سننے کو ملتے ہیں۔ ستر اسی کی دہائیوں تک یہ واقعات عام تھے۔ میں تب بھی اپنے دفتر کے صفائی کے عملے کو چائے پانی میں شریک کرلیا کرتا تھا۔ کبھی کبھی تو ان سے سگریٹ لے کر بھی پی لیا کرتا تھا۔:) اندرون سندھ صفائی ستھرائی کا کام کرنے والے بیشتر اہلکار ہندو ہیں۔ میں انہیں بطور خاص ان کے مذہبی تہوار کے مواقع پر بھی انہیں کچھ رقم دے دیا کرتا ہوں۔ اپنی عیدوں کے موقع پر عیدی دینے کے علاوہ :) ہم تو انہیں اپنے دفتر میں اکثر چائے بھی پیش کرتے ہیں۔ بڑی اور اچھی کمپنیز میں تو صفائی کا عملہ بھی صاف ستھرا ہی رہتا ہے۔ البتہ شہری میونسپلٹی والے بالعموم گندے رہتے ہیں، لیکن وہ خود بھی اپنی اس حالت میں ہم جیسے نام نہاد ”سفید پوشوں“ سے فاصلہ برقرار رکھتے ہیں۔ ہمیں ان کی بھی کبھی دل شکنی نہیں کرنی چاہئے کہ وہ ہماری ہی پھیلائی ہوئی گندگی کو صاف کرتے ہیں۔
الحمدللہ میں خود اپنے دفتر کے صفائی وغیرہ کے کام پر مامور لوگوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ ان کے حالات سے باخبر رہوں اور انہیں جہاں میری ضرورت ہو میں آخری حد تک جا کر ان کی مدد کرتا ہوں۔
میں نوکری کے سلسلے میں جہاں بھی جاتا ہوں وہاں جونیئر اسٹاف سے ان کی تعلیم اور گھریلو حالات سے متعلق ضرور پوچھتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ کم از کم ایک بندے کی تعلیم کا ذمہ لے لوں۔
 
Top