جاسم محمد
محفلین
جدید مسلم ذہن میں علم کی دوئی کا مسئلہ
09/07/2019 عاصم بخشی
’مذہب پسند‘ کی اصطلاح کوا ن سب طبقات تک محدود کرتے ہوئے جو اس قضیے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کہ معاشرتی ڈھانچے کے سیاسی و سماجی خدوخال مرتب کرنے میں تن تنہا مذہب ہی ایک واحد بامعنی قدر ہے، اگر ان تمام طبقات کا ایک عمومی سا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں فلسفہ و سائنس کو لے کر دو قسم کے فکری دھارے دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان مذہب پسندوں میں سے ایک تو وہ ہیں جو اپنے علمی منہج کو غزالی سے منسوب کر کے ’تہافت الفلاسفہ‘ میں مشغول ہیں اور ’جدید مغربی تہذیب‘ نامی کسی ایک ٹھوس اکائی کو نظریاتی طور پراپنے مقابل فرض کر کے اس کے خلاف جہاد کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
روایتی جہاد و قتال کے لئے چونکہ ہتھیار مغربی تہذیب سے لینا واضح شرعی عذر کے کارن مباح ہے لہٰذا اس تنقیدی معرکے میں بھی ہتھیار وں کی سپلائی کا کام مغرب کے ان مارکسسٹ اور پوسٹ مارکسسٹ نقادوں سے لیا جاتا ہے جن کی ’سرمایہ دارانہ لبرل ہیومنزم‘ پر ہونے والی پچھلی نصف صدی کی تنقیدوں کو ان کے خاص سماجی وسیاسی تناظر سے نکال کر کسی حد تک کامیابی سے ایک چوں چوں کا مربہ تیار کیا جاتا ہے جو ہمارے ہاں کے لبرل طبقات(جن میں سے کچھ اپنے ردعمل پر مبنی استدلال میں ان مذہب پسندوں جتنے ہی علمی متشدد ہو چکے ہیں ) کے سامنے کھڑے ایک سادہ لوح ’مذہب پسند‘ کو تقریباًٍ اسی طرح استعمال کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے جس طرح مناظراتی تربیت کے کورسوں میں طالبعلموں کو ’مخالف کو زیر کرنے کے دس اہم ترین ہتھکنڈے‘ سکھلائے جاتے ہیں۔
اس طبقے سے اختلاف کے ساتھ بہرحال ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ طبقہ کچھ مخصوص نفسیاتی مجبوریوں اور عارضہ نرگسیت کے باعث تہذیبی مباحث کا تجزیہ کسی عالمگیر انسانی تناظر میں کرنے کی قوت ہی نہیں رکھتا لہٰذا مجبورِ محض ہوتے ہوئے حلق کے ایک حصے سے تو ’سرمایہ دارانہ تہذیب‘ کی مئے فرنگ کا درد تہ جام تک اپنے اندر انڈیلتا رہتا ہے اور اسی حلق کے دوسرے حصے سے تیزی سے تنقیدیں باہر اگلنے کا کام جاری رکھے ہے۔ سچ پوچھئیے تو ہمیں ان سے اس کے علاوہ کوئی شکایت نہیں کہ وہ ہم جیسے کیوں نہیں، یعنی مان کیوں نہیں لیتے کہ جدید دور میں تہذیبی سرحدیں تیزی سے انہدام پذیر ہیں اور کم از کم اتنی دھندلا چکی ہیں کہ مشرق و مغرب کی تہذیبی دوئی ایک ایسا قصہ پارینہ ہے جو بس تاریخِ فکر کی کتابوں میں ہی ڈھونڈنے سے ملتا ہے۔
دوسرا طبقہ پہلے طبقے کی نسبت کہیں زیادہ دلچسپ اور تخریبِ ذہن و فکر کی ہلاکت خیزیوں میں اس سے کہیں آگے ہے۔ اس کی وجہ اس کی تجاہل عارفانہ میں ڈوبی وہ رجعت پسندی ہے جو فلسفے کو تفکر، تجسس، جستجو، تحقیق، خرد افروزی، ندرتِ فکر وغیرہ جیسے انسانی خواص سے علیحدہ کر کے اس کو مذہب کا روایتی حریف گردانتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس طبقے کے نزدیک سوال کا ذہن میں پیدا ہونا تفلسف کی علت نہیں بلکہ فلسفیانہ ذہن کی تربیت ’بے جا‘ سوال اٹھانے کے مرض کی علت ہے۔
ہماری رائے میں علتوں کا یہ الٹ پھیر اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ اس طبقے کے نزدیک فلسفہ چونکہ سوال اٹھانے اور عمومی طور پر اٹل سمجھے جانے والے مفروضوں پر تشکیک و تحقیق کی دعوت ہے، لہٰذا وہ ایک ایسے ذہن کو تیار کرتا ہے جو اپنے طرف پھینکی جانے والی اٹل مذہبی اور صرف مذہب کی بنیاد پر سماجی تعبیرات کو فکر پر حاکم ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔
انگریزی محاورے کی رو سے اگر ہمیں ایک لحظہ کے لئے شیطان کی وکالت کرنی ہو تواس مخصوص مذہبی تناظر میں جدید (سیکولر)تعلیم و تربیت کا سارا ڈھانچہ ہی از سر نو ترتیب کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ہماری رائے میں نہ صرف روایتی مسلم ذہن کو ’تشکیل نو‘ ، ’تجدد پسندی‘ ، ’روشن خیالی‘ وغیرہ جیسی تراکیب کو ایک مخصوص شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ ذہن میں موجود نظریہ علم کے خدوخال کو دو مختلف خانوں میں تقسیم کرتا بھی نظر آتا ہے۔
قرونِ وسطی کے مذہبی متون کا ایک سرسری سا جائزہ بھی ا س مخصوص مسلم ذہنیت کے تخمِ اول کی نشاندہی کے لئے کافی ہے جب ہمیں ابن رشد فکرِ غزالی کے خلاف فلاسفہ کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ گوراقم کی رائے میں جدید مسلم ذہن کے لئے اوراقِ تاریخ میں دبی ان بحثوں سے چند مبہم اشاروں سے زیادہ کچھ خاص استفادے کی امید نہیں لیکن یہ مبہم سے اشارے بھی پچھلے دو سو سال کے روایتی مسلم ذہن کی کسی بھی قسم کی خردافروزی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی کیفیت سمجھنے کے لئے بہت کافی ہیں۔
یہ ایک ایسا مسلم ذہن ہے جو ایک طرف تواپنی تمام تر پسماندگیوں کا الزام مغرب بالخصوص مغربی استعماریت پر دھرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا اور دوسری طرف اپنے نظریہ علم میں ایک وحشت ناک قسم کی دوئی میں بٹا ہے۔ وحشت کے اس احساس کا تجرباتی جائزہ لینا ہو تو مذہبی کتابوں کے کسی بھی اسٹال سے ’حصول علم کے فضائل‘ یا ’علم کی برکتیں‘ نامی کوئی بھی رسالہ اٹھا کر تلاش کیجئے کہ ایک اوسط مسلم ذہن علم کا کیا تصور قائم کیے بیٹھا ہے۔
مثالیں ان گنت ہو سکتی ہیں لیکن اگر سند ہی کی تلاش ہے تو ابن رجب حنبلی کے رسالے ”ورثہ الانبیا“ کو دیکھ لیجیے جس کا انگریزی ترجمہ The Heirs of the Prophets کے نام سے مغرب کے اعلی تعلیم یافتہ مذہبی عالم زید شاکر کے ہاتھوں ہوا ہے اور ہمارے ہاں پیٹروڈالرز سے چلنے والے مشہور سعودی کتب خانے ’مکتبہ دارالسلام‘ میں موجود ہے۔
مقصد یقیناً ابن رجب یا مخصوص سلفی فکر پر تنقید نہیں بلکہ صرف اتنا واضح کرنا ہے کہ روایتی مسلم فکر، چاہے اس کا تعلق کسی بھی تعبیراتی دھارے سے ہو، علم کو حقیقی اور اضافی کے درجہ اولی اور درجہ ثانیہ میں بانٹتی نظر آتی ہے۔ چونکہ اول الذکر کا تعلق خالص مذہبی متون یعنی قرآن و حدیث اور فقہ وغیرہ سے ہے، لہٰذا طبقہ علما کی تعبیرات میں ایک ایسے خدا اور رسول کا تصور ابھرتا نظر آتا ہے جو ایک فقیہ اور ماہرِ طبیعات میں ان کی علمی ترجیحات کی بنیاد پر لازماً فرق کرتا نظر آتا ہے۔
آپ کسی بھی روایتی مذہبی گھاٹ کا پانی پی کر دیکھ لیجیے، اس مخصوص طبقاتی بھاشا میں خدا اور اس کے نبی کا ’مطلوب انسان‘ کبھی ریاضی دان یا کیمیا دان وغیرہ نہیں ہو گا۔ لہٰذا یہ ہرگز حیران کن نہیں کہ ہم قرونِ وسطٰی کی مسلم معاشرت میں کبھی الخوارزمی یا ابن الہیثم وغیرہ کے ناموں کے ساتھ ’امام‘ کا سابقہ نہ لگا سکے اور یہ بھی خارج از امکان ہے کہ مستقبل بعید کے مسلم معاشروں میں کسی چوٹی کے سائنسدان یا فلسفی کو کسی دینی مبلغ یا فقیہ جتنی پذیرائی میسر آ سکے۔ صاحبو، ہود بھائی اور تقی عثمانی کا کیا مقابلہ۔ بھلا دنیا اور آخرت بھی کبھی ایک جتنے اہم ہوئے ہیں؟
اگر بات یہیں تک رہتی تو کچھ ایسی وحشت کی بات نہ تھی۔ ہم اپنی جدو جہد اسی سست رفتاری سے جاری رکھتے اور اپنے مذہب پسند دوستوں کوریت میں ’مسلم نشاة ثانیہ‘ کے خیالی محل تعمیر کرتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے منہ دوسری طرف کر لیتے۔ لیکن مسئلہ اب صرف اپنے مخصوص آدرشوں کے لئے جدوجہد کرنے کا نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کا ہے۔ وحشت ناک امر یہ ہے کہ انسانی ترقی کے ایک مخصوص جدید تصور سے ظاہری طور پر اختلاف کرتے ہمارے یہ مذہب پسند نقادتعبیر پر اپنا اجارہ قائم رکھنے کی خواہش میں ایک طرف تو آزادانہ سوچنے، سمجھنے اور سوال اٹھانے کے بنیادی حق پر اخلاقی استعمار کے ذریعے قدغن لگاتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف سائنسی مادیت و افادیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہو کر سر ے سے سائنس کی مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ بنیادوں کا انکار کر دیتے ہیں۔
کسی بھی درجے کی پاکستانی جامعہ کے فزکس، ریاضی یا انجینئرنگ کی جماعت میں طالبعلموں سے یہ سوال پوچھ کر دیکھئے کہ ریاضی کی کتاب پوری دل جمعی سے پڑھنے سے خدا کے خوش ہونے کی کوئی امید ہے تو آ پ کو معلوم ہو جائے کہ مرض کی جڑیں کتنی پختہ ہیں۔ اس استدلال کے لئے بہت زیادہ لفاظی کی ضرورت نہیں کہ اس مخصوص مذہبی نفسیات میں کم و بیش تیرہ صدیوں سے گندھے انسان کی جینیاتی ماہیت کبھی اسے اس مرحلے کو اتنی خوش اسلوبی سے طے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی کہ خدا اور وصال ِ صنم ایک ساتھ ہی مل جائے۔
ہم نے بحیثیت استاد اپنی کلاس میں ایک سے زیادہ بار دیکھا کہ وضع قطع سے مذہبی معلوم ہونے والے طالبعلم نے بہت اعتماد سے اپنا مذہبی فریضہ ادا کرتے ہوئے ایک پیچیدہ اور نہایت دلچسپ ریاضیاتی بحث کے دوران ہمیں بیچ میں ٹوک کر اذان سننے کی ترغیب دی۔ یقین جانئے ہمیں اس روک ٹوک سے کوئی شکایت نہیں کیوں کہ ہماری نگاہ میں مسئلہ خالصتاً مذہبی نہیں بلکہ دوئی میں پھنسی مذہبی نفسیات کی ترجیحات کا ہے جس کی مذہبی اور غیر مذہبی دونوں جہتیں سراسر افادیت پرستی کے فلسفے پر قائم ہیں جو خود تردیدی کے مجسم پیکروں پر مشتمل نسلوں کی مسلسل ترسیل جاری رکھے ہیں۔ یہ تیسری دنیا کی پسماندہ مذہبی معاشرت کا ایک ایسا جدید انسان ہے جو اپنی قدیم فطرت میں موجود عقلی و جبلی وحدت اس طرح بانٹ چکا ہے کہ اب اس وحدت کو محض ایک خوبصورت آدرش مان کر اس کی طرف قدم اٹھانے کی فکری قوت بھی نہیں رکھتا۔
ان حالات میں فلسفے کے کچھ ایسے مذہب پسند نقاد جو عملی سائنس کی مابعدالطبیعاتی نظری بنیادوں کے وجود کے ہی انکاری ہیں، قرونِ وسطیٰ کے محبوب مناظرانہ متون سے ’تہافت الفلاسفہ‘ کشید کر کے پوری دیانت داری سے ایک ایسی نادیدہ بیماری کی دوا بنانے میں مصروف ہیں جو زمانہ جدید میں اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ جب تشخیص ہی درست نہ ہو تو دوا اکسیر نہیں بلکہ زہر کا کام کرتی ہے۔ ہمارے ہاں مختلف سائنسی علوم کے طلبا کچھ اس سطحی طرز سے حصول علم کی منزلیں طے کرتے ہیں کہ دیکارت، اقلیدس، فیثا غورث، کیپلر اور نیوٹن وغیرہ کے فکری منہج کا سایہ بھی اپنے تک نہیں پہنچنے دیتے۔
نتیجتاً پیچیدہ مسائل کے خدوخال مرتب کرنے کی تکنیکی اہلیت تو دور کی بات وہ اس نفسیاتی تجربے سے ہی بہت فاصلے پر رہتے ہیں ہیں جو انہیں نفس علم کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ ¿ میں جوڑ دے۔ اس پر فلسفیانہ مباحث سے کامل لا تعلقی اور سائنس کی مابعد الطبیعاتی بنیادوں سے کامل ناواقفیت انہیں یہ باور کراتی ہے کہ سائنس، مذہب اور فلسفے کو کسی ایسی کلی وحدت میں نہیں باندھا جا سکتا جس میں ان تینوں چشموں سے ایک ساتھ فیض یاب ہوتا انسان اپنے وجدان اور عقل کو ایک ایسے لطیف اور ماورائے سخن بندھن میں پرو سکے جس میں اس کی پوری ذات ایک کامل تسکین کے تجربے کے قابل ہو۔
ظاہر ہے کہ عوامی سطح پر فلسفے اور سائنس کے کسی ایسے عام فہم تدریسی بیانیے کی روایت نہ ہونا، جو سائنس کے نفس علم میں فلسفے سے مستعار لئے گئے مابعدالطبیعاتی اور نیم مابعد الطبیعاتی مفروضوں کی موجودگی کو اجاگر کرے، مذہب پسندوں کے اس خاص طبقے کی وحشت ناک تنقیدوں کو کسی کم از کم درجے میں بھی معقولیت نہ بخشنے کی اولین علت ہے۔ ہماری رائے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے آپ کو ہماری رائے سے متفق پانے والے سائنس کے اساتذہ اور شوقین والدین فلسفے کے بنیادی مباحث سے واقفیت پیدا کریں اور اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر سائنس کی تدریس میں ان طبیعاتی و مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ مباحث پر گفتگو کا آغاز کیا جائے جو سولہویں صدی سے سائنسی استدلال کی بنیادوں میں موجود ہیں۔
کون جانے کب خدا کو ہمارے حال پر رحم آ جائے اور نیوٹن، گیلیلیو، ڈارون اور دیکارت وغیرہ کو تو خیر دور کی بات ہے، ہماری تہذیب میں کم ازکم ابن رشد، ابن طفیل، الخوارزمی، ابن الہیثم اور ابن باجہ ہی کو وہی پذیرائی مل جائے جو اس وقت غزالی، ابو حنیفہ اور بخاری و مسلم وغیرہ کو ملتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جو ایک نوجوان مسلم ذہن کو سطحی ٹیکنالوجی کی بھیڑچال اور محض ایک افادیت پسند سائنسی تعلیم کے فنی شوق سے اوپر اٹھ کر ندرتِ فکر، تحقیق و جستجو اور ایجاد علم کی طرف راغب کر سکتا ہے۔
09/07/2019 عاصم بخشی
’مذہب پسند‘ کی اصطلاح کوا ن سب طبقات تک محدود کرتے ہوئے جو اس قضیے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کہ معاشرتی ڈھانچے کے سیاسی و سماجی خدوخال مرتب کرنے میں تن تنہا مذہب ہی ایک واحد بامعنی قدر ہے، اگر ان تمام طبقات کا ایک عمومی سا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں فلسفہ و سائنس کو لے کر دو قسم کے فکری دھارے دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان مذہب پسندوں میں سے ایک تو وہ ہیں جو اپنے علمی منہج کو غزالی سے منسوب کر کے ’تہافت الفلاسفہ‘ میں مشغول ہیں اور ’جدید مغربی تہذیب‘ نامی کسی ایک ٹھوس اکائی کو نظریاتی طور پراپنے مقابل فرض کر کے اس کے خلاف جہاد کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
روایتی جہاد و قتال کے لئے چونکہ ہتھیار مغربی تہذیب سے لینا واضح شرعی عذر کے کارن مباح ہے لہٰذا اس تنقیدی معرکے میں بھی ہتھیار وں کی سپلائی کا کام مغرب کے ان مارکسسٹ اور پوسٹ مارکسسٹ نقادوں سے لیا جاتا ہے جن کی ’سرمایہ دارانہ لبرل ہیومنزم‘ پر ہونے والی پچھلی نصف صدی کی تنقیدوں کو ان کے خاص سماجی وسیاسی تناظر سے نکال کر کسی حد تک کامیابی سے ایک چوں چوں کا مربہ تیار کیا جاتا ہے جو ہمارے ہاں کے لبرل طبقات(جن میں سے کچھ اپنے ردعمل پر مبنی استدلال میں ان مذہب پسندوں جتنے ہی علمی متشدد ہو چکے ہیں ) کے سامنے کھڑے ایک سادہ لوح ’مذہب پسند‘ کو تقریباًٍ اسی طرح استعمال کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے جس طرح مناظراتی تربیت کے کورسوں میں طالبعلموں کو ’مخالف کو زیر کرنے کے دس اہم ترین ہتھکنڈے‘ سکھلائے جاتے ہیں۔
اس طبقے سے اختلاف کے ساتھ بہرحال ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ طبقہ کچھ مخصوص نفسیاتی مجبوریوں اور عارضہ نرگسیت کے باعث تہذیبی مباحث کا تجزیہ کسی عالمگیر انسانی تناظر میں کرنے کی قوت ہی نہیں رکھتا لہٰذا مجبورِ محض ہوتے ہوئے حلق کے ایک حصے سے تو ’سرمایہ دارانہ تہذیب‘ کی مئے فرنگ کا درد تہ جام تک اپنے اندر انڈیلتا رہتا ہے اور اسی حلق کے دوسرے حصے سے تیزی سے تنقیدیں باہر اگلنے کا کام جاری رکھے ہے۔ سچ پوچھئیے تو ہمیں ان سے اس کے علاوہ کوئی شکایت نہیں کہ وہ ہم جیسے کیوں نہیں، یعنی مان کیوں نہیں لیتے کہ جدید دور میں تہذیبی سرحدیں تیزی سے انہدام پذیر ہیں اور کم از کم اتنی دھندلا چکی ہیں کہ مشرق و مغرب کی تہذیبی دوئی ایک ایسا قصہ پارینہ ہے جو بس تاریخِ فکر کی کتابوں میں ہی ڈھونڈنے سے ملتا ہے۔
دوسرا طبقہ پہلے طبقے کی نسبت کہیں زیادہ دلچسپ اور تخریبِ ذہن و فکر کی ہلاکت خیزیوں میں اس سے کہیں آگے ہے۔ اس کی وجہ اس کی تجاہل عارفانہ میں ڈوبی وہ رجعت پسندی ہے جو فلسفے کو تفکر، تجسس، جستجو، تحقیق، خرد افروزی، ندرتِ فکر وغیرہ جیسے انسانی خواص سے علیحدہ کر کے اس کو مذہب کا روایتی حریف گردانتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس طبقے کے نزدیک سوال کا ذہن میں پیدا ہونا تفلسف کی علت نہیں بلکہ فلسفیانہ ذہن کی تربیت ’بے جا‘ سوال اٹھانے کے مرض کی علت ہے۔
ہماری رائے میں علتوں کا یہ الٹ پھیر اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ اس طبقے کے نزدیک فلسفہ چونکہ سوال اٹھانے اور عمومی طور پر اٹل سمجھے جانے والے مفروضوں پر تشکیک و تحقیق کی دعوت ہے، لہٰذا وہ ایک ایسے ذہن کو تیار کرتا ہے جو اپنے طرف پھینکی جانے والی اٹل مذہبی اور صرف مذہب کی بنیاد پر سماجی تعبیرات کو فکر پر حاکم ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔
انگریزی محاورے کی رو سے اگر ہمیں ایک لحظہ کے لئے شیطان کی وکالت کرنی ہو تواس مخصوص مذہبی تناظر میں جدید (سیکولر)تعلیم و تربیت کا سارا ڈھانچہ ہی از سر نو ترتیب کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ہماری رائے میں نہ صرف روایتی مسلم ذہن کو ’تشکیل نو‘ ، ’تجدد پسندی‘ ، ’روشن خیالی‘ وغیرہ جیسی تراکیب کو ایک مخصوص شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ ذہن میں موجود نظریہ علم کے خدوخال کو دو مختلف خانوں میں تقسیم کرتا بھی نظر آتا ہے۔
قرونِ وسطی کے مذہبی متون کا ایک سرسری سا جائزہ بھی ا س مخصوص مسلم ذہنیت کے تخمِ اول کی نشاندہی کے لئے کافی ہے جب ہمیں ابن رشد فکرِ غزالی کے خلاف فلاسفہ کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ گوراقم کی رائے میں جدید مسلم ذہن کے لئے اوراقِ تاریخ میں دبی ان بحثوں سے چند مبہم اشاروں سے زیادہ کچھ خاص استفادے کی امید نہیں لیکن یہ مبہم سے اشارے بھی پچھلے دو سو سال کے روایتی مسلم ذہن کی کسی بھی قسم کی خردافروزی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی کیفیت سمجھنے کے لئے بہت کافی ہیں۔
یہ ایک ایسا مسلم ذہن ہے جو ایک طرف تواپنی تمام تر پسماندگیوں کا الزام مغرب بالخصوص مغربی استعماریت پر دھرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا اور دوسری طرف اپنے نظریہ علم میں ایک وحشت ناک قسم کی دوئی میں بٹا ہے۔ وحشت کے اس احساس کا تجرباتی جائزہ لینا ہو تو مذہبی کتابوں کے کسی بھی اسٹال سے ’حصول علم کے فضائل‘ یا ’علم کی برکتیں‘ نامی کوئی بھی رسالہ اٹھا کر تلاش کیجئے کہ ایک اوسط مسلم ذہن علم کا کیا تصور قائم کیے بیٹھا ہے۔
مثالیں ان گنت ہو سکتی ہیں لیکن اگر سند ہی کی تلاش ہے تو ابن رجب حنبلی کے رسالے ”ورثہ الانبیا“ کو دیکھ لیجیے جس کا انگریزی ترجمہ The Heirs of the Prophets کے نام سے مغرب کے اعلی تعلیم یافتہ مذہبی عالم زید شاکر کے ہاتھوں ہوا ہے اور ہمارے ہاں پیٹروڈالرز سے چلنے والے مشہور سعودی کتب خانے ’مکتبہ دارالسلام‘ میں موجود ہے۔
مقصد یقیناً ابن رجب یا مخصوص سلفی فکر پر تنقید نہیں بلکہ صرف اتنا واضح کرنا ہے کہ روایتی مسلم فکر، چاہے اس کا تعلق کسی بھی تعبیراتی دھارے سے ہو، علم کو حقیقی اور اضافی کے درجہ اولی اور درجہ ثانیہ میں بانٹتی نظر آتی ہے۔ چونکہ اول الذکر کا تعلق خالص مذہبی متون یعنی قرآن و حدیث اور فقہ وغیرہ سے ہے، لہٰذا طبقہ علما کی تعبیرات میں ایک ایسے خدا اور رسول کا تصور ابھرتا نظر آتا ہے جو ایک فقیہ اور ماہرِ طبیعات میں ان کی علمی ترجیحات کی بنیاد پر لازماً فرق کرتا نظر آتا ہے۔
آپ کسی بھی روایتی مذہبی گھاٹ کا پانی پی کر دیکھ لیجیے، اس مخصوص طبقاتی بھاشا میں خدا اور اس کے نبی کا ’مطلوب انسان‘ کبھی ریاضی دان یا کیمیا دان وغیرہ نہیں ہو گا۔ لہٰذا یہ ہرگز حیران کن نہیں کہ ہم قرونِ وسطٰی کی مسلم معاشرت میں کبھی الخوارزمی یا ابن الہیثم وغیرہ کے ناموں کے ساتھ ’امام‘ کا سابقہ نہ لگا سکے اور یہ بھی خارج از امکان ہے کہ مستقبل بعید کے مسلم معاشروں میں کسی چوٹی کے سائنسدان یا فلسفی کو کسی دینی مبلغ یا فقیہ جتنی پذیرائی میسر آ سکے۔ صاحبو، ہود بھائی اور تقی عثمانی کا کیا مقابلہ۔ بھلا دنیا اور آخرت بھی کبھی ایک جتنے اہم ہوئے ہیں؟
اگر بات یہیں تک رہتی تو کچھ ایسی وحشت کی بات نہ تھی۔ ہم اپنی جدو جہد اسی سست رفتاری سے جاری رکھتے اور اپنے مذہب پسند دوستوں کوریت میں ’مسلم نشاة ثانیہ‘ کے خیالی محل تعمیر کرتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے منہ دوسری طرف کر لیتے۔ لیکن مسئلہ اب صرف اپنے مخصوص آدرشوں کے لئے جدوجہد کرنے کا نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کا ہے۔ وحشت ناک امر یہ ہے کہ انسانی ترقی کے ایک مخصوص جدید تصور سے ظاہری طور پر اختلاف کرتے ہمارے یہ مذہب پسند نقادتعبیر پر اپنا اجارہ قائم رکھنے کی خواہش میں ایک طرف تو آزادانہ سوچنے، سمجھنے اور سوال اٹھانے کے بنیادی حق پر اخلاقی استعمار کے ذریعے قدغن لگاتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف سائنسی مادیت و افادیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہو کر سر ے سے سائنس کی مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ بنیادوں کا انکار کر دیتے ہیں۔
کسی بھی درجے کی پاکستانی جامعہ کے فزکس، ریاضی یا انجینئرنگ کی جماعت میں طالبعلموں سے یہ سوال پوچھ کر دیکھئے کہ ریاضی کی کتاب پوری دل جمعی سے پڑھنے سے خدا کے خوش ہونے کی کوئی امید ہے تو آ پ کو معلوم ہو جائے کہ مرض کی جڑیں کتنی پختہ ہیں۔ اس استدلال کے لئے بہت زیادہ لفاظی کی ضرورت نہیں کہ اس مخصوص مذہبی نفسیات میں کم و بیش تیرہ صدیوں سے گندھے انسان کی جینیاتی ماہیت کبھی اسے اس مرحلے کو اتنی خوش اسلوبی سے طے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی کہ خدا اور وصال ِ صنم ایک ساتھ ہی مل جائے۔
ہم نے بحیثیت استاد اپنی کلاس میں ایک سے زیادہ بار دیکھا کہ وضع قطع سے مذہبی معلوم ہونے والے طالبعلم نے بہت اعتماد سے اپنا مذہبی فریضہ ادا کرتے ہوئے ایک پیچیدہ اور نہایت دلچسپ ریاضیاتی بحث کے دوران ہمیں بیچ میں ٹوک کر اذان سننے کی ترغیب دی۔ یقین جانئے ہمیں اس روک ٹوک سے کوئی شکایت نہیں کیوں کہ ہماری نگاہ میں مسئلہ خالصتاً مذہبی نہیں بلکہ دوئی میں پھنسی مذہبی نفسیات کی ترجیحات کا ہے جس کی مذہبی اور غیر مذہبی دونوں جہتیں سراسر افادیت پرستی کے فلسفے پر قائم ہیں جو خود تردیدی کے مجسم پیکروں پر مشتمل نسلوں کی مسلسل ترسیل جاری رکھے ہیں۔ یہ تیسری دنیا کی پسماندہ مذہبی معاشرت کا ایک ایسا جدید انسان ہے جو اپنی قدیم فطرت میں موجود عقلی و جبلی وحدت اس طرح بانٹ چکا ہے کہ اب اس وحدت کو محض ایک خوبصورت آدرش مان کر اس کی طرف قدم اٹھانے کی فکری قوت بھی نہیں رکھتا۔
ان حالات میں فلسفے کے کچھ ایسے مذہب پسند نقاد جو عملی سائنس کی مابعدالطبیعاتی نظری بنیادوں کے وجود کے ہی انکاری ہیں، قرونِ وسطیٰ کے محبوب مناظرانہ متون سے ’تہافت الفلاسفہ‘ کشید کر کے پوری دیانت داری سے ایک ایسی نادیدہ بیماری کی دوا بنانے میں مصروف ہیں جو زمانہ جدید میں اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ جب تشخیص ہی درست نہ ہو تو دوا اکسیر نہیں بلکہ زہر کا کام کرتی ہے۔ ہمارے ہاں مختلف سائنسی علوم کے طلبا کچھ اس سطحی طرز سے حصول علم کی منزلیں طے کرتے ہیں کہ دیکارت، اقلیدس، فیثا غورث، کیپلر اور نیوٹن وغیرہ کے فکری منہج کا سایہ بھی اپنے تک نہیں پہنچنے دیتے۔
نتیجتاً پیچیدہ مسائل کے خدوخال مرتب کرنے کی تکنیکی اہلیت تو دور کی بات وہ اس نفسیاتی تجربے سے ہی بہت فاصلے پر رہتے ہیں ہیں جو انہیں نفس علم کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ ¿ میں جوڑ دے۔ اس پر فلسفیانہ مباحث سے کامل لا تعلقی اور سائنس کی مابعد الطبیعاتی بنیادوں سے کامل ناواقفیت انہیں یہ باور کراتی ہے کہ سائنس، مذہب اور فلسفے کو کسی ایسی کلی وحدت میں نہیں باندھا جا سکتا جس میں ان تینوں چشموں سے ایک ساتھ فیض یاب ہوتا انسان اپنے وجدان اور عقل کو ایک ایسے لطیف اور ماورائے سخن بندھن میں پرو سکے جس میں اس کی پوری ذات ایک کامل تسکین کے تجربے کے قابل ہو۔
ظاہر ہے کہ عوامی سطح پر فلسفے اور سائنس کے کسی ایسے عام فہم تدریسی بیانیے کی روایت نہ ہونا، جو سائنس کے نفس علم میں فلسفے سے مستعار لئے گئے مابعدالطبیعاتی اور نیم مابعد الطبیعاتی مفروضوں کی موجودگی کو اجاگر کرے، مذہب پسندوں کے اس خاص طبقے کی وحشت ناک تنقیدوں کو کسی کم از کم درجے میں بھی معقولیت نہ بخشنے کی اولین علت ہے۔ ہماری رائے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے آپ کو ہماری رائے سے متفق پانے والے سائنس کے اساتذہ اور شوقین والدین فلسفے کے بنیادی مباحث سے واقفیت پیدا کریں اور اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر سائنس کی تدریس میں ان طبیعاتی و مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ مباحث پر گفتگو کا آغاز کیا جائے جو سولہویں صدی سے سائنسی استدلال کی بنیادوں میں موجود ہیں۔
کون جانے کب خدا کو ہمارے حال پر رحم آ جائے اور نیوٹن، گیلیلیو، ڈارون اور دیکارت وغیرہ کو تو خیر دور کی بات ہے، ہماری تہذیب میں کم ازکم ابن رشد، ابن طفیل، الخوارزمی، ابن الہیثم اور ابن باجہ ہی کو وہی پذیرائی مل جائے جو اس وقت غزالی، ابو حنیفہ اور بخاری و مسلم وغیرہ کو ملتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جو ایک نوجوان مسلم ذہن کو سطحی ٹیکنالوجی کی بھیڑچال اور محض ایک افادیت پسند سائنسی تعلیم کے فنی شوق سے اوپر اٹھ کر ندرتِ فکر، تحقیق و جستجو اور ایجاد علم کی طرف راغب کر سکتا ہے۔