تھانہ اردو محفل ( 2 )

کھڈے لائن لگانا کی اچھے سے سمجھ آ گئی۔
مگر یہ والدین کا کھڈے لائن لگانے والا طریقہ تو کالے پانی کی سزا سے بھی ظالمانہ ہوا نا۔
یہ دوسرا طریقہ تو ایسا پتہ ہے کہ اگر سیدھا پڑ گیا تو دین و دنیا سنور جاتے ہیں اور انسان جنت میں آجاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
یہ تھانے میں کیا کوئی کلینک کھل گیا ہے؟
ہیں جی ۔ شمشاد صیب کلینک تو نئیں البتہ علاج کا ترونکا تو لگ سکتا ہے ۔ آپ ذرا یہ تو بتائیں کدھر وارا ہوئے پھرتے ہیں ۔ آجکل ؟ ہیں آپ کے بھی تو ورنٹ نکلنے والے تھے ۔ چنگا ہوا کہ آپے فیرا لگا لیا۔ چلو دسو کوئی چاء شاء لیائے او کہ خالی ہتھی ای تھانے کا چکر لگا رہے ہیں؟
 

شمشاد

لائبریرین
ہیں جی ۔ شمشاد صیب کلینک تو نئیں البتہ علاج کا ترونکا تو لگ سکتا ہے ۔ آپ ذرا یہ تو بتائیں کدھر وارا ہوئے پھرتے ہیں ۔ آجکل ؟ ہیں آپ کے بھی تو ورنٹ نکلنے والے تھے ۔ چنگا ہوا کہ آپے فیرا لگا لیا۔ چلو دسو کوئی چاء شاء لیائے او کہ خالی ہتھی ای تھانے کا چکر لگا رہے ہیں؟
تھانے میں خالی ہاتھ آنےوالے کو کون پوچھتا ہے؟ جی بالکل جیبیں بھر کر لایا ہوں۔

میں آجکل جدہ میں رہائش پذیر ہوں۔ اگر کبھی عمرہ ادا کرنے آئیں تو خدمت کا موقع دیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہیں جی ۔ شمشاد صیب کلینک تو نئیں البتہ علاج کا ترونکا تو لگ سکتا ہے ۔ آپ ذرا یہ تو بتائیں کدھر وارا ہوئے پھرتے ہیں ۔ آجکل ؟ ہیں آپ کے بھی تو ورنٹ نکلنے والے تھے ۔ چنگا ہوا کہ آپے فیرا لگا لیا۔ چلو دسو کوئی چاء شاء لیائے او کہ خالی ہتھی ای تھانے کا چکر لگا رہے ہیں؟
مہمانوں کو چائے پلاتے ہیں یا مہمانوں کو خود لے کے آنا ہوتی ہے چائے۔
 
مہمانوں کو چائے پلاتے ہیں یا مہمانوں کو خود لے کے آنا ہوتی ہے چائے۔
تھانوں میں چائے اپنی اپنی لانی پڑتی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ رپٹ کروانی ہو تو بالعموم عوام الناس سے سٹیشنری بھی پیش کرنے کی توقع کی جاتی ہے ،اگر ریڈ کرنے کی ضرورت ہو تو اس ریڈ کے لئے پٹرول تو ویسے ہی استحقاق سمجھا جاتا ہے ۔جس نظام میں تعزیرات کی دفعات شکایت کے اندراج کے موقع پر ہی لکھنا ضروری ہو وہاں عدالتوں میں انصاف سالوں سال ہی چلتا ہے ۔ کیونکہ ہر دفعہ کی کیفیت ، نفاذ ، عدم کیفیت و قانون میں تحریر ہے۔ اب ایک ایف آئی آر میں دفعہ غلط لکھی جائے تو سمجھو پرچہ ضائع گیا تو اتنے حساس کام پر احتیاط تو ضروری ہے ناں جی۔ اور ویسے بھی پلس کو کیا پرچہ لکھو ، تفتیش ضمنیاں ویسے ہی تفتیشی افسر نے لکھنی ہوتی ہیں ۔ اب جس رفتار سے تبادلے ہوتے ہیں ایک ایک کیس عدالت جانے سے پہلے دس تفتیشیوں سے گزرتا ہے ۔ یہاں تو انویسٹمنٹ شروع ہوتی ہے جو تگڑا اور مالدار سودے باز ہوا اس ٹنٹے میں سرفرازی اس کا مقدر ہوئی۔ رہ گئی بات مرنے ورنے کی تو جی جب مریں گے تب دیکھا جائے گا ابھی تو پیسہ بناؤ
 
تھانے میں خالی ہاتھ آنےوالے کو کون پوچھتا ہے؟ جی بالکل جیبیں بھر کر لایا ہوں۔

میں آجکل جدہ میں رہائش پذیر ہوں۔ اگر کبھی عمرہ ادا کرنے آئیں تو خدمت کا موقع دیں۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا کثیرا
مالک سے مانگ ہے بلا لے، جب بلوائے گا حاضر ہو جائیں گے تب تک خواہش ہے پالتے جاتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دفعہ ایک سوٹڈ بوٹڈ صاحب نے پٹرول پمپ پر گاڑی کر کے اس کو فُل کرنے کو کہا۔
لڑکے نے ٹینکی فُل کر دی اور پچاس لیٹر پٹرول کی قیمت طلب کی۔
وہ صاحب کہنے لگا کہ میری گاڑی کی ٹینکی 40 لیٹر کی ہے، تم نے اس پچاس لیٹر کیسے ڈال دیا، جبکہ اس میں کم از کم 4 سے 5 لیٹر پہلے سے موجود تھا۔
بحث مباحثے کے بعد صاحب کو 50 لیٹر کی قیمت دینی ہی پڑی۔

اتفاق سے اسی پٹرول پمپ کے سامنے ڈپٹی کمشنر کا دفتر تھا۔ وہ صاحب وہاں چلے گئے۔ اور ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کی۔ اور اپنی شکایت بیان کی۔

کہنے لگے کہ صاحب بڑے ہی اچھے آدمی تھے، انہوں نے چائے بھی پلائی۔ اور کہنے لگے کہ جناب حکومت جو ہمیں پورے سال کے لیے پٹرول کے لیے بجٹ دیتی ہے، وہ تو تین سے چار ماہ میں برابر ہو جاتا ہے، تو ہم ان پٹرول پمپس سے مفت میں پٹرول لیتےہیں۔
پولیس کا محکمہ ان میں سر فہرست ہے۔ اس کی سزا عوام کو ملتی ہے کہ ان کے پمپس 40 لیٹر والی ٹینکی میں 50 لیٹر پٹرول ڈال دیتے ہیں۔
 
ایک دفعہ ایک سوٹڈ بوٹڈ صاحب نے پٹرول پمپ پر گاڑی کر کے اس کو فُل کرنے کو کہا۔
لڑکے نے ٹینکی فُل کر دی اور پچاس لیٹر پٹرول کی قیمت طلب کی۔
وہ صاحب کہنے لگا کہ میری گاڑی کی ٹینکی 40 لیٹر کی ہے، تم نے اس پچاس لیٹر کیسے ڈال دیا، جبکہ اس میں کم از کم 4 سے 5 لیٹر پہلے سے موجود تھا۔
بحث مباحثے کے بعد صاحب کو 50 لیٹر کی قیمت دینی ہی پڑی۔

اتفاق سے اسی پٹرول پمپ کے سامنے ڈپٹی کمشنر کا دفتر تھا۔ وہ صاحب وہاں چلے گئے۔ اور ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کی۔ اور اپنی شکایت بیان کی۔

کہنے لگے کہ صاحب بڑے ہی اچھے آدمی تھے، انہوں نے چائے بھی پلائی۔ اور کہنے لگے کہ جناب حکومت جو ہمیں پورے سال کے لیے پٹرول کے لیے بجٹ دیتی ہے، وہ تو تین سے چار ماہ میں برابر ہو جاتا ہے، تو ہم ان پٹرول پمپس سے مفت میں پٹرول لیتےہیں۔
پولیس کا محکمہ ان میں سر فہرست ہے۔ اس کی سزا عوام کو ملتی ہے کہ ان کے پمپس 40 لیٹر والی ٹینکی میں 50 لیٹر پٹرول ڈال دیتے ہیں۔
سر عوام الناس بھی کوئی دودھ کے دھلے نہیں ہیں ۔کیسز دیکھ دیکھ کر آگ لگتی ہے۔ سینہ جلتا ہے ۔ کس کا بس مسجد کی ٹونٹی پر چلتا ہے وہ وہی چرا لیتا ہے اور جس کا بس اعیان علی کے ذریعے منی لانڈرنگ پر چلتا ہے وہ گرفتار کرنے والے انسپکٹر کو قتل کروا کے بھی آزاد ہی رہتا ہے ۔ اندھیر نگری چوپٹ راج ہے ۔ نہ پوچھیں جلے دل سے حقائق نکلنے شروع ہو گئے اپنے معاشرے کے تو آپ یقین کریں سن نہیں پائیں گے ۔ گھن آئے گی ہمارے معاشرے کی حالت سے اور حد ہمارا حوصلہ ہے اسی معاشرے میں زندہ ہیں جہاں اب شرافت یا تو مستشنیات میں ہے یا پھر شریف شریف رہنے پر مجبور ہے ۔ الا ماشاء اللہ
 
آخری تدوین:
پولیس کا بس صرف ان پر ہی چلتا ہے جس کے آگے پیچھے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔
نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔ جب عدالتیں سزائے موت کے ثابت شدہ مجرم کو چھوڑ دیتی ہیں ۔ جب علم ہوتا ہے کہ واقعی یہ مجرم ہے لیکن چھوٹ ہی جائے گا ۔ تو پھر پولیس میں کچھ سرپھرے ضرور موجود ہوتے ہیں۔ جو کبھی کبھی ضرورتا پالے جاتے ہیں تو کبھی کبھی مجبورا ان سے آنکھیں بند رکھی وہاں پھر آئین و قانون کام نہیں کرتا۔ اس افسر کی اپنی غیرت بھی ہوتی ہے۔ کبھی نا معلوم افراد چھڑانے کی کوشش کریں تو حق دفاع استعمال ہو ہی جاتا ہے اور کبھی پولیس والے کو زخمی کرکے فرار کی کوشش میں مارے جاتے ہیں۔ ایک پیمانہ ہوتا ہے جب وہ بھرتا ہے تو چھلکے گا ہی اور جب چھلکے گا تو گندگی تو ہوگی ۔ قانونی غیر قانونی کا سوال بعد میں کرنے والے بھگتتے رہتے ہیں۔
بہت لمبی لسٹ ہے جن کے ہاتھ بہت لمبے تھے لیکن ہاتھ لمبے ہونے کے باوجود ہاتھ آگئے تو موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا۔ اخبارات کے مطابق تو ان سب کو بھی تفتیش کے لئے یا ناکہ پر روکا گیا۔ چھڑانے کی کوشش ہوئی یا پھر ناکے سے بھاگے ، پولیس پیچھا کرتی ہے لیکن وہ لوگ فائر کھول دیتے ہیں جوابی فائرنگ میں ملزمان قانون حفاظت خود اختیاری کے مطابق مارے گئے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ درج ذیل مقابلے جعلی تھے ۔ لیکن بیس بیس برس تک مقدمے سینکڑو ں ایف آئی آرز، درجنوں ضمانتیں رکھنے والے ملزمان جو اعتراف جرم کے باوجود دلائل و شہادات کے باوجود یا ورثاء کی کمزوری سے بذریعہ صلح، دھمکی یا پیسے دے کر صلح نامہ بنوانے تک ہر گر سے واقف تھے۔ جن کے وکیل انہیں کسی بھی مقدمے سے منٹوں میں ضمانت پر باہر لے آتے تھے۔آخر کیسے مرے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔

بابا لاڈلا(کراچی) ، عامر شہزاد(راولپنڈی) ،راشد الہی (راولپنڈی)، شکیل کیانی(راولپنڈی)، گنڈاکیر(راولپنڈی)، ساحل(راولپنڈی) مدثر بچھو (لاہور)، ملا (کراچی) ، خیر بخش (کراچی) کھیڑو (کراچی)
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
پنڈی شہر میں ٹریفک پولیس کے دو سپاہی ڈیوٹی ختم ہونے کےبعد روزانہ رات کو وردیاں تھیلے میں ڈال کر نکلتے اور ایوب پارک کے قریب سی اوڈی کے پچھواڑے جا کر وردی پہن لیتے اور ہر آنے والی بس کو روک کر چالان کرنےکی دھمکی دےکر اس سے رقم اینٹھ لیتے۔ دو تین گھنٹےلگاتے اور جب دیکھتےکہ آج کی دہاڑی پوری ہو گئی ہے، تو واپس آ جاتے۔

ایک دفعہ کیا ہوا کہ یہ اپنے کام میں لگے ہوئے تھے، ادھر سی او ڈی کے پچھواڑے میں رات کی گارڈ کی انسپکشن کرنے ایک صوبیدار صاحب معمول کی ڈیوٹی پر تھے۔ انہوں نے جب ان سپاہیوں کو دیکھا تو مشکوک سے لگے۔ انہوں نے اپنے سپاہیوں کی مدد سےان دونوں کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے لاکھ بچنے کی کوشش کی لیکن قابو میں آ گئے۔ صبح کو دفتر لگے تو ان کو پیش کیا گیا۔ رپورٹ ہوئی اور ضروری کاروائی کے بعد ان کو چھوڑ دیا گیا۔

ان کو محکمےکی طرف سے یہ سزا دی گئی کہ ٹریفک پولیس سے نکال کر ان کو عام پولیس میں بھیج دی گیا اور ان کی ڈیوتی تھانہ ڈی ڈویژن، فوارہ چوک کے قریب میں لگ گئی۔ ایک دفعہ یہ معمول کی ڈیوٹی پر تھے، کہ وہی صوبیدار صاحب سادہ کپڑوں میں سبزی منڈی میں انکو نظر آ گئے، انہوں نے جھٹ سے ان کو پکڑ کر ان کی جیب سے آدھ پاؤ چرس برآمد کرا دی۔ پرچہ ہو گیا اور صوبیدار صاحب رگڑے میں آ گئے۔ فوج کی طرف سے بھی ان کی کافی مدد کی گئی، لیکن نہیں جناب رگڑا تو لگنا ہی تھا، وہ تو شکر ہے کہ جیل نہیں ہوئی، لیکن محکمے کی جانب سے ان کی سروس بُک گندی ہوئی اور آئندہ کے لیے ان کی ترقی رُک گئی۔
 
پنڈی شہر میں ٹریفک پولیس کے دو سپاہی ڈیوٹی ختم ہونے کےبعد روزانہ رات کو وردیاں تھیلے میں ڈال کر نکلتے اور ایوب پارک کے قریب سی اوڈی کے پچھواڑے جا کر وردی پہن لیتے اور ہر آنے والی بس کو روک کر چالان کرنےکی دھمکی دےکر اس سے رقم اینٹھ لیتے۔ دو تین گھنٹےلگاتے اور جب دیکھتےکہ آج کی دہاڑی پوری ہو گئی ہے، تو واپس آ جاتے۔

ایک دفعہ کیا ہوا کہ یہ اپنے کام میں لگے ہوئے تھے، ادھر سی او ڈی کے پچھواڑے میں رات کی گارڈ کی انسپکشن کرنے ایک صوبیدار صاحب معمول کی ڈیوٹی پر تھے۔ انہوں نے جب ان سپاہیوں کو دیکھا تو مشکوک سے لگے۔ انہوں نے اپنے سپاہیوں کی مدد سےان دونوں کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے لاکھ بچنے کی کوشش کی لیکن قابو میں آ گئے۔ صبح کو دفتر لگے تو ان کو پیش کیا گیا۔ رپورٹ ہوئی اور ضروری کاروائی کے بعد ان کو چھوڑ دیا گیا۔

ان کو محکمےکی طرف سے یہ سزا دی گئی کہ ٹریفک پولیس سے نکال کر ان کو عام پولیس میں بھیج دی گیا اور ان کی ڈیوتی تھانہ ڈی ڈویژن، فوارہ چوک کے قریب میں لگ گئی۔ ایک دفعہ یہ معمول کی ڈیوٹی پر تھے، کہ وہی صوبیدار صاحب سادہ کپڑوں میں سبزی منڈی میں انکو نظر آ گئے، انہوں نے جھٹ سے ان کو پکڑ کر ان کی جیب سے آدھ پاؤ چرس برآمد کرا دی۔ پرچہ ہو گیا اور صوبیدار صاحب رگڑے میں آ گئے۔ فوج کی طرف سے بھی ان کی کافی مدد کی گئی، لیکن نہیں جناب رگڑا تو لگنا ہی تھا، وہ تو شکر ہے کہ جیل نہیں ہوئی، لیکن محکمے کی جانب سے ان کی سروس بُک گندی ہوئی اور آئندہ کے لیے ان کی ترقی رُک گئی۔
یہ المیہ ہے ہمارے نظام کا کہ جو سرکاری ملازمت میں آجاتا ہے وہ یہ تصور کر لیتا ہے کہ وہ (بلکہ اکثر محکموں میں یہ کہا بھی جاتا ہے کہ سرکاری ملازم ہوں تو جناب میں خود) حکومت کا داماد ہے۔ نوکری سے ٹیکنیکلی نکالا جانا ممکن ہی نہیں ہے الا یہ کہ کوئی اس سے بھی بڑا ٹیکنیکل نہ پیدا ہو جائے۔ پھر معافی تلافی، کوتاہی پر ذمہ داری کا عدم تعین اور معمولی سزائیں۔ حتی کہ قتل جیسے معاملات میں بھی معطلی، تبادلہ اور پھر بحالی کا پراسیس وہ ناسور ہے جو اس ملک کے نظام کو کھا چکا ہے۔ سب جانتے ہیں سرکاری نوکری کے لئے لاکھوں کی رشوتیں سفارشیں اور حرام کاریاں پیش کی جاتی ہیں پتہ ہے کیوں ؟ 1) کرنا نہیں پڑے گا تنخواہ وقت پر ملے گی۔ 2) ریٹائرمنٹ پر لمبے نوٹ اور پھر ساری عمر کی پینشن لگی رہے گی ۔ 3) اگر کچھ کرنا بھی پڑا تو یا تو سائل پر احسان ہوگا یا پھر کچھ نہ کچھ تو ملے گا ہی ملے گا۔ یہ تو عالم ہے نوکری کا۔

( عامۃ الناس کی بات کریں تو ہم خود نظام میں رہنا ہی نہیں چاہتے۔ بنیادی حق پیدائشی پرچی ہے وہ بھی اگر بنوانی ہو تو ہم پہلے سفارش ڈھونڈتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ خدا جانے پرچی بنانے والا بغیر رشوت کام کرے گا کہ نہیں اور اگر کوئی خدا کا بندہ بغیر رشوت کام کر ہی دے تو ہم شکرانے کی رقم پیش کر کر کے ایک وقت میں اسے رشوت طلب کرنے والا بنا دیتے ہیں۔
نمبر پلیٹس پر ایڈووکیٹ، پولیس، ہائی کورٹ، ڈپٹی کمشنرز آفس، محکمہ داخلہ ، پاک فوج ، ڈاکٹر، انٹی کرپشن، کوئی اور محکمہ ، ذاتی نام ، خاندان کا نام ، لکھنا قومی مشغلہ ہے ۔ جس کے پاس پچھلے دس سال کے اندر اندر کے ماڈل کی گاڑی ہو وہ تو کسی کو انسان ہی نہیں سمجھتا، جتنا نیا یا بڑا ماڈل اتنا زیادہ متکبر، لائسنس کا رواج ہی نہیں ، ہیلمٹ لگانے کا کہہ دو تو لوگ ایسے دیکھتے ہیں جیسے پاگل ہے۔گھر سے تین فٹ باہر جگہ گھیرنا سب کا حق ہے ۔ دکان کے باہر تھڑا بنا کر کرائے پر دینا بھی بنیادی حق ہے۔ سبزی گندے نالے کے پانی سے دھونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لامتناہی )

پھر اگر کوئی آجائے ایک منضبط معاشرے سے یہاں تو وہ ذہنی مریض ہونے میں کچھ زیادہ وقت نہ لے شاید الا ماشاء اللہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
یا تھانہ ہٹایا جائے یا اسے بسایا جائے۔ خالی جگہ جان کر کہیں بھوت نہ ٹھکانہ بنا لیں یہاں۔
صلح پسندوں کو بھی تو انعام کے طور پر رکھا جا سکتا نا سہولیات زندگی کی فراہمی کے ساتھ
 
Top