توں سردار، میں کمّی کیوں؟؟؟

عمراعظم

محفلین
غالبا" یہ نقطہ قابل غور ہے کہ نظام دنیا چلانے کے لیےمختلف کاموں کی تقسیم کی گیی۔ لیکن ہر کام درحقیقت اپنی اہمییت کے لحاظ سے کم تر نہیں ہے۔انسان سب برابر نہ ہوتے تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار نہ پاتا۔
بد قسمتی سے ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں انسانیت بری طرح پامال ہو رہی ہے۔انسانیت ،نیکی،محبت،صلہ رحمی، قربانی،سخاوت،درگزر اور اسی قسم کی تمام صفات ہمیں چند لوگوں میں ہی ملیں گی۔باقی اکثریت کے لیے تو یہ سب کچھ کتابوں کا حصہ ہیں۔ہم میں سے اکثر کے افکار اور کردار میں تضاد ہے۔انسانوں کے ہاتھوں انسانیت کی پامالی،اذیت رسانی اور ظلم و جبر عام ہے۔البتہ اب بھی ہماری دنیا ایسے انسانوں سے خالی نہیں ہوًی جو حیوانیت کے اس دور میں انسانیت کے مینار ہیں۔میر ے خیال سے دنیا کا وجود انہی لوگوں کے وجود کی وجہ سے قاَم ہے۔
 
یہاں دو چیزین مکس ہورہی ہیں ایک نسلی امتیاز اور دوسری پیشوں کی بنیاد پر انسانوں کی طبقاتی قسیم۔۔۔
جہاں تک نسلی امتیاز کا تعلق ہے، تو جب ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں اور قرآن اور اس سے پہلے کی الہامی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں، تمام انبیاء و رسل پر ایمان رکھتے ہیں، تو اس کے بعد نسلی امتیاز اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی کو کمتر اور کسی کو برتر سمجھنے کا کوئی جواز ہی نہیں رہتا۔۔اگر پھر بھی ہم نسلی امتیاز کی بنا پر کسی کو کمتر اور کسی کو برتر سمجھیں تو اسے جہالت اور شیطنت ہی کہا جاسکتا ہے۔۔۔
اور جہاں تک پیشوں کی بنیاد پر انسانوں کی طبقاتی تقسیم ہے تو اس بارے میں الکاسب حبیب اللہ مشعلِ راہ ہے۔ انبیاءئےکرام اور اولیائے کرام اور علمائے امت کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انکی بہت بڑی اکثریت انہی پیشوں سے وابستہ تھی جنہیں ہم کمی کمین والے پیشے کہتے ہیں، یعنی لوہار۔ ترکھان، جولاہا، موچی، مزدور، حلّاج، دبّاغ، بزاز، حلوائی، سبزی فروش، عطر فروش، قلی، وغیرہ وغیرہ۔۔چنانچہ پیشوں کی بنیاد پر بھی کسی کو کمتر یا برتر سمجھنا جہالت و شقاوت ہے۔۔۔
البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسان کا ماحول، اسکا پیشہ، اسکا کام اور دیگر عوامل کافی حد تک اسکی عادات و خصائل اور نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
یہاں دو چیزین مکس ہورہی ہیں ایک نسلی امتیاز اور دوسری پیشوں کی بنیاد پر انسانوں کی طبقاتی قسیم۔۔۔
جہاں تک نسلی امتیاز کا تعلق ہے، تو جب ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں اور قرآن اور اس سے پہلے کی الہامی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں، تمام انبیاء و رسل پر ایمان رکھتے ہیں، تو اس کے بعد نسلی امتیاز اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی کو کمتر اور کسی کو برتر سمجھنے کا کوئی جواز ہی نہیں رہتا۔۔اگر پھر بھی ہم نسلی امتیاز کی بنا پر کسی کو کمتر اور کسی کو برتر سمجھیں تو اسے جہالت اور شیطنت ہی کہا جاسکتا ہے۔۔۔
اور جہاں تک پیشوں کی بنیاد پر انسانوں کی طبقاتی تقسیم ہے تو اس بارے میں الکاسب حبیب اللہ مشعلِ راہ ہے۔ انبیاءئےکرام اور اولیائے کرام اور علمائے امت کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انکی بہت بڑی اکثریت انہی پیشوں سے وابستہ تھی جنہیں ہم کمی کمین والے پیشے کہتے ہیں، یعنی لوہار۔ ترکھان، جولاہا، موچی، مزدور، حلّاج، دبّاغ، بزاز، حلوائی، سبزی فروش، عطر فروش، قلی، وغیرہ وغیرہ۔۔چنانچہ پیشوں کی بنیاد پر بھی کسی کو کمتر یا برتر سمجھنا جہالت و شقاوت ہے۔۔۔
البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسان کا ماحول، اسکا پیشہ، اسکا کام اور دیگر عوامل کافی حد تک اسکی عادات و خصائل اور نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ :)
میں بھی یہی سوچ رہی تھی کہ جن پیشوں کو یہاں نچلے درجے سے جوڑا جا رہا ہے ان میں بہت سے تو بزرگانِ دین نے اپنائے ہوئے تھے۔ ہم ویسے تو ان سے اپنے لگاؤ کا ثبوت دینے کے لئے مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں لیکن ان پیشوں اور انہیں اپنانے والوں کو پکارتے ہوئے حقارت بھرے الفاظ استعمال کرتے ہوئے ہمیں کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
فرحت، بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ اور یہی طبقاتی تقسیم اور ذہنی تنگ نظری ہماری سماجی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
منافقت ہمارے سوشل فیبرک میں اس طرح رچ بس چکی ہے کہ ہم چاہ کر بھی اس سے جان نہیں چھڑا پارہے۔
اب یہ ذمہ داری آپ اور مجھ جیسے لوگوں کی ہے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر معاشرے کے اندر رائج گھٹیا سماجی اقدار کو بیخ و بُن سے اکھاڑنے کے لئے اپنا اپنا کردار مستقل مزاجی کے ساتھ ادا کرتے رہیں۔
متفق۔ اپنے عمل سے دوسروں کی سوچ اور انداز کو تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے قدم اور مستقل مزاجی شرط ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بس تو فیصلہ ہو گیا۔ کہ ہر انسان جو یہ کالم پڑھ رہا ہے۔ پڑھ چکا ہے۔ یا اپنی لفاظی سے اس کالم کو مستفید کر چکا ہے۔ اگر اس میں ایسی کوئی خامی عملی طور پر ہے تو وہ اپنے آپ کو بدلے گا۔ انشاءاللہ۔ محض گفتار کا غازی نہ بنے گا۔ یوں ہی اس تحریر کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر صرف صفحے کالے کرنے والی بات ہے۔
نوٹ: میں خود بھی اپنے میں تبدیلی لاؤں گا۔ اور اس ضمن میں آج تک جتنی کوتاہیاں میرے سے ہوئی ہیں۔ انکا ازالہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ انشاءاللہ۔ میں کسی کی طرف نہیں بلکہ اپنی طرف ہی اشارہ کر رہا ہوں۔ لہذا کوئی بھی پڑھنے والا میرے مراسلے کو ذاتی حملہ نہ سمجھے۔
 

عمراعظم

محفلین
یقینا" ہم سب کو نیرنگ خیال کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوےً اس مسلےً کو لفاظی سے نکل کر عمل کی معراج تک پہنچانا چاہیے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر رہے۔ (آمین)
 
بس تو فیصلہ ہو گیا۔ کہ ہر انسان جو یہ کالم پڑھ رہا ہے۔ پڑھ چکا ہے۔ یا اپنی لفاظی سے اس کالم کو مستفید کر چکا ہے۔ اگر اس میں ایسی کوئی خامی عملی طور پر ہے تو وہ اپنے آپ کو بدلے گا۔ انشاءاللہ۔ محض گفتار کا غازی نہ بنے گا۔ یوں ہی اس تحریر کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر صرف صفحے کالے کرنے والی بات ہے۔
نوٹ: میں خود بھی اپنے میں تبدیلی لاؤں گا۔ اور اس ضمن میں آج تک جتنی کوتاہیاں میرے سے ہوئی ہیں۔ انکا ازالہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ انشاءاللہ۔ میں کسی کی طرف نہیں بلکہ اپنی طرف ہی اشارہ کر رہا ہوں۔ لہذا کوئی بھی پڑھنے والا میرے مراسلے کو ذاتی حملہ نہ سمجھے۔
یار مجھ میں تو اس کالم کے پڑھنے کے باوجود بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے میں عزت تو سب کی کرتا ہوں لیکن طیش کی حالت میں پھر ضرور اس ۔۔۔۔۔۔ کو یاد کرتا ہوں۔
 
Top