ن

نامعلوم اول

مہمان
میں نے اپنی دانست میں صنعتِ تجنیس تام سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔
بھائی جان، اگرچہ غالب کہہ گیا ہے: "لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی"، مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہر وقت "کثافت" ہی سے کام لیا جائے۔ "صنعتِ تجنیس" کی تشریح کے لیے مجھ عاجز کو لغت کھولنی پڑے گی۔ پھر بھی گارنٹی نہیں کہ سمجھ میں کچھ آئے یا نہ آئے۔ کسی آسان چیز سے کام نہیں لیا جاسکتا؟

دو دن قبل کوئی صاحب "تسبیغ" سے کام لے رہے تھے۔ آج آپ "تجنیس" سے کام لے رہے ہیں۔ اگر "فعّل یفعّل تفعیل" کی یہی گردان رہی، تو مجھے محفل میں جائے اماں نہ ملے گی۔ محمد یعقوب آسی صاحب کہ صاحبِ علم ہیں، گزارہ کر لیں گے، مگر یہ فقیر تو "تشریح" کی غیر موجودگی میں موٹی موٹی اصطلاحات کی اس "تکثیر" کے سبب اپنی "تخفیف" گوارا نہ کر سکے گا۔ امید یہی ہے کہ آپ میری اس بات کو "تنبیہہ" سمجھتے ہوئے اپنی روش پر نظرِ ثانی کریں گے۔ اس سے زیادہ "تصریح" میں نہیں کر سکتا۔ میری نصیحت کو "تفریح" نہ سمجھا جائے۔ یہ سچ مچ میرے خیالات کی "توضیح" ہے۔
 
دو دن قبل کوئی صاحب "تسبیغ" سے کام لے رہے تھے۔ آج آپ "تجنیس" سے کام لے رہے ہیں۔ اگر "فعّل یفعّل تفعیل" کی یہی گردان رہی، تو مجھے محفل میں جائے اماں نہ ملے گی۔ محمد یعقوب آسی صاحب کہ صاحبِ علم ہیں، گزارہ کر لیں گے، مگر یہ فقیر تو "تشریح" کی غیر موجودگی میں موٹی موٹی اصطلاحات کی اس "تکثیر" کے سبب اپنی "تخفیف" گوارا نہ کر سکے گا۔ امید یہی ہے کہ آپ میری اس بات کو "تنبیہہ" سمجھتے ہوئے اپنی روش پر نظرِ ثانی کریں گے۔ اس سے زیادہ "تصریح" میں نہیں کر سکتا۔ میری نصیحت کو "تفریح" نہ سمجھا جائے۔ یہ سچ مچ میرے خیالات کی "توضیح" ہے۔
تشریف لاتے ہی تفعیل کی تقریر تحریر کردی اور ان مصادر کی پوری تسبیح پڑھ ڈالی، تخمین ہے کہ آپ کے استاد نے بڑی تاکید کے ساتھ عربی پڑھاتے وقت باب تفعیل کی تمرین کروائی ہے۔آپ کی تفعیلی تہذیب کی میں تصدیق کرتا ہوں۔:)
 
دو دن قبل کوئی صاحب "تسبیغ" سے کام لے رہے تھے۔ آج آپ "تجنیس" سے کام لے رہے ہیں۔ اگر "فعّل یفعّل تفعیل" کی یہی گردان رہی، تو مجھے محفل میں جائے اماں نہ ملے گی۔ محمد یعقوب آسی صاحب کہ صاحبِ علم ہیں، گزارہ کر لیں گے، مگر یہ فقیر تو "تشریح" کی غیر موجودگی میں موٹی موٹی اصطلاحات کی اس "تکثیر" کے سبب اپنی "تخفیف" گوارا نہ کر سکے گا۔ امید یہی ہے کہ آپ میری اس بات کو "تنبیہہ" سمجھتے ہوئے اپنی روش پر نظرِ ثانی کریں گے۔ اس سے زیادہ "تصریح" میں نہیں کر سکتا۔ میری نصیحت کو "تفریح" نہ سمجھا جائے۔ یہ سچ مچ میرے خیالات کی "توضیح" ہے۔

دل چسپ انداز ہے!
 
تشریف لاتے ہی تفعیل کی تقریر تحریر کردی اور ان مصادر کی پوری تسبیح پڑھ ڈالی، تخمین ہے کہ آپ کے استاد نے بڑی تاکید کے ساتھ عربی پڑھاتے وقت باب تفعیل کی تمرین کروائی ہے۔آپ کی تفعیلی تہذیب کی میں تصدیق کرتا ہوں۔:)
مزید دل چسپ!۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
تشریف لاتے ہی تفعیل کی تقریر تحریر کردی اور ان مصادر کی پوری تسبیح پڑھ ڈالی، تخمین ہے کہ آپ کے استاد نے بڑی تاکید کے ساتھ عربی پڑھاتے وقت باب تفعیل کی تمرین کروائی ہے۔آپ کی تفعیلی تہذیب کی میں تصدیق کرتا ہوں۔:)

آپ کی تعریف میں تصریف کے ساتھ ساتھ تخریب بھی نمایاں ہے۔ اگرچہ صیغہءِ تفعیل کی تکثیر ہے، مگر "تقریر" کے ساتھ "تحریر" لکھنے کی کوئی "توجیہہ" نہیں کی جاسکتی۔ اگر یہ تصحیف ہے، تب بھی اس کا مقصد کلام کی تطویل کے سوا کچھ نہیں ۔ بے شک محمد یعقوب آسی سے تصدیق کروا لیں۔ ویسے میں نہیں سمجھتا کہ آپ کی تعلیم میں کوئی کمی ہے۔ سو تدبیر کی اس ناکامی کو تقدیر ہی سمجھنا ہو گا۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
صاحبو! اپنی کیفیت اِس وقت اُس عجمی کی سی ہے جو دو عربوں کی تکرار سن رہا تھا، اور ۔۔۔
اور ۔۔۔ اور ۔۔۔
جناب کاشف عمران صاحب، اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب۔

آپ کو کم از کم میرا اور اسامہ کا فرق تو پتا چل گیا ہو گا! مجھے زیادہ نہیں تو اسامہ سے آدھی عربی تو آتی ہے، مگر غزل میں مَیں اس کی نسبت ایک فیصد بھی عربی نہیں لاتا۔ اسے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر شعر میں شیرینی مطلوب ہے تو عربی سے زیادہ فارسی پر نظر رکھے۔ مگر مانتا نہیں۔ آپ ہی سمجھائیے!
 

فاتح

لائبریرین
جسے پہچانے دل اور جس کو جانے من
وہ ہے گلفام و دل آرام و جانِ من
ضروری تو نہیں محبوب مل جائے
تصور بھی بہت ہے ان کا جان اے من!

یہاں کس قافیے کی بات ہو رہی ہے؟ جان اے من یا جانِ من تو ہو گئی ردیف۔۔۔
مطلع وہ شعر ہوتا ہے جس میں شاعر اعلان کرتا ہے کہ قافیہ کیا ہو گا اور کس قدر پابند ہو گا اور اس قطعہ کے مطلع یعنی پہلے اور دوسرے مصرع میں قوافی "کو" اور "مو" ہیں جب کہ چوتھے مصرع یعنی دوسرے شعر میں اچانک قافیہ غائب۔۔۔ اس میں تجنیس کسے کہا جا رہا ہے؟
 
یہاں کس قافیے کی بات ہو رہی ہے؟ جان اے من یا جانِ من تو ہو گئی ردیف۔۔۔
مطلع وہ شعر ہوتا ہے جس میں شاعر اعلان کرتا ہے کہ قافیہ کیا ہو گا اور کس قدر پابند ہو گا اور اس قطعہ کے مطلع یعنی پہلے اور دوسرے مصرع میں قوافی "کو" اور "مو" ہیں جب کہ چوتھے مصرع یعنی دوسرے شعر میں اچانک قافیہ غائب۔۔۔ اس میں تجنیس کسے کہا جا رہا ہے؟
ردیف صرف ”من“ ہے، جبکہ ”جانے“ ، ”جانِ“ اور ”جان اے“ قوافی ہیں، جن میں تجنیس تام سے کام لیا گیا ہے۔
 
بوڑھی سوچیں ملیں، مجھ کو عزمِ جواں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
سر لئے پھر رہا ہوں میں سنگِ گراں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
کیا خبر کیسی کیسی بہشتیں نظر میں بسا لائے تھے
مر گئے لوگ شہرِ بلا میں اماں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
میرے جذبوں کے بازو بھی جیسے کہ شل ہو گئے
سرد لاشوں میں ٹھٹھری ہوئی بجلیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
 
قافیہ اور ردیف
بوڑھی سوچیں ملیں، مجھ کو عزمِ جواں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
سر لئے پھر رہا ہوں میں سنگِ گراں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
کیا خبر کیسی کیسی بہشتیں نظر میں بسا لائے تھے
مر گئے لوگ شہرِ بلا میں اماں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
میرے جذبوں کے بازو بھی جیسے کہ شل ہو گئے
سرد لاشوں میں ٹھٹھری ہوئی بجلیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے

 
جسے پہچانے دل اور جس کو جانے من
وہ ہے گلفام و دل آرام و جانِ من
ضروری تو نہیں محبوب مل جائے
تصور بھی بہت ہے ان کا جان اے من!
اصولی طور پر یہ قافیہ کے نواقض ہیں کہ ایک پر دوسرے کا اشتباہ ہو۔

مزمل شیخ بسمل بہتر بتا سکتے ہیں۔

یہاں کس قافیے کی بات ہو رہی ہے؟ جان اے من یا جانِ من تو ہو گئی ردیف۔۔۔
مطلع وہ شعر ہوتا ہے جس میں شاعر اعلان کرتا ہے کہ قافیہ کیا ہو گا اور کس قدر پابند ہو گا اور اس قطعہ کے مطلع یعنی پہلے اور دوسرے مصرع میں قوافی "کو" اور "مو" ہیں جب کہ چوتھے مصرع یعنی دوسرے شعر میں اچانک قافیہ غائب۔۔۔ اس میں تجنیس کسے کہا جا رہا ہے؟
ردیف صرف ”من“ ہے، جبکہ ”جانے“ ، ”جانِ“ اور ”جان اے“ قوافی ہیں، جن میں تجنیس تام سے کام لیا گیا ہے۔

میری ناقص رائے میں قافیہ درست ہے اب بات یہ ہے کہ:
پہلی بات تو یہ کہ محمد یعقوب آسی صاحب نے بجا فرمایا کہ ایک دوسرے پر اشتباہ ہو یہ بھی نواقض میں ہے۔ تو بچا جائے تو انتہائی بہتر ہے۔
فاتح بھائی کی بات سے بھی اتفاق کہ مطلع میں قافیہ مقرر کرلینا ضروری ہے۔
یہاں میں ایک بات یہ کہنا چاہوں گا کہ قافیہ ہے تو بالکل درست۔ کیونکہ مطلع کے "دونوں مصرعوں میں مختلف لفظوں کو قافیہ کیا ہے"۔ (یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قافیہ کی تمام شرائط اس شعر میں پائی جاتی ہیں۔ شاعر اگر اصرار کرے تو اسے اختیار ہے کہ یہی قافیہ استعمال کرے) مگر پھر بھی بقول یعقوب آسی صاحب کے کہ اشتباہ ہو رہا ہے ایک دوسرے پر تو مطلعے کے پہلے مصرعے میں اگر قافیہ بدل کر "مانے"، "لانے"، "ڈھانے" یا دیوانے یا اسی طرح کا اور کچھ کر دیا جائے تو بہتر ہوگا۔

دوسری بات: بہت ممکن ہے کہ کسی کے دماغ میں خیال آئے کہ اضافت کی کسرہ کو "ے" کا قائم مقام بنا کر قافیہ میں بطورِ "حرف وصل" استعمال کرنا غلط ہے۔ تو ایسا نہیں ہے۔ یہ تصرف بھی برتا گیا ہے۔ اور جائز ہے۔ بلکہ اساتذہ کے کلام میں بھی مثالیں موجود ہیں اور متاخرین میں بھی جو وقت کی کمی کی وجہ سے پیش نہیں کر رہا۔ بہرحال۔ ایک غزل احمد فراز کی محمد بلال اعظم سے درخواست کرتا ہوں کہ پیش کردیں جس میں "ی" قافیہ ہے اور کسرہ کو "ے" کا قائم مقام بنا کر قافیہ میں استعمال کیا گیا ہے۔
 
Top