بات آپ کی درست ہے۔ کسی نفسیاتی معالج سے پوچھنا پڑے گا کہ کسی شخص کے آپ کے حواس کے اوپر اس حد تک طاری ہو جانے کو، کہ آپ کو ہر جگہ وہی نظر آئے، نفسیاتی مرض کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے یا نہیں۔
کیا کہہ سکتا ہوں۔ مضمون یا مضمون نگار کے ساتھ تو اس کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ شاید خود سے اختلاف رکھنے والوں کو اپنے حواس پر طاری کر لینا آپ کی عادت ہے اس لیے۔ یا پھر اس کا نام بیچ میں گھسیڑ دینا straw-manning کے لیے مفید رہتا ہے کہ جو چاہو اس پر تھوپ دو، کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔
اس کو تو آپ
یہاں سے سمجھ سکتے ہیں۔ پریشان نہیں ہونا۔
نیز یہ بھی بتا دیں کہ آپ کی سمجھ کے مطابق "عملی بنیادوں پر ہونے والے مشاہداتی اعتراضات" کیا ہیں اور میں ان کو مابعد الطبیعیاتی بنیادیں کیسے قرار دے رہا ہوں۔
عملی بنیادوں پر ہونے والے مشاہداتی اعتراضات کا مطلب معاشرے میں پھیلا دیسی لبرلوں اور غیرلبرلوں کا وہ جم غفیر ہے، جن کی تعلیم کا مقصد محض روزی روٹی اور عہدے و مراعات ہیں۔ اور جس کو آپ بھی تسلیم کرچکے ہیں۔ اس مقام پر آکر عاصم بخشی کو بجا طور پر شرمندہ ہونا چاہیے کہ جو طلبہ فیلڈ میں ہیں اُن کی حالت پر رحم کھانے کے بجائے ایسے نکتے پر واویلا مچانے کی اداکاری کررہاہےکہ جس کو وہ خود ہی سمجھ نہیں سکے ہیں۔
کیا آپ کو واقعی ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ سائنس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادیں کیا ہیں اور مضمون نگار جب کہتا ہے کہ
"سائنسی مادیت و افادیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہو کر سر ے سے سائنس کی مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ بنیادوں کا انکار کر دیتے ہیں"
"فلسفے کے کچھ ایسے مذہب پسند نقاد جو عملی سائنس کی مابعدالطبیعاتی نظری بنیادوں کے وجود کے ہی انکاری ہیں"
تو اس کا مطلب کیا ہے؟
براہ مہربانی ذرا اپنے الفاظ میں بتائیں کہ آپ اس سب سے، خصوصاً سائنس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادوں سے، کیا سمجھ رہے ہیں تاکہ کچھ پتہ چلے کہ آپ کو ابہام کہاں پر درپیش ہے۔
اس کے لیے تو فی الحال آپ ابہام دور کرکے یہ بتائیں کہ:
میری طرف سے آپ تسلی رکھیں۔ مجھے کمر کسے ہوئے ایک ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ نہ صرف
تحریر اور لوگوں کے لیے منعقد کی گئی
عملی سرگرمیوں کی صورت میں بلکہ
خود کی تحقیق اور دیگر سنجیدہ نوعیت کے کام کی صورت میں بھی جو کچھ ہو سکتا ہے، کرتا رہتا ہوں۔
کیا آپ بھی اپنے متعلق یہ کہہ سکتے ہیں؟
کیا آپ کی مذکورہ سرگرمیاں اور تحقیقات ”مابعدالطبیعیاتی بنیادوں“ سے متعلق ہیں یا نہیں۔
اگر ہیں تو بلاواسطہ یا بالواسطہ؟
حقائق کے منافی؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان میں ایک بڑا طبقہ، سائنس و فلسفہ کو علم کہلانے کے لائق سمجھتا ہی نہیں؟ آپ خود ہی اس تھریڈ پر بھی دیکھ چکے ہیں کہ کیسے اسے "محض پیسہ کمانے کے ہنر" کے ڈبے میں بند کر دیا گیا۔
سید عمران صاحب کے مراسلے کو آپ دیکھ ہی غلط زاویۂ نظر سے رہے ہیں۔ اُن کا مقصد میری رائے میں محض وہی ہوسکتا ہے، جس کا ذکر میں اوپر عملی بنیادوں پر ہونے والے مشاہداتی اعتراضات کے ضمن میں کرچکا ہوں۔ یعنی جو شے عفریت بن کر خالص علمی ماحول کو گہناتا چلا آرہاہے، اس کو یکسر نظر انداز کرکے محض ایک مبہم ترین پہلو کا واویلا پیٹنا حماقت کی انتہا ہے۔
یہاں یہ سوال پوچھنا برمحل رہے گا کہ کیا
سید عمران صاحب کے ساتھ کوئی بھی اسلام پسند یہاں ایسا موجود ہوسکتا ہے جو قرآن کے غور وفکر کی سینکڑوں آیات کی روشنی میں اشیاء کی حقیقت جاننے اور کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھانے کے لیے کی جانے والی سائنسی تحقیقات کا انکاری ہو؟
ایک اور مثال آپ کو محدث فورم پر اس تحریر میں مل جائے گی جو کچھ اس طرح سے شروع ہوتی ہے:
علم کیا ہے؟
"اس وقت اگر ہم دنیا میں نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں کئی قسم کے علوم نظر آتے ہیں۔ سائنس، انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، بینکنگ، بائیو، کیمسٹری، فزکس، ہوم اکنامکس،۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ الغرض کہ ہر شعبہ کے حوالے سے ماہرین ملتے ہیں۔ اور ان کی کتب بھی سستے داموں دکانوں اور ٹھیلوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ لوگوں کا ایک جم غفیر ان علوم پر اپنا تن من دھن لٹانے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ اگر ان تمام علوم کے نتیجہ پر غور کریں تو
ان سب علوم کا ماحاصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔"
پہلی بات تو یہ کہ عاصم بخشی کے دعوے کے لحاظ سے تو یہ دلیل ہی غلط ہے۔ مضمون نگار کا اگلا پیراگراف کچھ یوں شروع ہوتاہے:
کسی بھی درجے کی پاکستانی جامعہ کے فزکس، ریاضی یا انجینئرنگ کی جماعت میں طالبعلموں سے یہ سوال پوچھ کر دیکھئے کہ ریاضی کی کتاب پوری دل جمعی سے پڑھنے سے خدا کے خوش ہونے کی کوئی امید ہے تو آ پ کو معلوم ہو جائے کہ مرض کی جڑیں کتنی پختہ ہیں۔ اس استدلال کے لئے بہت زیادہ لفاظی کی ضرورت نہیں کہ اس مخصوص مذہبی نفسیات میں کم و بیش تیرہ صدیوں سے گندھے انسان کی جینیاتی ماہیت کبھی اسے اس مرحلے کو اتنی خوش اسلوبی سے طے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی کہ خدا اور وصال ِ صنم ایک ساتھ ہی مل جائے۔
کیا آپ بتا سکتےہیں کہ محدث فورم پر یہ شخصی مضمون رقم کرنے والا فرد کسی پاکستانی جامعہ کے مذکورہ تین شعبہ جات کا حاضر یا سابقہ طالب علم ہے؟ اگر نہیں تو دلیل آپ کی ضائع ہوگئی ہے۔ اگر ہاں تو اس کا ثبوت عنایت فرمائیں۔
اگر بالفرض ہم اس غلط دلیل کو بھی لے کر رونا شروع کردیں تو بھی ہمیں آنسو بہانے سے پہلے ہی مطمئن ہونا پڑے گا کہ یہاں بھی مضمون نگار اس پہلو کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ ایک ”جمِ غفیر“ ان ”علوم“ پر اپنا تن من دھن لٹانے کو تیار نظر آتا ہے۔ اور جب ہم اس جمِ غفیر کے حاصل کردہ ان علوم کے نتیجے پر غور کرتے ہیں تو اِن تمام علوم کا ماحصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔ یا محض مادیت پرستی ہے کوئی علمی انقلاب نہیں۔
جب کہ آپ کی قصداً گمراہ کن چشم پوشی سے پردہ بھی اسی مضمون کے اس پیراگراف میں اُٹھتا ہے، جس میں مضمون نگار نے واضح الفاظ میں اصل کی جانب اشارہ کیا ہے:
ْ [اس بات سے علم ہوا کہ دین اسلام دنیاوی فنون کے حصول کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ ان کو دین کے تابع رکھنے کا حکم دیتا ہے۔
آج امت مسلمہ اسی نقطہ پر دھوکے کا شکار ہوئی ہے کہ امت مسلمہ کا ایک طبقہ دنیا میں ایسا مگن ہوا کہ وہ دین سے بالکل فارغ رہا اور ایک گروہ دین میں ایسا گھسا کہ دنیاوی سیادت و قیادت سے نا آشنا۔ امت افراط و تفریط کا شکار ہو گئی جبکہ علم دین اس چیز کا قطعاً حکم نہیں دیتا بلکہ اس علم کے ذریعے تو دنیا و آخرت دونوں میں بلندیاں نصیب ہوتی ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ذیشان ہے:
”ان اللہ یرفع بھذالکتاب اقواما و یضع بہ آخرین“
بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے قوموں کو بلندیاں عطاء فرماتا ہے اور اس کو ترک کرنے کہ وجہ سے ان کو رسواکرتا ہے اور اس کی کئی مثالیں تاریخ میں ملتی ہے۔“]
یہی وہ مقام ہے جہاں سے ہمیں اس دیسی لبرل طبقے کو آؤٹ آف توجہ کرنا پڑے گا کہ یہ نفسیاتی مریضوں کا وہ ٹولہ ہے جسے اصل مسائل کا ادراک ہی نہیں ہوسکتا۔ جو مذہب مذہب کی چیخ وپکار کرکے سعی لاحاصل میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کررہے ہیں۔
یہاں تک کہ آپ دار العلوم دیوبند جیسے اداروں کے فتاوی کو دیکھ لیں تو وہ بھی دو بنیادی زمرے بناتے نظر آتے ہیں (
مثال):
- جو علوم براہ راست قرآن کریم، حدیث شریف اور دینی احکام سے جڑے ہوئے ہیں، وہ در حقیقت "علم" ہے۔
- جن علوم کی اصل "کسب معاش" ہے، وہ فن و ہنر ہے۔
کیا دنیا میں ایسا کوئی علم وجود نہیں رکھتا کہ جو قرآن و حدیث سے براہ راست نہ بھی جڑا ہوا ہو لیکن اس کا کردار "کسب معاش" سے آگے بڑھ کر اشیاء کی حقیقت جاننے کے حوالے سے کچھ ہو؟
اس پر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ذرا یہ بتائیں جب پہلے نکتے میں کہہ بھی دیا گیا کہ جو علوم براہِ راست قرآن کریم، حدیث شریف اور دینی احکام سے جُڑے ہوئے ہیں، وہ علم ہے اور جن امور کا ”اِصالۃً تعلق“ کسبِ معاش ہے وہ فن وہنر ہے۔ تو پھر اس پر اعتراض کیا ہے؟
1۔ پہلا ماتم تو یہ کرنا چاہیے کہ آپ کو قرآن کے لفظ کی ہی سمجھ نہیں۔ آپ شائد قرآن کو محض کتاب سمجھ رہے ہیں اور اس میں غور وفکر کی دعوت دینے والے سینکڑوں احکامات کو (معاذاللہ) محض الفاظ کا مجموعہ۔ تو اس صورت میں آپ جیسے صاحب کو پہلا نکتہ سمجھ آنا ناممکن ہے۔
2۔ دوسرا ماتم آپ کے تفہیم کی صلاحیت پر۔ جب اس فن و ہنر کے لیے ”اِصالۃً تعلق“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، پھر بھی اسے عمومی اور سطحی طور پر سمجھنے کی کوشش کسی بھی صاحب الرائے کا مزاج ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی امر کا اصل ہی جب کسبِ معاش ہو اور اس کا فلسفے سے کوئی تعلق نہ ہو، تو پھر آپ کے ڈسکارٹے اورمیکینکل انجنئیر میں کیا فرق رہ جاتاہے، اس کی وضاحت آپ ہی فرمائیے۔
پوچھنے لگا تھا پھر خیال آیا کہ مضمون کے پہلے جملے میں ہی لکھا ہے،
"’مذہب پسند‘ کی اصطلاح کوا ن سب طبقات تک محدود کرتے ہوئے جو اس قضیے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کہ معاشرتی ڈھانچے کے سیاسی و سماجی خدوخال مرتب کرنے میں تن تنہا مذہب ہی ایک واحد بامعنی قدر ہے"۔ آپ بہرحال میرا سوال گول کر گئے کہ پلانٹڈ کمنٹ کیا ہوتا ہے اور اس کا پتہ کیسے لگایا جاتا ہے۔
جب جاسم محمد یہ فرض کربیٹھے کہ میں نے اپنے مؤقف کا ذکر کیے بغیرعبدالسلام کے متعلق نوبل لیکچر کو پڑھا ہی نہیں، مجھے یہ علم ہی نہیں کہ ان کے متعلق دو قوتوں کو ایک قوت سے منسوب کرنے کی تحقیق کی تشہیر ہوئی ہے، اور خود ہی وضاحت پوچھے بغیر میرے متعلق ایک غلط تشخص قائم کرکے اس طرح کے الٹے سیدھے کمنٹس کرے تو اسے آپ ہی کوئی اصطلاح دے دیجیے۔ نوازش ہوگی۔
آپ کے مراسلے میں موجود تضاد اور پچھلے دو تجربات کو سامنے رکھ کر فی الحال یہاں چند سوالات پوچھنا بہتر رہےگا۔ تاکہ تکرار در تکرار سے محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے قیمتی وقت کو غیرضروری دلائل پڑھ کر ضائع ہونے سے بچا سکوں۔
یوں تو میں نے دعوت آپ کو دی تھی کہ آپ اپنی مرضی کے طریقہ کار سے سروے کر کے دیکھ لیں، جس کے لیے آپ کو اردو محفل پر بھی poll جیسے ٹول دستیاب ہیں۔
لیکن چلیں آپ مجھ پر ہی ڈالنا چاہتے ہیں تو کیوں نہ میری ذاتی زندگی کے واقعات کے بجائے کہ جن پر اعتماد کا کوئی مکینزم ہمارے پاس نہیں ہو گا، کچھ پبلک کے لیے عام دستیاب تحریری ریکارڈ چھان لیا جائے؟
ختم نبوت کے نام سے چلنے والی ایک ویب سائٹ کا یہ مضمون کیسا رہے گا؟ کچھ اقتباسات:
- "چونکہ قادیانیت مخبروں اور غداروں کا سیاسی گروہ ہے، لہٰذا اس کی سرپرستی کرتے ہوئے سامراج نے ان کے ایک فرد کو نوبیل پرائز دیا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک رشوت ہے جو یہودیوں نے قادیانیت کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے دی۔"
- "دوسرے شعبوں کی طرح نوبیل انعام میں بھی یہودیوں کی اجارہ داری ہے۔ ان کا غرور، نخوت، اور تعصب کسی ایسے شخص کو خاطر میں نہیں لاتا، جو ان کی سازشوں اور مکروہ سرگرمیوں کا حامی اور آلہ کار نہ ہو۔ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی، یہودیوں کے اس میرٹ پر سو فیصد پورے اترتے تھے، لہٰذا انہوں نے ایک سازش کے تحت ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبیل انعام سے نوازا اور اس کی آڑ میں اپنے خفیہ مقاصد حاصل کیے۔"
- "ڈاکٹر عبدالسلام کو ہیرو بنا کر پیش کرنے والے ان عقل کے اندھوں سے پوچھنا چاہیے کہ۔۔۔ اس کی کون سی ایجاد یا دریافت ہے، جس نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا؟ اس کا کون سا کارنامہ ہے جس سے پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچا؟ اس کی کون سی خدمت ہے، جس سے اہل پاکستان کے مسائل میں ذرا سی بھی کمی واقع ہوئی؟ اس نے کون سا ایسا تیر مارا، جس پر اسے نوبیل انعام سے نوازا گیا؟ یہ سوالات آج تک تشنہ جوابات ہیں!"
ایسی تحاریر آپ کو جا بجا پکھری پڑی ملیں گی۔ صرف ملتے جلتے الفاظ گوگل شوگل میں تلاش کر لیں۔
پھر کچھ تسلی ہوئی کہ میرا دعوی کتنا "غلط" تھا؟
اس سب سے یاد آیا، آپ نے اپنا موقف نہ سمجھے جانے کا گلہ کرنے اور میری طرف سے اپنا موقف واضح کرنے کی دعوت کے باوجود ابھی تک اس حوالے سے اپنا موقف واضح نہیں کیا کہ آپ کے نزدیک عبد السلام کی تحقیق نوبیل کے لائق تھی یا نہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ آپ دانستہ ابہام رکھ کر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں؟
سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ ڈاکٹر عبدالسلام کو کافر مانتے ہیں یا نہیں؟
جواب ہاں یا نہیں میں دیں۔ اگر بالفرض آپ کا جواب ”ہاں“ میں ہو، تو کیا وہ اس فیصلے کو تسلیم کرتے تھے یا نہیں؟
یہ پوچھنا کیوں ضروری ہے، یہ آپ کے جواب کے بعد۔