یعنی اب ہم پرویز ہود کے ساتھ ساتھ عاصم بخشی کو بھی مذکورہ تعریف پر پورا اترتے دیکھ سکتے ہیں۔ اِن ڈائریکٹ کلاس لینے کی اچھی مثال ہے۔ روٹ کاز مع نفسیاتی عوارض۔
ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ زبردستی لوگوں کو وہ باتیں کیوں تسلیم کروا رہے ہوتے ہیں جن کے متعلق انہوں نے ابھی اپنی رائے کا اظہار کیا بھی نہیں ہوتا۔
کیا تسلیم کرنے کے لیے اعلان کرنا ضروری ہوتاہے؟ اگر واقعی تو اپنا اگلا جملہ پڑھ لیجیے۔ اب ”کافی حد تک“ کیا ہوتاہے، اس کے لیے نئی لغت شائد وضع کرنا پڑے۔
خیر، بات آپ کی کافی حد تک درست ہے کہ یہ مرض کافی عام پھیلا ہوا ہے۔
---
جو لبرل روزی روٹی کے چکر تک محدود ہیں، وہ اس کی کوئی نظریاتی بنیاد رکھنے کا تکلف کرنے کے بجائے اپنی ازلی کاہلی اور ہڈحرامی پر اکتفاء کرتے ہیں۔
غیر لبرلوں میں اس حوالے سے کئی طبقات ہیں۔ کاہلی اور ہڈحرامی والا طبقہ یہاں بھی ہے،لیکن ایک طبقہ بہرحال ایسا موجود ہے کہ جس کے نظریات کے مطابق "غیر لغو" علوم بس دو طرح کے ہی ہیں۔ ایک براہ راست دینی اور دوسرا کسب معاش کی غرض سے سیکھے جانے والے۔ اس سے باہر کے علوم کو وہ لغو سمجھتے ہیں جس کے حصول پر صرف کیا گیا وقت ان کے نزدیک ضائع ہے۔
مضمون پر اگر آپ نے غور کیا ہو تو وہ اسی آخر الذکر طبقے کے حوالے سے ہے، نہ کہ ان کے حوالے سے جو مذہب کی جانب رجحان ہونے کے ساتھ ساتھ ان علوم کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔ مضمون شروع ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ یہاں مذہب پسند کی تعریف کو کچھ خاص ذیلی طبقے تک محدود کیا جا رہا ہے۔
اس سے ایک تو یہ بات پھر ثابت ہوگئی کہ ایک جم غفیر روزی روٹی اور جاہ حشمت میں مبتلا ہے۔ جن کا علومِ قرآنی سے متعلق تحقیقاتی سرگرمیوں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔
لیکن یہاں آپ کافی مہارت سے ایک اہم ترین نکتہ سائڈلائن کرگئے۔
نکتہ: لبرلز کا وہ طبقہ جو مذہبی کتب، مدارس اور طبقے کو متروک، پسماندہ اور معاشرے پر اضافی بوجھ سمجھ کر جان چھڑانا چاہتا ہے۔ اور اسی کو اپنی ترقی میں سب سے بڑی رُکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اگر آپ چاہے تو اس مرض میں مبتلا بڑے بڑے جغادریوں کے نام اور اقتباسات پیش کردوں؟
فی الحال محض ایک اشارہ کافی رہے گا:
A physics textbook of the Sindh Textbook Board categorically states that the universe sprang instantly into existence when a certain divine phrase was uttered.
یہ نفسیاتی مریض قرآن کی آیات کا معاذ اللہ مذاق اُڑا کر کون سا فلسفہ جھاڑ رہا ہے؟ کیا کبھی آپ نے اس پر بھی اپنی انگلیوں کو تکلیف دی، کہ بھئی جب بات فلسفے کی ہورہی ہے، آپ اس قوم کو سائنسی علوم سمجھانے نکلے ہیں جن کا رُخ اسی قرآن سے وابستہ ہے تو اس طرح کے جاہلانہ تبصرے کرکے آپ کون سے انقلاب کے متمنی ہے؟
لیکن ایک اور جگہ وہ یہ معمہ بھی حل کر ہی دیتے ہیں:
But the first properly belongs to Islamic Studies, the second to Islamic or Pakistani history. Neither legitimately belongs to a textbook on a modern-day scientific subject. That’s because religion and science operate very differently and have widely different assumptions. Religion is based on belief and requires the existence of a hereafter, whereas science worries only about the here and now.
Demanding that science and faith be tied together has resulted in national bewilderment and mass intellectual enfeeblement.
یعنی اسلامی عقائد اور سائنس ایک ساتھ چل ہی نہیں سکتے۔ یا بالفاظِ دیگر معاذاللہ اسلامی عقائد گمراہی اور جہالت، جب کہ سائنس نور اور ہدایت ہے۔
مزید بھی بہت کچھ ہے لیکن آپ کے غور وفکر کے لیے اتنا ہی کافی ہوناچاہیے کہ اصل مرض کہاں اور کون ہیں۔
آپ کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ باقی ہر طبقے کے مسائل پر بات کر لی جائے لیکن جو مذہب کا نام اپنے نام کے ساتھ منسلک کرتے ہوں، انہیں کچھ بھی نہ کہا جائے، خواہ وہ مسائل کتنے ہی سنجیدہ ہوں؟ یہ تو عیسائیت کی طرز پر پاپائیت ہو جائے گی، اسلام تو کہیں دور رہ جائے گا۔
سائنس کے اس عظیم جغادری کی فرمودات کی روشنی میں اب آیا آپ کا سائنس کے نام پر دفاع ”سائنسی پاپائیت“ کہلائی جاسکتی ہے یا ایسا کہنا گناہِ کبیرہ ہوگا؟
اور اپنے اس مراسلے کی روشنی میں بھی کہ
اعتراض یہ ہے کہ کیا آپ کے نزدیک علم کے زمرے بس یہی دو ہیں؟
اعتراض یہ بھی ہے کہ ایسی بہت تحاریر نظر سے گزر چکی ہیں اور کئی بار مبلغین سے بھی سن چکا ہوں کہ ان دونوں زمروں کے علاوہ باقی سب لغو ہے لہٰذا مسلمان کے لیے ان پر وقت لگانا گناہ ہے۔
اعترض یہ بھی ہے کہ امام غزالی کے دور سے آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا اور بہانے بہانے سے سائنس و فلسفہ جیسے "دنیاوی علوم" کو شودر ذات والی کیٹیگرائزیشن کی جانب دھکیلا ہی جاتا رہا ہے۔
کیا اب ہم بیک وقت اسلامی عقائد اور سائنس پر یقین رکھنے والے آپ جیسے طالبانِ علم کو جغادری کے ”مذہبِ سائنس“ کے مقابلے میں نعوذباللہ کوئی کم تر کٹیگری میں رکھ سکتے ہیں؟
لنکس آپ کے پاس موجود ہیں۔ آپ چاہیں تو پڑھنے کا تکلف فرما سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ بات میرے لیے ایک معمہ رہے گی کہ جن دو نکات کو آپ نے جوڑا ہے، ان کا آپس میں تعلق کیا بنتا ہے۔
شاید آپ کنفیوژن پیدا کر کے خود اس بات کا جواب دینے سے بچنا چاہتے ہیں کہ آیا آپ اپنے کسی ایسے کام کی جانب اشارہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔
دیکھیں، ڈسکشن کا مقصد سیکھنا ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ کو مابعد الطبیعیاتی بنیادوں کا تصور سمجھ نہیں آ رہا تو جتنا سمجھ آ رہا ہے، وہ بتا دیں، تاکہ بہتر سمجھ کے لیے آپ کی مدد کی جا سکے۔ یوں مسلسل سوال کے جواب سے گریز کر کے اور اپنی سمجھ واضح نہ کر کے آپ کیا سیکھ لیں گے؟
جب ہر پوسٹ کے نیچے دستخط میں فورم کا لنک نہیں دیکھ سکے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ آپ کو لگتا ہے کہ لبرل لکھاری محض آپ کے پیچھے ہی لٹھ لے کر پڑا ہوا ہے۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ جب یہ سوال اِن لنکس کے مفصل مطالعے کے بعد ہی اُٹھانے پر مجبور ہوا تو پھر کنفیوژن پیدا کرنے کا الزام آپ پر کیسے نہیں لگایا جاسکتا؟
کافی دلچسپ سوال ہے۔ سروے کیا جا سکتا ہے۔ "کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جس سائنس و فلسفہ کا تعلق براہ راست مذہب سے نہ ہو اور وہ معاشی ترقی میں بھی معاون نہ ہو، اس پر وقت لگانا چاہیے یا نہیں؟"
یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اپنے تجربے کے حوالے سے تو میں جانتا ہوں کہ ایسی ایک بڑی تعداد سے مجھے ذاتی حیثیت میں واسطہ پڑا ہے جو ان دونوں زمروں کے علاوہ باقی کے علوم کو لغو جانتی ہے۔ سب سے زیادہ یہ بات غالباً تبلیغی جماعت کے ساتھ لگائے اپنے وقت میں سننے کو ملی۔ ایسے کچھ رسائل بھی مجھے یاد ہیں جن میں یہ بات بار بار پڑھنے کو ملی، خاص طور پر جب کسی اور ساتھی نے نہایت اصرار کر کے زبردستی پڑھوائی کہ میرا نیچرل سائنس کی جانب رجحان ایک لغو سرگرمی ہے۔ لیکن یہاں میرے ذاتی تجربے کی کوئی حیثیت نہیں اور ہمیں بہرحال ایسے ذرائع کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جہاں میری طرف سے کوئی ممکنہ تعصب نتائج پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
ایسی ایک مثال کہ جس کی طرف میں آپ کی توجہ دلا سکتا ہوں۔ یہ مسئلہ اتنا پرانا ہے کہ امام غزالی بھی "المنقذ من الضلال" میں ایسے لوگوں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ ریاضی کی تعلیم کے حوالے سے دو مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے دوسرے میں ان مسلمانوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مذہب کے دفاع کا واحد راستہ یہی ہے کہ باقی کے "دنیاوی علوم" کو سرے سے رد کر دیا جائے۔ اگر آپ غور کریں تو یہ وہی طبقہ ہے کہ جس کا تذکرہ عاصم بخشی صاحب کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ طبقہ صرف "دیسی لبرلوں" کے تخیل میں نہیں پایا جاتا بلکہ امام غزالی کے دور میں بھی وافر دستیاب تھا۔
اگر یہاں عاصم بخشی صاحب pathological lying کے قصوروار ٹھہرتے ہیں تو شاید پھر امام غزالی کے بارے میں بھی آپ یہی سوچتے ہوں گے؟
دیکھیں یہ وہی بات ہوگئی کہ آپ یہ کیسے طے کررہے ہیں کہ ”کس سائنس و فلسفے کا تعلق براہِ راست مذہب سے“ ہے یا نہیں؟
اگر آپ کو اس کی وضاحت میں مشکل پیش آرہی ہو تو آپ یہ سوال کیوں نہیں پوچھ سکتے؟
کہ:
کیا کوئی بھی اسلام پسند یہاں ایسا موجود ہوسکتا ہے جو قرآن کے غور وفکر کی سینکڑوں آیات کی روشنی میں اشیاء کی حقیقت جاننے اور کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھانے کے لیے کی جانے والی سائنسی تحقیقات کا انکاری ہو؟
ایسا پوچھنا اس لیے ناممکن نظر آرہاہے کہ اس سے آپ کا مقدمہ ہی فوت ہوجاتاہے، اور عاصم بخشی صاحب کی وقتی ذہنی رُو کی خاکہ بندی اور ناگزیر بکھراؤ کا پھول کھلتا ہے۔
کیا آپ واقعی یہ جملہ لکھتے ہوئے سنجیدہ تھے؟ کیا مضمون میں کسی طرح کا اشارہ موجود ہے کہ یہ مسئلہ صرف جامعات میں ریاضی، طبیعیات اور انجنئیرنگ کے شعبوں تک محدود ہے؟ یہ تو آپ محض اعتراض برائے اعتراض کیے جا رہے ہیں تاکہ تعداد بڑھا کر خود کو تھوڑا بھاری دکھا سکیں۔
کیا اِن دو ”مرکزی“ مثالوں کے باوجود بھی مجھے یہ نکتہ نہیں اُٹھانا چاہیے تھا؟
کسی بھی درجے کی پاکستانی جامعہ کے فزکس، ریاضی یا انجینئرنگ کی جماعت میں طالبعلموں سے یہ سوال پوچھ کر دیکھئے کہ ریاضی کی کتاب پوری دل جمعی سے پڑھنے سے خدا کے خوش ہونے کی کوئی امید ہے تو آ پ کو معلوم ہو جائے کہ مرض کی جڑیں کتنی پختہ ہیں۔ اس استدلال کے لئے بہت زیادہ لفاظی کی ضرورت نہیں کہ اس مخصوص مذہبی نفسیات میں کم و بیش تیرہ صدیوں سے گندھے انسان کی جینیاتی ماہیت کبھی اسے اس مرحلے کو اتنی خوش اسلوبی سے طے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی کہ خدا اور وصال ِ صنم ایک ساتھ ہی مل جائے۔
ہم نے بحیثیت استاد اپنی کلاس میں ایک سے زیادہ بار دیکھا کہ وضع قطع سے مذہبی معلوم ہونے والے طالبعلم نے بہت اعتماد سے اپنا مذہبی فریضہ ادا کرتے ہوئے ایک پیچیدہ اور نہایت دلچسپ ریاضیاتی بحث کے دوران ہمیں بیچ میں ٹوک کر اذان سننے کی ترغیب دی۔ یقین جانئے ہمیں اس روک ٹوک سے کوئی شکایت نہیں کیوں کہ ہماری نگاہ میں مسئلہ خالصتاً مذہبی نہیں بلکہ دوئی میں پھنسی مذہبی نفسیات کی ترجیحات کا ہے جس کی مذہبی اور غیر مذہبی دونوں جہتیں سراسر افادیت پرستی کے فلسفے پر قائم ہیں جو خود تردیدی کے مجسم پیکروں پر مشتمل نسلوں کی مسلسل ترسیل جاری رکھے ہیں۔ یہ تیسری دنیا کی پسماندہ مذہبی معاشرت کا ایک ایسا جدید انسان ہے جو اپنی قدیم فطرت میں موجود عقلی و جبلی وحدت اس طرح بانٹ چکا ہے کہ اب اس وحدت کو محض ایک خوبصورت آدرش مان کر اس کی طرف قدم اٹھانے کی فکری قوت بھی نہیں رکھتا۔
کیا آپ نے جملہ ٹھیک سے پڑھا؟
"اگر ان تمام علوم کے نتیجہ پر غور کریں تو ان سب علوم کا ماحاصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔"
علوم کے حصول کے رجحان کی وجہ کا نہیں لکھا ہوا۔ ان علوم کے "ماحاصل" کی بات کی گئی ہے کہ ان کا ماحاصل محض دنیاوی جاہ و حشمت ہی ہے۔
یہاں آپ ”جم غفیر“ کو جب نظر انداز کردیں تو پھر آپ کی بات واقعی درست ہے، مگر مضمون نگار نے اسے ”جمِ غفیر“ سے نتھی کرکے بدقسمتی سے یہ موقع نہیں دیا۔
آپ کو لوگوں پر "قصداً گمراہ کن چشم پوشی" کا الزام لگانے کی کچھ زیادہ ہی جلدی ہوتی ہے۔ اتنی جلدی کہ آپ مضمون ٹھیک سے سمجھنے کا بھی تکلف نہیں کرتے ہوتے۔
مضمون نگار پہلے پیراگراف میں مرکزی خیال نہایت واضح الفاظ میں کہہ چکا ہے۔ اس سیاق و سباق میں صاف سمجھ آتی ہے کہ "دنیاوی" علوم کی اہمیت محض جاہ و حشمت اور سیاست و قیادت تک محدود سمجھی جا رہی ہے۔
نیز جو مثال یہ دیتے ہیں،
اس کی تشریح میں بیشتر علمائے دین کتاب سے قرآن مراد لیتے ہیں۔
خیر۔ معذرت کہ ایسے کنفیوز شخص کا مضمون پڑھوا کر آپ کے سر میں درد کیا۔ آپ چاہیں تو اس کو نظر انداز کر کے دیگر مثالوں (دار العلوم دیوبند، تبلیغی جماعت، امام غزالی کا دور، وغیرہ) کو ایک نظر دیکھ سکتے ہیں جن سے آپ خود "گمراہ کن چشم پوشی" فرماتے ہوئے صرف اس ایک مثال پر خصوصی توجہ دے کر "گمراہ کنی" کا نتیجہ اخذ کر رہے ہیں۔
سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کیا سمجھ کر یہ بحث کرنے بیٹھ گئے ہیں۔ جب اِن تمام دیوبندی، تبلیغی، امام غزالیؒ کی مثالوں میں واضح طور پر یہ بات موجود ہے کہ جو جو علوم قرآن کی سینکڑوں آیات کی روشنی میں غوروفکر کا سامان مہیا کریں، چاہے اس کا تعلق کسبِ معاش سے ہو یا نہ ہو، اس سے کسی کو انکار نہیں اور اس کی ترغیب اور اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، تو پھر یہ تکرار کیا معنی رکھتی ہے۔اس کی وجہ محض یہ ہوسکتی ہے کہ آپ یا تو بخشی کی طرح خیال آرائیوں اور غلط فہمیوں کا شکار ہے اور یا پروپیگنڈا کرکے کسی مخصوص طبقے کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔
یہ بھی اچھی کہی۔ دو بار یہ سوال پوچھنے کے بعد کہ آپ کی اپنی ڈاکٹر عبدالسلام کی تحقیق کے حوالے سے کیا رائے ہے کہ وہ نوبیل انعام کی مستحق تھی یا نہیں، جواب یہ ملتا ہے کہ بتاؤ عبد السلام کافر تھا یا نہیں؟
کسی کے کافر ہونے، یا اس کے اس لیبل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے، سے اس بات کو کیا فرق پڑتا ہے کہ جو تحقیق اس نے کی تھی، اس کا معیار کیا تھا؟
کیا لیول ہے یار آپ کا! چھا گئے ہو!
یہاں درجہ ذیل دو نکتوں میں:
1۔ جس نوبل ملے تحقیق کی بات ہورہی ہے، اس سے کتنا استفادہ کیا جاسکتاہے۔
2۔ کیا واقعی اس تحقیق میں عبدالسلام کا کوئی حقیقی اور قابلِ قدر حصہ تھا، کہ اسے حصہ دار بنایاگیا؟
پہلے نکتے اور اس پر اٹھنے والے اعتراضات پر بات تب ہوسکتی ہے جب یہ طے ہوسکے کہ عبدالسلام مسلمان تھا یا نہیں، اور کیا وہ ”پاکستانی“ بھی تھا یا نہیں۔ جب تک آپ یہ جواب نہیں دیں گے، تب تک بات آگے نہیں بڑھے گی۔
کہیں وہ وجوہ یہ تو نہیں کہ آپ اس کو تاش کے کھیل کی طرح دیکھ رہے ہیں جس میں آپ نے داؤ کھیلنے ہیں، پتے چھپانے ہیں اور "جیتنا" ہے، نہ کہ ایک ڈسکشن کے طور پر کہ جس سے کچھ سیکھنا ہے؟ اب تک آپ جس انداز میں سیدھے سیدھے سوالوں کے جواب دینے سے کتراتے ہوئے بات کو مسلسل گھما کر ابہام پیدا کیے جا رہے ہیں، ان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
اسی سوچ سے ہی مباحثے میں حصہ لیا۔ وگرنہ مضمونِ ہذا کے حوالے سے بقولِ بخشی صاحب:
”پیشے کے اعتبار سے انجینیر ہونے کے باعث مضمون نگاری ایک ایسے مشغلے سے زیادہ نہیں جس میں جزوقتی ذہنی رو کی خاکہ بندی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ باالفاظِ دیگر مجھے تسلیم ہے کہ میرے خیالات میں ایک ناگزیر بکھراؤ ہے جسے سنبھالنے کی سنجیدہ کوشش بہت وقت کا تقاضا کرتی ہے۔“
تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جزوقتی ذہنی رو اور ناگزیر بکھراؤ کے حامل خیالات کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔