وہ نا جانےکتنے ہی کوس دشتِ صحرا نما میں چشمے کی تلاش کے واسطے سمیٹ چکا تھا۔ اب تو چلتے چلتے اسے یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ اور کچھ لحظہ لمسِ نیل گوں نہ ملا تو کوزۂِ تشنگی پھینک کر وجودِ ریگ ہونا پڑ جائے گا ۔۔ خیر! حدِ نگاہ کے تعاقب میں بھٹکتے کچھ ہی دیر کے بعد اسے اچانک ایک سوار دکھائی دیا۔ ایسا ہشاش بشاش اور خوش لباس ۔۔۔ یوں لگتا تھا جیسے ابھی ابھی چشمۂ خضر سے ہو کر آ رہا ہو۔
" سلامتی ہو اے مردِ خدا! " ۔۔۔۔۔ " میں اس ریگ زار میں بھٹکتے خاکِ راہ ہو رہا ہوں اور تیرے لباس پر ایک شکن تک نہیں، ایسا کیسے ممکن ہے؟ "
اس نے ایک نگاہ اس اجنبی کی خستہ حالی پر ڈالی اور مسکرا کر بولا ،
"اے مسافر! فکر نہ کر ، تو دیارِ بہار کے بہت قریب پہنچ چکا ہے " ۔۔ یہ کہہ کر وہ خوش پوش روانہ ہونے ہی لگا تھا کہ اس اجنبی نے پھر سے پکارا،
" اے مرد خوش لباس! میری مدد کر کہ اب اور یہ بارِ سفر نہ اٹھایا جائے گا، مجھے اس گلستاں تک لے چل جس کی بشارت تو دے رہا ہے "
خوش پوش نے اجنبی کو بغور دیکھا اور بولا،
" ٹھیک ہے، مگر صرف اس شرط پر کہ ابھی تیرے پاس جو کچھ بھی سامان ہے وہاں پہنچ کر اس کی ملکیت میرے نام کر دے گا "
ایک لحظہ کو اجنبی خاموش رہا، پھر مخاطب ہوا،
" اے راہبر ! مجھے فکر ہے کہ اس خاک پوش کا سامان تیرے کچھ کام نہ آئے گا اور اس کے عوض میں تیرا احسان نہ اتار سکوں گا! "
"تو اس کی فکر نہ کر! "
یہ کہہ کر سوار نے اپنی سواری کا رخ موڑا اور رخِ مشرق چل پڑا۔
اجنبی مسافر نے اس خوش پوش کے ساتھ کچھ ہی سفر طے کیا تھا کہ ایک خوشبو بھرا ہوا کا جھونکا اس کے چہرے کو چھو کر گزرا۔ اس نے جو اپنی بوجھل پلکوں کو اٹھا کر دیکھا تو اس کی نظر ایک عجب منظر ہوش ربا پر پڑی ۔۔۔۔ آگے پیچھے چند اخضری ٹیلے تھے جن کے بیچ و بیچ ایک چشمہ بہہ رہا تھا اور سُرخ و سُرمئی پرندے ان پر محو پرواز تھے۔ " یا خدا! " وہ حیرت میں ڈوبا بس اتنا ہی کہہ سکا۔ ان ٹیلوں سے پرےنگاہ نہیں پہنچ سکی۔ جلد ہی وہ اپنے خضرِ راہ کے ہمراہ اس خیال افروز وادی کی زمیں پر قدم رکھ چکا تھا۔ جونہی وہ ان اخضری ٹیلوں کے بیچ بہتے رنگ برنگ چشمہ کے پاس پہنچا تو فوراً چلو بنا کر بہتا رقیقِ شفاف بھرنے لگا۔ ناگہاں کہیں سے ایک وجودِ تند رو آیا اور اس کو جھڑک دیا،
" اے مسافر صبر رکھ! تجھے پانی پینے کو ملے گا، مگر یہاں نہیں! "
اس سے گھبراہٹ میں چلو میں بھرا پانی بھی چھوٹ گیا۔ مجسم حیرت بنا اپنے راہبر کی تقلید میں وہ وادی کے بیچ میں چلتا رہا۔ راہ میں کئی طرح کے سحر آفریں کرتبِ قدرت جلوہ نما تھے۔ کہیں پر سازندے کسی جاذب مطرب کے ساتھ فضا میں جادو بھر رہے ہیں تو کہیں کوئی سندر ناری ناچتے موروں سے محظوظ ہو رہی ہے۔ اس سے تھوڑا آگے لوگ کھیل کود میں مصروف تھے ، مگر یہ لوگ باغ کے ساکن نہیں بلکہ اسی جیسے مسافر معلوم ہوتے تھے۔ کہیں پر رسہ کشی چل رہی تھی تو کہیں گھڑ سواری ہو رہی تھی۔ کہیں دنگل تھا تو کہیں پنجہ آزمائی! مگر عجیب بات یہ تھی کہ وہ سب اپنے چہروں پر اِک عجب تسکین لیئے تھے۔ جیسے انہیں یاد ہی نہ تھا کہ ان کی خستہ پوشاکیں بوجہ دھولِ راہ کتنی گدلی ہو چکی ہیں اور ان کے موزے خراشِ سفر سے پھٹ چکے ہیں۔ سب ایک انجانی خوشی سے بھرے ہوئے تھے۔
اچانک مسافر نے خوش پوش کو پھر مخاطب کیا،
" اے فرشتہ صفت! مجھ سے اب یہ پیاس اور نہیں سہی جاتی! "
اس سے پہلے کہ اس کا رہبر کچھ جواب دیتا اس کی نظر اس وادی کے عین وسط میں موجود ایک شجر پر پڑی۔ جس کے پتے جالی نما تھے کہ ان میں سے روشنی تو گزرتی مگر تپش گزرنے نہ پاتی تھی۔ اجنبی مسافر اب سمجھا کہ بیچ ریگ زار اس وادی میں شدتِ موسم کی رسائی کیوں نہ تھی۔ اس نے دیکھا کہ اس درخت کی تناور شاخیں بانہوں کی مانند دور دور تک وادی کو سمیٹے ہوئے تھیں۔ عمر رسیدہ ہونے کے باعث اس کا تنا کئی گز کے دائرے پر قابض تھا۔ وقت کے ساتھ اس کے تنے کی طنابیں کھنچ جانے کی وجہ سے قدِ آدم کے برابر جگہ جگہ خلا سے پیدا ہو چکے تھے جن میں کئی ایک مکین سستا رہے تھے ۔۔۔ اس کی دیوہیکل جڑوں کے ابھار اِک عالی شان تخت سا لگ رہے تھے ۔۔ اور پھر اس کی نظر اس تختِ نایاب پر براجمان ایک پیکر نازنیں پر تھم گئی۔ بچوں کی طرح اس نے آنکھیں ملیں کہ کہیں یہ محض فریبِ نظر تو نہ تھا۔ ایک نور فِشاں ، پیکر ِحسن اپنی بانہوں میں مشکیزہ دبائے اپنے سامنے موجود ایک بڑے جھرمٹ کے سوالی پیالے بھر رہی تھی۔ اس کی غزال آنکھیں گھنی پلکوں کے بوجھ سے جھکی جا رہی تھیں۔ چند ایک پرندِ سرخ بھی ارد گرد چہچہا رہے تھے۔ وہ لختِ جمال ، حُسن آرا اس مشکیزہ سے حاضرین کی تشنہ لبی کا سبب کیئے جاتی مگر پانی کم نہ ہوتا۔ پھر اپنے راہنما کی جانب سے اشارہ پا کر وہ بھی شریک مجلس ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں جو اس کی باری آئی تو انجانے سبب کو اس کی نگاہیں احترماً جھک گئیں، شائد اس مجسمِ دل ربا کا حُسن ضبط کرنا اس کی حدِ بساط سے باہر تھا۔ کاسۂ ہتھیلی اس مشکیزہ بردار کے آگے کیا تو ایک دھار رواں ہوئی اور بے حد شفاف اور ٹھنڈا پانی اس کی ہتھیلیوں کے بیچ بھر گیا۔ اس نے جو گھونٹ بھرنے شروع کیئے تو اسے یک دم یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے اس کا بارِ سر اتار پھینکا ہو، وہ جو صدیوں کی الجھن تھی من میں، کسی چارہ گر کی مسیحائی کی زد ہو گئی ہو۔ اس تاثیر نو میں بہتے ہوئے وہ سانس لینا بھی بھول گیا۔
اسی اثنا میں ایک مترنم ، مِثلِ کوئل آواز ماحول کو تازگی بخش گئی،
" یہ سوغات، شکم سیری کے لیئے نہیں ۔۔۔۔ پس! دوسروں کی پیاس کا خیال رکھو! "
اور اس نے فوراً ہاتھ کھینچ لیئے ، سر جھکائے انہی قدموں پر وہ محفل کے کنارے پہنچ کر اس پیکر لطیف کی دید کرنے لگا۔ ابھی کچھ ہی پل نکلے ہوں گے کہ کسی نے اس کے کاندھے کو جھلایا۔ اس نے چونک کر دیکھا تو وہی خوش پوش ، راہبر خوش نما کھڑا تھا۔
" ہم نے اپنا وعدہ نبھایا، اب تُم بھی اپنا عقد سچ کر دکھاؤ۔ "
اجنبی مسافر نے ایک تعجب بھرے احساس کے ساتھ اپنی زنبیل کاندھے سے اتار کے راہبر کے حوالے کر دی۔ پھر اس نے سوال کیا،
" اے محسن، کیا میں جان سکتا ہوں کہ یہ میری زنبیلِ سیاہ اس قدر اہم کیوں ہے؟ "
اس خوش پوش نے زنبیل سنبھالی اور ایک مسکان بھرکر بولا،
" تیری زیست پر صرف یہی ایک بار باقی تھا، پس! اس کا ہٹانا مقصود تھا! "
یہ کہہ کر جب سوار اپنی شہ سواری کو پلٹا کر چلنے لگا، تو مسافر نے پھر سوال کیا،
" اے سعید الفطرت! ایک آخری سوال اور، یہ مجسمِ حسن ، مشکیزہ بردار کون ہے؟ "
" جانِ لشکر ! " ۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ سوار اپنی سواری کے ساتھ حسیں نظاروں میں گُم ہو گیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس کی نویں سالگرہ پر،
وجہِ تبسم! میری دل ربا محفل کے نام!
از فصیح احمد