اس نے ایک بار اپنے سامنے کھلی ڈائری کے صفحوں پر نظر دوڑائی۔ چند بے ربط جملے، کچھ الفاظ اور بس۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ وہ جتنے لفظ مٹھی میں بھر کر بکھیرتی جاتی تھی سب کے سب سطحِ قرطاس پر مردہ مچھلیوں کی طرح تیرنے لگتے تھے۔
اس سے پہلے تو وہ جب بھی لکھتی تھی تمام الفاظ اندھیروں میں ایسے جگماگتے تھے کہ رات میں دن ہو جائے، اور اب۔ کمرے میں لگے اس بلب کی روشنی میں وہ دوبارہ ڈائری کو گھورنے لگی۔
"یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ غلط ہے۔ میں بات کروں گی۔" اس نے سوچا۔
کہانی کا پلاٹ، اس میں کرداروں حال حلیہ اور "مرچ مسالے" کی تفصیل سے اسے گاہے گاہے آگاہ کیا جا رہا تھا۔
"آج تو بات کرنی ہی پڑے گی"۔
۔ کچھ ہی دیر میں روشنی کا احساس ہوا۔ کیسی عجیب بات ہے نا۔ کبھی کبھی ہمیں روشنی کو دیکھنے کے لئیے آنکھیں نہیں چاہئیں ہوتیں۔ بس ایک احساس چاہئیے ہوتا ہے اور روشنی خود اپنا پتا بتا دیتی ہے۔
۔ مچھیلیوں کی مانند بے جان لفظ دھیرے دھیرے سانس لینے لگے تھے۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں "کوئی مردہ کیسے زندہ ہو سکتا ہے"
مجھے گلہ ہے ان تمام لوگوں سے جو نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی غلط طریقے سے کرتے ہیں جھوٹی داد سے لکھاری اپنی تحریر میں خامیاں نہیں دیکھ پاتا اور نہ ہی اصلاح کر پاتا ہے کیونکہ تمام احباب ( خاص طور پر ٹیگ شدہ احباب ) صرف داد کے ہی ڈونگرے برساتے ہیں جو کہ سخت زیادتی ہے ان لوگوں کے ساتھ جو لکھنا چاہتے ہیں
ماہی آپ کی تحریر میں بہت ابہام ہے اور اسی طرف اشارہ تھا شائد
ابن رضا کا بھی
استعارے بھی صحیح استعمال نہیں کیے مثال کے طور پر جس روشنی کا بارہا تذکرہ کیا گیا ہے یہ کیا واپڈا کی روشنی ہے جو آتی جاتی رہتی ہے پوری کہانی میں ؟
آپ نے کہانی میں " مرچ مصالحے " کی بات کی جس سے مصنفہ پر صحافی ہونے کا شبہ گذرا نہ کہ ادیب ، کوئی بھی اچھا ادیب کہانی کو مرچ مصالحے نہیں لگاتا
بات کرنی پڑے گی مگر کس سے ؟؟؟؟؟؟ انتہائی مبہم لائنز
لفظ بےجان ہی ہوتے ہیں جب تک کہ لکھنے والے ان میں اپنی صلاحیتوں سے جان نہ ڈال دیں
آپ مختصر تحریر لکھیں مگر جاندار لکھیں