توں سردار، میں کمّی کیوں؟؟؟

لالہ رخ

محفلین
اصل میں ہم لوگ اتنی ترقی اور لبرل اور انسانی حقوق کے علمبردار ہو کر بھی انسانیت سے کوسوں دور ہیں بلکہ ہم دورِ آدمیت میں جی رہے ہیں اور انسانیت کی معراج پانے کے لیے ہمیں شاید صدیوں کا سفر درکار ہوگا۔ لیکن انسان کا جو کردار ہے وہی سب سے بڑی ذات، سب سے بڑا سردار اور انسانیت کی معراج ہے۔ زمانہ میں تبدیلی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جب تک دماغ کا خلل دور نہ کیا جائے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
اللہ جنت نصیب فرمائے آمین میری والدہ (ساس ) کا انتقال ہوگیا ۔ میں جب پاکستان پہنچا تو میرے سسرال والے تعزیت کے لیئے آنے لگے ۔ میرے سسرالی گاؤں میں سادات کے ساتھ کئی دوسری بردریاں بھی آباد ہیں ۔ اک دن کو اک ضعیف العمر بابا جی جو کہ میرے والد سے بھی زیادہ عمر کے ہوں گے تعزیت کے لیئے آئے ۔ مجھے علم ہوا کہ بابا مہر جی تعزیت کے لیئے آئے ہیں ۔ میں جب کمرے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ بزرگ زمین پر دو زانو بیٹھے ہیں ۔ اور ان کے سامنے اک کرسی دھری ہوئی ہے ۔ میں نے بابا جی کے لیئے کرسی آگے گی اور کہا کہ بزرگو یہاں بیٹھ جائیں ۔ وہ بزرگ کہنے لگا "نہ نہ پتر میں ایتھے ہی ٹھیک آں ۔ " ماں جی افسوس کرنا اے ۔ تسی سید بادشاہ ہو تسی اتے بیٹھو میں تہاڈیاں لتاں گھٹناں آں " میرے لیئے یہ سب کچھ انتہائی حیرتناک و افسوسناک تھا ۔ میں نے زبردستی انہیں بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور کرسی پر بٹھا کر خود ان کے پاؤں دبانے چاہے ۔ کہ وہ سفید باریش ضعیفالعمر بزرگ تھے ۔ اور میرے والدین نے مجھے یہی سکھایا تھا ۔ وہ بزرگ تو ہزار دعائیں دیتے رخصت ہو گئے ۔ مگر ان کے جانے کے بعد میری " سادات برادری " نے جو کمی کمین بارےمجھے باتیں سنائیں ۔وہ اک جھگڑے کی بنیاد بن گئی بحث یہاں تک بڑھی کہ میرا " سادات " سے ہونا ہی مشکوک ٹھہر گیا ۔ اس برادری میں بہت پڑھے لکھے سرکاری ملازم اور بہت مشہور سیاستدان بھی شامل ہیں ۔ جو کہ گدیوں کے نام پر لاکھوں روپے سالانہ وصول فرماتے ہیں ۔
بالکل صحیح کہا نایاب بھائی۔
یہ سادات غیر سادات والی تقسیم بھی خوب ہے اور اس کے حوالے سے جو مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں، ان کے تو کیا ہی کہنے!
 

باباجی

محفلین
سمجھ نہیں آتا یہ کیا ہے

ہم خود ناپاکی سے وجود میں آنے والے
آخر خود کو کیوں اپنے ہی جیسوں میں اونچا اور اعلیٰ سمجھتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
آسانیاں فراہم کرنے والے کے لیئے ہم مشکل پیدا کرتے ہیں اور وہ خندہ پیشانی سے مشکل کو آسان کیئے جاتے ہیں
 

عاطف بٹ

محفلین
سمجھ نہیں آتا یہ کیا ہے

ہم خود ناپاکی سے وجود میں آنے والے
آخر خود کو کیوں اپنے ہی جیسوں میں اونچا اور اعلیٰ سمجھتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
آسانیاں فراہم کرنے والے کے لیئے ہم مشکل پیدا کرتے ہیں اور وہ خندہ پیشانی سے مشکل کو آسان کیئے جاتے ہیں
بالکل ٹھیک کہا شاہ جی۔
یہ حرکتیں ہمارے فکری گھٹیا پن کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
بہت ساری باتیں ہیں جو باعثِ فکر ہیں بٹ جی
اور ان کا تدارک مثبت عمل سے ہو سکتا ہے
باتوں سے کیا ہوگا
جی بالکل اور یہ عمل مجھے اور آپ کو کرنا ہے۔
معاشرے کی اکائی میں اور آپ ہیں تو اس میں تبدیلی بھی میں اور آپ ہی لاسکتے ہیں۔
 

زبیر مرزا

محفلین
یہ تحریر پڑھ کر مجھے بابا(اشفاق احمد) کے الفاظ یاد آگئے " انسان نے ترقی نہیں کی اس نے صرف اپنے ماحول کو ترقی دی ہے ، انسان تو آج بھی
خود غرض ، متعصب ، ظالم اور بے رحم ہے"
ابھی ہمیں انسان کو عزت دینے اور اس سے حُسن سلوک ، مروت اور مہربانی سے پیش آنے کا سبق یاد کرنے کی ضرورت ہے - ایسی تحریریں
آئینہ ہیں جو ہم سب کو گاہے بگاہے دیکھتے رہنا چاہیے تاکہ اس سے اپنے اور سماج کے رویئے پر نظر کرنے اور ان کو دُرست موقع ملتا رہے-
عاطف بہت شکریہ اس اصلاحی اور عمدہ تحریر کو پیش کرنے کے لیے - اللہ تعالٰی آپ کو خیر کثیرعطا فرمائے
 

مقدس

لائبریرین
عاطف بھیا مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ یہاں کیا لکھوں۔۔ خاکروب مینز باتھ رومز کلینرز؟ محنت کر کے اپنی روزی کماتے ہیں۔۔ اور ان کے ساتھ ایسا سلوک۔۔۔ ہم لوگ واقعی میں نہیں سدھر سکتے کبھی بھی
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ایک بندہ جو اپنی محنت سے روزی کما رہا ہے چاہے وہ کیسا ہی کام کیوں نہیں وہ اس لئے ہمارے نزدیک قابلِ احترام نہیں ہے کیونکہ ہمیں اس کے حلیے اور کام سے کراہت آتی ہے۔ دوسری طرف ہر طرح کی معاشرتی اور اخلاقی برائی میں لتھڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملانا اور ان کو ساتھ بٹھانا ہمارے لئے باعثِ فخر ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں ، انہوں نے کڑکڑاتا سوٹ پہنا ہے، وہ نئے ماڈل کی گاڑی سے نکلے ہیں اور انہوں نے انتہائی مہنگی خوشبو لگا رکھی ہے۔
وہی بات کہ ہم لوگ گفتار کے غازی ہیں جہاں کردار کی بات آتی ہے اسی طبقاتی تقسیم اور ذہنی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کے خلاف تقریریں کر کر کے ہم ہانپ جاتے ہیں۔
ایسے رویے کی بنیاد بچپن سے ہی ڈال دی جاتی ہے۔اور یہ صرف ایک مخصوص شعبے سے متعلقہ لوگوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر سطح پر ایسی ہی ذہنیت پائی جاتی ہے۔ گھر میں کام کرنے والے کو چھوٹا بڑا ہر کوئی نام سے بلاتا ہے۔ بچہ سکول میں جاتا ہے تو والدین کو اس بات کی بہت فکر ہوتی ہے کہ وہ کسی کم درجہ گھرانے کے بچے کے ساتھ نہ بیٹھے (اور ایسا صرف اعلی طبقے میں ہی نہیں ہوتا بلکہ درمیانے اور لوئر مڈل کلاس میں بھی ایسی ہی سوچ پائی جاتی ہے)۔ پڑھے لکھے یا ان پڑھ ہر دو طرح کے لوگ دوسروں کے ساتھ ایسا ہتک آمیز سلوک کرنے میں کم نہیں ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
ایک بندہ جو اپنی محنت سے روزی کما رہا ہے چاہے وہ کیسا ہی کام کیوں نہیں وہ اس لئے ہمارے نزدیک قابلِ احترام نہیں ہے کیونکہ ہمیں اس کے حلیے اور کام سے کراہت آتی ہے۔ دوسری طرف ہر طرح کی معاشرتی اور اخلاقی برائی میں لتھڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملانا اور ان کو ساتھ بٹھانا ہمارے لئے باعثِ فخر ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں ، انہوں نے کڑکڑاتا سوٹ پہنا ہے، وہ نئے ماڈل کی گاڑی سے نکلے ہیں اور انہوں نے انتہائی مہنگی خوشبو لگا رکھی ہے۔
وہی بات کہ ہم لوگ گفتار کے غازی ہیں جہاں کردار کی بات آتی ہے اسی طبقاتی تقسیم اور ذہنی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کے خلاف تقریریں کر کر کے ہم ہانپ جاتے ہیں۔
ایسے رویے کی بنیاد بچپن سے ہی ڈال دی جاتی ہے۔اور یہ صرف ایک مخصوص شعبے سے متعلقہ لوگوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر سطح پر ایسی ہی ذہنیت پائی جاتی ہے۔ گھر میں کام کرنے والے کو چھوٹا بڑا ہر کوئی نام سے بلاتا ہے۔ بچہ سکول میں جاتا ہے تو والدین کو اس بات کی بہت فکر ہوتی ہے کہ وہ کسی کم درجہ گھرانے کے بچے کے ساتھ نہ بیٹھے (اور ایسا صرف اعلی طبقے میں ہی نہیں ہوتا بلکہ درمیانے اور لوئر مڈل کلاس میں بھی ایسی ہی سوچ پائی جاتی ہے)۔ پڑھے لکھے یا ان پڑھ ہر دو طرح کے لوگ دوسروں کے ساتھ ایسا ہتک آمیز سلوک کرنے میں کم نہیں ہیں۔
محترم بہنا بالکل درست لکھا آپ نے ۔
یہ طبقاتی فرق بچپن ہی سے کچے ذہنوں میں ٹھونس دیئے جاتے ہیں ۔ اور یہ ذہن دینی دنیاوی علم سے روشن ہوکر بھی اس رویئے سے چھٹکارا نہیں پا سکتے ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
افسوس!
صدیوں قرنوں میں انسان نے جینے کے طریقے کچھ سیکھے
جینے کے طریقے جب آئے جینے کے ارادے چھوڑ دیے
صد افسوس!

ہم نہیں سُدھر سکتے۔
 
بہت عمدہ تحریر ہے۔لیکن ایک اور قابلِ ذکر بات ہے کہ اب دیہاتوں میں وہ پرانی باتیں نہیں رہیں لوگ آہستہ آہستہ اس بات کو تسلیم کررہے ہیں۔تاہم کچھ دیہات اور کچھ چوہدری ایسے ہیں جو ابھی بھی اس تعصب سے نہیں نکل سکے۔میں زیادہ دور نہیں جاتا اپنے خاندان کی بات کرتا ہوں۔میرے دادا ،دادی اس معاملے میں کافی تعصب پسند ہیں لیکن اللہ بھلا کرے میرے والدین کا جنہوں نے ہم تمام بہن بھائیوں کو غریبوں کے ساتھ اعلیٰ سلوک کی تلقین کی ہے۔اور اسکا نتیجہ یہ ہے کہ آج میں ایک غریب اور محنتی آدمی کی عزت کرتا ہوں اور ان سے ڈرتا ہوں جبکہ نام نہاد چودھریوں کو دیکھ کر خون کھولتا ہے۔

بہر حال اللہ سے دعا کہ پاکستانیوں کو اس لعنت سے محفوظ فرمائے۔یقناً یہ ایک بہت بڑی لعنت ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہمیں تو ابھی انسانیت کا پہلا سبق "احترامِ آدمیت" پڑھنے کی ضرورت ہے۔ پہلے ہم انسان بننا ہی سیکھ لیں، مسلمان بننا تو بہت بعد کی بات ہے۔
 
Top