محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
جسے پہچانے دل اور جس کو جانے من
وہ ہے گلفام و دل آرام و جانِ من
ضروری تو نہیں محبوب مل جائے
تصور بھی بہت ہے ان کا جان اے من!
میں نے اپنی دانست میں صنعتِ تجنیس تام سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔اصولی طور پر یہ قافیہ کے نواقض ہیں کہ ایک پر دوسرے کا اشتباہ ہو۔
مزمل شیخ بسمل بہتر بتا سکتے ہیں۔
ضرور ان شاء اللہ۔ مشق کے دور سے گزر رہا ہوں، بلکہ مشق کے دور کی بھی ابھی شروعات ہے۔صنائع بدائع سے کام لیجئے صاحب، صنائع بدائع پر انحصار نہ کیجئے۔
بہت آداب۔
بھائی جان، اگرچہ غالب کہہ گیا ہے: "لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی"، مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہر وقت "کثافت" ہی سے کام لیا جائے۔ "صنعتِ تجنیس" کی تشریح کے لیے مجھ عاجز کو لغت کھولنی پڑے گی۔ پھر بھی گارنٹی نہیں کہ سمجھ میں کچھ آئے یا نہ آئے۔ کسی آسان چیز سے کام نہیں لیا جاسکتا؟میں نے اپنی دانست میں صنعتِ تجنیس تام سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔
تشریف لاتے ہی تفعیل کی تقریر تحریر کردی اور ان مصادر کی پوری تسبیح پڑھ ڈالی، تخمین ہے کہ آپ کے استاد نے بڑی تاکید کے ساتھ عربی پڑھاتے وقت باب تفعیل کی تمرین کروائی ہے۔آپ کی تفعیلی تہذیب کی میں تصدیق کرتا ہوں۔دو دن قبل کوئی صاحب "تسبیغ" سے کام لے رہے تھے۔ آج آپ "تجنیس" سے کام لے رہے ہیں۔ اگر "فعّل یفعّل تفعیل" کی یہی گردان رہی، تو مجھے محفل میں جائے اماں نہ ملے گی۔ محمد یعقوب آسی صاحب کہ صاحبِ علم ہیں، گزارہ کر لیں گے، مگر یہ فقیر تو "تشریح" کی غیر موجودگی میں موٹی موٹی اصطلاحات کی اس "تکثیر" کے سبب اپنی "تخفیف" گوارا نہ کر سکے گا۔ امید یہی ہے کہ آپ میری اس بات کو "تنبیہہ" سمجھتے ہوئے اپنی روش پر نظرِ ثانی کریں گے۔ اس سے زیادہ "تصریح" میں نہیں کر سکتا۔ میری نصیحت کو "تفریح" نہ سمجھا جائے۔ یہ سچ مچ میرے خیالات کی "توضیح" ہے۔
دو دن قبل کوئی صاحب "تسبیغ" سے کام لے رہے تھے۔ آج آپ "تجنیس" سے کام لے رہے ہیں۔ اگر "فعّل یفعّل تفعیل" کی یہی گردان رہی، تو مجھے محفل میں جائے اماں نہ ملے گی۔ محمد یعقوب آسی صاحب کہ صاحبِ علم ہیں، گزارہ کر لیں گے، مگر یہ فقیر تو "تشریح" کی غیر موجودگی میں موٹی موٹی اصطلاحات کی اس "تکثیر" کے سبب اپنی "تخفیف" گوارا نہ کر سکے گا۔ امید یہی ہے کہ آپ میری اس بات کو "تنبیہہ" سمجھتے ہوئے اپنی روش پر نظرِ ثانی کریں گے۔ اس سے زیادہ "تصریح" میں نہیں کر سکتا۔ میری نصیحت کو "تفریح" نہ سمجھا جائے۔ یہ سچ مچ میرے خیالات کی "توضیح" ہے۔
مزید دل چسپ!۔تشریف لاتے ہی تفعیل کی تقریر تحریر کردی اور ان مصادر کی پوری تسبیح پڑھ ڈالی، تخمین ہے کہ آپ کے استاد نے بڑی تاکید کے ساتھ عربی پڑھاتے وقت باب تفعیل کی تمرین کروائی ہے۔آپ کی تفعیلی تہذیب کی میں تصدیق کرتا ہوں۔
جزاکم اللہ خیرا۔مزید دل چسپ!۔
تشریف لاتے ہی تفعیل کی تقریر تحریر کردی اور ان مصادر کی پوری تسبیح پڑھ ڈالی، تخمین ہے کہ آپ کے استاد نے بڑی تاکید کے ساتھ عربی پڑھاتے وقت باب تفعیل کی تمرین کروائی ہے۔آپ کی تفعیلی تہذیب کی میں تصدیق کرتا ہوں۔
صاحبو! اپنی کیفیت اِس وقت اُس عجمی کی سی ہے جو دو عربوں کی تکرار سن رہا تھا، اور ۔۔۔
اور ۔۔۔ اور ۔۔۔
جناب کاشف عمران صاحب، اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب۔
جسے پہچانے دل اور جس کو جانے منوہ ہے گلفام و دل آرام و جانِ منضروری تو نہیں محبوب مل جائےتصور بھی بہت ہے ان کا جان اے من!
ردیف صرف ”من“ ہے، جبکہ ”جانے“ ، ”جانِ“ اور ”جان اے“ قوافی ہیں، جن میں تجنیس تام سے کام لیا گیا ہے۔یہاں کس قافیے کی بات ہو رہی ہے؟ جان اے من یا جانِ من تو ہو گئی ردیف۔۔۔
مطلع وہ شعر ہوتا ہے جس میں شاعر اعلان کرتا ہے کہ قافیہ کیا ہو گا اور کس قدر پابند ہو گا اور اس قطعہ کے مطلع یعنی پہلے اور دوسرے مصرع میں قوافی "کو" اور "مو" ہیں جب کہ چوتھے مصرع یعنی دوسرے شعر میں اچانک قافیہ غائب۔۔۔ اس میں تجنیس کسے کہا جا رہا ہے؟
کوئی حوالہ؟مطلع وہ شعر ہوتا ہے جس میں شاعر اعلان کرتا ہے کہ قافیہ کیا ہو گا اور کس قدر پابند ہو گا؟
بوڑھی سوچیں ملیں، مجھ کو عزمِ جواں ڈھونڈتے ڈھونڈتےسر لئے پھر رہا ہوں میں سنگِ گراں ڈھونڈتے ڈھونڈتےکیا خبر کیسی کیسی بہشتیں نظر میں بسا لائے تھےمر گئے لوگ شہرِ بلا میں اماں ڈھونڈتے ڈھونڈتےمیرے جذبوں کے بازو بھی جیسے کہ شل ہو گئےسرد لاشوں میں ٹھٹھری ہوئی بجلیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
جسے پہچانے دل اور جس کو جانے منوہ ہے گلفام و دل آرام و جانِ منضروری تو نہیں محبوب مل جائےتصور بھی بہت ہے ان کا جان اے من!
یہاں کس قافیے کی بات ہو رہی ہے؟ جان اے من یا جانِ من تو ہو گئی ردیف۔۔۔
مطلع وہ شعر ہوتا ہے جس میں شاعر اعلان کرتا ہے کہ قافیہ کیا ہو گا اور کس قدر پابند ہو گا اور اس قطعہ کے مطلع یعنی پہلے اور دوسرے مصرع میں قوافی "کو" اور "مو" ہیں جب کہ چوتھے مصرع یعنی دوسرے شعر میں اچانک قافیہ غائب۔۔۔ اس میں تجنیس کسے کہا جا رہا ہے؟
ردیف صرف ”من“ ہے، جبکہ ”جانے“ ، ”جانِ“ اور ”جان اے“ قوافی ہیں، جن میں تجنیس تام سے کام لیا گیا ہے۔