اسکین دستیاب جادہ تسخیر

محمل ابراہیم

لائبریرین
ریختہ صفحہ - 221

لشکر میں ایلچی کے آنے کی دھوم ہوئی ضربان بے ایمان کو بھی یے خبر معلوم ہوئی۔دربارِ عام کا حکم دیا۔خورشید گوہر پوش نے اُس فصاحت و بلاغت سے نامہ پڑھا کہ حاضرینِ جلسہ کو سکتہ طاری ہو گیا سب نے ایک سرے سے سرِ تسلیم جھکایا۔ بہ جز دم بخود ہونے کے کسی کو کچھ جواب نہ آیا۔بعد قرأت کتابت اُس بہادر نے راس الرئیس سے آنکھ ملائی اور بہ کمال سطوت و صولت تحذیر و تہدید فرمائی۔کہا:"اے بادشاہ،شکنندۂ طلسم سے مقابلہ خلافِ دانائی ہے۔غور تو کر۔اولوالعزم پر کس نے فتح پائی ہے۔دارا نے سکندر سے بگاڑ کر اپنی دارائی مٹائی۔ضحاک نے فریدون سے لڑ کر شکست فاش اٹھائی۔" فضلتا بعضکم علی بعض" یعنی دنیا میں ایک پر ایک غالب ہے۔بلاآخر مردِ آخر بیں وہ ہے جو حقیقت کا طالب ہے۔ہمارا شہنشاہ دنیا دار نہیں،ملک و مال کا خواست گار نہیں۔اُس کو فقط ہدایت سے کام ہے۔ملت بیضا کی پیروی ہے،شریعت غرّا کا التزام ہے۔ایسے خدا دوست کا دشمن بننا کون سے دانشمندی ہے۔امر معقول کو نہ پسند کرنا عین خود پسندی ہے۔بھلا جس نے زمین آسمان بنایا،کل مخلوق کو پردۂ عدم سے بہ عرصۂ شہود لایا۔ہر حال میں حاضر و ناظر،مرگ و زیست پر قادر۔وہ پرسش کا سزاوار ہے اور وہ خدا ہے یا پتھر کو معبود جاننا اور اُس کو پوجنا بجا ہے؟بتوں نے کیا بگاڑا،کیا بنایا؟اُن کے قبضہ قدرت میں بھی کوئی امر آیا۔یہ کسی کی سنتے ہیں،کچھ اپنی کہتے ہیں یا یوں ہی بت بنے رہتے ہیں۔جنہیں اپنی شناخت ہو نہ اور کو پہچانیں۔پتھر پڑیں اِس عقل پر کہ ہم اُن کو خدا جانیں "قاعدہ ہے کہ جب مدعی جواب سے عاجز آتا ہے تو وضع سے دست بردار ہو کر آستینیں چڑھاتا ہے۔ان باتوں نے اُس ناری کو برافروختہ کر دیا۔غصّے میں آکر ہونٹ چبانے لگا۔

بر آستفت ضرباں ازیں قیل و قال
یکے گفت اے پیر دیرینہ سال
منہ دل بریں پند و اندوز سرد
بہ چشم آب وہ اے جہاں دیدہ مرد
بہمت بزرگ و بدعوی درست
چہ بینی ہمیں قاتل پور تست

ریختہ صفحہ - 222

فلک سازگار ست و بختست بکام
کم اُفتد کہ خود صید افتد بدام
مده کار از دست و سستی مکن
بر انداز ایں نخل از بیخ و بن

یہ سنتے ہی اُس کافر نے ایک نعرہ مارا اور اپنے مددگار کو پُکارا کہ"ہاں،لینا اُس اجل گرفتہ کو،جانے دینا۔یہ اُس شخص کے بیٹے کا قاتل ہے۔یہ جواب دینے کے قابل نہیں قتل کرنے کے قابل ہے۔"تمام دربار میں ہلڑ ہو گیا۔کسی نے سپر کھڑکھڑائی،کوئی تلوار کھینچ کر دوڑا خورشید گوہر پوش نے بھی مثل شیر غضب ناک ہمہمہ کیا اور ابر نیام سے برق دشمن سوز کو کھینچ لیا۔ضربان تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔درباریوں کا یہ حال ہوا۔کسی نے چاندنی اوڑھ لی،کوئی کُرسی کے تلے چُھپ گیا۔کسی کی پگڑی رہ گئی،کسی کا شملہ۔کوئی چت ہوا کوئی پٹ۔کوئی گرا،کوئی سنبھلا۔کسی صاحب کا،جو بھاگنے میں پٹکا کھل گیا تو مانند کٹے ہوئے پتنگ کے چھپاتے چلے۔کوئی سایہ پروردہ خدمت گاروں کے آڑ میں ہانپتے کانپتے ڈگمگاتے چلے۔
ایک بے چارے صاف دل،بھولے،دل کو ٹھیرا کر بولے:"تم سب کی کتنی عقل موٹی ہے۔میاں امتیازیوں کی کچی روٹی ہے۔تم کیوں ڈرتے ہو؟تمہیں کون مارتا ہے؟بہادر بہادر للکارتا ہے۔"کوئی حولا خبطا،جو اندھوں کی طرح بھاگا تو محلات کے خیمے میں جا گھسا۔وہاں خواجہ سراؤں نے لے دے کی۔چار طرف سے مار پڑنے لگی۔قرار واقعی جوتے کھائے اور بعد پاپوش کاری باہر آئے۔کہا:"خیر،جوتیاں کھائیں یا ذلت اٹھائی،خدا نے جان تو بچائی۔یہ کس احمق کا قول ہے،جان کا صدقہ مال اور آبرو کا صدقہ جان ہے۔یہاں جان پر سے مال بھی قربان ہے اور آبرو بھی قربان ہے۔"بعضے گھبراہٹ میں،جو تلوار ہی کے منہ پر جا رہے،گڑگڑا کر دانت نکال دیے اور اس طرح گویا ہوئے:خدا سلامت رکھے۔ہم منگلا مکھی ہیں۔کچھ گا بجا کر مانگ کھاتے ہیں۔مجرے کی دھن میں آئے تھے۔دو چار نئی چیزیں بنا کر لائے تھے سو،پیرو مرشد،اب کلیجہ اُلٹ پلٹ ہے،بھاگے جاتے ہیں۔"

ریختہ صفحہ - 223

یہ تو نامردوں کے تذکرے تھے۔اب مردوں کا خیال سنیے۔جو غریب تلوار کی روٹی کھاتے تھے وہ چار نا چار سامنے آئے۔بعضوں نے زخمِ کاری کھا کر جان دی،بعضے مجروح ہو کر خون میں نہائے۔اُس وقت خورشید گوہر پوش کی یہ صورت تھی جیسے کانٹوں میں پھول اور دانتوں میں زبان مگر واہ رے بے جگر دلاور،واہ رے شیر دل جوان۔جدھر تلوار تول کر جھپٹا کائی سی پھٹ گئی۔جب جانچ کر ہاتھ مارا سپر گردۂ پنیر کی طرح کٹ گئی۔فتح نصیب ایسے ہوتے ہیں۔الله ری سرت پھرت،الله ری ہاتھ کی صفائی۔کتنوں کو زخمی کیا،کتنوں کو مارا مگر فضل خدا سے اپنے اوپر لہو کی چھینٹ بھی نہ آئی۔غرض لڑتا بھڑتا اُس مجمع سے نکلا اور گُل گون صبا دم پر سوار ہوا۔اب کون آتا ہے کوئی ہوا کو بھی پاتا ہے؟

وہ توسن طرارے جو بھرنے لگا
تو اُڑ اُڑ کے برچھوں اترنے لگا
پری زاد تھا یا وہ راہ وار تھا
ہوا تھا،چھلاوا تھا،اسرار تھا
بھلاوا بتاتا وہ آہو چلا
نہ افسوں چلا اور نہ جادو چلا
بڑھے روکنے اردلی کے سوار
وہ غل،وہ صدائے بگیرو بدار
چکا چوند میں آئے اہلِ نظر
وہ برق جہاں چھپ گئی کوند کر
اُدھر آنکھ ملتے رہے لشکری
اُدھر جا ملا فوج میں وہ جری

دونوں طرف کمر بندی ہو گئی۔تلنگوں میں طنبور ہوا،نجیبوں میں وردی بجی۔صوبہ اران نے تلنگوں کی کمپنیوں سے گُل لالہ کھلایا۔سنگین سے سنگین،کندے سے کندا،کاندھے سے کاندھا،قدم سے قدم ملایا۔کمیدانوں نے نجيبوں کا پرّا جمایا۔دستے دستے کو گُل دستہ بنایا۔توپیں دارابیوں پر چڑھ گئیں کچھ پیچھے ہٹ گئیں،کچھ آگے بڑھ گئیں۔

ریختہ صفحہ - 224

یہاں ایک طرف پردۂ قاف کے جراروں نے پر تو لے۔ایک طرف یاقوت شاہ کے ہمراہیوں نے نشانوں کے شقے کھولے۔ہر بہادر نے دریائے آہن میں غوطہ لگایا۔نہنگ مردم خوار بن کر معرکے میں آیا۔وہ سواروں کی شوکت،وہ پیدلوں کی صولت۔وہ صف آرائی تھی یا شاہ نامے کی سطر بندی کا التزام،وہ بندو بست تھا یا نظم فردوسی کا انتظام۔
خورشید گوہر پوش بھی اپنے مہاجر و انصار لے کر قلب لشکر میں آیا۔چتر برداروں نے دوڑ کر سر چتر زر لگایا۔اُدھر کوس افراسیابی پر،اُدھر طبل اسکندری پر چوٹ پڑی نگاہ سے نگاہ اور آواز سے آواز لڑی۔صدائے بوق تا بہ ایوق پہنچی۔دمامے کے دمدمے نے نقارہ گردوں پر چوٹ کی۔پھریرے علموں کے کھل کر ہوا پر لہرائے،گویا دریائے حرب و ضرب طغیانی پر آئے۔نقیبوں نے للکار کر کہا:"ہاں،بہادران واقعہ دیدہ و صفدران جنگ آزمودہ،ہوشیار!میمنہ،میسرہ،قلب جناح،ساقہ،کمیں گاہ سے خبردار!"کڑکتیوں نے شہانی دھن میں کڑکا شروع کیا۔دلیروں اور دلاوروں کے دلوں کو لڑائی کی طرف رجوع کیا۔آواز دی:"سورما جوانو،تلواریں تولو،برچھیاں تانو۔پیٹھ پھیرنا ہیجڑوں کا کام ہے۔سر مکھ ہونا سپاہیوں کا کام ۔نا مردوں کا وہ نام ہے،مردوں کا یہ نام۔
پگ آگے پت رہے اور پگ پیچھے پت جائے
نامی کامی رن چڑھے نرور چھائیں دھائے"

من چلے اولو العزام اُس دھن پر سر دھننے لگے۔نشۂ جرأت کے مخمور دل جیت،رن سور مست ہو ہو کر سننے لگے یعنی شجاعت کے دھنی جھومنے لگے اور تلواروں کے قبضے چومنے لگے۔کوئی نیزہ ہلا نے لگا۔کوئی ترک چرخ سے آنکھیں ملانے لگا۔کوئی پٹے کے ہاتھ نکالنے لگا،کوئی باڑھ شمشیر آب دار کی انگلیوں پر دیکھنے بھالنے لگا۔کسی نے ترکش سے تیر لیا اور کمان کا چلہ چڑھایا۔کسی نے بھی قصد سبقت گھوڑے کو چھچکار کر بڑھایا۔ایک نے ایک سے کہا:"ہاں،بھائی،آج بہادری کا امتحان ہے۔یہی شیروں کا جنگل ہے،یہی دلیروں کا دنگل ہے۔یہی گوئے،یہی میدان ہے۔دیکھیں کون منہ پر تلواریں کھاتا ہے۔دیکھیں کون آقا کے پسینے پر لہو گراتا ہے۔خدا بات رکھ لے۔سر رہے یا جائے،جب تک جان میں جان ہے۔آن بان میں فرق نہ آئے۔"ایک بولا:ان شاء الله،کشتوں کے پشتے لگا

ریختہ صفحہ - 225

دیں گے۔دم بھر میں اُن دبنگیوں کو نوک دم بھگا دیں گے۔

اُس وقت کا عالم بھی بس دید کے قابل تھا
جو صفدر و غازی تھا بشاش تھا خوش دل تھا
ڈھالوں کی سیاہی سے گھنگھور گھٹا چھائی
چمکیں جو اپی تیغیں بجلی کو نہ تاب آئی
نیزوں کا نیستاں تھا،میدان سنانوں کا
وہ دور کمانوں کا،وہ اُوج نشانوں کا
خون خوار جوانوں کی خوں خوار نگاہیں تھیں
نعرے تھے دلیرانہ،شیرانہ صدائیں تھیں

اور نامرد مردوں کے پیچھے جی چھپائے کھڑے تھے۔انا چھو چھو کی سعی سے نوکر ہو کے غضب میں پڑے تھے۔آنکھیں بند کیے کہ بجلی تلواروں کی نہ دکھائی دے اور کانوں میں انگلیاں دیے کہ آواز توپ بندوق کی نہ سنائی دے۔بعضے دائی چنبیلی کے مرزا موگرا چکنی چپڑی صورت بنانے والے،ماما پختڑیاں کھانے والے،کمربندی کا ذکر سن کر زرد ہو گئے۔دل میں ہول سمایا،پیٹ میں گھوڑے دوڑے،منہ پر ہوائیاں اُڑیں،ہاتھ پاؤں سرد ہو گئے۔
بعضوں کا اس حال سے پیخانہ خطا ہو گیا۔بعضے ایسے بوکھلائے کہ مارے ڈر کے کھڑے کھڑے موت دیا۔بعضے بزدلوں کو یہ گرما گرمی دیکھ کر جاڑے کی تپ چڑھی۔کانپنے لگے،تھرتھرانے لگے۔لحاف تو اُس وقت ممکن نہ ہوا۔گھوڑے کی گردنی اوڑھ کر دانت سے دانت بجانے لگے۔ایک صاحب بولے:"ہے ہے،میرا تو جیتا لہو دیکھ کر دم نکلتا ہے۔کلیجہ بانسوں اچھلتا ہے۔کبھی مرغی حلال ہوتے دیکھی ہے تو غش پر غش آتے ہیں۔احیانا اگر بلوچ پورے میں جا نکلے ہیں تو وہاں سے دوست آشنا اٹھا کر لائے ہیں۔اسی خیال سے عمر بھر خلال نہیں کی۔گوشت کھانے کی قسم کھائی۔ ہم نہیں جانتے،جونکیں کیسی ہوتی ہیں،پچھنے کیوں کر لگواتے ہیں۔فصد کے نام سے خون خشک ہوتا ہے،دانت بیٹھ جاتے ہیں۔جب دلہن بیاہ کر لائے تو یاروں سے بکرا حلال کروایا۔تخت کی رات ہم تو فلک سیر کے نشے میں پڑے رہے۔پڑوسیوں نے آ کر گڑھی کو فتح کیا۔صف جنگ میں تو اُن لوگوں کا
 
ریختہ صفحہ 111 تا 115
الحاصل جب کسی طرح اس راز نہفتہ کا سراغ نہ پایا، کف افسوس ملتا پردے سے باہر آیا۔ دل میں تجویز کی کہ یہ اسرار شاہ صاحب بیان کریں گے۔ اس مشکل کو وہی آسان کریں گے۔ یہ سوچ کر پھر برج پر گیا اور حضور پیر مرد سر جھکا کر بیٹھا۔ شاہ صاحب نے کہا
"کیوں کیا حال ہے؟ کیا فکر ہے، کیا خیال ہے؟ کیسے گل گشت کا لطف اٹھایا؟ اب کون سا گل کھلایا ؟ غمگینوں کی صورت نہ بنائیے ، ذرا گردن اٹھائیے۔ فقیر سب جانتا ہے، بنده یه تیور پہچانتا ہے۔ واہ رے بچپن، اللہ رے نا تجربہ کاری۔ زہے بے خودی ، خوشا بے اختیاری۔ وہاں باپ کی نصیحت نہ مانی، شکار کی دھن میں جنگلوں کی خاک چھانی۔ یہاں فقیر کا کہنا خاطر میں نہ لائے، سیر کو گئے ۔ جان سے سیر ہو کر آئے۔ اپنے سے سن رسیدہ کی بات مانتے ہیں۔ بابا بزرگوں کے قول کو آیت و حدیث جانتے ہیں۔
میں نے اول ہی با اصرار کہہ دیا تھا کہ بارہ دری میں کچھ اصرار ہے۔ اب دل گرفتہ ہونا بے کار ہے اور مزہ یہ ہے کہ ایک تو کہنا نہ مانا۔ دوسرے یہ کہ اس تصویر کو کسی کی شبیہ جانا۔ اب صورت فرضی کا اشتیاق ہے، بے وجہ صدمه فراق ہے۔ صاحب زادے، خدا خدا کرو۔ خبط کی دوا کرو۔ معاذ الله ، بتوں پر عاشق ہونا اور به حالت کفر جان کھونا۔"
شاہ زادے نے آبدیدہ ہو کر کہا: "حضور، اگر اس کا پتا نہ پاؤں گا تو یقین جانیے ابھی مر جاؤں گا۔ آپ کو قسم ہے اپنی ملت و مذہب کی ، سچ بتایئے یہ کس کی تصویرہے؟ اب مجھ خانماں خراب کی جان بچنے کی یہی تدبیر ہے۔" پیر مرد نے کہا : "استغفراللہ، جس کا اندیشہ تھا آخر وہی ہوا۔" کہا "سنیے ملک مغرب میں ایک شہر یاقوت نگار ہے۔ وہاں کا یاقوت شاه نامی ایک شہر یار ہے۔ وہ جو بادشاہ ہے یہ اس کی نور نگاہ ہے۔ اس کے حسن کے پرستان میں چرچے رہتے ہیں۔ اسے ملکہ مہ جبیں یاقوت پوش کہتے ہیں ۔" شاہ زادہ بولا : "میں پہلے ہی سمجھا تھا، شکر ہے مظّنہ میرا باطل نہ ہوا۔ خیر۔ (شعر)

سر نه می پیچم زشمشیر حبیب
ہر چہ آید بر سر من یانصیب "

پیر مرد نے کہا: "وہ محل وہ ہے جہاں ہوا کا گزر نہیں۔ وہاں آفتاب و ماہتاب کو تاب نظر نہیں ۔ انسان کو چاہیے اپنی حد سے نہ گزرے، دعوی بے جا نہ کرے۔ ادعائے امر خلاف قیاس و نا ممکن، عین نادانی ہے۔ انجام کار ندامت و پشیمانی ہے۔ قطع نظر اس کے، جسے

ریختہ112
نادان اپنے زعم میں عشق سمجھتے ہیں، وہ سودائے خام ہے۔ یہ کام ہمیشہ ناتمام ہے۔ یہ سود بے سود، یه نمود بے بود ہے۔ یہ دشمن نام و ننگ ہے۔ یہ ہزار رنگ نیرنگ ہے، یہ تیرِ دل دوز ہے۔ یہ شعله جاں سوز ہے۔ اس سے آبرو پر حرف آتا ہے۔ اس سے نام وضع مٹ جاتا ہے۔ یہ بہانہ مرگ مفاجات ہے۔ یہ پیمانہ بزم خرابات ہے۔ یہ بدنامی اور رسوائی کی دلیل ہے۔ بوالہوس ہمیشہ ذلیل ۔ اس نے فرشتوں کو کنویں جھکائے۔ اس نے زاہدوں کو کفر کے رستے بتائے ۔ اس نے عاقلوں کو دیوانہ بنایا۔ اس نے یگانوں کو بے گانہ بنایا۔ مجنوں کو بیابان مرگ کیا۔ فرہاد کوحکم کوہ کنی دیا۔ یہ صورت میں شہد، سیرت میں زہر ہے۔ یہ بندوں کے حق میں خدا کا قہر ہے۔ ہاں، جن کے دل میں حقیقت کی محبت بسی ہے، ان لوگوں نے عشق پر کمر کسی ہے۔ وہ عشق ، عشق مولی ہے۔ یہ طریقہ البته افضل و اولی ہے۔ بتوں کی الفت میں ایمان کا زوال، عزت کا نقصان ہے۔ اللہ کی محبت میں دین کا استحکام، آبرو اور شان ہے۔
عشق میں تین حرف ہیں اور ہر حرف شعر حقیقت، عین سے عبادت، شین سے شغل، قاف سے قناعت جس کی اس رمز پر نگاہ ہے، وہی حقیقت آ گاہ ہے۔ عالم اسباب میں سب فنا کا اسباب ہے۔ اس کا آرزو مند برباد و خراب ہے۔ مآل اندیشی ضرور ہے۔ جہالت فہم و فراست سے دور ہے۔ (شعر)

دنیا پر خاک طالب دنیا پر خاک ہے
عشق خدا کرو کہ وہ بہتر ہے پاک ہے

نہ کہ یہ عشق جو دنیا داروں پر آفت لاتا ہے۔ ناتجربہ کاروں کو مصیبت میں پھنساتا ہے۔ اسے خط کہتے ہیں ۔ حق دوست اس سے دور رہتے ہیں ۔ دنیا وہ پیر زال شوہرکش ہے جس نے ہزاروں کی جان لی۔ اس کے ہاتھ سے کسے راحت ملی۔ یہ عجب بیسوا ہے، غضب بے وفا ہے۔ ہر روز نیا آشنا کرتی ہے، ایک کو چھوڑتی ہے دوسرے پر مرتی ہے۔ بدکاری کی فکر میں، مستی کی جھل میں، آج اس کی گود میں کل اس کی بغل میں ۔ اس کے عاشق دربدر کی ٹھوکر میں کھاتے ہیں۔ ہزاروں طرح کی ذلتیں اٹھاتے ہیں۔ عورتیں، شوخ چشم، معشوق مزاج اسی کی ہم فن ہیں۔ ان کے بھی یہی طریقے ہیں ، چلن ہیں ۔ عیاری ان کی سرشت ہے، مکاری ان کی سرنوشت ہے۔ ان کے مکر کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ ان كيد كن عظيم خدا نے فرمایا ہے۔

ریختہ صفحہ 113
شوخیاں حسن کے پردے میں دکھاتی ہیں یہ
دام میں کاکل خم دار کے لاتی ہیں یہ
لوٹتی ہیں اسے خواہاں جسے پاتی ہیں یہ
رات دن چاہنے والے کو ستاتی ہیں یہ
خاتمہ ان پر ہے دنیا میں جفا کاری کا
خوب آتا ہے طریقہ انہیں عیاری کا
پہلے عاشق کو لبھاتی ہیں یہ بن کر ناداں
پھر وہ کرتے ہیں وتیرے کہ نہیں جن کا گماں
ان کی الفت پہ محبت پہ نہ بھولے انساں
کس کو پھل ان سے ملا کس کے بر آئے ارماں
غنچہ خاطر افسردہ نہ کھلتے دیکھے
سیکڑوں صاحب دل خاک میں ملتے دیکھے

لیلی نے مجنوں سے کیا وفا کی؟ یہ دیوانہ ہو گیا۔ اسے وحشت بھی نہ ہوئی ۔ فرہاد نے پتھر سے سر پھوڑا، شیریں نے خسرو کو نہ چھوڑا۔ ایسے بے وفاؤں سے حذر واجب ہے۔ اس ارادے سے درگزر واجب ہے۔ یہ راہیں پر فریب و پرپیچ ہیں۔ دنیا کے عاشق بھی ہیچ ہیں۔ معشوق بھی ہیچ ہیں، ایک تو معشوقوں کی بے وفائیاں باعث رنج و ملال ہیں۔ دوسرے یہ کہ خود مورد زوال ہیں۔ بزم افروزی شمع رات کی رات ہے۔ صبح ہوتے اندھیر ہے۔ ادھر وہ بجھی ہوئی پڑی ہے، ادھر پروانوں کی خاک کا ڈھیر ہے۔ بلبل جی بھر کے دیکھنے نہیں پاتی ہے کہ بہار گلوں کی خزاں ہو جاتی ہے۔
غرض نقش و نگار ہستی بے بقا، نقش بر آب ہیں۔ ذرے بے نمود ہیں، یہ ستارے حباب ہیں۔ انھیں بوالہوسوں میں بہت سے ایسے عاشق ہیں کہ انھیں معشوق تک رسائی دشوار
ہے۔ نہ مرنے پر قابو نہ جینے پر اختیار ہے۔ چکور چاند کے عشق میں انگارے کھاتا ہے اور حسرت سے آسمان کی طرف دیکھ کر رہ جاتا ہے۔ طاؤس ابر کی ہوا خواہی میں بے قرار اور ابر

ریختہ صفحہ 114
ہوا کے گھوڑے پر سوار۔ المختصر بعضے حسرت وصال میں زار و رنجور، بعضے باوجود نزدیکی دور۔ اے نوجوان، مجھے تیری جوانی پر رحم آتا ہے۔ فقیر دوستانہ سمجھاتا ہے۔ اس نقش باطل کو صفحہ خاطر سے دھو ڈال ۔ اس حسرت بے جا کو دل سے نکال۔ اے مدہوش و بے ہوش، کہاں تو، کہاں ملکہ مہ جبیں یاقوت پوش، نواحِ پرستان میں بنی آدم کا جانا معلوم اور بالفرض اگر پہنچا بھی تو گوہر مراد کا ہاتھ آنا معلوم۔ اس راہ میں سینکڑوں منزلیں جاں گزا ہیں۔ ہزاروں مرحلے روح فرسا ہیں۔ کہیں دن ہے، کہیں رات ہے۔ کہیں عالم نیرنگ ہے، کہیں طلسمات ہے۔ بیٹھے بٹھائے خاک چھاننا مشکل کو سہل جاننا کون سی دانائی ہے۔ تصویر دیکھ کر دیوانے ہوئے ، اپنے سے بیگانے ہوئے ۔ یہ کیا دل میں آیا ہے؟ کیا سمائی ہے؟
شاہ زادے نے کہا:"حضور کا ارشاد بجا ہے۔ میری فہم کی خطا ہے مگر آپ انصاف فرمائیں۔ بشر باوجود اختیار مجبور ہے۔ میرا قصور نہیں، بشریت کا قصور ہے۔ گستاخی معاف، جس دل پرعشق کی تاثیر نہیں وہ پتھر ہے۔ انسان بے مذاق جانور سے بدتر ہے۔ نبی، ولی، قطب، امام اس سے خالی نہیں۔ یہ اسرار، یہ راز کسی پر حالی نہیں مگر مابه الامتیاز گونه امتیاز ہے۔ فقط فرق حقیقت و مجاز ہے لیکن مجاز حقیقت کا زینہ ہے۔ یہ ڈاک ہے وہ نگینہ ہے۔ اول لفظ ہے، آخر معانی۔ پہلے حرف شنای ، پھر نکتہ دانی۔ علاوہ اس کے دنیا آئینہ تمثال ہے۔ سب صورتوں میں اسی کا خیال ہے۔ دل کو محویت آنکھوں کو حیرت ہے۔ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت ہے۔ بقول ذکی:

پروانے کو دهن شمع کو لو تیری ہے
عالم میں ہر اک کو تگ و دو تیری ہے
مصباح و نجوم و آفتاب و مہتاب
جس نور کو دیکھتا ہوں ضو تیری ہے

اور اگر کوئی کہے کہ عاشق تن ہو کر عورتوں کے دام فریب میں نہ آئے اور صورت سے دل لگائے تو کچھ کلیہ نہیں کہ سب عورتیں خلقت و سرشت میں ایک ہیں۔
جناب من، جو بد ہیں وہ بد ہیں، جو نیک ہیں وہ نیک ہیں۔ جہاں ان کے مکر کی مذمت کی ہے وہاں عصمت و پاک دامنی کی بھی تعریف کی ہے۔ سورة يوسف میں وہ خبر دی

ریختہ صفحہ 115
ہے، سوره مریم میں یہ خبر دی ہے۔ خداوند عالم نے حضرت حوا کو پہلوئے آدم سے پیدا کیا اور حكم تزویج دیا۔ دنیا میں پریاں، بہشت میں حوریں گھورنے والی ۔ یہاں بھی گھوریں وہاں بھی گھوریں ۔ ناحق کا جھگڑا، ناحق کا قصہ ہے۔ ہمارا یہ حصہ ہے، آپ کا وہ حصہ ہے۔ الحاصل طول کلام بے جا ہے۔ مجھے حضور سے مناظرہ کرنا نازبیا ہے۔ مختصر یہ ہے گنہگار پیشتر عشق مجازی سے دل کو گداز کرتا ہے۔ دیکھوں، اس مرحلے میں قدم ٹھہرتا ہے یا نہیں ٹھہرتا ہے۔ پہلے یہ کڑیاں جھیلوں گا۔ سختیاں اٹھاؤں گا بعد ازیں انشاء اللہ بزرگوں کے فیض صحبت سے جادہ حقیقت پر آ جاؤں گا۔ دیکھیے تو پرده غیب سے بفضل اللہ کیا ظہور میں آتا ہے۔ بشر پیر جیسی پڑتی ہے ویسی جھیل جاتا ہے۔ ( بیت)

بہرکارے کہ ہمت بسته گردد
اگر خارے بود گل دسته گردد

پیر مرد نے کہا: "ماشاء اللہ کیوں نہ ہو، ہاں مہربان، موئیدمن اللہ ہو، جو جی چاہے کہو۔ میں آپ کی فصاحت و بلاغت کا قائل ہوا۔ سر مطلب اور اصل مدعا حاصل ہوا۔ جو صورت آج نظر آتی ہے۔ میں نے اس کی اپنے مرشد سے خبر پائی ہے۔ یہ گفت و شنود برائے امتحان بلکہ بہ مزید ایقان۔ الحمد اللہ چشم مشتاق پر نور ہوئی ، کلفت انتظار دور ہوئی۔ آپ حقیقت آشنا ہیں۔ آپ طلسم کشا ہیں۔ رہائی چند بندوں کی آپ کی توجہ پر موقوف ہے۔ یہ وجہ ہے کہ طبیعت حق طویت اس طرف مصروف ہے۔ اس کی قدرت کے عجب کارخانے ہیں۔ کار براری کے ہزاروں بہانے ہیں۔ اس پردے میں تعلق خاطر کی ضرورت تھی۔ سبحان اللہ حل مہمات کی یہ صورت تھی۔ اے شہزاده عالی حشمت، سلیمانی مبارک ، دعوی صاحبقرانی مبارک مگر ذرا فقیر کے مرشد کا مزار بھی دیکھ لیجیے۔ اول خاکساروں کے ڈھیر پر قدم رنجہ کیجیے ۔ وہ اللہ والا بھی نہایت آپ کا مشتاق تھا۔ از بس شوق تھا، از حد اشتیاق تھا۔ اگر آج وہ بزرگ زندہ ہوتا تو کس قدر خوش ہوتا۔ افسوس حسرت دید و دیدار دل میں لے گیا۔ ہنگام رحلت جہاں اور سب اسرار تعلیم کیے، آپ کے بھی پتے دیے۔ اگر وہ اولوالعزم آ نکلے تو ہماری طرف سے بھی یاد اللہ کہنا اور جب تک وہ صاحب کرم، کرم کرے بدل سرگرم مدارات رہنا۔"
شاہ زادے نے کہا : "میں آنکھوں سے اس بزرگ کی زیارت کو چلوں گا۔ میں
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 251

برہمن کو باتوں کی حسرت رہی
خدا نے بتوں کو نہ گویا کیا
زنخداں سے آتش محبت رہی
مجھے دل کنویں میں ڈبویا کیا
تجھے بھی مناسب ہے اس کا جواب
بس اب چند اشعار پڑھ لاجواب
وہ افسانۂ خواب نوشیں سُنا
کہ یاروں نے ہو دفتروں سے چُنا
اُسے سُن کے میں جان کھویا کروں
ہمیشہ تصور میں رویا کروں
نظر آئے کیفیتِ انقلاب
بنے چشمِ تر جام آنسو شراب
سہوں رنج دورِ فلک پے بہ پے
پیوں خون کے گھونٹ پی کر وہ مے
کبھی مثل شیشے کے لوں ہچکیاں
کبھی درفشاں ہوں، کبھی خوں فشاں
یہ مستی کہ غفلت کا اسباب ہے
عجب ہوشیاری عجب خواب ہے
معبرانِ خواب پُر ہول حسرت و پریشانی، مخبرانِ کیفیت رویائے صادقۂ حیرت و سرگردانی، راویانِ روایاتِ غم و الم، حاکیانِ حکایاتِ گر یہ و ماتم اس ماجرائے خفتہ بختی و ناکامی کو بادلِ پُر درد و آہِ سرد یُوں بیان کرتے ہیں کہ چندے اُن عاشق تنوں نے اپنے

ریختہ صفحہ 252

معشوقوں کے ساتھ بسر کی۔ آخر چرخِ حسد پیشہ نے اس عیش و عشرت پر نظر کی۔ بجائے خود نیلا پیلا ہوا۔ یہی رشک تفرقہ اندازی کا وسیلہ ہوا۔ ایک شب خورشید گوہر پوش بہ عالمِ خواب اپنے دارالسطنت میں گیا اور بردباری اور تباہی اُس کی دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔
کیا دیکھتا ہے کہ تمام شہر عزا خانہ ہے۔ ہر بستی میں ویرانہ ہے۔ دروازے بند ہیں۔ صدائیں آہ و شیون کی بلند ہیں۔ سب چھوٹے بڑے سیہ پوش ہیں۔ رونے کا شور ہے، ماتم کے جوش ہیں۔ گلیاں سُنسان ہیں۔ آیندہ و روند پریشان ہیں۔ بازاروں میں ہڑتال ہے۔ خریدار ہے نہ دلال ہے۔ چاندنی چوک میں کُتے لوٹ رہے ہیں۔ چوکیداروں کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا بہے ہیں۔ بزازہ صرافہ، چاندی بازار، جوہری بازار سب بند ہے۔ بادشاہ کے دردمند ہونے سے کُل رعایا دردمند ہے۔ نان بائیوں کے تنور اور حلوائیوں کی بھٹیاں سرد ہیں۔ لوگوں کے غم کھانے سے اسبابِ گرم بازاری گرد برد ہیں۔ دیوانِ خاص میں کوئی دربار ہے نہ مجرائی ہے۔ درودیوار پر اُداسی چھائی ہے۔ ہر ستون مدِ آہ ہے، ہر روزنِ چشم داد خواہ ہے۔ محرابیں بارِ الم سے خمیدہ ہیں۔ در پردوں کے تار تار ہونے سے گریباں دریدہ ہیں۔ شیشہ آلات بے نور ہے۔ ہر شیشہ سنگِ حوادث سے چور ہے۔ سامانِ تکلف خاک پتھر ہیں۔
جھاڑ جنگل کی جھاڑیوں سے بتر ہیں۔ جھالے جگمکگے ہیں نہ ہانڈیاں جگمگی ہیں۔ آئینوں کی آنکھیں چھت سے لگی ہیں۔ ہر کنول بجھا ہوا کنول ہے۔ روشنی دیکھنے والا آنکھوں سے اوجھل ہے۔ فرش چیں بہ جبیں ہے۔ قالین اُلٹے پڑے ہیں۔ پہرے والے بہ شکل تصویر سکوت میں کھڑے ہیں۔ پائیں باغ میں خزاں کے سامان ہیں۔ بُلبُلوں کی زبان پر مرثیہ ہے، مصیبت کے بیان ہیں۔ سوسن سوگوار ہے۔ داؤدی عزادار ہے۔ یاسمیں بھی پژمردگی میں مثلِ یاسمن ہے۔ نہ بُو باس ہے نہ رنگ و روغن ہے۔ لالے کے جگر میں داغ

ریختہ صفحہ 253

ہے۔ دل میں درد ہے۔ گیندے کا لہو خشک ہے، رنگ زرد ہے۔ نرگس کو حیرت ہے۔ سروو شمشاد کو شکتہ ہے۔ ہر مرغِ چمن، مُرغِ نیم بسمل سا پھڑکتا ہے۔ نہال سوکھ کر کانٹا ہوئے ہیں۔ پھولتے ہیں نہ پھلتے ہیں۔ ٹہنیاں سَر دھنتی ہیں۔ پتے کفِ افسوس ملتے ہیں۔ نہریں چشم پُر آب ہیں۔ موجیں دلیلِ اضطراب ہیں۔ محلات شاہی میں صاحباتِ محل کی جانوں پر بنی ہے۔ نوحہ خوانی ہے۔ سینہ زنی ہے۔
ایک کہہ رہی ہے: " ہائے، میری گود کا پالا۔" ایک کہہ رہی ہے: " ہائے، میرا گیسوؤں والا۔" ایک کا بیان ہے: " ہے ہے، میرا خوزادہ۔" ایک کی زبان پر ہے: " ہے ہے، میرا شاہ زادہ۔" ماں دیواروں سے سر ٹکراتی ہے۔ کبھی روتے روتے بے ہوش ہو جاتی ہے۔ کبھی ہوش میں آتی ہے۔ ہر مرتبہ یہ بین ہیں: " ہے ہے، میرا کڑیل جوان۔ ہے ہے میرا پُر ارمان۔ ارے میرے یوسف کو کس کنویں میں گرا دیا؟ ارے میرے آفتاب کو کس بادل میں چھپا دیا؟ ہائے، میرا نازوں کا پالا کہاں گیا؟ ہائے، میرے گھر کا اُجالا کہاں گیا؟ ہائے، میری آنکھوں کا تارا، ہائے، میری ضعیفی کا سہارا۔ ہائے، کس جنگل کو چھانوں، کس دشت کی خاک اُڑاؤں؟ ہائے، پانے لاڈلے کو، اپنے پیارے کو کیوں کر پاؤں؟
"صاحبو، ذرا رمنے تک جاؤ۔ میرے بچے کی خبر لاؤ۔ ارے کوئی دیکھو، صاحب زاردے شکار کھیل کر آئے؟ شکار گاہ سے دیوان خانے میں تشریف لائے؟ ہے ہے، میں اسی دن کو ڈرتی تھی۔ ہے ہے۔ میں اسی واسطے منع کرتی تھی۔ کیا جانے میرا لال کدھر نکل گیا؟ کیا جانے، میرے مودھو کو کون چھلاوہ چھل گیا؟ ہے ہے، میا بندی کی جان پر کیسی بن گئی۔ ہے ہے۔ گھر سے جنگل کی راہ لی۔ یہ کیا دِل پر ٹھن گئی۔ ہائے بیٹا، کبھی پالنے والی کی یاد نہ آئی؟ ہائے بیٹا، کبھی خواب میں بھی صورت نہ کھائی۔"
شاہ زادے نے بھی یہ بین سُن کے منہ آنسوؤں سے دھویا یعنی عالم رویا میں بہت رویا۔ ملکہ پہلو میں سو رہی تھی۔ اُس نے جو ہچکیوں کی آواز سُنی تو گھبرا گئی۔ شانہ ہلا کر

ریختہ صفحہ 254
بیدار کیا اور اس کیفیت کا استفسار کیا۔ خورشید گوہر پوش نے کہا: " کیا کہوں؟ میں اک خوابِ پریشان دیکھ کر پریشان ہوں۔ میرے ماں باپ کا میری جدائی سے بُرا حال ہے۔" ملکہ بولی " صاحب، یہ خواب و خیال ہے۔ " وہ بولا " بھلا کہیں ایسے خواب جھوٹ ہوتے ہیں۔ حقیقت میں میرے چاہنے والے میری فُرقت میں جان کھوتے ہیں۔ وائے مجھ کم بخت پر، کبھی بُھولے سے اُنہیں یاد نہ کیا۔ تمہارے عشق میں ایسا مبہوت ہوا، کسی کا نام نہ لیا۔ اس وقت دل کے ٹکڑے ہو رہے ہیں۔ ابھی میں دیکھ رہا تھا کہ اپنے بیگانے سب رو رہے ہیں۔"
یہ کہہ کر آنکھوں میں آنسو بھر لایا۔ آپ بھی رویا اور ملکہ کو بھی رُلایا۔ باری داریوں نے زہرہ جبیں کو جا کر یہ وردی سُنائی۔ وہ بھی گھبرائی ہوئی آئی۔ داماد کو چھاتی ہے لگا کر بولی، " کیوں، واری کیا ہے؟ صدقے گئی، یہ رونا کیسا ہے؟ ہے ہے، میرے بچے کو کس نے رُلایا؟ واری گئی، کیا یاد آیا؟" ملکہ نے کہا " ابھی اپنے ماں باپ کو خواب میں دیکھا ہے۔ بس اُسی کا رونا ہے اور کیا ہے؟" زہرہ جبیں بولی۔ ہے ہے۔ سچ ہے، عزیزوں کی جدائی قیامت ہے۔ علی الخصوص جو کبھی نہ چھوٹا ہو، اُس کا چھوٹنا اور آفت ہے۔ اول تو یہ صاحب زادے کبھی گھر سے نہیں نکلے اور نکلے تو اس طرح نکلے کہ ایک کو دوسرے کی خبر نہیں۔ عجب طرح کا تفرقہ پڑا ہے۔ یہ کہیں ہے۔ عزیز و اقربا کہیں۔
"سلامتی ہو ان کی جان کی۔ ماں باپ کو کیا معلوم کہ ان کا کیا حال ہے۔ حق تو یہ ہے کہ اس حالت میں صبر میں آنا محال ہے۔ بیٹی ہو یا بیٹا، انسان اپنے کلیجے پر ہاتھ رکھ کر دیکھے۔ سچ مُچ وہ بے چارے پال پوس کر مایوس ہو گئے۔ میاں، تم نے بھی تو کان میں تیل ڈال لیا۔ اپنی خیرو عافیت سے بھی اُن غریبوں کو آگاہ نہ کیا۔ خیر اب خط لکھو۔ بھلا اُن صاحبوں کو تمہارا حال تو معلوم ہو۔" خورشید گوہر پوش بولا " جی نہیں، میں آپ جاؤں گا۔ پھر راہ کی صعوبتیں اُٹھاؤں گا۔" زہرہ جبیں بولی "واری میں روکتی نہیں۔ تم بھی جاؤ، اپنی بی بی کو بھی لے جاؤ۔ اچھا تو ہے، ماں باپ کو بھی صورت دکھا آؤ۔ صبح کو اپنے خسر سے بھی

ریختہ صفحہ 255

رخصت ہو لو۔ اب اتنی رات چین سے سوؤ، بیٹھو، ہنسو، بولو۔"
غرض ساس داماد کو سمجھا کر اپنے مقام پر پلٹ گئی۔ یہاں اُتنی رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ صبح کو یہ حال سُن کر قمر طلعت اور سیّار بھی آئے۔ وزیر بھی آیا۔ بادشاہ نے شاہ زادے کو بھی بلوایا، معّبروں کو بھی بلوایا۔ کہا: " اس خواب کی تعبیر کیا ہے۔؟" عرض کی سب نے: " یہ خواب بہت اچھا ہے۔ پیرومرشد، خواب وہ آئینہ ہے جس میں شکل برعکس نظر آتی ہے۔ حضور یہ صنعت مقلوبِ کل ہے کہ سیدھی بات اُلٹی ہو جاتی ہے۔ اس کی تعبیر یہ ہے کہ عزیز و قریب صاحبِ عالم کے یہاں آئیں گے۔ رونے کے عوض ہنسیں گے۔ تکلیف کے بدلے راحت اُٹھائیں گے۔"
خورشید گوہر پوش نے کہا: " بہ مقتضائے مصلحت نہ کہو۔ یہ کلیہ نہیں کہ ہر خواب کی تعبیر اُلٹی ہو۔ جس کی تعبیر راست براست ہوتی ہے اُسے رویائے صادقہ کہتے ہیں۔ ناتجربہ کار اور ناواقف آیات و اخبار سے غفلت میں رہتے ہیں۔ سورۂ یوسف میں بھی بیان خواب ہے۔ اُس میں کون سا انقلاب ہے؟ جو کچھ کہ دیکھا ہو بہو وہی ہوا۔ یہ بھی اُسی طرح کا خواب ہے۔ اس واسطے طبیعت کو اضطراب ہے۔ اگر اب میں جانے میں دیر لگاؤں گا تو اُن لوگوں کو زندہ نہ پاؤں گا۔"
یاقوت شاہ نے کہا: " اچھا، یہی سہی جو بات تم نے کہی مگر یہ تو کہو جانے کی کونسی راہ ہے؟ العظمتہ للّٰہ، بعد المشرقین ہے۔ مسافت جان کا ہ ہے۔ فرسخوں کا حساب نہ منزلوں کا شمار۔ وہ دریا ہولناک۔ وہ پہاڑ دشوار گزار۔ دنیا کا ایک یہ کنارہ ہے، ایک وہ کنارہ۔ مقام مجبوری میں کیا اختیار۔ دردِ لاعلاج کا کیا چارہ۔ اور تمہارا آ جانا قضیۂ اتفاقیہ تھا۔ اگر کوئی اس کی نظیر دے تو اس کا اعتبار کیا؟ شاد کا معتبر ہونا معلوم۔ سُنا نہیں، النادرکاالمعدوم۔" خورشید گوہر پوش نہ کہا: " خداوندِ عالم قادر و توانا ہے۔ اپنا جس طرح کا آنا ہے، اُسی طرح کا جانا ہے۔ سامع الدعا، دعائے عالمِ اضطرار سُن لے گا۔ جس خدا نے یہاں پہنچا دیا ہے وہی وہاں پہنچا دے گا۔"
یاقوت شاہ نے کہا: "بابا، تمہیں اختیا رہے۔ ہمیں تمہاری تکلیف ناگوار ہے۔"
غرض یہاں سے بھی رخصت اجمالی مل گئی۔ گھبرا کر شاہ زادے نے بجائے خودفکر کی،
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 256

زانوے تفکر پر سر جھکایا۔ وقتِ مشکل پھر شاہ صاحب کا دھیان آیا۔ نام لینے کی دیر تھی کہ وہ مرشدِ کامل موجود تھے۔ بعد ذوق شوق ہر طرح کے ذکر و اذکار ہوئے۔ جب عزیمتِ وطن کا ذکر آیا تو شاہ صاحب نے سر ہلایا۔ کہا: " حسن و عشق سے فرصت پائی، گھر کی یاد آئی۔ بھلا، صاحب، تنہا جائیے گا یا حشم خدم دکھائیے گا۔ برسوں میں پہنچنا منظور ہے تو بکھیڑا ساتھ لیجیے اور تعجیل ہے تو بطورِ خود ارادہ کیجیے۔" خورشید گوہر پوش نے کہا: " جلد پہنچنے کی سبیل بتایئے۔ ہاں، یہ صورت ارشاد فرمائیے۔" شاہ صاحب بولے: " آپ کے چاہنے والے آپ کو چھوڑ دیں گے؟ وابستۂ دامن رفاقت سے منہ موڑیں گے۔" قمر طلعت اور سیّار نے کہا: " حاشا حضور تنہا جانے کا نام لیں پھر دیکھیں تماشا۔سبحان اللہ، کیا انصاف ہے۔ جو لوگ اپنے ساتھ مصیبت اُٹھائیں، جب زمانہ راحت کا آئے تو وہ چھوٹ جائیں۔ علی الخصوص ہمیں تو نہ دعویِٰ رفاقت ہے نہ وطن کی محبت ہے۔ خیر، مجذوب ہے یا سالک ہے، سب کا خدا مالک ہے۔ یہ تشریف لے جائیں، ہم لوگ جائیں یا نہ جائیں مگر ملکہ صاحب سے تو رخصت ہو آئیں۔"
ہنوز سخن دردہان تھا کہ نواب ناظر نے آ کر مجرا کیا۔ شاہ صاحب کی طرف دیکھ کر بولا کہ " چھوٹی حضور نے آپ کو تسلیم کہی ہے اور بڑی حضور نے سلام کہا ہے" اور خورشید گوہر پوش سے بولا: " ذرا محل میں تشریف لے چلیے، وہاں عجب طرح کا ہلڑ ہو رہا ہے۔" پیر مرد نے کہا: " لیجیے، پہلے محل میں ہو آئیے پھر کہیں آئیے جائیے۔" شاہ زادہ محل میں گیا۔ ملکہ مہ جبیں نے کہا: " میں نے سُنا ہے کہ آپ کا عزم بالجزم ہو گیا مگر سلامتی سے تن تنہا۔ خیر، مجھ پر توجہ فرمائیے گا یا نہ فرمائیے گا، یہ تو کہیے اپنی پری صاحب کو کس کے پاس چھوڑ جائیے گا؟ یہاں تو سوت سوتیلوں کا کارخانہ ہے۔ دشمنوں کا زمانہ ہے۔ معشوقۂ خاص کو کمر سے باندھ لیجیے۔ پھر کہیں آنے جانے کا ارادہ کیجیے۔"
خورشید گوہر پوش نے کہا: " جی ایک کو ہنساؤں، ایک کو رُلاؤں۔ اُسے ساتھ لے جاؤں، تمہیں چھوڑ جاؤں۔ یہ کیوں نہیں کہتیں کہ مجھے اپنے ماں باپ کی جُدائی گوارا نہیں۔ وہی پیارے ہیں اور کوئی پیارا نہیں۔" ملکہ بولی: "جی آپ نے اصرار کیا، میں نے انکار کیا۔ ذرا ادھر دیکھیے اِدھر۔ یہ خفت میرے سر آنکھوں پر۔" وہ بولا: "مجھے تمہارے ماں

ریختہ صفحہ 257

باپ کے ملال کا خیال تھا اس وجہ سے تمہارے آنے جانے کے باب میں کچھ نہیں کہا۔ اچھا اب کیا گفتگو ہے؟ یہ تو میری عین آرزو ہے۔" ملکہ زہرہ جبیں سے پوچھا: " کیوں، حضور آپ ان کی رخصت پر راضی ہیں؟ حضرت کی رضامندی ہے؟ مجھے تو آپ صاحبوں کے حکم کی پابندی ہے۔" وہ بولی: "میاں، فقیر بادشاہ کسی نے بھی بیٹی کو بٹھایا ہے؟ میں نے ان کا گھر بسایا ہے یا اپنا گھر بسایا ہے؟ جب بیٹی کو بیاہ دیا پھر اُس کا شوہر مختار ہے۔ ان کا تم پر دعویٰ ہے۔ تُم کو ان پر اختیار ہے۔ ہم لوگوں سے کیا پوچھتے ہو، جو کچھ کہنا ہو انہیں سے کہو۔ جہاں چاہو بٹھاؤ، جہاں چاہو لے جاؤ۔"
غرض یہاں ملکہ اور شاہ زادے میں تقریر ہوئی، وہاں وزیر زادی قمر طلعت کی گریباں گیر ہوئی۔ آخرکار جب گفتگوؤں کا طول ہوا تو شاہ صاحب نے خورشید گوہر پوش سے کہا: "میاں، دنیا داری میں تجرد کیسا؟ پابندی میں آزادی کجا۔ اچھا، ان صاحبوں کو بھی ساتھ لے لو۔ اب جیسی پڑے ویسی جھیلو۔ تنہائی میں یہ مصلحت تھی، یہ حکمت تھی کہ بہ عمل طے الارض پہنچ جاتے۔ مرحلۂ دشوار گزار پیش نہ آتے۔ اب عورتوں کی ہم راہی ہے۔ اس عمل کی مناہی ہے۔ مرشد نے کہہ دیا ہے کہ حد فقر سے نہ گزرنا۔ عورتوں پر اس عمل کا تصرف نہ کرنا۔ خیر، اب ایک اور سبیل ہے۔ یہ بھی گویا طے الارض کی دلیل ہے۔ اُن مائیوں سے کہہ دو کہ مردانی سواری منگوائیں اور مردانے لباس میں آئیں۔" پس جو شاہ صاحب نے فرمایا اُسی صلاح نے قرار پایا۔
برآمدن شاہ زادہ بتہیۂ سفر از شہرِ یاقوت نگار و روانہ شدت بہمراہی شاہ صاحب مع ملکہ مہ جبین و یاسمن و خورشید آرا و مہتاب آراو قمر طلعت و سیار و رسیدن بعد طے کوہ و بیابان برلبِ دریائے عمان بعد ہدایت و روانہ شدن فقیر روشن دل الہام بیان و بر جہاز سوار شدن ایں مسافرانِ دشتِ غرب و طوفانی شدن جہاز حسبِ مشیت ناخدائے حقیقت۔

ریختہ صفحہ 258

عزیمت ہے رندوں کی ساقی بہوش
پلا جامِ رخصت دمِ ناؤ و نوش
نہ دستِ کرم اور دَم بھر رُکے
کہ یارانِ صحبت کمر کس چکے
روا رو کا عالم ہے رحلت کا عزم
کہاں پھر یہ مجلس کہاں پھر یہ بزم
پریشاں ہیں دل منتشر ہم نشیں
زمانے کی گردش سے راحت نہیں
خرابی ہے دنیا میں انجامِ کار
پئے نشہ لازم ہے رنجِ خمار
طلاطم میں کشتی مے تھامنا
غضب ہے تباہی کا ہے سامنا
دمِ کُوچ بھی کہہ دے اے با کرم
کہ مل لیں صراحی و ساغر بہم
لبا لب ہو پیمانۂ آرزو
خمِ بادہ ہو دست بوسِ سبو
نہ ہے دورِ مستی نہ وقتِ سماع
پڑھے آ کے پیرِ مغاں الوداع
قاطعانِ راہِ فرحت و سور، رہ روانِ طریقِ بہجت و سرور، جادہ پیمایانِ منازل کامرانی، قدم کشایانِ مراحلِ شادمانی یعنی جو یندگان طریقِ خوش بیانی و پویندگانِ جادۂ تیز زبانی، اس سرگزشت کو بزمِ سامعین میں یوں جوہ گر کرتے ہیں کہ جب بہ تجویز شاہ صاحب بالاتفاق روانگی ٹھیر گئی، دن اہتمامِ سفر میں گزر گیا، رات ایک ایک سے رخصت ہونے میں گزر گئی۔ قریبِ صبح منہ اندھیرے ساتوں مسافر برآمد ہوکر سوار ہوئے گویا سبعہ سیارہ نمودار ہوئے۔ شاہ صاحب کو بھی ایک راہ وار سُبک رفتار پر سوار کیا اور جو اُس مرشدِ کامل نے کہا وہ

ریختہ صفحہ 259

مسلک اختیار کیا۔ چلنے والے چلے، دیکھنے والوں نے ہاتھوں ملے۔ صدقۂ مفارقت سے عزیز و قریب سب اشک فشاں ہوئے۔ مسافر رواں ہوئے یا آنسو رواں ہوئے۔
ناکے سے نکل کر آفتاب کو منہ پر لیا اور راہی ہوئے۔ آبادی سے بچ کر جنگل میں پہنچے۔ وہ صحرا تھا یا عدم کا صحرائے وحشت انگیز تھا۔ وہ میدان تھا یا عرصۂ رست خیز تھا۔ چاردن میں مرحلے اُس جنگل کے طے کیا۔ پانچویں دن وہ پہاڑ دکھائی دیے۔ وہ پہاڑ تھے یا شبیہ برجِ دو پیکر، جڑ اُن کی زمین میں اور چوٹی اُن کی آسمان پر۔ راہ انہیں کے درمیان کی حدِ فاصل تھی۔ آیندو روند کو نہایت دقت اور مشکل تھی۔عرض میں دو آدمیوں کا برابر جانا غیر ممکن تھا۔ اندھیرے کی یہ کیفیت تھی کہ وہاں رات تھی، اور جگہ دن تھا۔ اُس کوہِ دو پیکر کے اتصال سے مترّددِ راہِ غربت حیران ہوئے اور وہ تنگنائے دیکھ کر بہت پریشان ہوئے۔
شاہ صاحب بولے: " اس پہاڑ کو جوزا کوہ کہتے ہیں۔ بنی جان پردۂ قاف کے اکثر اس کے دامن میں رہتے ہیں۔ اس کے اُس طرف دریائے عمان کی لنگر گاہ ہے۔ وہاں سے ملک گوہر نگار کی سیدھی راہ ہے۔ انشاءاللہ، جہاز پر سوار ہوئے اور سیدھے وطن پہنچے۔ اب نہ کچھ فکر کی جگہ ہے نہ ترددّ کا مقام ہے۔ بہ شرطِ بادِ مراد ایک چلّے میں یہ چلہ تمام ہے۔ مگر عجب قدرت خداوند تعالیٰ ہے۔ دن کو اس راہ میں اندھیرا ہے، رات کو اُجالا۔ یہ جو جڑی بوٹیاں نظر آتی ہیں سب کو یہی شمع و چراغ بن جاتی ہیں۔ حاصل اس بیان سے یہ ہے کہ اتنا دن اُس درّے میں دَم لو۔ بعد مغربین روشنی میں نکل چلو۔"
یہاں تو اتباعِ حکم تھا۔ پس جو شاہ صاحب نے فرمایا اُس پر عمل کیا۔ (ابیات)
کیا ناگہاں چرخ نے انقلاب
ڈھلا دن چھپی طلعتِ آفتاب
ہوئی محفل افروز گردوں شفق
کہے تو کھلے گُل طبق در طبق
پہاڑوں نے پائی تجلیِ طور
وہ پھولوں کی ضو بوٹیوں کا وہ نور

ریختہ صفحہ 260

زمیں پر نظر آئی تاروں کی صف
چراغاں ہوا ہر جگہ ہر طرف
وہ تنگ نائے ظلمت اُس روشنی سے ایسی روشن ہوئی کہ چونٹی تک زمین کی نظر آنے لگی۔ان مُسافروں نے مغرب عشاء کی نماز پڑھی اور کچھ دعوتِ عشاء کی۔ گھوڑے وہیں چھوڑے۔ پیروئ پامردی کی یعنی پیدل ہو کر رہ نور دی کی۔
راتوں رات وہ مرحلہ سر ہوا صبح ہوتے لنگر گاہ میں گزر ہوا۔ دریا کے شور نے کان کھولے۔ آدمیوں کی آہٹ پا کر ترائی کے جانور بولے۔ پانی کی طغیانی نے نوح کا طوفان یاد دلوایا۔ موجوں کو گرداب سے اور گرداب کو موجوں سے دست و گریباں پایا۔ جہازوں کا جھومنا دیکھ کر دل لہرائے۔ مستولوں پر بوٹے نشانوں کے اُڑتے نظر آئے۔ اتفاق سے ایک جہاز کا سمتِ مشرق لنگر اُٹھا چاہتا تھا۔ شاہ صاحب نے ان سب کا بھی نول دے دیا۔
پس ان لوگوں کو مرکبِ آبی پر سوار کیا اور آپ رخصت ہو کر تجرّد اختیار کیا۔ ادھر لنگر اُٹھا، بادبان کُھلا۔ وہ راہ وارِ دریائی ایک مرتبہ گرم رفتاری پر تُلا۔ جزرومد نے آ کر استقبال کیا۔ جس وقت وہ مرکب بڑھا، خورشید گوہر پوش نے آسمان کی طرف دیکھ کر یہ شعر پڑھا:
دریں دریائے بے پایاں دریں طوفانِ شور افزا
دل افگندیم بسم اللہ مجریہا و مرسبٰہا
دو دن تک تو بادِ مراد رہی۔ تیسرے دن ہوا خلاف ہو گئی۔ مرکب طوفانی ہوا۔ سامانِ تباہی و پریشانی ہوا۔ معلم بھی گھبرایا، ناخدا بھی گھبرایا۔ نہ اُسے کچھ بن آیا نہ اسے کچھ بن آیا۔ جاشووں نے شور کیا۔ لنگر ڈال دیے۔ شرٰی کو گرا دیا۔ جہاز کروٹیں لینے لگا۔ موجہ مستول کو شکست دینے لگا۔ مسافروں کو طرح طرح کے صدمے اندیشے گزرنے لگے۔ بِلک بِلک کر دُعائیں کرنے لگے
خورشید گوہر پوش نے قمر طلعت سے کہا: " عافیت میں فتور ہے۔ دیکھا چاہیے، اب نقدیر کو کیا منظور ہے۔ آسمان نے عین منجدھار میں دغا دی۔ اب نہ ویرانہ ہے نہ
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 226

کام ہے جو دل کے کڑے ہیں۔ ہم تو ہمیشہ تھپڑی لڑے ہیں یا جگت لڑے ہیں۔ دَھول دھپنے میں اوقات کٹی ہے۔ رات دن یاروں سے دال چپاتی بٹی ہے۔ ہائے، پیٹ کا بُرا ہو جس کے سبب سے لپیٹ میں آگئے۔ بلانوشوں کے ساتھ پڑ کر ناحق اس جھپیٹ میں آگئے۔ لو بھیا جان، ہم تو چلتے ہیں۔ اس جان جونکھوں سے نکلتے ہیں۔ جی بچیں گے تو گھاس کھود کھائیں گے۔ ٹوکری ڈھوئیں گے، ٹوکرا اُٹھائیں گے۔ یہی نہ لوگ ہنسیں گے۔ بلا سے! اس بلا میں تو نہ پھنسیں گے۔"

غرض مردوں کا وہ رنگ تھا اور نامردوں کا یہ رنگ۔ کوئی جویائے صفِ نعال تھا، کوئی مشتاقِ صف جنگ۔ خورشید گوہر پوش قلب لشکر کالشمس فی وسط السما اور انصار گردا گرد کالجنوم فی دور بدرالدجیٰ۔ ایک طرف حکیم صاحب حکمت شعار، ایک طرف قمر طلعت اور سیار۔ ایک جانب پری زاد قاف، ایک جانب سامری نژاد قلعہ طلسم۔ مردانہ لباس پہنے تیار، مردانہ وار گُل بدن پری نے کہا: "اجازت ہو تو میں اپنے ہم راہیوں کو حکم دوں۔ اپنی اذیتوں کا ان موذیوں سے کچھ عوض لوں۔"

خورشید گوہر پوش نے کہا: "کیا کہوں؟ میں ایک بات سوچ رہا ہوں۔ کل کو صاحب زادی آپ کی میری صاحبقرانی میں بٹا لگائیں گی۔ ہزار ہا صورت سے آوازے کسیں گی، سو سو طرح سے مُنھ آئیں گی اور غیر بھی کہیں گے کہ طلسم کُشا نے کوئی بہادری جان ہیں۔ یہ لڑائی شجاعت کے خلاف ہے اور یہ امر بعید از انصاف۔" گُل بدن بولی: "ان کے سحر سے جِن بھی بریز بریز پکارتے ہیں۔ یہ وہ کافر ہیں کہ سامری کی طرح خدائی کا دم مارتے ہیں۔" گلستان جادو نے کہا: "اس کا بندوبست میں کیے لیتی ہوں۔ ابھی ان سب موزیوں کی زبان کِیلے دیتی ہوں۔"

خورشید گوہر پوش نے کہا: "لو، اس سے بھی اطمینان ہے۔ اب کسی بات کا خلجان ہے۔" یہ کہہ کر آپ تن تنہا گھوڑا بڑھایا اور صفِ لشکر سے نکل کر میدانِ کار زار میں آیا۔

رجز خواں ہوا اس طرح وہ جری
منم ضیغم بیشہ صفدری
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 227

مہ اوج صاحب قرانے منم
تہمتن نیم بلکہ روئیں تنم
بر آرم چو شمشیرِ کیں از نیام
زہیبت فتد لرزہ در روم و شام

"کہاں ہے ضربان؟ نکل کر معرکے میں آئے۔ دعوائے مروی ہے تو جوہرِ مردانگی دکھائے۔ پیش ازیں بھی متنبہ کردیا ہے کہ خون بندگان خدا کا سر پر نہ لے۔ اگر تابِ مقادمت ہے تو خود برسرِ مقابلہ آکر جواب دے۔" اس مبارز طلبی سے ضربانِ بے ایمان آپ میں نہ رہا۔ دودِ بد دماغی دماغ سے نکل گیا۔ وہ گھوڑے پر اور شیطان نے اپنا جادو جگایا۔ کچھ ہاتھوں سے اشارہ کیا، کچھ بڑبڑایا۔

خورشید گوہر پوش نے اسمائے ردِ سحر پڑھ کر دستک دی۔ گلستان جادو نے بھی بطور خود تردید کی۔ مقدر اس مردود کا اُلٹ گیا۔ آیا ہوا جادو پلٹ گیا۔ جھنجھلا کر اُس شقی نے نیزہ لیا۔ اُس نے بند باندھا، اس نے کھول دیا۔

ہوئی خوب رود بدل دیر تک
کہ حیرت میں آئے سماء و سمک
وہ نیزوں کی جھونکیں وہ ڈانڈوں کی جھوڑ
وہ گھوڑوں کے کاوے وہ چل پھر وہ دوڑ
ہوا بند تھی تھا وہ حلقہ و دور
صدا آرہی تھی زہے دور دور
چلے بعد نیزوں کے اک دفع تیر
وہ بولا بدہ یہ پکارا بہ گیر
کمانیں ہوئیں حرف زن یک بیک
گئے کھِچ کے چلے بنا گوش تک
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 228

اُڑے آشیانوں سے شہبازِ مرگ
ہوا تیرِ باراں کہ برسے تگرگ
چو نوبت بہ شمشیر و خنجر ر سید
سرافیل صورِ قیامت دمید
اُدھر اُس نے توسن کو کوڑا کیا
ادھر باگ کا اس نے پودھا لیا
دلیرانہ نعرہ کیا ایک بار
بڑھا شیرِ غرندہ سوئے شکار
گریزاں ہوا زخم کھا کر حریف
پھرا آخرِ کار ہو کر خفیف

خورشید گوہر پوش نے تعاقب کیا۔ غاریانِ اسلام نے بھی ہلہ کردیا۔ گلستان جادو نے بھی اپنی سہیلیوں کو آنکھ بتائی۔ اُس مردانی فوج نے بھی ایک مرتبہ بھاگ اُٹھائی۔ ادھر ساحر بچیوں نے ساحروں کو رول کیا۔ دلوں میں جانچ لیا، نگاہوں میں تول لیا۔ ناریل اُچھلنے لگے۔ چھُو چھا کی صدائیں بلند ہوئیں۔ بلائیں کھُل کھیلیں، ہوائیں نظر بند ہوئیں۔ چوٹ پر چوٹ آنے لگی۔ پون پر پون جانے لگی۔ زرد زرد آندھیاں اُٹھیں، کالی کالی گھٹائیں آئیں۔ کبھی پتھر برسائے، کبھی بجلیاں گرائیں۔ ساحروں کی سِٹی بھولی، اندھوں کی آنکھوں میں سرسوں پھولی۔ کوئی قلابازیاں کھانے لگا، کوئی سر دُھننے لگا۔ کوئی بت بن کر رہ گیا، کوئی تنکے چننے لگا۔ کسی نے دونوں ہاتھوں سے کلیجہ سنبھالا، کسی نے اُبکائی لے کر مُنہ سے لہو ڈالا۔

کوئی چلایا، ارے جلا جلا" کوئی سر کے بل جہنم میں چلا۔ غرض وہ ساحر دیر تک آتش بازی کے ٹپے بازوں کی طرح لڑے۔ آخر ان شعلہ رخساروں کے ہاتھ سے مارے پڑے۔ اُدھر دلاورانِ تہور شعار کے دھاوے نے آفت کردی۔ اُس تُرک تاز نے رُستخیزِ قیامت کی خبر دی۔ بزن سواروں کے بزن بزن کہہ کر چھاگئے۔ ہل چل مچ گئی، بھاگڑ پڑ گئی۔ سپاہی فوجِ مخالف کے گھبراگئے۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 229

ہوئی اژدہا دم زمین و زماں
لگی کوندنے برق کی بجلیاں
برابر سے تلوار چلنے لگی
زمیں ڈر کے کروٹ بدلنے لگی
ہوا بسکہ بسمل پہ بسمل سے آسماں
یہ لشکر بڑھا صورتِ تند میغ
چلے سَن سے ناوک پڑی زن سے تیغ
سمندر تھا یا آبِ شمشیر تھا
یہ طوفانِ آفت جہاں گیر تھا
اگرچہ یہ سیلاب تھا تا کلو
مگر ڈوبتا تھا ہر اک کینہ جُو

وہ رفیقوں کے حملے، وہ خورشید گوہر پوش کے ہمہمے۔ دم بدم یہ آواز دیتا تھا کہ "ہاں، غازیو، ہاتھ میں نہ تھمے۔" جلال اس آفتابِ عالم تاب کا خورشیدِ قیامت کا جلال تھا۔ آنکھیں بھی غیظ و غضب سے سُرخ تھیں۔ چہرہ بھی غصے سے لال تھا۔ لاکھ سے جھپکتا تھاتھا نہ دو لاکھ سے جھپکتا تھا۔ پیشانی سے عرق اور کہنی سے خون ٹپکتا تھا۔ کبھی یہ بہادر اس سِرے تھا، کبھی اُس سِرے۔ فوجِ دشمن میں مورچے بندی تھی نہ صفیں نہ پرے۔ اُس کی تلوار کے سامنے خود ایک نقطہ موہوم تھا اور قرص سپر سوادِ معدوم۔ چار آئینہ اُص برقِ دشمن سوز کے عکس سے بے تاب تھا۔ زہرہ زرہ کا ہیبت سے آب آب تھا۔ اللہ ری تیزی کہ ایک چشم زدن میں سپر سے خود میں، خود سے سَر میں، سَر سے گردن میں۔ کیا جوشن، کیا بکتر، کیا سینہ، کیا کمر، سب کو کاٹ کر نکل جاتی تھی۔ اُس پر یہ صفائی تھی کہ آتے جاتے نظر نہ آتی تھی۔ ہر ضرب میں یہ رنگ تھا کہ سوار مع راد وار چورنگ تھا۔

ہوا قہر چمکی وہ بجلی جدھر
پڑی سَر پہ بوسہ دیا خاک پر
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 230

زہے ضرب دقت تھی دقتِ شمار
ہوئے دس کے سو اور سو کے ہزار

یہ وہی ضرب ہے کہ رستم کو آج تک قبر میں کرب ہے۔ آسمان وہی کڑیاں اُٹھائے ہے کہ اب تک بدن چرائے ہے۔ زمین کو اُسی ہیبت سے سکون دشوار ہے۔ زلزلہ اُسی بل چل کا یادگار ہے۔ دم بھر میں لہو کے دریزوں سے جل تھل بھر گئے۔ موجے دریائے خون کے سروں سے گزر گئے۔ وہ طوفان تھا اور ناؤ تھی نہ بیڑا تھا۔ بھاگنے والوں کا ٹھکانہ تھا نہ تھل بیڑا تھا۔

القصہ اُسی ہلڑ میں ضربان مارا گیا اور کوہان کا بھی سَر تن سے اُتارا گیا۔ باقی تمام فوج بھاگ نکلی۔ نہ زندوں نے دَم لیا نہ مردوں نے سانس لی۔ بھگوڑے بھاگنے کو غنیمت سمجھے اور غازی مالِ غنیمت پر جھکے۔ دین داروں کو لُوٹ پر مستعد دیکھ زمین نے قارون کا خزانہ اُگل دیا۔ مجاہدوں نے مالِ حلال پاکر بے تردد اور بے تکلف لیا۔

وضع داروں میں حصے ہوئے اور بد وضعوں میں قصے۔ کہیں لوٹ میں لوٹ ہونے لگی۔ شام گھات ہوتی تھی چھوٹ ہونے لگی۔ نوبتی نے فتح کی نوبت بجائی۔ شادیانوں سے صدائے مبارک باد آئی۔ یہاں شہیدوں کے مزار بنے۔ فاتحہ خوانی ہوئی۔ وہاں کافروں کی لاشوں پر چیک کوؤں کی مہمانی ہوئی۔ لومڑیاں اور گیدڑ وہ گوشت کے لوتھڑے کھا کر چھک گئے۔ کُتنے مُنھ مارتے مارتے تھک گئے۔

ایک طرف ساحروں کی جھُلسی ہوئی لاشیں، جیسے کالے پہاڑ یا ساکھو کے جلے ہوئے لٹھے یا برق زدہ تاڑ۔ لنگور کی طرح منہ کالے، زرد ٹینوں کی طرح دانت نکالے۔ شتر گرد نے لم ٹنگے اوندھے سیدھے ننگے دھڑنگے، بعضے سوکھے سہمے، بعضے سوجے پھولے، اندھے کانڑے، لنگڑے لولے۔ وہ کُل موہے دھیمز تھے یا جھٹکے کے بھینسے پڑے تھے۔ جانور صحرائی، وہ ڈرانی صورتیں دیکھ کر ڈرے ہوئے، دور دور کھڑے تھے۔ ہم زاد بھُتنے بنے ہوئے مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہے تھے۔ چیلیں منڈلا رہی تھیں، کوے غُل مچا رہے تھے۔

غرض وہ میدان مہا بھارت کا میدان تھا۔ کُشتوں کے پُشتوں پر لکڑیوں کی ٹھیکیوں کا گمان تھا۔ ہزاروں مردے خون کے دڑیڑوں میں بہہ گئے۔ ہزاروں اُسی دلدل
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 231

میں سڑ گل کر رہے گئے۔ المختصر خورشید گوہر پوش نے بعد تسلط گلستان جادو اور ریحان جادو کو تاج بخشی کی یعنی وہ سلطنت نصف نصف اُن دونوں پر تقسیم کردی۔ گُل بدن پری کو پردہ قاف کی جانب رخصت کیا۔ یاسمین پری کو سمجھا بجھا کر رَکھ لیا۔ آپ بہ سمتِ یاقوت نگار عزمیت فرمائی۔ قمر طلعت اور سیار نے گلستان اور ریحان سے پھر آنے کی قسم کھائی۔

معاودت فرمودن خورشید گوہر پوش بانیلِ مرام مع یاقوت شاہ و ملکہ مہ جبیں و یاسمیں سمن اندام جانب شہر یاقوت نگار و باستماع ایں خبر آئین بندی شہر و خوش حالی اہالیانِ آں دیار و جشن ہفت روزہ فرمودن یا قوت شاہ بدیں تقریب و طالع شدن خورشید در محل و ہم دگر شاہ زادہ و ملکہ مہ جبیں و یاسمیں پری و وزیر زادی حکایات عجیب و غریب۔

ہوا فضل ساقی پلا جام مے
دم عیش ہے نوبتِ جشن ہے
بجے فتح کے شادیانے بجے
سجے پیرِ مُغ مے کدے کو سجے
کھلے باغ چیدہ ہو کر وہ انجمن
دکھا دے بہشتِ بریں کا چمن
ہوائے وطن صحبتِ دوستاں
رہے باز گردش سے گردونِ دوں
زمانِ سعادت ہو دورِ زبوں
بنے جامِ خورشید جامِ شراب
ضیا بار ہو طلعتِ آفتاب
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 232

پڑھیں شعر مستانہ رندانِ مست
کریں شوخیاں بادہ خوارِ الست
چھڑیں ساز دَم ساز ہوں اہل ہوش
دل افزا ہو آوازہ ناؤ نوش
ہوا غم غلط آئی عشرت کی بار
زہے فتح و فیروزی سازوار

مسافرانِ دیار و مطالب، ارجمند عازمانِ امصار، مدعیاتِ خطر پسند، منزل آشنایانِ ملکِ فرحت، تازہ مرحلہ پیامانِ شہرستان، بہ حُجتِ بے اندازہ یعنی جادو نوردانِ مملکت تقریر ورہ روانِ قلم ردِ تحریر، بادل شاداں و فرحاں، اس افسانہ خوش بیان کو اس طرح اظہار فرماتے ہیں۔ غرض وہ روز ترک و تاز میں تمام ہوا۔ شب کو اُسی میدان میں مقام کیا۔ صبح کو جب سلطان اللیل اور افواج کواکب کے سرخیل نے مع جمیعتِ ہمراہی ملکِ مغرب کی راہ لی اور تاج دارِ زریں کلاہ یعنی خسر خاور نے سپاہ کے قد دمِ میمنت لزوم سے چار طرف روشنی پھیلی۔ طیورِ صبح تسبیح خواں ہوئے۔ بُلبل گلدستہ اسلام سرگرمِ اذان ہوئے۔ نسیم نے سبک روی کی تحریک کی۔ بادِ بہاری نے سواری کی خبر دی۔ وردی بجی، گجر بجا، کوچ کا نقارہ ہوا۔ اس عزیمت سے غازیوں کے غُنچہ دل کھلے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائے صبح کھاتے چل نکلے۔

بہ فیروزی و فتح غازی چلے
نمازیں پڑھیں اور نمازی چلے
وہ تڑکا وہ عکسِ شفق چار سو
ہر اک مثلِ گُل خندہ لب سُرخ رُو
مسافر ہوئے رہ گرائے وطن
وہ شوقِ وطن، وہ ہوائے وطن
ہوا کی طرح منزلیں قطع کیں
کہے تو زمیں کی طنابیں کھینچیں
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 261

آبادی۔" غرض وہ طوفان کھا کر کشتی نشینوں کا دل اُلٹ گیا۔ جہاز کا بھی اس صدمے سے سینہ پھٹ گیا۔ تختہ تختہ جدا ہو گیا۔ گویا شیرازہ اجزائے بدن کا وا ہو گیا۔ شناوروں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس طلاطم میں پڑ کر ساری شناوری بھول گئے۔ ہر ایک اپنی تباہی پر آنسو بہانے لگا۔ ہر شخص غوطے کھانے لگا۔ کوئی ڈوب کر اُبھرا، کوئی تہ نشیں ہوا۔ کسی کو نہنگ و سوسمار نے زیرِ حلق کیا۔ کسی کو بھنور نے چکر دے کر بٹھا دیا۔ بعضے مستول سے لپٹے اور غلطاں پیچاں ہو کر رہ گئے۔ بعضے اُن ٹوٹے ہوئے تختوں پر کہیں سے کہیں بہہ گئے۔ شاہ زادے کے ہم راہیوں کا یہ حال ہوا کہ مرد ایک تختے پر رہے اور عورتیں ایک تختے پر رہیں۔
موجوں کے تھپیڑوں سے یہ کسی طرف بہہ گئے، وہ کسی طرف بہہ گئیں۔
درپئے جور و ستم چرخِ جفا کار ہوا
تفرقہ عاشق و معشوق میں یک بار ہوا
پھر بنی جان پہ پھر ساعتِ فرقت آئی
پھر مقدر نے جدائی کی گھڑی دکھلائی
ایلِ دل موردِ آفت ہیں فلک ہو کہ زمیں
سچ ہے تقدیر سے عاشق کو کہیں چین نہیں
خورشید گوہر پوش ملکہ کا نام لے لے کر روتا تھا۔ قمر طلعت اور سیّار وزیرزادیوں کے لیے اشک بار ہوتا تھا (کذا)۔ اُدھر وہ چاروں عورتیں گرفتارِ بلا تھیں، نئی مصیبت میں مبتلا تھیں۔ کبھی گریہ و زاری تھی، کبھی سکوت تھا۔ وہ تختہ اُن مردہ دلوں کے حق میں گویا تختۂ تابوت تھا۔ انہیں اپنے ڈوبنے کا نہ انہیں اپنے ڈوبنے کا ملال تھا۔ عاشقوں کو معشوقوں کا اور معشوقوں کو عاشقوں کا خیال تھا۔
رسیدن شہریار مع قمر طلت و سیار بریک تختۂ طوفان زدہ کنارِ صحرا میانِ سبزہ زاروخودردن سہ ثمر از درخت و از جامۂ انسانی بقالبِ طوطی در آمدن و تیر خوردہ بدستِ سودا گرے گرفتار شدن و گویا شدن بحکم پروردگار و رفتن

ریختہ صفحہ 262

بجزیرۂ اسکندریہ ہم راہِ تاجر بہ ایں حالِ زار۔
تلاطم ہے اے ساقیِ مہ لقا
نہ ہے نوش دارو نہ آبِ بقا
قدح خوار گردابِ آفت میں ہیں
فلک نے پھنسایا ہے منجدھار میں
ڈبویا ہے دریائے ذخار میں
اُٹھائی یہ اُفتاد وقتِ خمار
کہ مستی میں سوچے نہ انجامِ کار
بڑا قہر ہے آشنا ڈوب جائیں
وہ تدبیر کر رند غوطے نہ کھائیں
یہ ہیں بیچ میں اور گرداب ہے
ہجوم بلا دور گرداب ہے
کہاں جوشِ مے اور کہاں جوشِ آب
پریشان موجیں ہیں بے دل حباب
نہیں جُز ترے اب کوئی ناخدا
دمِ دست گیری ہے اے باخدا
یہ طوفان یہ جزر و مد تابکے
لگا دے کنارے پہ کشتیِ مے
کشتی نشستگانِ محیطِ طلاقت و روانی، مرکب سوارانِ دریائے تیز زبانی، معلمانِ معبرِ فصاحت، ناخدایانِ فلکِ بلاغت، بسم اللہ مجریہا خوانانِ سفینۂ فسانۂ کہن، کشتیِ کاغذ رانندگانِ بحرِ سخن، جہاز اس احوالِ شوریدہ ماآل کا قلزمِ بیان میں اس آب و تاب سے رواں کرتے ہیں کہ جس پر وہ دونوں رفیق تھے اور شاہ زادہ تھا۔ ساتویں دن وہ تختہ ایک

ریختہ صفحہ 263
پہاڑ کے تلے جا لگا۔ بیخِ کوہ میں جو درخت تھے اُن کی ٹہنیاں پانی میں لٹکتی تھیں، گویا ان تباہی زدوں کے آنے کی راہ تکتی تھیں۔ یہ آفت کے مارے اُن ٹہنیوں کے سہارے پہاڑ پر گئے مگر سات دن سے بے خورو خواب تھے۔ خشکی میں پہنچتے ہی غش کر گئے۔ کسلِ طبیعت نے ایسا سُلایا کہ آٹھ پہر کے بعد ہوش آیا۔ خورشید گوہر پوش نے آنکھیں مَل کر سر اُٹھایا اور یہ مطلع پڑھ کر آنسو بھر لایا:
رسیدہ ایم بجائے کہ کس بہ ما نہ رسد
با وجہ بے کسئ ما پرِ ہما نہ رسد
قمر طلعت نے بھی شکوۂ انقلاب کیا اور آسمان سے اس طرح خطاب کیا:
تو ظُلم کر دی و خوا ہم ترا سزا نہ رسد
خدا کند کہ بہ فریادِ من خدا نہ رسد
سیار نے کہا: " اس سے کیا فائدہ، جو مقدر میں لکھا تھا وہ ہوا۔ شکر کرو، آفت سے نہ ڈرو۔ برسرِ فرزندِ آدم ہر چہ آید بہ گزرد ہو۔ اگر آسمان کو دشمنی ہے۔ دنیا گذشتنی ہے اور مصیبتِ دنیا بھی گذشتنی۔" خورشید گوہر پوش نے کہا: " بھائی، میں اپنی مصیبت پر نہیں روتا ہوں۔ ہائے، ملکہ مہ جبیں کی مفارقت میں جان کھوتا ہوں۔ خدا جانے اُس پر کیا گزری؟ بچی یا ڈوب گئی؟" یہ کہتے ہی دل پر قابو نہ رہا۔ بے اختیار کلیجہ ہاتھوں سے تھام کر یہ کہا:
چھوٹ جائیں غم کے ہاتھوں سے جو نکلے دم کہیں
خاک ایسی زندگی پر تم کہیں اور ہم کہیں
سیّار بولا: " اللہ قادر ہے۔ اُس کی رحمت کا حال ظاہر ہے۔ مسبب الاسباب نے اُس بیڑے کو بھی سنبھالا ہو گا جس طرح تم کو اس طوفان سے نکالا اسی طرح اُس کو بھی نکالا ہوگا۔ وہ جامع المتفرقین ہے۔ اُس کی عنایت سے پھر ملنے کا بھی یقین ہے۔" الحاصل سیّار نے اُن دونوں کو سمجھایا اور باتوں میں لگا کر آگے بڑھایا۔ چند قدم آگے بڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک تختۂ زمردیں ہے، گویا نمونۂ بہشت بریں ہے۔ وہ ہری ہری دوب ہے یا سبزۂ روئے محبوب ہے۔ ہر شجر اہلِ جنت کی طرح حلہ پوش ہے۔ ملاحت کا شور ہے،
ریختہ صفحہ 264
لطافت کا جوش ہے۔ ہر جڑی بوٹی زمرد کا آویزہ ہے۔ خوردہ مینا ہے جو سنگ ریزہ ہے۔ زمین آسمان کی ہم سَر ہے بلکہ سرسبزی میں اُس سے بہتر ہے۔ اُس سرزمین کی طرفہ تاثیر ہے۔ جو طائر ہے طُوطی نظیر ہے۔ صانعِ قدرت کی عجب صناعی ہے۔ ہر مرغِ خوش الحان کی زبان پر یہ رباعی ہے۔
غنچوں میں نمو گُلُوں میں رعنائی ہے
سبزہ کیفی ہے سرو مینائی ہے
اللہ کی قدرت کا تماشا دیکھو
ہے آنکھ وہی جسے کہ بینائی ہے
سامنے ایک چشمہ چشمۂ خضر کا جواب ہے۔ جس سے آبِ حیوان کو حجاب ہے۔ اُس میں کسی چیز کی آمیزش ہے نہ کائی ہے مگر قدرت خدا سے پانی کا ہی ہے۔ اُس کے کنارے پر ایک انار کا درخت ہے۔ وہ بھی سراسر سبز بخت ہے۔ پھل کا کیا ذکر، سرسبزی کا یہ حال ہے کہ پھول اور پتی میں تمیز محال ہے۔ ٹہنیاں اُس کی مثل پیوندی درخت کے زمین پر لوٹ رہی ہیں۔ انصاف کہہ رہا ہے کہ طوبیٰ کی ڈالیاں یہی ہیں۔ قرینے سے پایا جاتا ہے کہ یہ انار ہے ورنہ شناخت دشوار ہے۔ سیّار نے اُس کے قریب جاکر تین انار توڑے اور علی السویہ تقسیم کیے۔ کہا: " بقدر سدِ رمق کچھ کھانا ضرور ہے۔ آدمی قوت لایموت سے مجبور ہے۔" اللہ کی قدرت دیکھئے۔ اُن اناروں کے دانے بھی سبز تھے۔ وہ دانے کھائے۔ اُس چشمے کا پانی پیا اور انقلابِ روزگار نے قلبِ ماہیت کا پیغام دیا۔ لباس جسم سے مثلِ برگِ خزاں دیدہ کے گر گیا۔ سبز بختی کی تاثیر سے منہ پر پانی پھر گیا۔ کلیاں پھوٹیں۔ پر پُرزے تیار ہوئے۔ طرفتہ العین میں آدمی طوطے بن گئے مگر واہ ری قسمت! طوطے کی صورت ہوتے ہی زبان لال ہو گئ۔ طلاقت امرِ موہوم اور گویائی خواب و خیال ہو گئی۔ گھبرا کر ایک ایک کا منہ دیکھنے لگا۔ لیکن خواہش تقدیر سے چارہ کیا تھا۔ کچھ دیر وہیں بیٹھے رویا کیے، آخر اُڑ کر ایک درخت پر جا بیٹھے۔ ہائے ہائے، عجب صدمہ تھا۔ عجب اضطراب تھا۔ یہ واقعہ ہے یا گویا گونگے کا خواب تھا۔ زبان کے بند ہونے سے دَم گُھٹا جاتا تھے۔ ہر مرتبہ کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ رہ رہ کر آنسو بہاتے تھے۔ پھڑک پھڑک کر ٹہنیوں

ریختہ صفحہ 265

سے سر ٹکراتے تھے۔ جب دانے پانی کا خیال آتا تھا تو پہلا دھوکا کھانا یاد آ جاتا تھا۔ آہ آہ، اُس صورت میں کھانا پینا کیا؟ عالم ِ احتضار اور حالتِ سکرات میں جینا کیسا؟ مگر عقل و فہم میں تو کچھ قصور نہ تھا۔ دل و دماغ میں کسی طرح کا فتور نہ تھا۔
باوجود ایں کیفیت یادِ معشوق ہر گھڑی تھی۔ عشق کی پھانسی گلے میں پڑی تھی۔ اُس چشمے سے کنارہ کش ہوئے، ترکِ آب و دانہ کیا۔ وہ درخت جو بیخِ کوہ میں تھے اُن پر جا کر آشیانہ کیا یعنی جہازوں کے عبور و مرور کی وہی راہ تھی۔ بس بہ ہمیں خیال، آٹھ پہر پانی پر نگاہ تھی کہ شاید وہ نازنینیں اُس تختۂ شکستہ پر ڈوبتی اُچھلتی ادھر آ نکلیں تو وقتِ آخر پھر ایک نظر وہ صورتیں دیکھ لیں۔ واحسرتا، وہ آرزو بھی پوری نہ ہوئی، چرخِ ستم پیشہ نے اس ظُلم پر بھی کفایت نہ کی۔ زمانہ اپنی نیرنگی سے باز نہ آیا۔ وہ تختہ تو ادھر نہ آیا مگر ایک سوداگر کا دودی جہاز آیا۔ مالکِ جہاز عرشے پر سیر آب کرتا اور شکار کھیلتا چلا آتا تھا۔ مچھلیوں کوشست سے کھینچتا تھا اور طائروں کو تیر سے گراتا تھا۔
شاہ زادہ تو خدنگِ حوادثات کا نشانہ تھا۔ اُس جہاز کا برابر آنا تھا کہ تیر کا آنا تھا۔ ایک تو دل پر صدمہ تھا۔ تیر کا دوسرا صدمہ سہا۔ بے چارہ بازو کا زخم کھا کر جہاز میں جا رہا۔ صیّاد نے شکار پایا۔معاً چھری لے کر برابر آیا۔ خورشید گوہر پوش نے دل میں کہا " انا اللہ وانا الیہ راجعون۔" یہ ذبح ہونا ہے یا راہِ دوست میں شہادت کا شگون ہے۔
زخمی جگر پہ تیر لگا یک نہ شد دو شد
مرتے ہوئے کو ذبح کیا یک نہ شد دو شد
غرض اُدھر صیاد نے قصدِ تکبیر کیا، ادھر شاہ زادے کے رفیقوں نے شاہ زادے کو آ کر گھیر لیا۔ کبھی سوداگر کے ہاتھ پر پنجے مارتے تھے۔ کبھی بہ زبانِ بے زبانی اس طرح پکارتے تھے کہ " اے شخص، لللہ اس غریب کو چھوڑ دے۔ خدا کے واسطے خونِ ناحق گردن پر نہ لے۔ ارے طائر نہیں ہے۔ ارے یہ آدمی ہے۔ ارے یہ آفت کا مارا ہے۔ ارے یہ آقا ہمارا ہے۔ ہائے یہ آپ مرتا ہے، ہائے ظالم کیا کرتا ہے؟" جب سوداگر نے اُس بے تابی و بے قراری پر کچھ التفات نہ کیا تو ان جاں بازوں نے شاہ زادے کے گلے پر گلا رکھ دیا یعنی پہلے ہم دونوں کو ذبح کر، پھر اُس کے خون میں ہاتھ بھر۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 266

یہ ماجرا دیکھ کر تاجر کو نہایت تعجب ہوا۔ اب سنیے کہ فصد اُس زباں بندی کا علاج تھا۔ وہ تیر بازو پر کیا لگا فصد سررو کھل گئی۔ بہ مجرد اُس فصد کُھلنے کے گویا زبانِ گفتگو کُھل گئی۔ اُس اسیرِ پنجۂ تقدیر نے آہستہ کہا: " اے شخص، ہاتھ روک ورنہ پچھتائے گا۔ بھلا ایک مشتِ پر کے ذبح کرنے سے کیا ہاتھ آئے گا؟" سوداگر بھیانک ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ شاہ زادہ پھر دوبارہ گویا ہوا کہ " بھائی، متوحش نہ ہو۔ خداوندِ عالم بڑا کار ساز ہے۔ تجھے شکار کا جویا کیا، مجھے اس بہانے گویا کیا۔ اللہ اللہ، حشم زدن میں مجھ بے زبان کی گویائی کا سامان ہو گیا۔ پیکانِ تیر گویا میرے حق میں زبان ہو گیا۔
اللہ زہے بندہ نوازی اُس کی
ہے لائق حمد بے نیازی اُس کی
خالی نہیں حکمت سے کوئی فعلِ حکیم
مشہورِ جہاں ہے کارسازی اُس کی
سوداگر نے یہ طلاقت و فصاحت سن کے اُس صیدِ پر شکستہ کو ہاتھ پر بٹھا لیا اور بہ کمال شفقت و مرحمت استفسار حال کیا کہ " اے بے زبان، بس زیادہ حیران نہ کر۔ للہہّٰ اپنی سرگزشت بیان کر۔ " خورشید گوہر پوش نے جستہ جستہ اپنا افسانہ سُنایا۔ آپ بھی رویا اور تاجر کو بھی رُلایا۔ سوداگر نے کہا: " پھر، بھائی، اب تُو اپنے جامے میں کیوں کر آئے؟" شاہ زادے نے اک آہِ سرد کھینچ کر کہا: " خدا لائے، اے برادر۔ صورتِ اصلی کیسی، مجھے تو زبان کُھلنے کی بھی اُمید نہ تھی۔ خیر، خدا مسبب لاسباب ہے۔ وہ صورت بھی دکھائے گا۔ انشاءاللہ ایک دن یہ پیرا یہ بھی بدل جائے گا۔ اُس کی رحمت سے ہر شخص نے مثردہ پایا ہے۔ لا تقنطوا من رحمتہ اللہ قرآن میں آیا ہے۔ اگر تیرے ذہن میں کوئی اس کا تدارک ہو تو بہتر ورنہ نظر بر رحمتِ ایزدی تامل کر لیکن میرے ان دونوں رفیقوں کی بھی فصدیں کُھل جائیں کہ یہ بے چارے بھی صدمۂ زبان بندی سے نجات پائیں۔"
سوداگر نے اپنا بکس طلب کیا۔ اُس میں سے ایک ڈبیا مرہم سلیمانی کی اور ایک نشتر نکال لیا۔ اُن دونوں کے بازو کی بھی فصد کھول دی اور ہر ایک کے زخم پر مرہمِ سلیمانی لگا دیا۔ وہ نشتر تھا یا کلیدِ گنجینۂ اسرا ر کہ بات کی بات میں قفلِ کام و زبان کُھل گیا یا انگشتِ

ریختہ صفحہ 267

شہادت تھا جس کے ناخنِ تدبیر سے عُقدۂ عقد اللسان کُھل گیا۔ وہ بے زبان بشاش و فرح ناک ہوکر بہ رنگِ بُلبُل ہزار داستان غزل خوان ہوئے۔ یعنی خدا کی حمد میں اور صیاد کے شکریۂ احسان میں تر زبان ہوئے۔ کہتے ہیں کہ وہ تاجر جزیرہ اسکندریہ کا رہنے والا تھا۔ اور وہیں جاتا تھا۔ ان عاشق تنوں کو بھی اپنے ساتھ وہیں لیتا گیا۔ وہاں پہنچ کر شام سے صبح تک یہی داستانِ دردانگیز تھی اور یہی کہانی وحشت خیز تھی۔ کبھی ذکرِ عیش، کبھی بیانِ مصیبت کیا۔ کسی مقام پر اُس صاحبِ دل کو ہنسا دیا۔ کسی مقام پر رُلا دیا۔ سوداگر ہر شخص سے یہ ذکر کرتا تھا۔ کسی کو یقین آتا تھا، کسی کو نہ آتا تھا مگر جس سے یہ صورت بدلتی کوئی ایسی تدبیر نہ بتاتا تھا۔
رسیدن تختۂ طوفان خوردہ خاتونانِ عصمت بعد سہ روز کنار صحرائے ہول ناک واز تختہ برآمدہ بے ہوش افتادن بر روئے خاک و بعد ساعت از عطر بیزیِ نسیم آمدن بہ ہوش و گریان شدن از دردِ ہجراں دیارِ خورشید گوہر پوش و رسیدن ارماس جنی کو کۂ یاسمن پری سیر کناں دریں حال و بردن ایں ہر چار جانانِ عاشق تن را جانب قاف بعد قال و مقال و فرستادن گل بدن پری جنیان تیز پر بہ جاسوسی شہریار و تلاش نمودن در بلاد و امصار و صحرا و کہسار و رسیدن یکے از آن ہادر شہر اسکندریہ بخانۂ سوداگر و بشنیدن گفتگوئے آں ہر سہ طوطیانِ زمرد منقار سبز پر و بعد اظہارِ حال زمامِ اختیار خود بہ دست خورشید شاہ سپردن و حسبِ استجازت شاہ زادہ ہرسہ عاشقان را جانب کوہ قاف بردن و باز ملاقات عاشق و معشوق بادلِ ریش ریش و بحالت خویش آمدن شاہ زادہ و قمر طلعت و

ریختہ صفحہ 268

سیار از امداد درویش حقیقت کیش۔
بتا ساقیا دختِ رز کا نشان
کہ ہے رنجِ فرقت ہے ہونٹوں پہ جاں
گیا نور تاریک ہے سب جہاں
کہاں ہیں وہ یارانِ صحبت کہاں
کدھر ہے وہ بدمست رندوں کی صف
نہ شیشہ بغل میں نہ ساغر بہ کف
سُنا ہے کہ بادِ مخالف چلی
ہوئے فاش رازِ خفی و جلی
گھٹا یاس و اندوہ کی چھا گئی
تباہی میں کشتی مے آ گئی
مے آتشیں نے کیا سوز و ساز
ہوا تختہ تختہ وہ دُودی جہاز
وہ تختے ہیں رندوں کے لختِ جگر
خدا جانے موجوں میں پہنچے کدھر
پریشاں ہیں دیوانے اے نیک بخت
وہ تختے شکستہ ہیں پریوں کے تخت
بس اب کشفِ اسرار کی دے خبر
کھلے باغ آئے وہ تختہ نظر
پلا بادۂ ارغوانی پلا
مگر پہلے بچھڑے ہوؤں کو ملا
یہ محفل نشیں ہیں کہ ماتم نشیں
نہیں لطف صحبت کا بے ہم نشیں
ریختہ صفحہ 269

کشتی شکستگانِ بحرِ زخارِ شور بختی و سرگردانی، طوفان آشنایانِ قلزمِ ناپیداکنارِ حیرانی و پریشانی آفت رسیدگانِ بادِ مخالفِ بدبختی، تباہی زدگانِ نسیمِ نا سازِ سختی، طپانچہ خوردگانِ چار موجۂ غم بے پایاں، دریا بردگانِ سیلابِ الم فراواں، اس ماجرائے طوفان انگیز اور سرگذشتِ تباہی آمیز کو بہ چشمِ اشک بار و دلِ بے قرار اس طرح گوش آشنائے سامعین کرتے ہیں۔ عاشقوں کا تو یہ حال ہوا۔ اب سنیے کہ معشوقوں کا کیا مآل ہوا۔ وہ تختہ جس پر وہ نازنینیں تھیں، کبھی بہاؤ میں آ کر بڑھ جاتا تھا، کبھی بھنور میں پڑ کر گردش کرتا ہوا پھر آتا تھا۔ دن کو دھوپ اور لُو ستاتی تھی۔ رات آتی تھی تو اور آفت آتی تھی۔ وہ شب کی تاریکی، وہ سناٹا، وہ ہوائیں، وہ کراڑوں کا گرنا، وہ پانی کی ہیبت، وہ جانوروں کی صدائیں۔ موجے مینڈھے لڑاتے تھے۔ حباب آنکھیں دکھاتے تھے۔ دھارے سے جو قہ قہ کی صدا آتی تھی روح ان بیچاریوں کی تحلیل ہوئی جاتی تھی۔ ایک دوسری سے کہتی تھی: " اس اندھیری سے ساون بھادوں کی اندھیری مات ہے۔ کیا دنیا میں جدائی کی یہی رات ہے؟" اُسی حالت میں چکئی چکوے کے سوال و جواب سُن کے اور صدمہ ہوتا تھا۔ گویا کوئی کلیجے میں برچھیاں چبھوتا تھا۔ ہمدرد کی فریاد پر کان لگاتی تھیں، یہ کہہ کر آنسو بہاتی تھیں: " انہیں بھی ہماری طرح اضطرار ہے۔ ہائے، ایک اس پار ہے، ایک اُس پار ہے۔ مالک سب کے بچھڑے ملائے۔ اللہ یہ رات کسی کو نہ دکھائے۔ مگر انہیں ملنے کی آس ہے۔ ہم بے نصیبوں کی طرح نہ یاس ہے۔ ہمارے چاہنے والے، خدا جانے، کس موج میں پڑ گئے۔ ہے ہے، بسے بسائے گھر اُجڑ گئے۔"
غرض تین دن کے بعد اس تختے نے بھی جا کر ساحل سے سر ٹکرایا۔ کشاں کشاں ان غریبوں نے آپ کو خشکی میں پہنچایا۔ زمین پر قدم رکھنا تھا کہ بدن سنسنایا، آنکھوں کے تلے اندھیرا آیا۔ ملکہ نے وزیرزادی کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا اور وزیر زادی نے ملکہ کے سنبھالنے کا ارادہ کیا مگر جب دورانِ سر آنکھوں پر بے ہوشی کا پردہ نہ ڈالتا تو البتہ اُس حالت میں ایک دوسرے کو سنبھالتا۔ کسی نے کسی کو سنبھالا، نہ کچھ دیکھا بھالا۔ چلیں نہ پھریں۔ جہاں تہاں تھیں وہیں تڑاق تڑاق غش کھا کھا کر گریں۔
پھر دوپہر کے بعد جو ہوش آیا تو دیکھا کہ ایک جنگل ویرانہ ہے۔ عجب ہُو کا

ریختہ صفحہ 270
مقام ہے۔ عجب وحشت کا کارخانہ ہے۔ درخت ہیں نہ جھاڑیاں ہیں۔ چاروں طرف ریت کی پہاڑیاں ہیں۔ راہ کے ملنے کا وہم و گمان نہیں۔ زمین پر سبزے کا کیا ذکر کہیں پگ ڈنڈی کا بھی نشان نہیں۔ یہ دیکھ کر اور اُن غریبوں کو قلق ہوا اور مُنہ پر مردنی چھائی، رنگ فق ہوا۔ ملکہ نے وزیر زادی سے کہا: " آہ کیا اندھیر ہے۔ مقدر کا پھیر ہے۔ یہ میدان ہے یا وہی طوفان ہے۔ اب یہاں سے کدھر جائیں گے؟ یونہیں پھڑک پھڑک کر مر جائیں گے۔" یاسمن نے کہا: " بہن، جدھر مُنہ اُٹھ جائے اُدھر چلی چلو۔ کیا عجب ہے زمانہ کروٹ لے۔ شاید اُن بچھڑوں سے کوئی آ ملے۔ امتحانی بات ہے۔ جب ہر طرف سے یاس ہوتی ہے اور نہایت شدتِ ہراس ہوتی ہے یعنی زمانہ تہلکے میں ڈالتا ہے تو اللہ کوئی نہ کوئی صورت نکالتا ہے۔
مشکل کو کسی طرح سے مشکل نہ سمجھ
ہر نقش کو داغِ جگر و دل نہ سمجھ
دریا ہو کہ دشت و کوہ حافظ ہے وہی
اے محوِ بلا خدا کو غافل نہ سمجھ
پس ادھر تو ان بے چاریوں کو اضطراب تھا اور کوئی مشورہ قرار نہ پاتا تھا، اُدھر ارماس جنی، کوکایاسمن کا، لبِ دریا سیر کرتا چلا آتا تھا۔ وہ یاسمن کی آواز سُن کے گھبرایا۔ قریب آیا تو عجیب واقعہ نظر آیا۔ دیکھا کہ یاسمن با حالِ تباہ رو رہی ہے۔ یعنی خاک پر بیٹھی آنسوؤں سے منہ دھو رہی ہے۔ بے تاب ہو کر چلاّیا کہ " اے بہن، تو کہاں؟ ارے میری شاہ زادی کہاں، یہ ٹاپو کہاں؟ خدا کے لیے جلد کہو، کیا آفت پڑی؟ کیا ستم ہوا؟ کیا مصیبت پڑی؟" یاسمن نے بھی پہچانا۔ اُس کے آنے کو تائیدِ غیبی جانا۔ کہا: " ہائے بھائی، کیا کہوں، کیا ہوا؟ چھٹی کی رات کا لکھا ہوا پورا ہوا۔ بھلا ہمیں تو موجوں کے تھپیڑے یہاں تک لائے۔ یہ تو کہو، تم کیوں کر آئے؟" وہ بولا: " میں بیت المقدس کے طواف کو گیا تھا۔ اس جنگل کی فضا اور دریا کی ہوا خوش آیند تھی۔ اس وجہ سے ذرا کنارے پر ٹھیر گیا۔" یاسمن نے اپنی کیفیت سُنائی۔ تمام مصیبت دُہرائی۔ ارماس نے رو کر کہا: " پھر اب شاہ زادے کا اور اس کے رفیقوں کا تو کہیں پتا نہیں۔ اس دردِ لاعلاج کی کچھ دوا نہیں۔ چلو، اب میں
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 233

باوجود ایں روا روی افسروں کے یارو پر جلد چلنے کی تاکید تھی۔ ہر منزل میں جشن تھا، ہر مقام میں عید تھی۔ شتر سوار لال تھیلی لے کر پیشتر جاچکا تھا۔ ہر شخص خبر فتح و فیروزی کی پاچکا تھا۔ تمام شہر یاقوت نگار آئین بند تھا۔ ہر طرف غلظہ نوبتِ شادی بلند تھا۔ دکان داروں نے دکانیں رنگیں تھیں۔ مکان داروں نے مکانوں کی تیاریاں کیں تھیں۔ دیوار و در کی سفیدی سے ہر گلی چاند تھی۔ دن کی دھوپ اور رات کی چاندنی ماند تھی۔ بازاروں کی گرم بازاری سے مصر کا بازار سرد تھا۔ راہوں کی شفافی سے آئینہ حلبی کیسا، خود حلب گرد تھا۔

تماش بینوں نے کمرے سرِ راہ روک لیے تھے۔ کرائے دونے چوگنے پیشگی دے دیے تھے۔ ہر ایک شاہ حال تھا۔ ہر شخص کو بناؤ کا خیال تھا۔ گوٹا کناری برسوں کا رکھا ہوا بِک گیا۔ ریشمی کپڑا کای سوتی کپڑا بازاروں کی دکان پر نہ رہا۔ بادشاہی محلوں میں عجب طرح کی خوشی تھی۔ صاحباتِ محل نے سب سے زیادہ تیاری کی تھی۔ ماما اصلیوں اور رونوں کی بن آئی۔ ایک ایک سیٹھ ہوگیا اس قدر دستور پائی۔ ملکہ زہرہ جبیں ایک ایک سے پوچھتی تھی۔ "کیوں، صاحبو، سواری کتنی دور رہی؟" محل سے ڈیوڑھی تک اصلیوں کی ڈاک بیٹھی ہوئی تھی۔ گھڑی گھڑی کی خبر پہنچ رہی تھی۔ مسافروں کے آنے کی اُمیدواری تھی۔ صحنک کا اہتمام تھا، کونڈوں کی تیاری تھی۔ کسی نے مُشکل کُشا کا کھڑا دونا مانا تھا۔ کسی نے بی بی کی پڑیا مانی تھی۔

غرض ہر محل والی نذر و نیاز کی فکر میں دیوانی تھی۔ ارکانِ دولت نے چند منزل بڑھ کر استقبال کیا۔ کوتوال نے کل رعیت کو ناکے تک جانے کا حکم دیا۔ فوج پایہ تحت نے نئی نئی وردیاں پائیں۔ گولندازوں نے سلامی کی توپیں لے جا کر ناکے پر لگائیں۔ ناگاہ ایک دن قریب شام ایک لفافہ آیا۔ اُس میں وزیر کی طرف سے کوتوال اور افسرانِ فوج کو یہ حُکم تھا کہ صبح کو حضرت ظل سبحانی داخل دارالامارت ہوں گے۔ پہر رات سے سب جلوس اور کُل فوج اور تمام رعایا ناکے پر آکے حاضر ہو۔ کسی کا دل میلا ہو نہ کپڑے میلے ہوں۔ زرق برق ہو، شہری ہو یا مسافر ہو۔ سقے نصف شب سے چھڑکاؤ لگائیں۔ دروازے شہر پناہ کے تمام رات کھُلے رہیں کہ آئند و زوند بے تکلف آجائیں۔ لفافہ آتے ہی یہ کیفیت مشتہر ہو
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 234

گی۔ کارخانوں میں حکم پہنچ گیا۔ گھر گھر خبر ہوگئی۔ وہ رات جوانوں کے لیے برات کی رات تھی اور اطفال کے لیے شب برات۔ اُس شب جوانوں کو نیند آئی نہ بچوں نے پلک سے پلک لگائی۔ ہر شخص کو صبح کا انتظار تھا۔ ہر ایک سیر اور تماشے کو کمر باندھے تیار تھا۔

ماہ تاب چاہتا تھا کہ منزلِ مغرب میں نہ جائے۔ آفتاب کا ارادہ تھا کہ یہ رجعتِ قہقہری پھر آئے۔ ستاروں کی آنکھیں زمین سے لگی تھیں۔ حواروں نے کھڑکیاں بہشت کی کھول دی تھیں۔ تماش بین آدھی رات سے چل نکلے۔ غول کے غول اور غٹ کے غٹ چلے۔ وہ جلوس، وہ فوجِ شاہی، سب اپنے طور پر راہی۔ سواریوں کی ہٹو بچو نے دِلی لکھنو کو گرد کیا۔ پیدلوں کی کثرت نے ٹیڑھی دَل کو بھلادیا۔ نالکیاں، پالکیاں پچ کلسے، فنسیں، تاہم دان، بوچے، ہوا دار، وہ گھوڑے راس دَر راس، وہ ہاتھی زنجیر در زنجیر، وہ سانڈنیاں قطار در قطار۔ آگے ٹم ٹم، فٹن، چرٹ، بگھیاں، صباشتاب اُڑن کھٹولے اور تحتِ رواں کا جواب رتھیں، بہلیاں، منجھولیاں منزل در منزل، ہودج اور محمل سے بڑھ کر چرٹ اور بگھیوں کے مدمقابل۔ بعضے صاحب تانگے پر سوار اور سیر کا ولولہ؛ بہ قول شخصے مانگے تانگے کام چلے بیاہ کرے بلا۔

بعضی خانگیاں مفلس، آپ تو ڈولی میں اور ڈولی دہوں کی ماری ڈانوں ڈولی میں۔ اراذل، گنوار لڑکیوں کو کاندھوں پر چڑھائے پھینٹے باندھے، بلہرے لٹکائے۔ بعضے یاروں کے ساتھ، بعضے اکیلے۔ وہ کشمکش، وہ چپقلش، وہ دھکا پیلی، وہ ریلے۔ جب ریل آئی پاؤں زمین سے اُٹھ گئے۔ ہزاروں اُس سِرے جارہے۔ کوئی جماعت بڑھ گئی کوئی جماعت پھر پڑی۔ کسی کی پگڑی گِر پڑی، کسی کی ٹوپی گِر پڑی۔ کوئی کُچل گیا، کسی کا بھَرتا نکل گیا۔ کوئی چلایا: "ارے میں دبا۔" کوئی پُکارا: "ہائے میری اطلس کی قبا۔" آشنا کو آشنا اور بھائی بھائی کو پُکارتا تھا۔ اُدھر باپ چلاتا تھا، اِدھر بیٹا چیخیں مارتا تھا۔ ایک کہتا تھا: "ارے بھئی رستم خان کہاں ہو؟" دوسرا آواز دیتا تھا: "میاں دَل تمہن، جواب دو۔"

غرض عجب طرح کا میلہ تھا۔ عجب طرح کا تماشائے عام تھا۔ بھیڑ سے بھیڑ تھی، اژدہام سا اژدہام تھا۔ ناکا عیدگاہ تھا۔ ہر تماشای روبراہ کا تھا۔ دکان دار پالیں کمل تانے دو
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 235

رویہ دکانیں لگائے۔ ہر طرح کے کھلونے، ہر طرح کی چیزیں۔ جو جی چاہے خریدے، جو جی چاہے کھائے۔ جا بجا مجمع، جا بجا سیر و کیفیت۔ کہیں مداری کا تماشا، کہیں ناچ رنگ کی صحبت۔ بڑھیاں ٹھڑیاں چادریں سرِ راہ بچھائے، داد دہش کی اُمیدوار۔ تماش بینوں کا گھٹا ٹوپ، کوڑی پیسوں کی بوچھار۔ اتنے میں ڈنکا ہوا۔ سلامی کی باری آئی۔ ایک غل ہوا۔ "دیکھو، وہ سواری آئی۔" گولندازوں نے شلکیں اُڑائیں، نوبتیوں نے نوبتیں بجائیں۔

یاقوت شاہ داماد کو لیے داخلِ شہر ہوا۔ اُس وقت کا احتشام یادگارِ دہر تھا۔ سب کے آگے جلوس۔ اُس کے بعد پلٹنیں اور رسالے۔ اُن کے پیچھے توپوں کے بالدے اور توپ خانے والے۔ بیچ میں ایک ہاتھی پر خورشید گوہر پوش اور یاقوت شاہ گردا گرد ہاتھیوں پر تمام رفقائے دولت خواہ میدانی بولتے، نقیب آواز لگاتے۔ یساول بہ صدائے طرقو بیٹھے ہوؤں کو اُٹھاتے۔ وہ ملکہ مہ جبیں کا سکھ پال، وہ دور میں کہاریاں پر تمثال، اُسی سُکھ پال سے ملی ہوئی۔ یاسمن کی سواری، اُس کے محافےک ی بھی کچھ ایسی ہی تیاری۔ آخر میں داروغہ دیوان خانہ اور خزانے کے ہاتھیوں پر خزانہ۔ اشریفوں کے توڑوں کے مُنہ کھلے ہوئے۔ لٹانے والے لٹانے پر تُلے ہوئے۔ شہدوں کا ہجوم زر ریزی کی دھوم۔ اُدھر اشرفیوں کے چھرے، اِدھر گالیوں کے چھرے۔ وہ اُن الفتوں کی بولیاں، وہ لب لہجے، وہ روز مرے۔ ایک دوسرے کے کاندھے پر چڑھ کر غل مچاتا تھا۔ ایک ہاتھی کا رسا پکڑے چڑھا جاتا تھا۔ ہر بار یہ آوازے تھے: "ادھر آبے، آنکھوں کے اندھے۔ ادھر پھیک، ارے دولت کے کیڑے۔ پھیک، مٹھی نہ بند کر۔" ہر چھرے میں بیسیوں ٹپکتے تھے۔ ایک ایک کے پیچھے سو سو لپکتے تھے۔ کہیں بُت چل گیا، کہیں ڈگ چل گیا۔ کوئی اشرفی پاتے ہی جھپ نگل گیا۔ کسی نے کسی کے کلے میں اُنگلیاں ڈالیں، کسی نے کسی کی جھولی پھاڑ کر وہ خوزادیاں نکالیں۔ کوئی چھینا جھپٹی میں بازی لے گیا۔ کوئی پھنس گیا۔ کوئی روبیں ہوا۔ کوئی لوٹ میں آکر زمیں پر لوٹ گیا۔

غرض خراماں خراماں چاندی چوک تک سواری پہنچی۔ وہاں ایک تو رونق تھی۔ اس جلوس سے اور رونق ہوئی۔ یہاں یساولوں نے حد سے زیادہ اہتمام کیے۔ دکان داروں نے اُٹھ اُٹھ کر سلام کیے۔ کسبیوں نے چلمنیں اُٹھادیں۔ ہاتھوں پر پانچے لے لے کر کھڑی
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 236

ہوئیں۔ یہ گُل لالہ دیکھ کر مارے خوشی کے پھول گئیں۔ ایسی محو ہوئیں، کرسیوں پر بیٹھنا بھول گئیں۔ تماش بینوں سے گلیاں بھری تھیں، چھتیں بھی بھری تھیں۔ اکثر زمین پر تھے، اکثر فلک نشین۔ قدرت خدا کا تماشا تھا۔ ہر شخص دیکھتا رہ گیا۔ تماشائی واہ واہ کرتے رہے اور سیارِ سبک سیر درِ دولت پر پہنچے۔ یاقوت شاہ اور خورشید گوہر پوش نے دیوانِ خاص میں جاکر اجلاس کیا۔

زنانی سواریوں کا محل میں داخلہ ہوا۔ اندر سے باہر تک سب نے تہنیت کی دھوم مچائی۔ دربار میں اربابِ نشاط نے اور محل میں ڈومنیوں نے مبارک باد گائی۔ ملکہ کی ماں ملکہ کو چھاتی سے لگا کر اس قدر روئی کہ دونوں کی ہچکی بندھ گئی۔ محل والیاں آکر صدقے قربان ہوئیں۔ ایک ایک نے شاہ زادی کی سر سے پاؤں تک بلائیں لیں۔ سب اپنی اپنی جگہ پر خوشیاں کرنے لگیں۔ نذر نیاز ہونے، منتیں اُترنے لگیں۔ کُل عمائد کی ماں، بہنیں، بہویں، بیٹیاں حاضر تھیں۔ سب نے ملکہ زہرہ جبیں کو مبارک باد دی، نذریں دیں۔ وزیر زادی جب بڑی حضور کو نذر دے چکی تو چھوٹی حضور کی طرف متوجہ ہوئی۔ پہلے نذر دکھائی۔ پھر چُپکے سے یہ بات سُنائی: "کہیے، حضور، بڑی بڑی سیریں کیں۔ سلامتی سے خوب غائب رہیں۔ فقیر، بادشاہ سب کا مزا چکھا۔ اللہ رکھے، کسی کو محروم نہ رکھا۔ ماشااللہ پختہ کار ہوگئیں۔ اب جوڑی دار کو ساتھ لے کر تشریف لائیں۔ کہیے، وہ بیگم صاحب جو تشریف رکھتی ہیں، وہ کیا حضور کی منہ بولی بہن ہیں؟ ان کا کہاں سے ساتھ ہوا؟ یہ کوئی ہم راز ہیں یا ہم فن ہیں؟ لونڈی انہیں بھی جاکر نذر دے۔ ان سے بھی کچھ حال پوچھیے، کچھ باتیں کرے۔" ملکہ بولی: "پھر خدا نے تجھ کو شہکارہ کا منہ دکھایا۔ مقدر پھر جلی گئی سنوانے کو یہاں لایا۔ ہے ہے، تُو تو میری نصیبوں کی ساس نند ہے۔ وقت پر بند ہے نہ بے وقت پر بند ہے۔ موئی خانگی اپنا سا سب کو تصور کرتی ہے۔ نگوڑی آپ بے ایمان ہے تو دل میں بے ایمانی گزرتی ہے۔ صبر کر، صب کر۔ دم بھر میں سب کچھ بتادوں گی۔ اپنی سرگزشت بھی کہوں گی۔ اُن بیگم صاحب کا بھی بتادوں گی۔ اری پاؤں کی چھچھوندر، بے قرار بے آرام، تجھے کسی کے پاس آنے جانے سے کیا کام؟"
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 271

تمہیں پردۂ قاف میں لے چلوں اور تمہاری ماں کے پاس پہنچا دوں۔" وہ بولی: " بھلا، بھائی، میں گھر کی راہ لوں اور ان ہمدردوں کو اسی جنگل میں چھوڑ دوں؟" وہ بولا: " تنہا کیوں چلو۔ انہیں بھی ساتھ لے لو۔" ملکہ بولی: " نہیں، بہن، ہمیں یہیں رہنے دو۔ جس طرح شاہ زادے کو صبر کیا ہمیں بھی صبر کرو۔ ہائے خورشید شاہ تو تباہ ہوا اور ہماری قسمت رو براہ۔ یہ جینا مرنے سے بتر ہے۔ دَم آنکھوں میں ہے۔ جان ہونٹوں پر ہے۔" ارماس نے کہا: " یہ تو خدا سے لڑائی ہے۔ اُس کی مشیت میں کچھ گزرا ہے، تم صاحبوں کے دل میں کچھ سمائی ہے۔ جس کے دل میں درد ہے اُسے یہاں آرام ہے نہ وہاں آرام۔ یہ نقل و حرکت تو محض برائے نام ہے۔"
المختصر اُس بے چارے نے بہت سی فہمائشیں کیں۔ آخر وہی تختہ جو کنارے پر آ لگا تھا اُسے نکالا اور کچھ لکڑیاں مستطیل نکالیں۔ شست اُس کی کمر میں تھی۔ اسبابِ بندش کی فکر نہ ہوئی۔ وہ لکڑیاں اُس تختے میں باندھ کر ایک تخت بنایا اور بہ کمال منت و اصرار اُن ماتم نشینوں کو اُس پر بٹھایا۔ کاندھے پر رکھا اور مائل پرواز ہوا۔ آدم زادوں سے کہا: خبردار، زمین کی طرف گردن نہ جھکانا۔ اندیشے کی جگہ نہیں۔ کچھ خوف نہ کھانا۔" بس ان باتوں میں لگایا اور قاف میں اُڑا لایا۔ یہاں بھی ان ماتم زادوں کے پہنچنے سے ایک ماتم ہوا۔ علی الخصوص گُل بدن پری کو حد سے زیادہ غم ہوا۔ کیوں کر نہ ہوتا۔ بیٹی داما د کا واقعہ تھا مگر وہ تو بڑی مدبرہ تھی۔ دل میں سوچی، کچھ فکر کرنا ضرور ہے۔ رو پیٹ کر بیٹھ رہنا عقل سے دور ہے۔ اس کی جستجو چاہیے۔ اس میں صلاح و گُفتگُو چاہیے۔ ارکانِ دولت کو بلایا اور تمام یہ قصہ سُنایا۔ کہا: " تم سب کی رائے میں کیا آتا ہے؟ وہ لوگ ڈوب گئے یا زندہ رہے؟ جو جس کے قیاس میں آئے اپنے پانے طور پر کہے۔" ہر شخص خاموش رہا مگر ایک پیرِ کبیر السِن نے کہا: " میرے نزدیک تو وہ لوگ ڈوبے نہیں، نکلے ہوں گے کہیں نہ کہیں۔ جہاز جب تک قائم ہے سب طرح کا دغدغا ہے۔ جب تختے تختے جُدا ہو گئے۔ پھر نہ طوفان ہے نہ ہوا ہے۔ پانی جب ٹکر کھاتا ہے تو جہاز طوفان میں آتا ہے۔ تختے کی کیا بساط کہ پانی کو روکے۔ بے تکلف پھٹ جاتا ہے۔ ہلکا پھلکا ہو کے تختہ تو حباب ہے۔ حاجب ہوا ہے نہ مانعِ آب ہے۔ اسے ڈوبنے کا ڈر ہے نہ موج و گرداب سے ضرر ہے۔ جس

ریختہ صفحہ 272
طرح یہ تختہ کنارے پر آلگا اسی طرح وہ تختہ بھی کنارے پر جا لگا ہو گا۔ یقینی ایک نہ ایک جگہ اُس کا بھی کچھ نشان اور پتا ہوگا۔"
گل بدن پری بولی: " میری بھی رائے یہی ہے۔ یہ بات موافق عقل کے بھی ہے اور موافق تجربے کے بھی ہے۔ چار جنوں کو حکم دیا کہ " ہاں، جلد جاؤ، ہر جزیرے میں ڈھونڈو اور اُن لوگوں کا سراغ لگاؤ۔" سُنتے ہی وہ آتش مزاج ہوا ہوئے اور تمام جزیروں میں پھیل گئے۔
تہِ دل سے ہر اک نے کی جستجو
پھرے ڈھونڈتے جا بجا چار سو
بچے خاک اُڑانے سے ہنگامِ گشت
نہ ساحل، نہ ٹاپو، نہ کہسار و دشت
کبھی جا کے کرتے تھے پانی میں شور
یہ کہتے تھے پیہم کہ اے بحرِ شور
سُنا حالِ سلطان والا گہر
وہ بحرِ لطافت کدھر ہے کدھر
کسی موج سے اس طرح تھا خطاب
بتا کس طرف ہے وہ دُرِّ خوش آب
پہاڑوں میں جاتے تھے مثلِ صبا
کہ شاید یہاں ہو وہ شمس الضحیٰ
تجسس میں ہر ایک جاسوس تھا
مگر کچھ نہ ملتا تھا ہرگز پتا
اُنہیں جاسوسوں میں سے ایک جاسوس کا جزیرہ اسکندریہ میں بھی گزر ہوا اور ڈھونڈتا ہوا اُس سوداگر کے مکان کے تلے پہنچا۔ کیا سُنتا ہے کہ وہی داستان کوئی شخص کسی کو سُنا رہا ہے اور سب پتے ٹھیک ٹھیک بتا رہا ہے۔ دیر تک وہ پتے سُنا کیا۔ آخر بہ ہیئتِ انسانی دیوان خانے میں گیا۔ دیکھا کہ ایک امیر باصد تو قیر صدرِ تمکنت پر رونق افروز

ریختہ صفحہ 273

ہے۔ اور گاؤ پر تین طوطے بیٹھے ہیں مگر وسط میں جو ہے وہ نہایت ادب آموز ہے۔ اُسی کی یہ طلاقت اور گویائی ہے۔ وہی سرگرمِ داستاں سرائی ہے۔ سوداگر نے جو شخص اجنبی کو دیکھا، حیران ہو کر مستفسرِ حال ہوا۔ یہ بولا: " میں مسافر ہوں۔ پراگندہ خاطر ہوں۔ سینے پر ناخنِ غم کی خراش ہے۔ یوسفِ گم گشتہ کی تلاش ہے۔ یہ افسانۂ پُر درد سُن کے دل دہلتا ہے۔ اس طوطے کے بیان سے اُس کا پتا ملتا ہے۔" سوداگر نے کہا: " جس کا اس کہانی میں پتا ہے اُس یوسفِ گم گشتہ کا نام کیا ہے؟" کہا: " اُس کا بھی نام خورشید شاہ ہے۔ وہ بھی اسی شاہ زادے کی طرح تباہ ہے۔ متعلق اُس کے پردۂ قاف میں بے قرار ہیں۔ انسان بھی اور بنی جان بھی ماتم دار ہیں۔"
خورشید شاہ نے بے تاب ہو کر پوچھا: " آپ کس کے بھیجے ہوئے آئے ہیں؟ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ " اُس نے جواب دیا" بندہ گُل بدن پری کا فرستادہ ہے۔ جزیروں کی سیر کا ارادہ ہے۔" اُس نے کہا: "گل بدن پری، یاسمن کی ماں؟" وہ بولا: "ہاں" پھر پوچھا: " آپ ملکہ مہ جبیں کو بھی پہچانتے ہیں؟ کچھ اُس کا بھی حال جانتے ہیں؟" اُس نے کہا: " ملکہ بھی وہیں ہے، وزیر زادیاں بھی وہیں۔ سب کی سب، بس ایک ماتم میں سوگ نشیں ہیں۔" اب ضبط کجا، تحمل کجا۔ یہ سنتے ہیں شاہ زادے کی آنکھوں سے اشکوں کا دریا بہہ گیا۔
خون رویا وہ عشق کا پابند
صدمۂ ہجر ہو گیا دہ چند
منہ سے دوبار آہ آہ کیا
ہو گیا غش رہے نہ ہوش بجا
تاجر یہ ماجرا دیکھ کر گھبرا گیا۔ کہا: " اے شخص، خاموش رہ۔ خُدا کے لیے زیادہ نہ کہہ۔ ایسا نہ ہو طائرِ روح اس غریب کا پھڑک کر نکل جائے۔ بس، بھائی، اب ایسی باتیں کرنا چاہیے کہ اسے ہوش آئے۔" کہا: " ارے گلاب کے شیشے لاؤ۔ میرے افسانہ گو کے منہ پر چھینٹے دو۔ لخلخے سنگھاؤ۔" خدمت گار دوڑ کے آئے اور بہ حُسنِ تدبیر شاہ زادے کو ہوش میں لائے۔ شاہ زادے نے سوداگر سے کہا:" بس، جناب، اب ہمیں رخصت کیجیے۔ للہہّٰ
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 274

پردۂ قاف کی اجازت دیجیے۔ خدا نے یہ مژدہ سنوایا۔ الہیٰ شکر، بے نشانوں کا نشان پایا۔ شاید اسی حالت میں موت آئے۔ حسرت دیدار تو دل میں نہ رہ جائے۔" تاجر نے کہا: " مجھے تو حضور کے سرور سے سرور ہے۔ بندے کو آپ کی راحت منظور ہے۔ مگر اس کیفیت میں قاف کو پہنچنا محال ہے۔ اگر ہے تو آپ کی تکلیف کا خیال ہے۔" جاسوس بولا:" اس کا عبث خلجان ہے۔ بندہ از قسم بنی جان ہے۔ عزمِ عزیمت کیا اور قاف میں پہنچا دیا۔" یہ سُن کے سوداگر کو جائے کلام نہ رہی۔ گردن جُھکا کر یہ بات کہی: " سچ ہے، پردیسی سے کبھی دل نہ لگائے، مسافر کی باتوں پر ہرگز نہ آئے۔ آپ تو تشریف لے چلے لیکن مجھ کم بخت کو ایک داغ دے چلے۔" خورشید شاہ نے کہا: " انشا اللہ اس رنج سے بھی نجات ہو گی۔ اگر حیاتِ مستعار باقی ہے تو پھر ملاقات ہو گی۔
غرض سوداگر تو صدمۂ مفارقت سے آب دیدہ ہوا اور جاسوس اُن خضر صورتوں کو لے کر نظروں سے پوشیدہ ہوا۔ یہاں تو یہ صورت ہوئی، یہ کیفیت ہوئی۔ وہاں ان سوگواروں کی کرب انتظار سے عجب حالت تھی۔ ہر مرتبہ زبان پر موت کی لذت تھی۔ چشم براہ تھیں کہ شاید گردِ سواری نظر آئے اور گوش برآواز تھیں کہ دیکھیے کیا خبر آئے۔ دل ہی دل میں صدمے سہتی تھیں۔ آخر گھبرا کر یہ کہتی تھیں:
یا رب تو خیر کیجو قاصد نے دیر کی ہے
یا نامہ گر پڑا ہے یا راہ پھیر کی ہے
یاسمن روتی تھی تو ملکہ سمجھاتی تھی اور ملکہ اشک بار ہوتی تھی تو یاسمن باتوں میں لگاتی تھیں۔ وزیر زادی ملکہ کے لحاظ سے اور کسی کا تو نام نہ لیتی تھی۔ بس: "ہائے صاحبِ عالم" کہتی تھی اور رو دیتی تھی۔
ناگاہ جاسوس ان حلہ پوشوں کو لے کر پہنچا اور سارا واقعہ بیان کیا۔ پھر تو اک ماتم ہوا۔ دونا رنج وا لم ہوا۔ گل بدن پری نے جو یہ خبر پائی وہ تھی روتی پیٹتی آئی۔ خورشید شاہ نے ملکہ سے کہا: " جو امر تقدیری تھا ہوا۔ اب رونے پیٹنے سے فائدہ کیا؟ انقلابِ روزگار نے اپنا نیرنگ دکھایا۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ تم نے ہمیں اور ہم نے تمہیں زندہ پایا۔ ہمیں تو تم سے ملنے کے لالے تھے۔ زمانے نے ایسے تفرقے ڈالے تھے۔ ہزار شکر کہ خدا

ریختہ صفحہ 275

نے یہ صورت دکھائی۔ کچھ تو روح نے تسکین پائی۔ اللہ نے چاہا تو قلبِ ماہیت بھی برطرف ہو جائے گی۔ رفتہ رفتہ وہ صورت بھی نظر آئے گی۔" گُل بدن پری نے بھی کہا: " صاحبو، گریہ و زاری موقوف کرو۔ ذرا خاموش ہو کر کچھ ان غریبوں کی سُنو، کچھ اپنی کہو۔خدا نے حلِ مہمات کے واسطے عقل دی ہے۔ ہر درد کی اور ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے۔ اس قدر مضطرب نہ ہو۔ خیر، اس کا بھی تدارک کیا جائے گا۔ آخر کچھ نہ کچھ حکیموں کی تشخیص میں آئے گا۔" گل بدن کی فہمائش سے وہ نالہ و شیون موقوف ہوا اور سب کی سب ساکت ہوئیں۔ ملکہ اور یاسمن خورشید شاہ کو اپنے کمرے میں لے گئیں اور وزیر زادیاں قمر طلعت اور سیّار کو لے گئیں۔
تخلیے میں ایک ایک نے ایک ایک کو پیار کیا اور اس صورت میں بھی شکرِ پروردگار کیا۔ حکمائے یونانی اور اطبائے بوعلی ثانی جمع ہوئے مگر کسی سے کچھ تشخیص نہ ہوئی۔ فقیروں نے دُعا، عاملوں نے عزیمت خوانی کی۔ وہ طوطی شکر شکن گویا ان غریبوں کی طائرِ روح تھی۔ اُن کے آنے سے زندگی ہو گئی۔ رات دن انہیں سے باتیں تھیں۔ انہیں سے ہر طرح کی مشورت اور مصلحت تھی۔ ایک دن ملکہ نے خورشید شاہ سے کہا: "صاحب، تم نے شاہ صاحب کو اس مصیبت میں یاد نہ کیا۔" شاہ زادہ بولا: "ہاں، صاحب، خوب یاد دلوایا وائے تقدیر، آج تک اس بات کا خیال نہ آیا۔ ہائے ایسا بدحواس ہوا کہ یہ عمل دل سے سہو محو ہو گیا۔ (شعر)
میں اجل کے ساتھ تھا اور موت میرے ساتھ تھی
اے جنوں اس درد کی تدبیر اپنے ہاتھ تھی
ملکہ بولی: " مصیبت کے عالم میں یاد نہ رہی۔ خیر، اب سہی۔" خورشید شاہ نے کہا: " اچھا ذرا تخلیہ ہو جائے۔ کہہ دو کہ اب کوئی یہاں آنے نہ پائے۔"
بس فوراً بندوبست ہو گیا۔ شاہ زادے نے تنہائی میں وہ عمل پڑھا۔ حاضرات کرتے ہی مرشدِ کامل آئے۔ یعنی محمود شاہ روشن دِل تشریف لائے۔ ملکہ نے دوڑ کر قدموں پر سَر رکھ دیا۔ رو کر کہا: " حضور نے خبر لینے میں بڑا عرصہ کیا۔ اجی حضرت، عجب مصیبت ہے۔ ملاحظہ تو فرمائیے، یہ کیا صورت ہے؟" پیر مرد نے کہا:" شاید کوہِ اخضر پر
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
ریختہ صفحہ - 121

گار۔رسول شاہی نمائی میں فرد،حقیقت آگاہی میں وحید۔اُمیدِ مشتاقان دیدار۔آرزوئے طالبانِ دید۔مداریے گیروی چادریں لپیٹے منہ پر راکھ ملے۔فنا فی الله کے حوصلے،دم مدار کے ولولے۔بے نوا صفائی اور دل دیے،چار ابرو کا صفایا کیے۔ظاہر و باطن کا ایک قرینہ،سراپا بے زنگ،ہمہ تن آئینہ۔قادریے پیر و پیرانِ پیر،تہی دستوں کے دست گیر۔چشتیے،جن کے قبضے میں تمام ہندوستان۔اُن کے ظفر تکیے فتح نشان۔اربابِ طریقت کے معین،اصحابِ حقیقت کے کفیل۔وہ شنجرفی تہمد،شہیدوں کے بانی۔شہادت کی دلیل۔سہر وردیے حالت جذب میں نعرے کرتے،صابریے صبر و شکر کا دم بھرتے۔وہ آزادوں کی ٹولیاں،وہ اُن کے آوازے،وہ بولیاں۔سدا سہاگ سہاگنوں کا لباس پہنے۔وہی آرائش،وہی گہنے۔جب ہاتھ اٹھا کر،بھاؤ بتایا بے دل لوٹنے لگے،صاحب دلوں کو حال آیا۔ڈھولک بج رہی ہے،قوالی ہو رہی ہے۔ہو حق کی صدائیں بلند ہے۔صاحبانِ کیفیت محویت کی حالت میں جھوم رہے ہیں۔آنکھیں بند ہے۔اتنے میں شاہ صاحب آئے اور شاہ زادے کو اپنے ساتھ صدرِ محفل میں لائے۔حضار مجلس نے"عشق مولا"کہہ کر اسلام کیا۔شاہ صاحب نے"کرم مولا"فرما کر جواب دیا۔پھر تو رونق محفل دوبالا ہو گئی۔زمین ہم پایۂ عرش اعلٰی ہو گئی۔لطف سماع دم بہ دم بڑھنے لگا۔ہر شخص قابلِ حال قال ہو کر قوالوں کے قول کا کلمہ پڑھنے لگا۔تاثیر نغمۂ طرز سے چوب خشک کو بھی بالیدگی ہوئی۔
صوفیوں کی طرح شامیانے کی چوبوں کو جنبش ہونے لگی۔معرفت خوانی،مقام دانی ہو رہی تھی کہ ایک مترنم خوش گلو نکیسہ خو نے یہ غزل خسرو کی شروع کی۔

ای چہرۂ زیبای تو رشک بتانِ آذری
ہر چند و صفت می کنم در حسن ازاں بالا تری
تو از پری چابک تری وز برگ گل نازک تری
وز ہرچہ گویم برتری حقا عجائب دل بری
گرد جہاں گردیدہ ام مہر بتاں ورزیدہ ام
بسیار خوہاں دیدہ ام لیکن تو چیزی دیگری
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی

ریختہ صفحہ -122

تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
خسرو غریب است و گدا افتادہ در شہر شما
باشد کہ از بہر خدا سوئے غریباں بنگری

صاحبانِ عشق کو گداز طبیعت ضرور ہے۔"العاشق اہل المعرفت"مشہور ہے۔یہ سنتے ہی شاہ زادے کے دل پر چوٹ لگی۔ضبط کی طاقت نہ رہی۔رنگ رخ خاکستری ہو گیا۔بے خودی کے عالم میں آ کر خودی سے بری ہو گیا۔بے تابیٔ خاطر کے پہلو نکل آئے۔آنسو رخساروں پر ڈھل آئے۔ تصور معشوق میں جی کھونے لگا۔ہچکیاں لے لے کر رونے لگا۔آخر اہل دل تھا۔فی الحقیقت ایسے وقت میں صبر مشکل تھا۔ہائے جو جانے وہ مانے۔بیگانہ عشق کیا جانے۔سرود بمستان یاد دہانیدن،دیوانہ رادر محفل پری رویان نشانیدن۔بلبل کے آگے گل کا افسانہ،ذکر شمع پیش پروانہ،رقیق القلب کے حضور مرثیہ،دردمند کے سامنے آہ و بکا۔مجنوں اور لیلیٰ کی داستان،فرہاد اور شیریں کا بیان،مستقی اور ترغیب آب،بدمست اور کثرت شراب،زخمی اور چاندنی،دل افگار اور سینہ زنی۔سودائیوں کی صحبت میں عاشقانہ اشعار،شیدائیوں کے جلسے میں معشوق کا اشعار۔اُس فرقت نصیب دو راز حبیب،مشتاق وصال،مبتلائے رنج و ملال کا یہ حال ہوا،جس طرح کوئی پھوڑے کو چھیڑ دے۔ہر شعر سے کلیجے کے ٹکڑے اڑے۔ہر آہنگ سے دل پر تیر پڑے۔ہر نکتے نے کار نشتر کیا۔ہر زمزمے نے کلیجے پر کہ خنجر پھیرا۔اب کس کے سنبھالے سنبھلے۔
یہ حال دیکھ کر ہے صاحب حال بے حال ہوا،اہل مجاز کو مجاز کا،اہل حقیقت کو حقیقت کا خیال ہوا،کسی نے بے ساختہ آہ کی،کسی نے حیرت سے نگاہ کی۔کوئی"ہے دوست"کہہ کر پکارنے لگا،کوئی چیخیں مارنے لگا،کوئی زندگی سے منہ موڑنے لگا،کوئی دم توڑنے لگا۔کسی کو لوٹتا،کسی کو پھڑکتا پایا۔جا بہ جا رقص بسمل کا تماشہ نظر آیا۔حق ہے،مشاہدہ حقیقت کا یہی مقتضا ہے۔صاحب دلوں نے سچ کہا ہے۔
جاں گذا عشق کی تقریر نہ ہو کیا معنی
اہل تاثیر میں تاثیر نہ ہو کیا معنی
شاہ صاحب نے یہ کیفیت دیکھ کر قوالوں سے کہا:"بس صاحبوں،رنگ مجلس دِگر گوں

ریختہ صفحہ - 123

ہے۔چپ رہو"خادموں سے ارشاد کیا کہ"شاہ زادے کو سنبھالو،جلد فنس میں ڈال کر لے چلو۔"فوراً سب نے خورشید گوہر پوش کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور فنس میں لاکر سوار کیا۔شاہ صاحب بھی باغ میں آئے،شاہ زادہ بھی آیا۔وہاں قل ہوا۔میلے نے خاتمہ پایا۔رات میں جب شاہ زادہ ہوش میں آیا تو خود قدم رنجہ فرمایا۔کہا:"آج تو آپ اچّھا رنگ لائے،خوب کیفیت میں آئے۔اپنے ساتھ اوروں کا بھی تباہ حال کیا۔کس کا تصور کیا؟کس کا خیال کیا؟دیکھیے لگی اس کو کہتے ہیں۔اللہ والے اس دھن میں رہتے ہیں۔یوں دل آئے جب تاثیر دکھائے۔عود سلگتا ہے جب خوشبو دیتا ہے۔دریا جوش میں آکر خوب لہریں لیتا ہے۔ہنوز منزل نا تمام ہے،سودا خام ہے۔ہنوز جرعۂ اولیں ہے۔ہنوز دور و تسلسل نہیں ہے۔ہنوز بادہ در سبو ہے،ہنوز نالہ در گلو ہے۔ہنوز شاہد تمنّا پر حجاب ہے۔ہنوز روئے مدعا زیرِ نقاب ہے۔ہنوز نقل دور از اصل ہے۔ہنوز منزلوں کا فصل ہے مگر دل میں کیفیت پیدا ہو چلی،صورت معرفت ہویدا ہو چلی۔ ادنٰی توجہ میں یہ حال ہوا کہ ضبط محال ہوا۔اُن کے دلوں کو دیکھا چاہیے جو ہمہ تن درد سراپا لذت ہیں۔عین محبت اور عین محنت ہیں۔بے درد اُن پر ہنستے ہیں۔نا فہم آوازیں کستے ہیں۔حاصل اس طول کلام سے یہ کہ تقریر فقیر لا طائل نہیں۔یہ گفت و شنود تحصیل حاصل نہیں۔ سنیے اربابِ معرفت کے دو طریق ہیں۔ایک سالک و خاموش،ایک مجذوب و مدہوش۔کہتے ہیں کہ رتبہ سالک کا مجذوب سے زیادہ ہے۔وہ عامل بالا راده ہے۔یہ بے ارادہ ہے۔وہ لبریز ہے اور چھلکتا نہیں،مخمور اور بہکتا نہیں۔یہ سرشار ہے اور بے اختیار،بے تاب ہے اور بے قرار۔وہ ہوشیار ہے، یہ مستانہ۔یہ بلبل ہے وہ پروانہ۔شیخ شیراز نے بھی سلوک کو اختیار کیا ہے یعنی سالک کو مجذوب پر فوق دیا ہے۔اشعار:
اے مرغ سحر عشق ز پروانہ بیا موز
کان سوختہ راجان شدو آواز نیامد
این مدعیان در طبلش بے خبرانند
کان را کہ خبر شد خبرش باز نیامد
"مجذوب بے چارے جذب کے ہاتھوں گرفتار بلا ہوتے ہیں۔جوش میں آ کر

ریختہ صفحہ - 124

مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں۔منصور کے حق میں زبان سُولی ہو گئی۔سب تقریر فضولی ہو گئی۔دنیاداروں نے اُسے کافر ٹھیرا دیا۔معاذ الله بندے کو خدا بنا دیا۔دنیا کے عشقوں کا بھی یہی حال ہے۔اُن کی بھی یہی مثال ہے۔اُن میں بھی ایک فرزانہ ہے،ایک دیوانہ۔فرزانہ وہ جو معشوق کے راز کو کھلنے نہ دیا۔دیوانہ وہ جو خود بھی رسوا ہوا اور اُسے بھی رسوا کیا۔پس عاقل کو ایک اشارہ بس ہے۔زیادہ ہوس ہے۔اگر سلسلۂ اولی کے پابند ہو گئے جہاں رہو گے اچھے رہو گے آئندہ اختیار ہے۔ یہ تو ہم سمجھے ہوئے ہیں کہ سمجھنا بیکار ہے خیر جب زمانہ مصیبت میں پھنسائے گا اُس وقت یہ سمجھانا یاد آئے گا۔طریقہ عشق میں رازداری سے بڑھ کر کوئی تدبیر نہیں۔اس عمل سے بڑھ کر کیسی عمل میں تاثیر نہیں ہے۔دیوانگی سے کام بگڑ جاتا ہے۔عذاب خرابی پڑتی ہے،عجب پیچ پڑ جاتا ہے۔صاحبِ ضبط حتی الامکان راز کو چھپاتا ہے۔دل کی بات زبان پر نہیں لاتے ہیں۔جب اغیار سر ہوئے اور یار مصر ہوئے پِھر کچھ نہیں بنتی ہے یہ و بات ہے اور وہ بوٹی ہے کہ دل ہی دل میں چھنتی ہے۔"شاہ زادے نے کہا:"جیسا ارشاد ہوا یوں ہی عمل میں آئے گا۔ان شاء الله اسرار سر بستہ مضمون نہفتہ کھلنے نہ پائے گا۔مجھے تو حضور نے بے مصداق الانسان عبد الاحسان بندہ بنا لیا۔اس شفقت بے نہایت کے شفقت پدری کو بھلا دیا۔اللّٰه اللّٰه،یہ نصیحت محبت آمیز ہے۔یہ فہمائش دل آویز ہے۔ہے نقطے میں ایک بات ہے۔ہر بات میں کرامات ہے۔یہ فرمان دستور العمل ہے،یہ بیان آیات و حدیث کا ماحصل ہے۔یہ دلیل ہدایت کی دلیل ہے۔یہ سبیل رہنمائی کی سبیل ہے۔آپ تو میرے حق میں خضر ہیں۔مقتدا ہیں،ہادی ہیں۔مرشد ہیں،رہنما ہیں۔خدا نے مجھ گمراہ کو راہ سے لگایا کہ ایسے الله والے کے قدموں کے تلے آیا۔میں تو حضور کا فرمانبردار ہوں۔اب دو عنایتوں کا امید وار ہوں۔ایک تو یہ کہ راہِ دیار راہ بتائیے۔دوسرے اس امر میں تسکین فرمائیے کہ شاید زمانۂ حادث کوئی عقدۂ الحق بروئے کار لائے تو اُس وقت بندہ حضور کو کیوں کر پائے؟"شاہ صاحب نے ہنس کر کہا:"شاباش!کوئی بات بچنے نہ پائے۔کوئی نقطہ رہ نہ جائے۔بہت خوب،اس حکم کی بھی تعمیل ہوئی جاتی ہے۔یہ راہ بھی نکل آتی ہے۔"یہ قلم دوات کاغذ طلب فرمایا اور نقشۂ اقلیم کی بہ تقسیم سبعہ سیارہ تصریح کر دی۔بیاض دیدہ کو نور سے اور صفحۂ دل کو سرور سے بھر دیا۔

ریختہ صفحہ - 125

مشرق مغرب جنوب شمال کو آئینہ کر دیا۔اُس صاحب ریاضت کو ریاضی میں بھی ید طولی حاصل تھا۔اشراقیوں اور مشائیوں کے علم میں بھی کامل تھا۔وہ نقشہ گویا یا ودود کا نقشہ مربع تھا یا چار دانگ عالم کا زائچہ۔نہیں،اُس نقشے پر نقشِ جب کا اطلاق کرنا بجا ہے یا عشقوں کا حرز جان کہنا زیبا ہے۔کہا:"دیکھیے جانب شمال یہ جو کوہ پُر شکوہ ہے اُسے کوہ قاف کہتے ہیں۔بہ اعتبار مشہور یہ ہے کہ پری زاد اور سلاطین بنی جان اُسی کے دامن میں رہتے ہیں۔ہر چند کہ یہ پہاڑ تمام دنیا کا گرد آور ہے مگر ابتدائی آبادی اور درہ اول ادھر ہے۔عوام میں پرستان اُسی کے نواح کا نام ہے۔الحق عجب پر فضا اور دل چسپ مقام ہے اور وہ جو گوشہ مغرب لیے ہوئے ایک شہر مینو سواد ہے وہ یاقوت نگار کی بنیاد ہے اور یہ جو درمیان نے حد فاصل نمودار ہے یہ طلسم اسرار ہے۔ غرض اس نقشے کے دکھانے سے یہ ہے کہ جائیے گا تو اس طلسم سے بچ کر جائیے گا ورنہ بڑی خطا اٹھائیے گا،بہت پچھتائیے گا اور اگر خدنخواستہ کبھی کسی طرح کی کوئی دقت ہو اور فقیر سے ملنے کی ضرورت ہو تو یہ چار نام ہیں۔یعنی یا مسعود،یا محمود،یا موجد،یا موجود۔انہیں یاد کر لیجئے بلکہ لوح دل اور صفحہ خاطر پر ثبت کیجئے۔نام خدا یا نام مفید انام ہیں،اسم اعظم کے قائم مقام ہیں۔اُن میں جلالی اور جمالی دونوں طرح کی شان ہے۔ان شاء اللہ اُن کی برکت سے اس عزیمت کی مشکل آسان ہے۔جب کبھی کوئی مصیبت پیش آئے اور دل گھبرائے تو اُن اسمائے جلیلہ کو زبان پر لائیے گا۔بس بہ حکم اللہ فقیر کو وہیں پائیے گا۔"خورشید گوہر پوش نے اٹھ کر تین تسلیمیں کہیں اور بہت سی دعائیں دیں۔"کہا:"خداوند عالم آپ کو سلامت و با کرامت رکھے۔درجہ ادریس،زِندگی خضر، علو مسیح دے۔"اس نقشے کو لے کر مثل تعویذ داہنے بازو پر باندھا۔کمال خورسند اور نہایت مسرور ہوا،عرض کی کہ"فدوی صبح کو علیحدہ رہ گرائے منزل مقصود ہوگا۔"پیر مرد نے کہا:"اب رکنا اور اصرار کرنا جبر صریح ہے۔خیر،بہت اچھا۔مگر کیا ہمارے پاس بھی نہ آئیے گا،بے ملے چلے جائیے گا؟"شاہ زادے نے کہا:"نہیں،حضور،پہلے آپ کے پاس آؤں گا۔بغیر رخصت و قدم بوسی کس طرح جاؤں گا؟"یہ سن کر شاہ صاحب تشریف لے گئے اور شاہ زادے صاحب منتظر صبح بیٹھے۔برج کے دروازوں کو کھول دیا اور آسمان کو دیکھنا شروع کیا۔دنیا میں تین راتیں غضب کی ہیں۔عاشق کے لئے شبِ انتظار اور حاجت مند کے لئے شبِ عزیمت اور بیمار کے لئے شب تنہائی۔نہ بستر سے پیٹھ لگی نہ پلک سے پلک۔
 
Top