فلک شیر
محفلین
زبردست .......ا کوشش کرتا ہوں کہ کم از کم ایک بندے کی تعلیم کا ذمہ لے لوں۔
زبردست .......ا کوشش کرتا ہوں کہ کم از کم ایک بندے کی تعلیم کا ذمہ لے لوں۔
بالکل صحیح کہا نایاب بھائی۔اللہ جنت نصیب فرمائے آمین میری والدہ (ساس ) کا انتقال ہوگیا ۔ میں جب پاکستان پہنچا تو میرے سسرال والے تعزیت کے لیئے آنے لگے ۔ میرے سسرالی گاؤں میں سادات کے ساتھ کئی دوسری بردریاں بھی آباد ہیں ۔ اک دن کو اک ضعیف العمر بابا جی جو کہ میرے والد سے بھی زیادہ عمر کے ہوں گے تعزیت کے لیئے آئے ۔ مجھے علم ہوا کہ بابا مہر جی تعزیت کے لیئے آئے ہیں ۔ میں جب کمرے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ بزرگ زمین پر دو زانو بیٹھے ہیں ۔ اور ان کے سامنے اک کرسی دھری ہوئی ہے ۔ میں نے بابا جی کے لیئے کرسی آگے گی اور کہا کہ بزرگو یہاں بیٹھ جائیں ۔ وہ بزرگ کہنے لگا "نہ نہ پتر میں ایتھے ہی ٹھیک آں ۔ " ماں جی افسوس کرنا اے ۔ تسی سید بادشاہ ہو تسی اتے بیٹھو میں تہاڈیاں لتاں گھٹناں آں " میرے لیئے یہ سب کچھ انتہائی حیرتناک و افسوسناک تھا ۔ میں نے زبردستی انہیں بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور کرسی پر بٹھا کر خود ان کے پاؤں دبانے چاہے ۔ کہ وہ سفید باریش ضعیفالعمر بزرگ تھے ۔ اور میرے والدین نے مجھے یہی سکھایا تھا ۔ وہ بزرگ تو ہزار دعائیں دیتے رخصت ہو گئے ۔ مگر ان کے جانے کے بعد میری " سادات برادری " نے جو کمی کمین بارےمجھے باتیں سنائیں ۔وہ اک جھگڑے کی بنیاد بن گئی بحث یہاں تک بڑھی کہ میرا " سادات " سے ہونا ہی مشکوک ٹھہر گیا ۔ اس برادری میں بہت پڑھے لکھے سرکاری ملازم اور بہت مشہور سیاستدان بھی شامل ہیں ۔ جو کہ گدیوں کے نام پر لاکھوں روپے سالانہ وصول فرماتے ہیں ۔
بہت اچھے غزنوی صاحب...........بہت اچھےسکڑی سمٹی روحیں لیکن جسم ہیں دہرے تہرے
ریستوراں میں سجے ہوئے ہیں کیسے کیسے چہرے۔۔
بالکل ٹھیک کہا شاہ جی۔سمجھ نہیں آتا یہ کیا ہے
ہم خود ناپاکی سے وجود میں آنے والے
آخر خود کو کیوں اپنے ہی جیسوں میں اونچا اور اعلیٰ سمجھتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
آسانیاں فراہم کرنے والے کے لیئے ہم مشکل پیدا کرتے ہیں اور وہ خندہ پیشانی سے مشکل کو آسان کیئے جاتے ہیں
بہت ساری باتیں ہیں جو باعثِ فکر ہیں بٹ جیبالکل ٹھیک کہا شاہ جی۔
یہ حرکتیں ہمارے فکری گھٹیا پن کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
جی بالکل اور یہ عمل مجھے اور آپ کو کرنا ہے۔بہت ساری باتیں ہیں جو باعثِ فکر ہیں بٹ جی
اور ان کا تدارک مثبت عمل سے ہو سکتا ہے
باتوں سے کیا ہوگا
صراحی سرنگوں ہوکر بھرا کرتی ہے پیمانہجو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں۔۔۔ اگلا مصرح بھول گیا ہے
جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیںجو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں۔۔۔ اگلا مصرح بھول گیا ہے
بسم اللہ بٹ جیجی بالکل اور یہ عمل مجھے اور آپ کو کرنا ہے۔
معاشرے کی اکائی میں اور آپ ہیں تو اس میں تبدیلی بھی میں اور آپ ہی لاسکتے ہیں۔
محترم بہنا بالکل درست لکھا آپ نے ۔ایک بندہ جو اپنی محنت سے روزی کما رہا ہے چاہے وہ کیسا ہی کام کیوں نہیں وہ اس لئے ہمارے نزدیک قابلِ احترام نہیں ہے کیونکہ ہمیں اس کے حلیے اور کام سے کراہت آتی ہے۔ دوسری طرف ہر طرح کی معاشرتی اور اخلاقی برائی میں لتھڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملانا اور ان کو ساتھ بٹھانا ہمارے لئے باعثِ فخر ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں ، انہوں نے کڑکڑاتا سوٹ پہنا ہے، وہ نئے ماڈل کی گاڑی سے نکلے ہیں اور انہوں نے انتہائی مہنگی خوشبو لگا رکھی ہے۔
وہی بات کہ ہم لوگ گفتار کے غازی ہیں جہاں کردار کی بات آتی ہے اسی طبقاتی تقسیم اور ذہنی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کے خلاف تقریریں کر کر کے ہم ہانپ جاتے ہیں۔
ایسے رویے کی بنیاد بچپن سے ہی ڈال دی جاتی ہے۔اور یہ صرف ایک مخصوص شعبے سے متعلقہ لوگوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر سطح پر ایسی ہی ذہنیت پائی جاتی ہے۔ گھر میں کام کرنے والے کو چھوٹا بڑا ہر کوئی نام سے بلاتا ہے۔ بچہ سکول میں جاتا ہے تو والدین کو اس بات کی بہت فکر ہوتی ہے کہ وہ کسی کم درجہ گھرانے کے بچے کے ساتھ نہ بیٹھے (اور ایسا صرف اعلی طبقے میں ہی نہیں ہوتا بلکہ درمیانے اور لوئر مڈل کلاس میں بھی ایسی ہی سوچ پائی جاتی ہے)۔ پڑھے لکھے یا ان پڑھ ہر دو طرح کے لوگ دوسروں کے ساتھ ایسا ہتک آمیز سلوک کرنے میں کم نہیں ہیں۔