محمل ابراہیم
لائبریرین
ریختہ صفحہ - 221
لشکر میں ایلچی کے آنے کی دھوم ہوئی ضربان بے ایمان کو بھی یے خبر معلوم ہوئی۔دربارِ عام کا حکم دیا۔خورشید گوہر پوش نے اُس فصاحت و بلاغت سے نامہ پڑھا کہ حاضرینِ جلسہ کو سکتہ طاری ہو گیا سب نے ایک سرے سے سرِ تسلیم جھکایا۔ بہ جز دم بخود ہونے کے کسی کو کچھ جواب نہ آیا۔بعد قرأت کتابت اُس بہادر نے راس الرئیس سے آنکھ ملائی اور بہ کمال سطوت و صولت تحذیر و تہدید فرمائی۔کہا:"اے بادشاہ،شکنندۂ طلسم سے مقابلہ خلافِ دانائی ہے۔غور تو کر۔اولوالعزم پر کس نے فتح پائی ہے۔دارا نے سکندر سے بگاڑ کر اپنی دارائی مٹائی۔ضحاک نے فریدون سے لڑ کر شکست فاش اٹھائی۔" فضلتا بعضکم علی بعض" یعنی دنیا میں ایک پر ایک غالب ہے۔بلاآخر مردِ آخر بیں وہ ہے جو حقیقت کا طالب ہے۔ہمارا شہنشاہ دنیا دار نہیں،ملک و مال کا خواست گار نہیں۔اُس کو فقط ہدایت سے کام ہے۔ملت بیضا کی پیروی ہے،شریعت غرّا کا التزام ہے۔ایسے خدا دوست کا دشمن بننا کون سے دانشمندی ہے۔امر معقول کو نہ پسند کرنا عین خود پسندی ہے۔بھلا جس نے زمین آسمان بنایا،کل مخلوق کو پردۂ عدم سے بہ عرصۂ شہود لایا۔ہر حال میں حاضر و ناظر،مرگ و زیست پر قادر۔وہ پرسش کا سزاوار ہے اور وہ خدا ہے یا پتھر کو معبود جاننا اور اُس کو پوجنا بجا ہے؟بتوں نے کیا بگاڑا،کیا بنایا؟اُن کے قبضہ قدرت میں بھی کوئی امر آیا۔یہ کسی کی سنتے ہیں،کچھ اپنی کہتے ہیں یا یوں ہی بت بنے رہتے ہیں۔جنہیں اپنی شناخت ہو نہ اور کو پہچانیں۔پتھر پڑیں اِس عقل پر کہ ہم اُن کو خدا جانیں "قاعدہ ہے کہ جب مدعی جواب سے عاجز آتا ہے تو وضع سے دست بردار ہو کر آستینیں چڑھاتا ہے۔ان باتوں نے اُس ناری کو برافروختہ کر دیا۔غصّے میں آکر ہونٹ چبانے لگا۔
بر آستفت ضرباں ازیں قیل و قال
یکے گفت اے پیر دیرینہ سال
منہ دل بریں پند و اندوز سرد
بہ چشم آب وہ اے جہاں دیدہ مرد
بہمت بزرگ و بدعوی درست
چہ بینی ہمیں قاتل پور تست
ریختہ صفحہ - 222
فلک سازگار ست و بختست بکام
کم اُفتد کہ خود صید افتد بدام
مده کار از دست و سستی مکن
بر انداز ایں نخل از بیخ و بن
یہ سنتے ہی اُس کافر نے ایک نعرہ مارا اور اپنے مددگار کو پُکارا کہ"ہاں،لینا اُس اجل گرفتہ کو،جانے دینا۔یہ اُس شخص کے بیٹے کا قاتل ہے۔یہ جواب دینے کے قابل نہیں قتل کرنے کے قابل ہے۔"تمام دربار میں ہلڑ ہو گیا۔کسی نے سپر کھڑکھڑائی،کوئی تلوار کھینچ کر دوڑا خورشید گوہر پوش نے بھی مثل شیر غضب ناک ہمہمہ کیا اور ابر نیام سے برق دشمن سوز کو کھینچ لیا۔ضربان تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔درباریوں کا یہ حال ہوا۔کسی نے چاندنی اوڑھ لی،کوئی کُرسی کے تلے چُھپ گیا۔کسی کی پگڑی رہ گئی،کسی کا شملہ۔کوئی چت ہوا کوئی پٹ۔کوئی گرا،کوئی سنبھلا۔کسی صاحب کا،جو بھاگنے میں پٹکا کھل گیا تو مانند کٹے ہوئے پتنگ کے چھپاتے چلے۔کوئی سایہ پروردہ خدمت گاروں کے آڑ میں ہانپتے کانپتے ڈگمگاتے چلے۔
ایک بے چارے صاف دل،بھولے،دل کو ٹھیرا کر بولے:"تم سب کی کتنی عقل موٹی ہے۔میاں امتیازیوں کی کچی روٹی ہے۔تم کیوں ڈرتے ہو؟تمہیں کون مارتا ہے؟بہادر بہادر للکارتا ہے۔"کوئی حولا خبطا،جو اندھوں کی طرح بھاگا تو محلات کے خیمے میں جا گھسا۔وہاں خواجہ سراؤں نے لے دے کی۔چار طرف سے مار پڑنے لگی۔قرار واقعی جوتے کھائے اور بعد پاپوش کاری باہر آئے۔کہا:"خیر،جوتیاں کھائیں یا ذلت اٹھائی،خدا نے جان تو بچائی۔یہ کس احمق کا قول ہے،جان کا صدقہ مال اور آبرو کا صدقہ جان ہے۔یہاں جان پر سے مال بھی قربان ہے اور آبرو بھی قربان ہے۔"بعضے گھبراہٹ میں،جو تلوار ہی کے منہ پر جا رہے،گڑگڑا کر دانت نکال دیے اور اس طرح گویا ہوئے:خدا سلامت رکھے۔ہم منگلا مکھی ہیں۔کچھ گا بجا کر مانگ کھاتے ہیں۔مجرے کی دھن میں آئے تھے۔دو چار نئی چیزیں بنا کر لائے تھے سو،پیرو مرشد،اب کلیجہ اُلٹ پلٹ ہے،بھاگے جاتے ہیں۔"
ریختہ صفحہ - 223
یہ تو نامردوں کے تذکرے تھے۔اب مردوں کا خیال سنیے۔جو غریب تلوار کی روٹی کھاتے تھے وہ چار نا چار سامنے آئے۔بعضوں نے زخمِ کاری کھا کر جان دی،بعضے مجروح ہو کر خون میں نہائے۔اُس وقت خورشید گوہر پوش کی یہ صورت تھی جیسے کانٹوں میں پھول اور دانتوں میں زبان مگر واہ رے بے جگر دلاور،واہ رے شیر دل جوان۔جدھر تلوار تول کر جھپٹا کائی سی پھٹ گئی۔جب جانچ کر ہاتھ مارا سپر گردۂ پنیر کی طرح کٹ گئی۔فتح نصیب ایسے ہوتے ہیں۔الله ری سرت پھرت،الله ری ہاتھ کی صفائی۔کتنوں کو زخمی کیا،کتنوں کو مارا مگر فضل خدا سے اپنے اوپر لہو کی چھینٹ بھی نہ آئی۔غرض لڑتا بھڑتا اُس مجمع سے نکلا اور گُل گون صبا دم پر سوار ہوا۔اب کون آتا ہے کوئی ہوا کو بھی پاتا ہے؟
وہ توسن طرارے جو بھرنے لگا
تو اُڑ اُڑ کے برچھوں اترنے لگا
پری زاد تھا یا وہ راہ وار تھا
ہوا تھا،چھلاوا تھا،اسرار تھا
بھلاوا بتاتا وہ آہو چلا
نہ افسوں چلا اور نہ جادو چلا
بڑھے روکنے اردلی کے سوار
وہ غل،وہ صدائے بگیرو بدار
چکا چوند میں آئے اہلِ نظر
وہ برق جہاں چھپ گئی کوند کر
اُدھر آنکھ ملتے رہے لشکری
اُدھر جا ملا فوج میں وہ جری
دونوں طرف کمر بندی ہو گئی۔تلنگوں میں طنبور ہوا،نجیبوں میں وردی بجی۔صوبہ اران نے تلنگوں کی کمپنیوں سے گُل لالہ کھلایا۔سنگین سے سنگین،کندے سے کندا،کاندھے سے کاندھا،قدم سے قدم ملایا۔کمیدانوں نے نجيبوں کا پرّا جمایا۔دستے دستے کو گُل دستہ بنایا۔توپیں دارابیوں پر چڑھ گئیں کچھ پیچھے ہٹ گئیں،کچھ آگے بڑھ گئیں۔
ریختہ صفحہ - 224
یہاں ایک طرف پردۂ قاف کے جراروں نے پر تو لے۔ایک طرف یاقوت شاہ کے ہمراہیوں نے نشانوں کے شقے کھولے۔ہر بہادر نے دریائے آہن میں غوطہ لگایا۔نہنگ مردم خوار بن کر معرکے میں آیا۔وہ سواروں کی شوکت،وہ پیدلوں کی صولت۔وہ صف آرائی تھی یا شاہ نامے کی سطر بندی کا التزام،وہ بندو بست تھا یا نظم فردوسی کا انتظام۔
خورشید گوہر پوش بھی اپنے مہاجر و انصار لے کر قلب لشکر میں آیا۔چتر برداروں نے دوڑ کر سر چتر زر لگایا۔اُدھر کوس افراسیابی پر،اُدھر طبل اسکندری پر چوٹ پڑی نگاہ سے نگاہ اور آواز سے آواز لڑی۔صدائے بوق تا بہ ایوق پہنچی۔دمامے کے دمدمے نے نقارہ گردوں پر چوٹ کی۔پھریرے علموں کے کھل کر ہوا پر لہرائے،گویا دریائے حرب و ضرب طغیانی پر آئے۔نقیبوں نے للکار کر کہا:"ہاں،بہادران واقعہ دیدہ و صفدران جنگ آزمودہ،ہوشیار!میمنہ،میسرہ،قلب جناح،ساقہ،کمیں گاہ سے خبردار!"کڑکتیوں نے شہانی دھن میں کڑکا شروع کیا۔دلیروں اور دلاوروں کے دلوں کو لڑائی کی طرف رجوع کیا۔آواز دی:"سورما جوانو،تلواریں تولو،برچھیاں تانو۔پیٹھ پھیرنا ہیجڑوں کا کام ہے۔سر مکھ ہونا سپاہیوں کا کام ۔نا مردوں کا وہ نام ہے،مردوں کا یہ نام۔
پگ آگے پت رہے اور پگ پیچھے پت جائے
نامی کامی رن چڑھے نرور چھائیں دھائے"
من چلے اولو العزام اُس دھن پر سر دھننے لگے۔نشۂ جرأت کے مخمور دل جیت،رن سور مست ہو ہو کر سننے لگے یعنی شجاعت کے دھنی جھومنے لگے اور تلواروں کے قبضے چومنے لگے۔کوئی نیزہ ہلا نے لگا۔کوئی ترک چرخ سے آنکھیں ملانے لگا۔کوئی پٹے کے ہاتھ نکالنے لگا،کوئی باڑھ شمشیر آب دار کی انگلیوں پر دیکھنے بھالنے لگا۔کسی نے ترکش سے تیر لیا اور کمان کا چلہ چڑھایا۔کسی نے بھی قصد سبقت گھوڑے کو چھچکار کر بڑھایا۔ایک نے ایک سے کہا:"ہاں،بھائی،آج بہادری کا امتحان ہے۔یہی شیروں کا جنگل ہے،یہی دلیروں کا دنگل ہے۔یہی گوئے،یہی میدان ہے۔دیکھیں کون منہ پر تلواریں کھاتا ہے۔دیکھیں کون آقا کے پسینے پر لہو گراتا ہے۔خدا بات رکھ لے۔سر رہے یا جائے،جب تک جان میں جان ہے۔آن بان میں فرق نہ آئے۔"ایک بولا:ان شاء الله،کشتوں کے پشتے لگا
ریختہ صفحہ - 225
دیں گے۔دم بھر میں اُن دبنگیوں کو نوک دم بھگا دیں گے۔
اُس وقت کا عالم بھی بس دید کے قابل تھا
جو صفدر و غازی تھا بشاش تھا خوش دل تھا
ڈھالوں کی سیاہی سے گھنگھور گھٹا چھائی
چمکیں جو اپی تیغیں بجلی کو نہ تاب آئی
نیزوں کا نیستاں تھا،میدان سنانوں کا
وہ دور کمانوں کا،وہ اُوج نشانوں کا
خون خوار جوانوں کی خوں خوار نگاہیں تھیں
نعرے تھے دلیرانہ،شیرانہ صدائیں تھیں
اور نامرد مردوں کے پیچھے جی چھپائے کھڑے تھے۔انا چھو چھو کی سعی سے نوکر ہو کے غضب میں پڑے تھے۔آنکھیں بند کیے کہ بجلی تلواروں کی نہ دکھائی دے اور کانوں میں انگلیاں دیے کہ آواز توپ بندوق کی نہ سنائی دے۔بعضے دائی چنبیلی کے مرزا موگرا چکنی چپڑی صورت بنانے والے،ماما پختڑیاں کھانے والے،کمربندی کا ذکر سن کر زرد ہو گئے۔دل میں ہول سمایا،پیٹ میں گھوڑے دوڑے،منہ پر ہوائیاں اُڑیں،ہاتھ پاؤں سرد ہو گئے۔
بعضوں کا اس حال سے پیخانہ خطا ہو گیا۔بعضے ایسے بوکھلائے کہ مارے ڈر کے کھڑے کھڑے موت دیا۔بعضے بزدلوں کو یہ گرما گرمی دیکھ کر جاڑے کی تپ چڑھی۔کانپنے لگے،تھرتھرانے لگے۔لحاف تو اُس وقت ممکن نہ ہوا۔گھوڑے کی گردنی اوڑھ کر دانت سے دانت بجانے لگے۔ایک صاحب بولے:"ہے ہے،میرا تو جیتا لہو دیکھ کر دم نکلتا ہے۔کلیجہ بانسوں اچھلتا ہے۔کبھی مرغی حلال ہوتے دیکھی ہے تو غش پر غش آتے ہیں۔احیانا اگر بلوچ پورے میں جا نکلے ہیں تو وہاں سے دوست آشنا اٹھا کر لائے ہیں۔اسی خیال سے عمر بھر خلال نہیں کی۔گوشت کھانے کی قسم کھائی۔ ہم نہیں جانتے،جونکیں کیسی ہوتی ہیں،پچھنے کیوں کر لگواتے ہیں۔فصد کے نام سے خون خشک ہوتا ہے،دانت بیٹھ جاتے ہیں۔جب دلہن بیاہ کر لائے تو یاروں سے بکرا حلال کروایا۔تخت کی رات ہم تو فلک سیر کے نشے میں پڑے رہے۔پڑوسیوں نے آ کر گڑھی کو فتح کیا۔صف جنگ میں تو اُن لوگوں کا
لشکر میں ایلچی کے آنے کی دھوم ہوئی ضربان بے ایمان کو بھی یے خبر معلوم ہوئی۔دربارِ عام کا حکم دیا۔خورشید گوہر پوش نے اُس فصاحت و بلاغت سے نامہ پڑھا کہ حاضرینِ جلسہ کو سکتہ طاری ہو گیا سب نے ایک سرے سے سرِ تسلیم جھکایا۔ بہ جز دم بخود ہونے کے کسی کو کچھ جواب نہ آیا۔بعد قرأت کتابت اُس بہادر نے راس الرئیس سے آنکھ ملائی اور بہ کمال سطوت و صولت تحذیر و تہدید فرمائی۔کہا:"اے بادشاہ،شکنندۂ طلسم سے مقابلہ خلافِ دانائی ہے۔غور تو کر۔اولوالعزم پر کس نے فتح پائی ہے۔دارا نے سکندر سے بگاڑ کر اپنی دارائی مٹائی۔ضحاک نے فریدون سے لڑ کر شکست فاش اٹھائی۔" فضلتا بعضکم علی بعض" یعنی دنیا میں ایک پر ایک غالب ہے۔بلاآخر مردِ آخر بیں وہ ہے جو حقیقت کا طالب ہے۔ہمارا شہنشاہ دنیا دار نہیں،ملک و مال کا خواست گار نہیں۔اُس کو فقط ہدایت سے کام ہے۔ملت بیضا کی پیروی ہے،شریعت غرّا کا التزام ہے۔ایسے خدا دوست کا دشمن بننا کون سے دانشمندی ہے۔امر معقول کو نہ پسند کرنا عین خود پسندی ہے۔بھلا جس نے زمین آسمان بنایا،کل مخلوق کو پردۂ عدم سے بہ عرصۂ شہود لایا۔ہر حال میں حاضر و ناظر،مرگ و زیست پر قادر۔وہ پرسش کا سزاوار ہے اور وہ خدا ہے یا پتھر کو معبود جاننا اور اُس کو پوجنا بجا ہے؟بتوں نے کیا بگاڑا،کیا بنایا؟اُن کے قبضہ قدرت میں بھی کوئی امر آیا۔یہ کسی کی سنتے ہیں،کچھ اپنی کہتے ہیں یا یوں ہی بت بنے رہتے ہیں۔جنہیں اپنی شناخت ہو نہ اور کو پہچانیں۔پتھر پڑیں اِس عقل پر کہ ہم اُن کو خدا جانیں "قاعدہ ہے کہ جب مدعی جواب سے عاجز آتا ہے تو وضع سے دست بردار ہو کر آستینیں چڑھاتا ہے۔ان باتوں نے اُس ناری کو برافروختہ کر دیا۔غصّے میں آکر ہونٹ چبانے لگا۔
بر آستفت ضرباں ازیں قیل و قال
یکے گفت اے پیر دیرینہ سال
منہ دل بریں پند و اندوز سرد
بہ چشم آب وہ اے جہاں دیدہ مرد
بہمت بزرگ و بدعوی درست
چہ بینی ہمیں قاتل پور تست
ریختہ صفحہ - 222
فلک سازگار ست و بختست بکام
کم اُفتد کہ خود صید افتد بدام
مده کار از دست و سستی مکن
بر انداز ایں نخل از بیخ و بن
یہ سنتے ہی اُس کافر نے ایک نعرہ مارا اور اپنے مددگار کو پُکارا کہ"ہاں،لینا اُس اجل گرفتہ کو،جانے دینا۔یہ اُس شخص کے بیٹے کا قاتل ہے۔یہ جواب دینے کے قابل نہیں قتل کرنے کے قابل ہے۔"تمام دربار میں ہلڑ ہو گیا۔کسی نے سپر کھڑکھڑائی،کوئی تلوار کھینچ کر دوڑا خورشید گوہر پوش نے بھی مثل شیر غضب ناک ہمہمہ کیا اور ابر نیام سے برق دشمن سوز کو کھینچ لیا۔ضربان تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔درباریوں کا یہ حال ہوا۔کسی نے چاندنی اوڑھ لی،کوئی کُرسی کے تلے چُھپ گیا۔کسی کی پگڑی رہ گئی،کسی کا شملہ۔کوئی چت ہوا کوئی پٹ۔کوئی گرا،کوئی سنبھلا۔کسی صاحب کا،جو بھاگنے میں پٹکا کھل گیا تو مانند کٹے ہوئے پتنگ کے چھپاتے چلے۔کوئی سایہ پروردہ خدمت گاروں کے آڑ میں ہانپتے کانپتے ڈگمگاتے چلے۔
ایک بے چارے صاف دل،بھولے،دل کو ٹھیرا کر بولے:"تم سب کی کتنی عقل موٹی ہے۔میاں امتیازیوں کی کچی روٹی ہے۔تم کیوں ڈرتے ہو؟تمہیں کون مارتا ہے؟بہادر بہادر للکارتا ہے۔"کوئی حولا خبطا،جو اندھوں کی طرح بھاگا تو محلات کے خیمے میں جا گھسا۔وہاں خواجہ سراؤں نے لے دے کی۔چار طرف سے مار پڑنے لگی۔قرار واقعی جوتے کھائے اور بعد پاپوش کاری باہر آئے۔کہا:"خیر،جوتیاں کھائیں یا ذلت اٹھائی،خدا نے جان تو بچائی۔یہ کس احمق کا قول ہے،جان کا صدقہ مال اور آبرو کا صدقہ جان ہے۔یہاں جان پر سے مال بھی قربان ہے اور آبرو بھی قربان ہے۔"بعضے گھبراہٹ میں،جو تلوار ہی کے منہ پر جا رہے،گڑگڑا کر دانت نکال دیے اور اس طرح گویا ہوئے:خدا سلامت رکھے۔ہم منگلا مکھی ہیں۔کچھ گا بجا کر مانگ کھاتے ہیں۔مجرے کی دھن میں آئے تھے۔دو چار نئی چیزیں بنا کر لائے تھے سو،پیرو مرشد،اب کلیجہ اُلٹ پلٹ ہے،بھاگے جاتے ہیں۔"
ریختہ صفحہ - 223
یہ تو نامردوں کے تذکرے تھے۔اب مردوں کا خیال سنیے۔جو غریب تلوار کی روٹی کھاتے تھے وہ چار نا چار سامنے آئے۔بعضوں نے زخمِ کاری کھا کر جان دی،بعضے مجروح ہو کر خون میں نہائے۔اُس وقت خورشید گوہر پوش کی یہ صورت تھی جیسے کانٹوں میں پھول اور دانتوں میں زبان مگر واہ رے بے جگر دلاور،واہ رے شیر دل جوان۔جدھر تلوار تول کر جھپٹا کائی سی پھٹ گئی۔جب جانچ کر ہاتھ مارا سپر گردۂ پنیر کی طرح کٹ گئی۔فتح نصیب ایسے ہوتے ہیں۔الله ری سرت پھرت،الله ری ہاتھ کی صفائی۔کتنوں کو زخمی کیا،کتنوں کو مارا مگر فضل خدا سے اپنے اوپر لہو کی چھینٹ بھی نہ آئی۔غرض لڑتا بھڑتا اُس مجمع سے نکلا اور گُل گون صبا دم پر سوار ہوا۔اب کون آتا ہے کوئی ہوا کو بھی پاتا ہے؟
وہ توسن طرارے جو بھرنے لگا
تو اُڑ اُڑ کے برچھوں اترنے لگا
پری زاد تھا یا وہ راہ وار تھا
ہوا تھا،چھلاوا تھا،اسرار تھا
بھلاوا بتاتا وہ آہو چلا
نہ افسوں چلا اور نہ جادو چلا
بڑھے روکنے اردلی کے سوار
وہ غل،وہ صدائے بگیرو بدار
چکا چوند میں آئے اہلِ نظر
وہ برق جہاں چھپ گئی کوند کر
اُدھر آنکھ ملتے رہے لشکری
اُدھر جا ملا فوج میں وہ جری
دونوں طرف کمر بندی ہو گئی۔تلنگوں میں طنبور ہوا،نجیبوں میں وردی بجی۔صوبہ اران نے تلنگوں کی کمپنیوں سے گُل لالہ کھلایا۔سنگین سے سنگین،کندے سے کندا،کاندھے سے کاندھا،قدم سے قدم ملایا۔کمیدانوں نے نجيبوں کا پرّا جمایا۔دستے دستے کو گُل دستہ بنایا۔توپیں دارابیوں پر چڑھ گئیں کچھ پیچھے ہٹ گئیں،کچھ آگے بڑھ گئیں۔
ریختہ صفحہ - 224
یہاں ایک طرف پردۂ قاف کے جراروں نے پر تو لے۔ایک طرف یاقوت شاہ کے ہمراہیوں نے نشانوں کے شقے کھولے۔ہر بہادر نے دریائے آہن میں غوطہ لگایا۔نہنگ مردم خوار بن کر معرکے میں آیا۔وہ سواروں کی شوکت،وہ پیدلوں کی صولت۔وہ صف آرائی تھی یا شاہ نامے کی سطر بندی کا التزام،وہ بندو بست تھا یا نظم فردوسی کا انتظام۔
خورشید گوہر پوش بھی اپنے مہاجر و انصار لے کر قلب لشکر میں آیا۔چتر برداروں نے دوڑ کر سر چتر زر لگایا۔اُدھر کوس افراسیابی پر،اُدھر طبل اسکندری پر چوٹ پڑی نگاہ سے نگاہ اور آواز سے آواز لڑی۔صدائے بوق تا بہ ایوق پہنچی۔دمامے کے دمدمے نے نقارہ گردوں پر چوٹ کی۔پھریرے علموں کے کھل کر ہوا پر لہرائے،گویا دریائے حرب و ضرب طغیانی پر آئے۔نقیبوں نے للکار کر کہا:"ہاں،بہادران واقعہ دیدہ و صفدران جنگ آزمودہ،ہوشیار!میمنہ،میسرہ،قلب جناح،ساقہ،کمیں گاہ سے خبردار!"کڑکتیوں نے شہانی دھن میں کڑکا شروع کیا۔دلیروں اور دلاوروں کے دلوں کو لڑائی کی طرف رجوع کیا۔آواز دی:"سورما جوانو،تلواریں تولو،برچھیاں تانو۔پیٹھ پھیرنا ہیجڑوں کا کام ہے۔سر مکھ ہونا سپاہیوں کا کام ۔نا مردوں کا وہ نام ہے،مردوں کا یہ نام۔
پگ آگے پت رہے اور پگ پیچھے پت جائے
نامی کامی رن چڑھے نرور چھائیں دھائے"
من چلے اولو العزام اُس دھن پر سر دھننے لگے۔نشۂ جرأت کے مخمور دل جیت،رن سور مست ہو ہو کر سننے لگے یعنی شجاعت کے دھنی جھومنے لگے اور تلواروں کے قبضے چومنے لگے۔کوئی نیزہ ہلا نے لگا۔کوئی ترک چرخ سے آنکھیں ملانے لگا۔کوئی پٹے کے ہاتھ نکالنے لگا،کوئی باڑھ شمشیر آب دار کی انگلیوں پر دیکھنے بھالنے لگا۔کسی نے ترکش سے تیر لیا اور کمان کا چلہ چڑھایا۔کسی نے بھی قصد سبقت گھوڑے کو چھچکار کر بڑھایا۔ایک نے ایک سے کہا:"ہاں،بھائی،آج بہادری کا امتحان ہے۔یہی شیروں کا جنگل ہے،یہی دلیروں کا دنگل ہے۔یہی گوئے،یہی میدان ہے۔دیکھیں کون منہ پر تلواریں کھاتا ہے۔دیکھیں کون آقا کے پسینے پر لہو گراتا ہے۔خدا بات رکھ لے۔سر رہے یا جائے،جب تک جان میں جان ہے۔آن بان میں فرق نہ آئے۔"ایک بولا:ان شاء الله،کشتوں کے پشتے لگا
ریختہ صفحہ - 225
دیں گے۔دم بھر میں اُن دبنگیوں کو نوک دم بھگا دیں گے۔
اُس وقت کا عالم بھی بس دید کے قابل تھا
جو صفدر و غازی تھا بشاش تھا خوش دل تھا
ڈھالوں کی سیاہی سے گھنگھور گھٹا چھائی
چمکیں جو اپی تیغیں بجلی کو نہ تاب آئی
نیزوں کا نیستاں تھا،میدان سنانوں کا
وہ دور کمانوں کا،وہ اُوج نشانوں کا
خون خوار جوانوں کی خوں خوار نگاہیں تھیں
نعرے تھے دلیرانہ،شیرانہ صدائیں تھیں
اور نامرد مردوں کے پیچھے جی چھپائے کھڑے تھے۔انا چھو چھو کی سعی سے نوکر ہو کے غضب میں پڑے تھے۔آنکھیں بند کیے کہ بجلی تلواروں کی نہ دکھائی دے اور کانوں میں انگلیاں دیے کہ آواز توپ بندوق کی نہ سنائی دے۔بعضے دائی چنبیلی کے مرزا موگرا چکنی چپڑی صورت بنانے والے،ماما پختڑیاں کھانے والے،کمربندی کا ذکر سن کر زرد ہو گئے۔دل میں ہول سمایا،پیٹ میں گھوڑے دوڑے،منہ پر ہوائیاں اُڑیں،ہاتھ پاؤں سرد ہو گئے۔
بعضوں کا اس حال سے پیخانہ خطا ہو گیا۔بعضے ایسے بوکھلائے کہ مارے ڈر کے کھڑے کھڑے موت دیا۔بعضے بزدلوں کو یہ گرما گرمی دیکھ کر جاڑے کی تپ چڑھی۔کانپنے لگے،تھرتھرانے لگے۔لحاف تو اُس وقت ممکن نہ ہوا۔گھوڑے کی گردنی اوڑھ کر دانت سے دانت بجانے لگے۔ایک صاحب بولے:"ہے ہے،میرا تو جیتا لہو دیکھ کر دم نکلتا ہے۔کلیجہ بانسوں اچھلتا ہے۔کبھی مرغی حلال ہوتے دیکھی ہے تو غش پر غش آتے ہیں۔احیانا اگر بلوچ پورے میں جا نکلے ہیں تو وہاں سے دوست آشنا اٹھا کر لائے ہیں۔اسی خیال سے عمر بھر خلال نہیں کی۔گوشت کھانے کی قسم کھائی۔ ہم نہیں جانتے،جونکیں کیسی ہوتی ہیں،پچھنے کیوں کر لگواتے ہیں۔فصد کے نام سے خون خشک ہوتا ہے،دانت بیٹھ جاتے ہیں۔جب دلہن بیاہ کر لائے تو یاروں سے بکرا حلال کروایا۔تخت کی رات ہم تو فلک سیر کے نشے میں پڑے رہے۔پڑوسیوں نے آ کر گڑھی کو فتح کیا۔صف جنگ میں تو اُن لوگوں کا