اس کو تو آپ
یہاں سے سمجھ سکتے ہیں۔ پریشان نہیں ہونا۔
یا شاید
یہاں سے
عملی بنیادوں پر ہونے والے مشاہداتی اعتراضات کا مطلب معاشرے میں پھیلا دیسی لبرلوں اور غیرلبرلوں کا وہ جم غفیر ہے، جن کی تعلیم کا مقصد محض روزی روٹی اور عہدے و مراعات ہیں۔ اور جس کو آپ بھی تسلیم کرچکے ہیں۔ اس مقام پر آکر عاصم بخشی کو بجا طور پر شرمندہ ہونا چاہیے کہ جو طلبہ فیلڈ میں ہیں اُن کی حالت پر رحم کھانے کے بجائے ایسے نکتے پر واویلا مچانے کی اداکاری کررہاہےکہ جس کو وہ خود ہی سمجھ نہیں سکے ہیں۔
ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ زبردستی لوگوں کو وہ باتیں کیوں تسلیم کروا رہے ہوتے ہیں جن کے متعلق انہوں نے ابھی اپنی رائے کا اظہار کیا بھی نہیں ہوتا۔
خیر، بات آپ کی کافی حد تک درست ہے کہ یہ مرض کافی عام پھیلا ہوا ہے۔ لیکن یہاں ایک بنیادی فرق ہے۔
جو لبرل روزی روٹی کے چکر تک محدود ہیں، وہ اس کی کوئی نظریاتی بنیاد رکھنے کا تکلف کرنے کے بجائے اپنی ازلی کاہلی اور ہڈحرامی پر اکتفاء کرتے ہیں۔
غیر لبرلوں میں اس حوالے سے کئی طبقات ہیں۔ کاہلی اور ہڈحرامی والا طبقہ یہاں بھی ہے، سائنس و فلسفہ کو سنجیدہ لینے والا طبقہ بھی یہاں موجود ہے، لیکن ایک طبقہ بہرحال ایسا موجود ہے کہ جس کے نظریات کے مطابق "غیر لغو" علوم بس دو طرح کے ہی ہیں۔ ایک براہ راست دینی اور دوسرا کسب معاش کی غرض سے سیکھے جانے والے۔ اس سے باہر کے علوم کو وہ لغو سمجھتے ہیں جس کے حصول پر صرف کیا گیا وقت ان کے نزدیک ضائع ہے۔
مضمون پر اگر آپ نے غور کیا ہو تو وہ اسی آخر الذکر طبقے کے حوالے سے ہے، نہ کہ ان کے حوالے سے جو مذہب کی جانب رجحان ہونے کے ساتھ ساتھ ان علوم کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔ مضمون شروع ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ یہاں مذہب پسند کی تعریف کو کچھ خاص ذیلی طبقے تک محدود کیا جا رہا ہے۔
یہ گلہ آپ کا کہ صرف یہ نظریہ رکھنے والوں کے متعلق مضمون کیوں تحریر کیا گیا، ہڈحرامی والے طبقے کے متعلق کیوں نہیں تحریر کیا گیا، اس کو اب میں کیا کہوں۔ ایک شخص ایک وقت میں ایک ہی مضمون لکھ سکتا ہے۔ تو اسے کہیں نہ کہیں سے تو سرا پکڑنا ہی پڑے گا۔ کیا آپ کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ باقی ہر طبقے کے مسائل پر بات کر لی جائے لیکن جو مذہب کا نام اپنے نام کے ساتھ منسلک کرتے ہوں، انہیں کچھ بھی نہ کہا جائے، خواہ وہ مسائل کتنے ہی سنجیدہ ہوں؟ یہ تو عیسائیت کی طرز پر پاپائیت ہو جائے گی، اسلام تو کہیں دور رہ جائے گا۔
اس کے لیے تو فی الحال آپ ابہام دور کرکے یہ بتائیں کہ:
کیا آپ کی مذکورہ سرگرمیاں اور تحقیقات ”مابعدالطبیعیاتی بنیادوں“ سے متعلق ہیں یا نہیں۔
اگر ہیں تو بلاواسطہ یا بالواسطہ؟
لنکس آپ کے پاس موجود ہیں۔ آپ چاہیں تو پڑھنے کا تکلف فرما سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ بات میرے لیے ایک معمہ رہے گی کہ جن دو نکات کو آپ نے جوڑا ہے، ان کا آپس میں تعلق کیا بنتا ہے۔
شاید آپ کنفیوژن پیدا کر کے خود اس بات کا جواب دینے سے بچنا چاہتے ہیں کہ آیا آپ اپنے کسی ایسے کام کی جانب اشارہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔
دیکھیں، ڈسکشن کا مقصد سیکھنا ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ کو مابعد الطبیعیاتی بنیادوں کا تصور سمجھ نہیں آ رہا تو جتنا سمجھ آ رہا ہے، وہ بتا دیں، تاکہ بہتر سمجھ کے لیے آپ کی مدد کی جا سکے۔ یوں مسلسل سوال کے جواب سے گریز کر کے اور اپنی سمجھ واضح نہ کر کے آپ کیا سیکھ لیں گے؟
یہاں یہ سوال پوچھنا برمحل رہے گا کہ کیا
سید عمران صاحب کے ساتھ کوئی بھی اسلام پسند یہاں ایسا موجود ہوسکتا ہے جو قرآن کے غور وفکر کی سینکڑوں آیات کی روشنی میں اشیاء کی حقیقت جاننے اور کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھانے کے لیے کی جانے والی سائنسی تحقیقات کا انکاری ہو؟
کافی دلچسپ سوال ہے۔ سروے کیا جا سکتا ہے۔ "کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جس سائنس و فلسفہ کا تعلق براہ راست مذہب سے نہ ہو اور وہ معاشی ترقی میں بھی معاون نہ ہو، اس پر وقت لگانا چاہیے یا نہیں؟"
یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اپنے تجربے کے حوالے سے تو میں جانتا ہوں کہ ایسی ایک بڑی تعداد سے مجھے ذاتی حیثیت میں واسطہ پڑا ہے جو ان دونوں زمروں کے علاوہ باقی کے علوم کو لغو جانتی ہے۔ سب سے زیادہ یہ بات غالباً تبلیغی جماعت کے ساتھ لگائے اپنے وقت میں سننے کو ملی۔ ایسے کچھ رسائل بھی مجھے یاد ہیں جن میں یہ بات بار بار پڑھنے کو ملی، خاص طور پر جب کسی اور ساتھی نے نہایت اصرار کر کے زبردستی پڑھوائی کہ میرا نیچرل سائنس کی جانب رجحان ایک لغو سرگرمی ہے۔ لیکن یہاں میرے ذاتی تجربے کی کوئی حیثیت نہیں اور ہمیں بہرحال ایسے ذرائع کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جہاں میری طرف سے کوئی ممکنہ تعصب نتائج پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
ایسی ایک مثال کہ جس کی طرف میں آپ کی توجہ دلا سکتا ہوں۔ یہ مسئلہ اتنا پرانا ہے کہ امام غزالی بھی "المنقذ من الضلال" میں ایسے لوگوں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ ریاضی کی تعلیم کے حوالے سے دو مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے دوسرے میں ان مسلمانوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مذہب کے دفاع کا واحد راستہ یہی ہے کہ باقی کے "دنیاوی علوم" کو سرے سے رد کر دیا جائے۔ اگر آپ غور کریں تو یہ وہی طبقہ ہے کہ جس کا تذکرہ عاصم بخشی صاحب کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ طبقہ صرف "دیسی لبرلوں" کے تخیل میں نہیں پایا جاتا بلکہ امام غزالی کے دور میں بھی وافر دستیاب تھا۔
اگر یہاں عاصم بخشی صاحب pathological lying کے قصوروار ٹھہرتے ہیں تو شاید پھر امام غزالی کے بارے میں بھی آپ یہی سوچتے ہوں گے؟
پہلی بات تو یہ کہ عاصم بخشی کے دعوے کے لحاظ سے تو یہ دلیل ہی غلط ہے۔ مضمون نگار کا اگلا پیراگراف کچھ یوں شروع ہوتاہے:
کیا آپ بتا سکتےہیں کہ محدث فورم پر یہ شخصی مضمون رقم کرنے والا فرد کسی پاکستانی جامعہ کے مذکورہ تین شعبہ جات کا حاضر یا سابقہ طالب علم ہے؟ اگر نہیں تو دلیل آپ کی ضائع ہوگئی ہے۔ اگر ہاں تو اس کا ثبوت عنایت فرمائیں۔
کیا آپ واقعی یہ جملہ لکھتے ہوئے سنجیدہ تھے؟ کیا مضمون میں کسی طرح کا اشارہ موجود ہے کہ یہ مسئلہ صرف جامعات میں ریاضی، طبیعیات اور انجنئیرنگ کے شعبوں تک محدود ہے؟ یہ تو آپ محض اعتراض برائے اعتراض کیے جا رہے ہیں تاکہ تعداد بڑھا کر خود کو تھوڑا بھاری دکھا سکیں۔
اگر بالفرض ہم اس غلط دلیل کو بھی لے کر رونا شروع کردیں تو بھی ہمیں آنسو بہانے سے پہلے ہی مطمئن ہونا پڑے گا کہ یہاں بھی مضمون نگار اس پہلو کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ ایک ”جمِ غفیر“ ان ”علوم“ پر اپنا تن من دھن لٹانے کو تیار نظر آتا ہے۔ اور جب ہم اس جمِ غفیر کے حاصل کردہ ان علوم کے نتیجے پر غور کرتے ہیں تو اِن تمام علوم کا ماحصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔ یا محض مادیت پرستی ہے کوئی علمی انقلاب نہیں۔
کیا آپ نے جملہ ٹھیک سے پڑھا؟
"اگر ان تمام علوم کے نتیجہ پر غور کریں تو ان سب علوم کا
ماحاصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔"
علوم کے حصول کے رجحان کی وجہ کا نہیں لکھا ہوا۔ ان علوم کے "ماحاصل" کی بات کی گئی ہے کہ ان کا ماحاصل محض دنیاوی جاہ و حشمت ہی ہے۔
جب کہ آپ کی قصداً گمراہ کن چشم پوشی سے پردہ بھی اسی مضمون کے اس پیراگراف میں اُٹھتا ہے، جس میں مضمون نگار نے واضح الفاظ میں اصل کی جانب اشارہ کیا ہے:
ْ [اس بات سے علم ہوا کہ دین اسلام دنیاوی فنون کے حصول کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ ان کو دین کے تابع رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ آج امت مسلمہ اسی نقطہ پر دھوکے کا شکار ہوئی ہے کہ امت مسلمہ کا ایک طبقہ دنیا میں ایسا مگن ہوا کہ وہ دین سے بالکل فارغ رہا اور ایک گروہ دین میں ایسا گھسا کہ دنیاوی سیادت و قیادت سے نا آشنا۔ امت افراط و تفریط کا شکار ہو گئی جبکہ علم دین اس چیز کا قطعاً حکم نہیں دیتا بلکہ اس علم کے ذریعے تو دنیا و آخرت دونوں میں بلندیاں نصیب ہوتی ہیں۔
آپ کو لوگوں پر "قصداً گمراہ کن چشم پوشی" کا الزام لگانے کی کچھ زیادہ ہی جلدی ہوتی ہے۔ اتنی جلدی کہ آپ مضمون ٹھیک سے سمجھنے کا بھی تکلف نہیں کرتے ہوتے۔
مضمون نگار پہلے پیراگراف میں مرکزی خیال نہایت واضح الفاظ میں کہہ چکا ہے۔ اس سیاق و سباق میں صاف سمجھ آتی ہے کہ "دنیاوی" علوم کی اہمیت محض جاہ و حشمت اور سیاست و قیادت تک محدود سمجھی جا رہی ہے۔
نیز جو مثال یہ دیتے ہیں،
جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ذیشان ہے:
”ان اللہ یرفع بھذالکتاب اقواما و یضع بہ آخرین“
بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے قوموں کو بلندیاں عطاء فرماتا ہے اور اس کو ترک کرنے کہ وجہ سے ان کو رسواکرتا ہے اور اس کی کئی مثالیں تاریخ میں ملتی ہے۔“]
اس کی تشریح میں بیشتر علمائے دین کتاب سے قرآن مراد لیتے ہیں۔
خیر۔ معذرت کہ ایسے کنفیوز شخص کا مضمون پڑھوا کر آپ کے سر میں درد کیا۔ آپ چاہیں تو اس کو نظر انداز کر کے دیگر مثالوں (دار العلوم دیوبند، تبلیغی جماعت، امام غزالی کا دور، وغیرہ) کو ایک نظر دیکھ سکتے ہیں جن سے آپ خود "گمراہ کن چشم پوشی" فرماتے ہوئے صرف اس ایک مثال پر خصوصی توجہ دے کر "گمراہ کنی" کا نتیجہ اخذ کر رہے ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سے ہمیں اس دیسی لبرل طبقے کو آؤٹ آف توجہ کرنا پڑے گا کہ یہ نفسیاتی مریضوں کا وہ ٹولہ ہے جسے اصل مسائل کا ادراک ہی نہیں ہوسکتا۔ جو مذہب مذہب کی چیخ وپکار کرکے سعی لاحاصل میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کررہے ہیں۔
یار اگر آپ کے کان محض اس وقت کھڑے ہوتے ہیں جب آپ کی پسندیدہ پاپائیت کے حوالے سے کوئی لفظ کسی کے منہ سے نکلے تو اس میں لکھنے والوں کا کیا قصور؟
خیر، آپ کی سلیکٹیو سٹڈی کے تو کیا کہنے۔ ابھی تک تو آپ کا میرے متعلق بھی یہ خیال تھا کہ
جہاں تک قحط کا تعلق ہے تو آپ اور آپ کی کمیونٹی کمر کس لیں۔ کب تک ”مذہب پسندوں“ کے پیچھے چھپ چھپ کر اپنا وقت ضائع کرتے رہیں گے۔
جب ہر پوسٹ کے نیچے دستخط میں فورم کا لنک نہیں دیکھ سکے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ آپ کو لگتا ہے کہ لبرل لکھاری محض آپ کے پیچھے ہی لٹھ لے کر پڑا ہوا ہے۔
اس پر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ذرا یہ بتائیں جب پہلے نکتے میں کہہ بھی دیا گیا کہ جو علوم براہِ راست قرآن کریم، حدیث شریف اور دینی احکام سے جُڑے ہوئے ہیں، وہ علم ہے اور جن امور کا ”اِصالۃً تعلق“ کسبِ معاش ہے وہ فن وہنر ہے۔ تو پھر اس پر اعتراض کیا ہے؟
اعتراض یہ ہے کہ کیا آپ کے نزدیک علم کے زمرے بس یہی دو ہیں؟
اعتراض یہ بھی ہے کہ ایسی بہت تحاریر نظر سے گزر چکی ہیں اور کئی بار مبلغین سے بھی سن چکا ہوں کہ ان دونوں زمروں کے علاوہ باقی سب لغو ہے لہٰذا مسلمان کے لیے ان پر وقت لگانا گناہ ہے۔
اعترض یہ بھی ہے کہ امام غزالی کے دور سے آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا اور بہانے بہانے سے سائنس و فلسفہ جیسے "دنیاوی علوم" کو شودر ذات والی کیٹیگرائزیشن کی جانب دھکیلا ہی جاتا رہا ہے۔
2۔ دوسرا ماتم آپ کے تفہیم کی صلاحیت پر۔ جب اس فن و ہنر کے لیے ”اِصالۃً تعلق“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، پھر بھی اسے عمومی اور سطحی طور پر سمجھنے کی کوشش کسی بھی صاحب الرائے کا مزاج ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی امر کا اصل ہی جب کسبِ معاش ہو اور اس کا فلسفے سے کوئی تعلق نہ ہو، تو پھر آپ کے ڈسکارٹے اورمیکینکل انجنئیر میں کیا فرق رہ جاتاہے، اس کی وضاحت آپ ہی فرمائیے۔
کیا سائنس، فلسفے، سوشل سائنسز، اس طرز کے علوم کا اصل محض کسب معاش ہے؟
خود ہی ایسی باتیں کر کے پھر خود ہی پوچھتے بھی ہیں کہ کس نے ایسا کچھ دعویٰ کیا۔ اعلیٰ!
سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ ڈاکٹر عبدالسلام کو کافر مانتے ہیں یا نہیں؟
جواب ہاں یا نہیں میں دیں۔ اگر بالفرض آپ کا جواب ”ہاں“ میں ہو، تو کیا وہ اس فیصلے کو تسلیم کرتے تھے یا نہیں؟
یہ پوچھنا کیوں ضروری ہے، یہ آپ کے جواب کے بعد۔
یہ بھی اچھی کہی۔ دو بار یہ سوال پوچھنے کے بعد کہ آپ کی اپنی ڈاکٹر عبدالسلام کی تحقیق کے حوالے سے کیا رائے ہے کہ وہ نوبیل انعام کی مستحق تھی یا نہیں، جواب یہ ملتا ہے کہ بتاؤ عبد السلام کافر تھا یا نہیں؟
کسی کے کافر ہونے، یا اس کے اس لیبل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے، سے اس بات کو کیا فرق پڑتا ہے کہ جو تحقیق اس نے کی تھی، اس کا معیار کیا تھا؟
کیا لیول ہے یار آپ کا! چھا گئے ہو!