جدید مسلم ذہن میں علم کی دوئی کا مسئلہ

الف نظامی

لائبریرین
اس حد تک تو آپ اتفاق کریں گے کہ نافع علوم کی، خالص دینی اور معاش میں معاون کے علاوہ بھی، دیگر صورتیں ہو سکتی ہیں؟
جی بالکل۔
متعلقہ متن برائے تفہیم

مقصد کے اعتبار سے علوم کی تقسیم
جب یہ بنیادی بات طے پاگئی کہ ہر وہ علم جس سے معرفت الہی میسر آئے، اور قرب الہی نصیب ہو صحیح معنوں میں وہی علم ہے تو اس اعتبار سے جب ہم علوم کی تقسیم کریں گے تو صرف علم القرآن، علم التفسیر، علم الحدیث، علم الفقہ، علم النحو، علم الصرف اورعلم التصوف وغیرہ ہی دینی علوم نہیں ٹھہریں گے بلکہ حیاتیات (Biology)، طبیعیات (Physics)، نفسیات (Psychology)، کیمیا (Chemistry)، سیاسیات (Politics)، عمرانیات (Sociolgy)، معاشیات (Economics)، تاریخ (History)، قانون (Law)، نیوکلئیرٹیکنالوجی (Nuclear Technology)، کمپیوٹر سائنسز (Computer Sciences)، انتظامیات (Management)، تجارت (Commerce) اور ابلاغیات (Mass Communication) کے علوم بھی دینی علوم کے زمرے میں شمار ہوں گے۔
شرط صرف یہ ہے کہ ان علوم کے حصول سے مقصود اللہ کی رضا ہو اور یہ علوم معرفت الہیہ اور قرب الہی کا وسیلہ بنیں، لہذا ہر وہ شخص جو اپنے حصول علم کا آغاز اللہ کے نام سے کرے اور اس کا مقصد علم کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرنا ہو تو وہ دنیا کے کسی بھی خطے، کسی بھی شعبے میں علم حاصل کر رہا ہو وہ دین الہی کا طالب علم ہی کہلائے گا کیونکہ ان تمام علوم کا ہر ہر گوشہ کسی نہ کسی اعتبار سے اپنے دامن میں خدا کی معرفت کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور رکھتا ہے۔ حرف حق کی تلاش ہی کو خدا کی تلاش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی انسان عقل سلیم کی جملہ توانائیوں کے ساتھ دنیا کے دیگر علوم کی تحصیل میں آگے بڑھتا چلا جائے تو اس کے ہر سفر علم کی انتہا خدا کی معرفت پر منتج ہوتی نظر آئے گی۔ وہ اپنے سفر علم میں جوں جوں ادراک و شعور کے مراحل طے کرتا چلا جائے گا توں توں اس پر خدا کی وحدانیت، اس کی ربوبیت، اس کی الوہیت اور اس کی عظمت کے ان گنت گوشے آشکار ہوتے چلے جائیں گے۔ لہذا ہرمعلم اورمتعلم، ہر استاد اور شاگرد، ہر مربی اور مربوب، جو شغل علم سے وابستہ ہوتا ہے اسے جان لینا چاہیے کہ وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں صرف اس لئے قدم رکھ رہا ہے کہ اس کی یہ چند روزہ زندگی اپنے خالق حقیقی کی معرفت، اس کے قرب اور اس ذات تک رسائی کا ذریعہ ثابت ہو۔

علم کا میدان کھلا ہے
علم ایک سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ علم روشنی کے مسلسل سفر کا نام ہے۔ اسے تفہیمات کے کسی محدود خانے میں مقید نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہم پہلی آیت کے لفظ ’’خلق،، کے معنی و مفہوم پر غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ تحصیل علم کے لئے مخصوص علوم کا انتخاب نہیں کیا گیا بلکہ علم کا میدان کھلا رکھا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے جس نے (ہرچیز کو) پیدا فرمایا۔
(العلق، 96 : 1)

آیت مذکورہ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کس کو پیدا کیا۔ اگر بتا دیا جاتا کہ کس کو پیدا کیا تو مضمون علم کی حدود متعین ہوجاتیں۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ اللہ رب العزت نے علم کا میدان کھلا چھوڑ دیا ہے۔ آیہ کریمہ میں خلق کا لفظ مطلقاً آیا ہے اور تخلیق کو بیان کرنے کے حوالے سے یہ آیت خاموش ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدائے کائنات نے خلق اور تخلیق کا کوئی رخ متعین نہیں کیا، لہذا اس سے یہ مراد لی جائے گی کہ خالق کائنات نے سب کچھ پیدا کیا۔ لفظ اقراء سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے چونکہ پیدائش و خلق کا کوئی رخ یا کوئی سمت متعین نہیں کی گئی لہذا تحصیل علم کی بھی کوئی سمت مقرر نہیں۔ علم کا میدان کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کائنات پست و بالا میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ رب العزت کا تخلیق کردہ ہے، اس لئے انسان کو اپنے علم کے ذریعہ یہ جان لینا چاہئے کہ یہ کائنات رنگ و بو اللہ کے وجود سے قائم ہے، وہی نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی بادلوں کو بنجر زمینوں کی طرف اذن سفر دیتا ہے، وہی پتھر میں کیڑے کو رزق دیتا ہے، وہی ہر مشکل میں اپنے بندوں کی دستگیری کرتا ہے، وہ رب کائنات ہے، وہ وحدہ لا شریک ہے، اس کا علم کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے، وہ ہر علم کا سرچشمہ ہے اور اے انسان! تیرا علم پوری کائنات میں تجھے اللہ کی راہ دکھاتا ہے۔ الذی خلق کے معنی یہ ہیں کہ جب تیری نظر زمین کی وسعتوں کا احاطہ کرے تو تجھے خدائے ذوالجلال کی ان رحمتوں اور برکتوں کا اندازہ ہو جو اس کی تمام مخلوقات پر ہوتی ہیں۔ اس کے فضل و کرم کا مینہ ساری زمینوں کی پیاس بجھاتا ہے۔ تو جب آسمان کی بلندیوں کو دیکھے تو تجھے مالک ارض و سماوات کی عظمت و رفعت کی راہ دکھائی دے۔ فلک پوش پہاڑوں کو دیکھے تو خدائی عظمت و جبروت یاد آئے اور جب تو شاداب فصلوں، گرتے آبشاروں، بہتے دریاؤں اور لہلہاتے ہوئے کھیتوں کا نظارہ کرے تو تجھے قدرت خداوندی کے ساتھ ان شفقتوں اور محبتوں کی یاد بھی آئے جو وہ اپنے بندوں سے روا رکھتا ہے۔ غرض تیری نگاہ اس کی کسی تخلیق پر بھی پڑے تجھے وہ چیز کسی نہ کسی مظہر (Exhibitor) کا شاہکار دکھائی دے۔

اب تک ہم نے پہلی آیت مبارکہ کی روشنی میں اسلام کے تصور علم اور مقصد علم کے تحت جو گفتگو کی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جب تک مقصد علم کو نہیں سمجھا جاتا اس وقت تک کسی علم کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا اور نہ اس ضمن میں کوئی اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہذا مقاصد علم ہی کسی علم کے دینی اور لا دینی ہونے کا تعین کرتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین

سطحی و توجیہی
facile & causative اور تخلیقی و ایجادی creative & originating علم میں کیا فرق ہے؟

چند مثالیں:-

سطحی و توجیہی علم
معاشیات میں اس سے بحث کرتا ہے کہ معاشی تخلیق کا عمل کیا ہے؟ دولت کی تخلیق ، تقسیم اور صرف کا عمل کیسے واقع ہوتا ہے؟
لیکن تخلیقی علم اس امر سے بحث کرتا ہے کہ معاشی تخلیق کو مزعومہ مفادات سے پاک کر کے وسائلِ تخلیق پر قابض محدود گروہوں کی اجارہ داری ختم کرنے اور فرد اور معاشرے کی تخلیقی جدوجہد سے معاشی تعطل کو رفع کرنے کی کیا صورتیں ہو سکتی ہیں کہ کوئی شخص حاجت مند نہ رہے۔

توجیہ تک محدود سطحی علم اَخلاق کی ماہیت اور معیارِ اَخلاق سے بحث کرتا ہے۔ لیکن تخلیقی علم اسے امر سے بحث کرتا ہے کہ انسانی زندگی مطلوبہ معیارِ اخلاق میں کس طرح ڈھل سکتی ہے۔ گویا سطحی علم فضائلِ اخلاق اور اخلاقی نصب العین کی ماہیت جاننے تک محدود ہے مگر تخلیقی علم ان کے حصول کے طریق سے بحث کرتا ہے۔

سطحی و توجیہی علم
عمرانیات میں اس سے بحث کرتا ہے کہ معاشرہ کیا ہے؟ کیونکر وجود میں آتا ہے؟ اور اس کے انضباط و اختلال کے اسباب کیا ہیں؟
مگر تخلیقی علم اس امر سے بحث کرتا ہے کہ ہر اختلال کو رفع کر کے ہئیتِ عمرانی کو ایک موثر وحدت میں کیسے بدلا جا سکتا ہے؟

سطحی و توجیہی علم سیاسیات میں اس سے بحث کرتا ہے کہ ریاست کیا ہے؟ اس کی ماہئیت ، اجزائے ترکیبی اور وظیفہ کیا ہے؟ لیکن تخلیقی علماس امر سے بحث کرتا ہے کہ حاکم و محکوم میں سیاسی تناقض (جو عدم استحکام کا باعث ہوتا ہے) رفع کر کے قومی نصب العین کو کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔

علم .... توجیہی یا تخلیقی از ڈاکٹر طاہر القادری سے اقتباس
 

محمد سعد

محفلین
جی بالکل۔
متعلقہ متن برائے تفہیم

مقصد کے اعتبار سے علوم کی تقسیم
جب یہ بنیادی بات طے پاگئی کہ ہر وہ علم جس سے معرفت الہی میسر آئے، اور قرب الہی نصیب ہو صحیح معنوں میں وہی علم ہے تو اس اعتبار سے جب ہم علوم کی تقسیم کریں گے تو صرف علم القرآن، علم التفسیر، علم الحدیث، علم الفقہ، علم النحو، علم الصرف اورعلم التصوف وغیرہ ہی دینی علوم نہیں ٹھہریں گے بلکہ حیاتیات (Biology)، طبیعیات (Physics)، نفسیات (Psychology)، کیمیا (Chemistry)، سیاسیات (Politics)، عمرانیات (Sociolgy)، معاشیات (Economics)، تاریخ (History)، قانون (Law)، نیوکلئیرٹیکنالوجی (Nuclear Technology)، کمپیوٹر سائنسز (Computer Sciences)، انتظامیات (Management)، تجارت (Commerce) اور ابلاغیات (Mass Communication) کے علوم بھی دینی علوم کے زمرے میں شمار ہوں گے۔
شرط صرف یہ ہے کہ ان علوم کے حصول سے مقصود اللہ کی رضا ہو اور یہ علوم معرفت الہیہ اور قرب الہی کا وسیلہ بنیں، لہذا ہر وہ شخص جو اپنے حصول علم کا آغاز اللہ کے نام سے کرے اور اس کا مقصد علم کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرنا ہو تو وہ دنیا کے کسی بھی خطے، کسی بھی شعبے میں علم حاصل کر رہا ہو وہ دین الہی کا طالب علم ہی کہلائے گا کیونکہ ان تمام علوم کا ہر ہر گوشہ کسی نہ کسی اعتبار سے اپنے دامن میں خدا کی معرفت کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور رکھتا ہے۔ حرف حق کی تلاش ہی کو خدا کی تلاش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی انسان عقل سلیم کی جملہ توانائیوں کے ساتھ دنیا کے دیگر علوم کی تحصیل میں آگے بڑھتا چلا جائے تو اس کے ہر سفر علم کی انتہا خدا کی معرفت پر منتج ہوتی نظر آئے گی۔ وہ اپنے سفر علم میں جوں جوں ادراک و شعور کے مراحل طے کرتا چلا جائے گا توں توں اس پر خدا کی وحدانیت، اس کی ربوبیت، اس کی الوہیت اور اس کی عظمت کے ان گنت گوشے آشکار ہوتے چلے جائیں گے۔ لہذا ہرمعلم اورمتعلم، ہر استاد اور شاگرد، ہر مربی اور مربوب، جو شغل علم سے وابستہ ہوتا ہے اسے جان لینا چاہیے کہ وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں صرف اس لئے قدم رکھ رہا ہے کہ اس کی یہ چند روزہ زندگی اپنے خالق حقیقی کی معرفت، اس کے قرب اور اس ذات تک رسائی کا ذریعہ ثابت ہو۔

علم کا میدان کھلا ہے
علم ایک سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ علم روشنی کے مسلسل سفر کا نام ہے۔ اسے تفہیمات کے کسی محدود خانے میں مقید نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہم پہلی آیت کے لفظ ’’خلق،، کے معنی و مفہوم پر غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ تحصیل علم کے لئے مخصوص علوم کا انتخاب نہیں کیا گیا بلکہ علم کا میدان کھلا رکھا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے جس نے (ہرچیز کو) پیدا فرمایا۔
(العلق، 96 : 1)

آیت مذکورہ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کس کو پیدا کیا۔ اگر بتا دیا جاتا کہ کس کو پیدا کیا تو مضمون علم کی حدود متعین ہوجاتیں۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ اللہ رب العزت نے علم کا میدان کھلا چھوڑ دیا ہے۔ آیہ کریمہ میں خلق کا لفظ مطلقاً آیا ہے اور تخلیق کو بیان کرنے کے حوالے سے یہ آیت خاموش ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدائے کائنات نے خلق اور تخلیق کا کوئی رخ متعین نہیں کیا، لہذا اس سے یہ مراد لی جائے گی کہ خالق کائنات نے سب کچھ پیدا کیا۔ لفظ اقراء سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے چونکہ پیدائش و خلق کا کوئی رخ یا کوئی سمت متعین نہیں کی گئی لہذا تحصیل علم کی بھی کوئی سمت مقرر نہیں۔ علم کا میدان کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کائنات پست و بالا میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ رب العزت کا تخلیق کردہ ہے، اس لئے انسان کو اپنے علم کے ذریعہ یہ جان لینا چاہئے کہ یہ کائنات رنگ و بو اللہ کے وجود سے قائم ہے، وہی نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی بادلوں کو بنجر زمینوں کی طرف اذن سفر دیتا ہے، وہی پتھر میں کیڑے کو رزق دیتا ہے، وہی ہر مشکل میں اپنے بندوں کی دستگیری کرتا ہے، وہ رب کائنات ہے، وہ وحدہ لا شریک ہے، اس کا علم کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے، وہ ہر علم کا سرچشمہ ہے اور اے انسان! تیرا علم پوری کائنات میں تجھے اللہ کی راہ دکھاتا ہے۔ الذی خلق کے معنی یہ ہیں کہ جب تیری نظر زمین کی وسعتوں کا احاطہ کرے تو تجھے خدائے ذوالجلال کی ان رحمتوں اور برکتوں کا اندازہ ہو جو اس کی تمام مخلوقات پر ہوتی ہیں۔ اس کے فضل و کرم کا مینہ ساری زمینوں کی پیاس بجھاتا ہے۔ تو جب آسمان کی بلندیوں کو دیکھے تو تجھے مالک ارض و سماوات کی عظمت و رفعت کی راہ دکھائی دے۔ فلک پوش پہاڑوں کو دیکھے تو خدائی عظمت و جبروت یاد آئے اور جب تو شاداب فصلوں، گرتے آبشاروں، بہتے دریاؤں اور لہلہاتے ہوئے کھیتوں کا نظارہ کرے تو تجھے قدرت خداوندی کے ساتھ ان شفقتوں اور محبتوں کی یاد بھی آئے جو وہ اپنے بندوں سے روا رکھتا ہے۔ غرض تیری نگاہ اس کی کسی تخلیق پر بھی پڑے تجھے وہ چیز کسی نہ کسی مظہر (Exhibitor) کا شاہکار دکھائی دے۔

اب تک ہم نے پہلی آیت مبارکہ کی روشنی میں اسلام کے تصور علم اور مقصد علم کے تحت جو گفتگو کی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جب تک مقصد علم کو نہیں سمجھا جاتا اس وقت تک کسی علم کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا اور نہ اس ضمن میں کوئی اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہذا مقاصد علم ہی کسی علم کے دینی اور لا دینی ہونے کا تعین کرتے ہیں۔

بس یہی بات تو سمجھ آنے کی ضرورت ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بس یہی بات تو سمجھ آنے کی ضرورت ہے۔
لیکن کالم نگار نے سیاسی و سماجی موضوعات و نظریات میں مسلم و غیر مسلم سماج کے مابین اختلاف رائے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو سائنس دشمن قرار دے دیا۔
  1. کالم نگار کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حقیقی صورت حال بلیک اینڈ وائٹ نہیں ہوتی بلکہ گرے شیڈز بھی ہوتے ہیں۔
  2. یہ دوئی صرف مسلم ذہن میں موجود نہیں بلکہ ایتھکس کی بنیاد پر مغربی دنیا میں بھی ایسی بائیفرکیشن موجود ہے۔علوم میں صرف ایتھکس ہی کو لے کر ڈویلیٹی قائم ہو جاتی ہیں اور مسلم ذہن میں علم نافع و غیر نافع کی ثنویت موجود ہے۔
لہذا اس کا ہونا کوئی بڑا مسئلہ نہیں یہ محض کالم نگار کی یک طرفہ تشویشِ محض ہے
 

محمد سعد

محفلین
لیکن کالم نگار نے سیاسی و سماجی موضوعات و نظریات میں مسلم و غیر مسلم سماج کے مابین اختلاف رائے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو سائنس دشمن قرار دے دیا۔
ایسا بھی نہیں ہے۔ کالم کی ابتداء ہی میں تخصیص کی گئی ہے کہ موضوع کو کن لوگوں تک محدود کیا جا رہا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ایسا بھی نہیں ہے۔ کالم کی ابتداء ہی میں تخصیص کی گئی ہے کہ موضوع کو کن لوگوں تک محدود کیا جا رہا ہے۔
اچھا میں سمجھ رہا تھا کہ صرف مسلمانوں کو نکو بنایا جا رہا ہے۔
Exploiting big data about human behavior and activities for profit maximization or control is violation of human rights.
Now who to blame؟
knowledge behind big data analysis or intention of the person / organization who is using this knowledge for evil purpose.

This is question of ethics and niyat.
Intention is very important in Islam. Before doing anything having good intention is demand.
 

آصف اثر

معطل
یعنی اب ہم پرویز ہود کے ساتھ ساتھ عاصم بخشی کو بھی مذکورہ تعریف پر پورا اترتے دیکھ سکتے ہیں۔ اِن ڈائریکٹ کلاس لینے کی اچھی مثال ہے۔ روٹ کاز مع نفسیاتی عوارض۔

ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ زبردستی لوگوں کو وہ باتیں کیوں تسلیم کروا رہے ہوتے ہیں جن کے متعلق انہوں نے ابھی اپنی رائے کا اظہار کیا بھی نہیں ہوتا۔
کیا تسلیم کرنے کے لیے اعلان کرنا ضروری ہوتاہے؟ اگر واقعی تو اپنا اگلا جملہ پڑھ لیجیے۔ اب ”کافی حد تک“ کیا ہوتاہے، اس کے لیے نئی لغت شائد وضع کرنا پڑے۔
خیر، بات آپ کی کافی حد تک درست ہے کہ یہ مرض کافی عام پھیلا ہوا ہے۔
---

جو لبرل روزی روٹی کے چکر تک محدود ہیں، وہ اس کی کوئی نظریاتی بنیاد رکھنے کا تکلف کرنے کے بجائے اپنی ازلی کاہلی اور ہڈحرامی پر اکتفاء کرتے ہیں۔
غیر لبرلوں میں اس حوالے سے کئی طبقات ہیں۔ کاہلی اور ہڈحرامی والا طبقہ یہاں بھی ہے،لیکن ایک طبقہ بہرحال ایسا موجود ہے کہ جس کے نظریات کے مطابق "غیر لغو" علوم بس دو طرح کے ہی ہیں۔ ایک براہ راست دینی اور دوسرا کسب معاش کی غرض سے سیکھے جانے والے۔ اس سے باہر کے علوم کو وہ لغو سمجھتے ہیں جس کے حصول پر صرف کیا گیا وقت ان کے نزدیک ضائع ہے۔
مضمون پر اگر آپ نے غور کیا ہو تو وہ اسی آخر الذکر طبقے کے حوالے سے ہے، نہ کہ ان کے حوالے سے جو مذہب کی جانب رجحان ہونے کے ساتھ ساتھ ان علوم کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔ مضمون شروع ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ یہاں مذہب پسند کی تعریف کو کچھ خاص ذیلی طبقے تک محدود کیا جا رہا ہے۔
اس سے ایک تو یہ بات پھر ثابت ہوگئی کہ ایک جم غفیر روزی روٹی اور جاہ حشمت میں مبتلا ہے۔ جن کا علومِ قرآنی سے متعلق تحقیقاتی سرگرمیوں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔
لیکن یہاں آپ کافی مہارت سے ایک اہم ترین نکتہ سائڈلائن کرگئے۔
نکتہ: لبرلز کا وہ طبقہ جو مذہبی کتب، مدارس اور طبقے کو متروک، پسماندہ اور معاشرے پر اضافی بوجھ سمجھ کر جان چھڑانا چاہتا ہے۔ اور اسی کو اپنی ترقی میں سب سے بڑی رُکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اگر آپ چاہے تو اس مرض میں مبتلا بڑے بڑے جغادریوں کے نام اور اقتباسات پیش کردوں؟
فی الحال محض ایک اشارہ کافی رہے گا:
A physics textbook of the Sindh Textbook Board categorically states that the universe sprang instantly into existence when a certain divine phrase was uttered.
یہ نفسیاتی مریض قرآن کی آیات کا معاذ اللہ مذاق اُڑا کر کون سا فلسفہ جھاڑ رہا ہے؟ کیا کبھی آپ نے اس پر بھی اپنی انگلیوں کو تکلیف دی، کہ بھئی جب بات فلسفے کی ہورہی ہے، آپ اس قوم کو سائنسی علوم سمجھانے نکلے ہیں جن کا رُخ اسی قرآن سے وابستہ ہے تو اس طرح کے جاہلانہ تبصرے کرکے آپ کون سے انقلاب کے متمنی ہے؟
لیکن ایک اور جگہ وہ یہ معمہ بھی حل کر ہی دیتے ہیں:
But the first properly belongs to Islamic Studies, the second to Islamic or Pakistani history. Neither legitimately belongs to a textbook on a modern-day scientific subject. That’s because religion and science operate very differently and have widely different assumptions. Religion is based on belief and requires the existence of a hereafter, whereas science worries only about the here and now.
Demanding that science and faith be tied together has resulted in national bewilderment and mass intellectual enfeeblement.
یعنی اسلامی عقائد اور سائنس ایک ساتھ چل ہی نہیں سکتے۔ یا بالفاظِ دیگر معاذاللہ اسلامی عقائد گمراہی اور جہالت، جب کہ سائنس نور اور ہدایت ہے۔
مزید بھی بہت کچھ ہے لیکن آپ کے غور وفکر کے لیے اتنا ہی کافی ہوناچاہیے کہ اصل مرض کہاں اور کون ہیں۔
آپ کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ باقی ہر طبقے کے مسائل پر بات کر لی جائے لیکن جو مذہب کا نام اپنے نام کے ساتھ منسلک کرتے ہوں، انہیں کچھ بھی نہ کہا جائے، خواہ وہ مسائل کتنے ہی سنجیدہ ہوں؟ یہ تو عیسائیت کی طرز پر پاپائیت ہو جائے گی، اسلام تو کہیں دور رہ جائے گا۔
سائنس کے اس عظیم جغادری کی فرمودات کی روشنی میں اب آیا آپ کا سائنس کے نام پر دفاع ”سائنسی پاپائیت“ کہلائی جاسکتی ہے یا ایسا کہنا گناہِ کبیرہ ہوگا؟

اور اپنے اس مراسلے کی روشنی میں بھی کہ
اعتراض یہ ہے کہ کیا آپ کے نزدیک علم کے زمرے بس یہی دو ہیں؟
اعتراض یہ بھی ہے کہ ایسی بہت تحاریر نظر سے گزر چکی ہیں اور کئی بار مبلغین سے بھی سن چکا ہوں کہ ان دونوں زمروں کے علاوہ باقی سب لغو ہے لہٰذا مسلمان کے لیے ان پر وقت لگانا گناہ ہے۔
اعترض یہ بھی ہے کہ امام غزالی کے دور سے آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا اور بہانے بہانے سے سائنس و فلسفہ جیسے "دنیاوی علوم" کو شودر ذات والی کیٹیگرائزیشن کی جانب دھکیلا ہی جاتا رہا ہے۔
کیا اب ہم بیک وقت اسلامی عقائد اور سائنس پر یقین رکھنے والے آپ جیسے طالبانِ علم کو جغادری کے ”مذہبِ سائنس“ کے مقابلے میں نعوذباللہ کوئی کم تر کٹیگری میں رکھ سکتے ہیں؟

لنکس آپ کے پاس موجود ہیں۔ آپ چاہیں تو پڑھنے کا تکلف فرما سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ بات میرے لیے ایک معمہ رہے گی کہ جن دو نکات کو آپ نے جوڑا ہے، ان کا آپس میں تعلق کیا بنتا ہے۔
شاید آپ کنفیوژن پیدا کر کے خود اس بات کا جواب دینے سے بچنا چاہتے ہیں کہ آیا آپ اپنے کسی ایسے کام کی جانب اشارہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔
دیکھیں، ڈسکشن کا مقصد سیکھنا ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ کو مابعد الطبیعیاتی بنیادوں کا تصور سمجھ نہیں آ رہا تو جتنا سمجھ آ رہا ہے، وہ بتا دیں، تاکہ بہتر سمجھ کے لیے آپ کی مدد کی جا سکے۔ یوں مسلسل سوال کے جواب سے گریز کر کے اور اپنی سمجھ واضح نہ کر کے آپ کیا سیکھ لیں گے؟
جب ہر پوسٹ کے نیچے دستخط میں فورم کا لنک نہیں دیکھ سکے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ آپ کو لگتا ہے کہ لبرل لکھاری محض آپ کے پیچھے ہی لٹھ لے کر پڑا ہوا ہے۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ جب یہ سوال اِن لنکس کے مفصل مطالعے کے بعد ہی اُٹھانے پر مجبور ہوا تو پھر کنفیوژن پیدا کرنے کا الزام آپ پر کیسے نہیں لگایا جاسکتا؟

کافی دلچسپ سوال ہے۔ سروے کیا جا سکتا ہے۔ "کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جس سائنس و فلسفہ کا تعلق براہ راست مذہب سے نہ ہو اور وہ معاشی ترقی میں بھی معاون نہ ہو، اس پر وقت لگانا چاہیے یا نہیں؟"
یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اپنے تجربے کے حوالے سے تو میں جانتا ہوں کہ ایسی ایک بڑی تعداد سے مجھے ذاتی حیثیت میں واسطہ پڑا ہے جو ان دونوں زمروں کے علاوہ باقی کے علوم کو لغو جانتی ہے۔ سب سے زیادہ یہ بات غالباً تبلیغی جماعت کے ساتھ لگائے اپنے وقت میں سننے کو ملی۔ ایسے کچھ رسائل بھی مجھے یاد ہیں جن میں یہ بات بار بار پڑھنے کو ملی، خاص طور پر جب کسی اور ساتھی نے نہایت اصرار کر کے زبردستی پڑھوائی کہ میرا نیچرل سائنس کی جانب رجحان ایک لغو سرگرمی ہے۔ لیکن یہاں میرے ذاتی تجربے کی کوئی حیثیت نہیں اور ہمیں بہرحال ایسے ذرائع کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جہاں میری طرف سے کوئی ممکنہ تعصب نتائج پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
ایسی ایک مثال کہ جس کی طرف میں آپ کی توجہ دلا سکتا ہوں۔ یہ مسئلہ اتنا پرانا ہے کہ امام غزالی بھی "المنقذ من الضلال" میں ایسے لوگوں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ ریاضی کی تعلیم کے حوالے سے دو مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے دوسرے میں ان مسلمانوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مذہب کے دفاع کا واحد راستہ یہی ہے کہ باقی کے "دنیاوی علوم" کو سرے سے رد کر دیا جائے۔ اگر آپ غور کریں تو یہ وہی طبقہ ہے کہ جس کا تذکرہ عاصم بخشی صاحب کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ طبقہ صرف "دیسی لبرلوں" کے تخیل میں نہیں پایا جاتا بلکہ امام غزالی کے دور میں بھی وافر دستیاب تھا۔
اگر یہاں عاصم بخشی صاحب pathological lying کے قصوروار ٹھہرتے ہیں تو شاید پھر امام غزالی کے بارے میں بھی آپ یہی سوچتے ہوں گے؟
دیکھیں یہ وہی بات ہوگئی کہ آپ یہ کیسے طے کررہے ہیں کہ ”کس سائنس و فلسفے کا تعلق براہِ راست مذہب سے“ ہے یا نہیں؟
اگر آپ کو اس کی وضاحت میں مشکل پیش آرہی ہو تو آپ یہ سوال کیوں نہیں پوچھ سکتے؟
کہ:
کیا کوئی بھی اسلام پسند یہاں ایسا موجود ہوسکتا ہے جو قرآن کے غور وفکر کی سینکڑوں آیات کی روشنی میں اشیاء کی حقیقت جاننے اور کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھانے کے لیے کی جانے والی سائنسی تحقیقات کا انکاری ہو؟
ایسا پوچھنا اس لیے ناممکن نظر آرہاہے کہ اس سے آپ کا مقدمہ ہی فوت ہوجاتاہے، اور عاصم بخشی صاحب کی وقتی ذہنی رُو کی خاکہ بندی اور ناگزیر بکھراؤ کا پھول کھلتا ہے۔

کیا آپ واقعی یہ جملہ لکھتے ہوئے سنجیدہ تھے؟ کیا مضمون میں کسی طرح کا اشارہ موجود ہے کہ یہ مسئلہ صرف جامعات میں ریاضی، طبیعیات اور انجنئیرنگ کے شعبوں تک محدود ہے؟ یہ تو آپ محض اعتراض برائے اعتراض کیے جا رہے ہیں تاکہ تعداد بڑھا کر خود کو تھوڑا بھاری دکھا سکیں۔
کیا اِن دو ”مرکزی“ مثالوں کے باوجود بھی مجھے یہ نکتہ نہیں اُٹھانا چاہیے تھا؟
کسی بھی درجے کی پاکستانی جامعہ کے فزکس، ریاضی یا انجینئرنگ کی جماعت میں طالبعلموں سے یہ سوال پوچھ کر دیکھئے کہ ریاضی کی کتاب پوری دل جمعی سے پڑھنے سے خدا کے خوش ہونے کی کوئی امید ہے تو آ پ کو معلوم ہو جائے کہ مرض کی جڑیں کتنی پختہ ہیں۔ اس استدلال کے لئے بہت زیادہ لفاظی کی ضرورت نہیں کہ اس مخصوص مذہبی نفسیات میں کم و بیش تیرہ صدیوں سے گندھے انسان کی جینیاتی ماہیت کبھی اسے اس مرحلے کو اتنی خوش اسلوبی سے طے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی کہ خدا اور وصال ِ صنم ایک ساتھ ہی مل جائے۔
ہم نے بحیثیت استاد اپنی کلاس میں ایک سے زیادہ بار دیکھا کہ وضع قطع سے مذہبی معلوم ہونے والے طالبعلم نے بہت اعتماد سے اپنا مذہبی فریضہ ادا کرتے ہوئے ایک پیچیدہ اور نہایت دلچسپ ریاضیاتی بحث کے دوران ہمیں بیچ میں ٹوک کر اذان سننے کی ترغیب دی۔ یقین جانئے ہمیں اس روک ٹوک سے کوئی شکایت نہیں کیوں کہ ہماری نگاہ میں مسئلہ خالصتاً مذہبی نہیں بلکہ دوئی میں پھنسی مذہبی نفسیات کی ترجیحات کا ہے جس کی مذہبی اور غیر مذہبی دونوں جہتیں سراسر افادیت پرستی کے فلسفے پر قائم ہیں جو خود تردیدی کے مجسم پیکروں پر مشتمل نسلوں کی مسلسل ترسیل جاری رکھے ہیں۔ یہ تیسری دنیا کی پسماندہ مذہبی معاشرت کا ایک ایسا جدید انسان ہے جو اپنی قدیم فطرت میں موجود عقلی و جبلی وحدت اس طرح بانٹ چکا ہے کہ اب اس وحدت کو محض ایک خوبصورت آدرش مان کر اس کی طرف قدم اٹھانے کی فکری قوت بھی نہیں رکھتا۔

کیا آپ نے جملہ ٹھیک سے پڑھا؟
"اگر ان تمام علوم کے نتیجہ پر غور کریں تو ان سب علوم کا ماحاصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔"
علوم کے حصول کے رجحان کی وجہ کا نہیں لکھا ہوا۔ ان علوم کے "ماحاصل" کی بات کی گئی ہے کہ ان کا ماحاصل محض دنیاوی جاہ و حشمت ہی ہے۔
یہاں آپ ”جم غفیر“ کو جب نظر انداز کردیں تو پھر آپ کی بات واقعی درست ہے، مگر مضمون نگار نے اسے ”جمِ غفیر“ سے نتھی کرکے بدقسمتی سے یہ موقع نہیں دیا۔

آپ کو لوگوں پر "قصداً گمراہ کن چشم پوشی" کا الزام لگانے کی کچھ زیادہ ہی جلدی ہوتی ہے۔ اتنی جلدی کہ آپ مضمون ٹھیک سے سمجھنے کا بھی تکلف نہیں کرتے ہوتے۔
مضمون نگار پہلے پیراگراف میں مرکزی خیال نہایت واضح الفاظ میں کہہ چکا ہے۔ اس سیاق و سباق میں صاف سمجھ آتی ہے کہ "دنیاوی" علوم کی اہمیت محض جاہ و حشمت اور سیاست و قیادت تک محدود سمجھی جا رہی ہے۔
نیز جو مثال یہ دیتے ہیں،
اس کی تشریح میں بیشتر علمائے دین کتاب سے قرآن مراد لیتے ہیں۔
خیر۔ معذرت کہ ایسے کنفیوز شخص کا مضمون پڑھوا کر آپ کے سر میں درد کیا۔ آپ چاہیں تو اس کو نظر انداز کر کے دیگر مثالوں (دار العلوم دیوبند، تبلیغی جماعت، امام غزالی کا دور، وغیرہ) کو ایک نظر دیکھ سکتے ہیں جن سے آپ خود "گمراہ کن چشم پوشی" فرماتے ہوئے صرف اس ایک مثال پر خصوصی توجہ دے کر "گمراہ کنی" کا نتیجہ اخذ کر رہے ہیں۔
سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کیا سمجھ کر یہ بحث کرنے بیٹھ گئے ہیں۔ جب اِن تمام دیوبندی، تبلیغی، امام غزالیؒ کی مثالوں میں واضح طور پر یہ بات موجود ہے کہ جو جو علوم قرآن کی سینکڑوں آیات کی روشنی میں غوروفکر کا سامان مہیا کریں، چاہے اس کا تعلق کسبِ معاش سے ہو یا نہ ہو، اس سے کسی کو انکار نہیں اور اس کی ترغیب اور اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، تو پھر یہ تکرار کیا معنی رکھتی ہے۔اس کی وجہ محض یہ ہوسکتی ہے کہ آپ یا تو بخشی کی طرح خیال آرائیوں اور غلط فہمیوں کا شکار ہے اور یا پروپیگنڈا کرکے کسی مخصوص طبقے کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔

یہ بھی اچھی کہی۔ دو بار یہ سوال پوچھنے کے بعد کہ آپ کی اپنی ڈاکٹر عبدالسلام کی تحقیق کے حوالے سے کیا رائے ہے کہ وہ نوبیل انعام کی مستحق تھی یا نہیں، جواب یہ ملتا ہے کہ بتاؤ عبد السلام کافر تھا یا نہیں؟
کسی کے کافر ہونے، یا اس کے اس لیبل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے، سے اس بات کو کیا فرق پڑتا ہے کہ جو تحقیق اس نے کی تھی، اس کا معیار کیا تھا؟
کیا لیول ہے یار آپ کا! چھا گئے ہو!
یہاں درجہ ذیل دو نکتوں میں:
1۔ جس نوبل ملے تحقیق کی بات ہورہی ہے، اس سے کتنا استفادہ کیا جاسکتاہے۔
2۔ کیا واقعی اس تحقیق میں عبدالسلام کا کوئی حقیقی اور قابلِ قدر حصہ تھا، کہ اسے حصہ دار بنایاگیا؟
پہلے نکتے اور اس پر اٹھنے والے اعتراضات پر بات تب ہوسکتی ہے جب یہ طے ہوسکے کہ عبدالسلام مسلمان تھا یا نہیں، اور کیا وہ ”پاکستانی“ بھی تھا یا نہیں۔ جب تک آپ یہ جواب نہیں دیں گے، تب تک بات آگے نہیں بڑھے گی۔

کہیں وہ وجوہ یہ تو نہیں کہ آپ اس کو تاش کے کھیل کی طرح دیکھ رہے ہیں جس میں آپ نے داؤ کھیلنے ہیں، پتے چھپانے ہیں اور "جیتنا" ہے، نہ کہ ایک ڈسکشن کے طور پر کہ جس سے کچھ سیکھنا ہے؟ اب تک آپ جس انداز میں سیدھے سیدھے سوالوں کے جواب دینے سے کتراتے ہوئے بات کو مسلسل گھما کر ابہام پیدا کیے جا رہے ہیں، ان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
اسی سوچ سے ہی مباحثے میں حصہ لیا۔ وگرنہ مضمونِ ہذا کے حوالے سے بقولِ بخشی صاحب:
”پیشے کے اعتبار سے انجینیر ہونے کے باعث مضمون نگاری ایک ایسے مشغلے سے زیادہ نہیں جس میں جزوقتی ذہنی رو کی خاکہ بندی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ باالفاظِ دیگر مجھے تسلیم ہے کہ میرے خیالات میں ایک ناگزیر بکھراؤ ہے جسے سنبھالنے کی سنجیدہ کوشش بہت وقت کا تقاضا کرتی ہے۔“
تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جزوقتی ذہنی رو اور ناگزیر بکھراؤ کے حامل خیالات کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
جدید مغربی ذہن میں علم کی دوئی کا مسئلہ
علم برائے پرافٹ میکسیمائزیشن اینڈ کنٹرول
بمقابلہ
علم برائے پائیدار ترقی (سیسٹین ایبل ڈویلوپمنٹ)
کیا فاضل کالم نگار اس حوالے سے تحقیق کرنا پسند فرمائیں گے کہ جدید مغربی ذہن میں یہ ثنویت کیوں پائی جاتی ہے؟
کیا اسے ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے؟​
 

سید ذیشان

محفلین
جدید مغربی ذہن میں علم کی دوئی کا مسئلہ
علم برائے پرافٹ میکسیمائزیشن اینڈ کنٹرول
بمقابلہ
علم برائے پائیدار ترقی (سیسٹین ایبل ڈویلوپمنٹ)
کیا فاضل کالم نگار اس حوالے سے تحقیق کرنا پسند فرمائیں گے کہ جدید مغربی ذہن میں یہ ثنویت کیوں پائی جاتی ہے؟
کیا اسے ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے؟​
فاضل کالم نگار اگر مغرب میں رہتے اور انگریزی میں لکھتے تب آپ کی بات کو درست مانا جا سکتا تھا۔ بہت معذرت، لیکن اس وقت تو یہ نری تنقید برائے تنقید لگ رہی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
فاضل کالم نگار اگر مغرب میں رہتے اور انگریزی میں لکھتے تب آپ کی بات کو درست مانا جا سکتا تھا۔ بہت معذرت، لیکن اس وقت تو یہ نری تنقید برائے تنقید لگ رہی ہے۔
اس صورت میں اُن کا تجزیہ مکمل نہیں مانا جا سکتا۔ جب آپ تصویر کا صرف ایک اور ذاتی رخ دکھانے پر مصر ہوں۔
آج کل تو گلوبلائزیشن کا دور ہے تو اتنا محدود ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
مزید یہ کہ کالم نگار کو epistemology کو پڑھنا چاہیے تا کہ ان کا تجزیہ ذاتی رائے اور اوہام سے بلند ہو سکے
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
اس صورت میں اُن کا تجزیہ مکمل نہیں مانا جا سکتا۔ جب آپ تصویر کا صرف ایک اور ذاتی رخ دکھانے پر مصر ہوں۔
آج کل تو گلوبلائزیشن کا دور ہے تو اتنا محدود ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
اردو میں لکھا ہے اور مخاطب مسلمان ہیں۔ ہر مضمون کی ایک آڈئینس ہوتی ہے اور اس مضمون کی آڈئینس بھی بہت واضح ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اردو میں لکھا ہے اور مخاطب مسلمان ہیں۔ ہر مضمون کی ایک آڈئینس ہوتی ہے اور اس مضمون کی آڈئینس بھی بہت واضح ہے۔
آڈینس واضح ہے لیکن پیغام دینے والا epistemology سے نابلد ہے۔
اور یہ بات درست نہیں کہ اردو میں مغربی موضوعات پر گفتگو نہیں کی جاسکتی۔
 

محمد سعد

محفلین
نکتہ: لبرلز کا وہ طبقہ جو مذہبی کتب، مدارس اور طبقے کو متروک، پسماندہ اور معاشرے پر اضافی بوجھ سمجھ کر جان چھڑانا چاہتا ہے۔ اور اسی کو اپنی ترقی میں سب سے بڑی رُکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اگر آپ چاہے تو اس مرض میں مبتلا بڑے بڑے جغادریوں کے نام اور اقتباسات پیش کردوں؟
فی الحال محض ایک اشارہ کافی رہے گا:
A physics textbook of the Sindh Textbook Board categorically states that the universe sprang instantly into existence when a certain divine phrase was uttered.
یہ نفسیاتی مریض قرآن کی آیات کا معاذ اللہ مذاق اُڑا کر کون سا فلسفہ جھاڑ رہا ہے؟ کیا کبھی آپ نے اس پر بھی اپنی انگلیوں کو تکلیف دی، کہ بھئی جب بات فلسفے کی ہورہی ہے، آپ اس قوم کو سائنسی علوم سمجھانے نکلے ہیں جن کا رُخ اسی قرآن سے وابستہ ہے تو اس طرح کے جاہلانہ تبصرے کرکے آپ کون سے انقلاب کے متمنی ہے؟
لیکن ایک اور جگہ وہ یہ معمہ بھی حل کر ہی دیتے ہیں:
But the first properly belongs to Islamic Studies, the second to Islamic or Pakistani history. Neither legitimately belongs to a textbook on a modern-day scientific subject. That’s because religion and science operate very differently and have widely different assumptions. Religion is based on belief and requires the existence of a hereafter, whereas science worries only about the here and now.
Demanding that science and faith be tied together has resulted in national bewilderment and mass intellectual enfeeblement.
یعنی اسلامی عقائد اور سائنس ایک ساتھ چل ہی نہیں سکتے۔ یا بالفاظِ دیگر معاذاللہ اسلامی عقائد گمراہی اور جہالت، جب کہ سائنس نور اور ہدایت ہے۔
مزید بھی بہت کچھ ہے لیکن آپ کے غور وفکر کے لیے اتنا ہی کافی ہوناچاہیے کہ اصل مرض کہاں اور کون ہیں۔

کیا ان الفاظ کا تھریڈ کے موضوع یا عاصم بخشی سے کوئی تعلق ہے؟
آپ نے ایک شخص کو اتنا اپنے سر پر سوار کیا ہوا ہے کہ جہاں اس کا تعلق نہیں ہوتا، وہاں بھی آپ صفحوں کے صفحے سیاہ کر دیتے ہیں۔
جبکہ اصرار آپ کا یہ ہے کہ آپ سے مختلف رائے رکھنے والے لوگ نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہیں۔
نفسیاتی مریضوں کو انتہائی نگہداشت میں رکھنا ہوتاہے۔ اول فول بکتے رہتے ہیں۔ ماحول خراب ہوتا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سے ہمیں اس دیسی لبرل طبقے کو آؤٹ آف توجہ کرنا پڑے گا کہ یہ نفسیاتی مریضوں کا وہ ٹولہ ہے جسے اصل مسائل کا ادراک ہی نہیں ہوسکتا۔
یعنی اب ہم پرویز ہود کے ساتھ ساتھ عاصم بخشی کو بھی مذکورہ تعریف پر پورا اترتے دیکھ سکتے ہیں۔ اِن ڈائریکٹ کلاس لینے کی اچھی مثال ہے۔ روٹ کاز مع نفسیاتی عوارض۔
یہ نفسیاتی مریض ۔۔۔

چلیں اتنا ہی اشتیاق ہے آپ کو نفسیاتی امراض سے تو کیوں نہ یہ کام ذرا پروفیشنل انداز میں کیا جائے؟ نفسیاتی عوارض کی تشخیص کے لیے DSM-5 کو ایک عالمی معیار مانا جاتا ہے۔ اس سے مدد لے لیتے ہیں۔
آج کے ٹیوٹوریل میں ہم DSM-5 میں درج پیرانائڈ پرسنیلٹی ڈس آرڈر کو ایک نظر دیکھیں گے۔ اس کی علامات کچھ یوں درج ہیں۔

Paranoid Personality Disorder is characterized by a pervasive distrust and suspiciousness of others such that their motives are interpreted as malevolent, beginning by early adulthood and present in a variety of contexts. To qualify for a diagnosis, the patient must meet at least four out of the following criteria:

Suspects, without sufficient basis, that others are exploiting, harming, or deceiving them.
مثال:
ویسے تو دونوں خوش فہمی اور اُنہی Pseudologia fantastica اور غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں، جن کی آبیاری پرویز ہود اور اس قبیل کے دیگر رجالِ کار کافی عرصے سے کررہے ہیں۔
نکتہ: لبرلز کا وہ طبقہ جو مذہبی کتب، مدارس اور طبقے کو متروک، پسماندہ اور معاشرے پر اضافی بوجھ سمجھ کر جان چھڑانا چاہتا ہے۔ اور اسی کو اپنی ترقی میں سب سے بڑی رُکاوٹ سمجھتے ہیں۔
آپ کی قصداً گمراہ کن چشم پوشی

Is reluctant to confide in others because of unwarranted fear that the information will be used maliciously against them.
مثال:
سوال: آپ کی رائے میں کیا ڈاکٹر عبد السلام کا تحقیقی کام اس لائق تھا کہ اسے نوبیل انعام دیا جاتا؟
جواب:
سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ ڈاکٹر عبدالسلام کو کافر مانتے ہیں یا نہیں؟
پہلے نکتے اور اس پر اٹھنے والے اعتراضات پر بات تب ہوسکتی ہے جب یہ طے ہوسکے کہ عبدالسلام مسلمان تھا یا نہیں، اور کیا وہ ”پاکستانی“ بھی تھا یا نہیں۔

Reads hidden demeaning or threatening meanings into benign remarks or events.
مثال:
یہ نفسیاتی مریض قرآن کی آیات کا معاذ اللہ مذاق اُڑا کر کون سا فلسفہ جھاڑ رہا ہے؟
اس طرح کے پلانٹڈ کمنٹس پر مجھے انتہائی افسوس ہے۔

Persistently bears grudges (i.e., is unforgiving of insults, injuries, or slights).
مثال:
پرویز ہودبھائی کا اتنا سر پہ سوار کر لینا کہ ہر جگہ وحدت الپرویز ہود کے جلوے نظر آنا۔ ایک مثال پوسٹ کے شروع میں موجود ہے۔ باقی کے لیے۔۔۔

Perceives attacks on their character or reputation that are not apparent to others and is quick to react angrily or to counterattack.
مثال:
خود پر حملہ محسوس کرنا:
نکتہ: لبرلز کا وہ طبقہ جو مذہبی کتب، مدارس اور طبقے کو متروک، پسماندہ اور معاشرے پر اضافی بوجھ سمجھ کر جان چھڑانا چاہتا ہے۔ اور اسی کو اپنی ترقی میں سب سے بڑی رُکاوٹ سمجھتے ہیں۔
غصے بھرا رد عمل دینا:
ویسے تو دونوں خوش فہمی اور اُنہی Pseudologia fantastica اور غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں، جن کی آبیاری پرویز ہود اور اس قبیل کے دیگر رجالِ کار کافی عرصے سے کررہے ہیں۔
نفسیاتی مریضوں کو انتہائی نگہداشت میں رکھنا ہوتاہے۔ اول فول بکتے رہتے ہیں۔ ماحول خراب ہوتا ہے۔

ہمم۔۔۔ حضرت۔ یہ تو کافی گمبھیر سمسیا ہو گئی ہے۔ پی پی ڈی کے مریض کے ساتھ گفتگو سے کسی کار آمد نتائج کا اخذ کرنا تو کافی مشکل ہو جائے گا۔ کیا کیا جائے؟
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
اور یہ بات درست نہیں کہ اردو میں مغربی موضوعات پر گفتگو نہیں کی جاسکتی۔
ضروری بھی نہیں کہ اردو میں مغربی موضوعات پر ہی گفتگو کی جائے۔
جب کسی مسئلے پر بات کی جائے تو اگر وہ مسئلہ واقعی موجود ہو تو اس کے حل کی سوچ کرنی چاہیے، نہ کہ یہ گلہ کہ فلاں مسئلہ بھی تو ہے، اس کا ذکر کیوں نہیں کیا۔
 

محمد سعد

محفلین
اس صورت میں اُن کا تجزیہ مکمل نہیں مانا جا سکتا۔ جب آپ تصویر کا صرف ایک اور ذاتی رخ دکھانے پر مصر ہوں۔
کالم نگار تو پھر بھی "دنیاوی علوم" کہلائے جانے والے شعبوں کو رو رہا ہے۔ ان گناہگار آنکھوں نے تو جامعہ میں تبلیغی جماعت کے لڑکوں کو اصول الدین پڑھنے والے لڑکوں کے سامنے اصرار کرتے دیکھا ہے کہ انہیں یہ "دنیاوی سرگرمیاں" چھوڑ کر "اللہ کی راہ" میں نکلنا چاہیے۔ :bulgy-eyes:
 

آصف اثر

معطل
کیا ان الفاظ کا تھریڈ کے موضوع یا عاصم بخشی سے کوئی تعلق ہے؟
آپ نے ایک شخص کو اتنا اپنے سر پر سوار کیا ہوا ہے کہ جہاں اس کا تعلق نہیں ہوتا، وہاں بھی آپ صفحوں کے صفحے سیاہ کر دیتے ہیں۔
جبکہ اصرار آپ کا یہ ہے کہ آپ سے مختلف رائے رکھنے والے لوگ نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہیں۔
چلیں اتنا ہی اشتیاق ہے آپ کو نفسیاتی امراض سے تو کیوں نہ یہ کام ذرا پروفیشنل انداز میں کیا جائے؟ نفسیاتی عوارض کی تشخیص کے لیے DSM-5 کو ایک عالمی معیار مانا جاتا ہے۔ اس سے مدد لے لیتے ہیں۔
آج کے ٹیوٹوریل میں ہم DSM-5 میں درج پیرانائڈ پرسنیلٹی ڈس آرڈر کو ایک نظر دیکھیں گے۔ اس کی علامات کچھ یوں درج ہیں۔
Paranoid Personality Disorder is characterized by a pervasive distrust and suspiciousness of others such that their motives are interpreted as malevolent, beginning by early adulthood and present in a variety of contexts. To qualify for a diagnosis, the patient must meet at least four out of the following criteria:
Suspects, without sufficient basis, that others are exploiting, harming, or deceiving them.
مثال:
Is reluctant to confide in others because of unwarranted fear that the information will be used maliciously against them.
مثال:
سوال: آپ کی رائے میں کیا ڈاکٹر عبد السلام کا تحقیقی کام اس لائق تھا کہ اسے نوبیل انعام دیا جاتا؟
جواب:
Reads hidden demeaning or threatening meanings into benign remarks or events.
مثال:
Persistently bears grudges (i.e., is unforgiving of insults, injuries, or slights).
مثال:
پرویز ہودبھائی کا اتنا سر پہ سوار کر لینا کہ ہر جگہ وحدت الپرویز ہود کے جلوے نظر آنا۔ ایک مثال پوسٹ کے شروع میں موجود ہے۔ باقی کے لیے۔۔۔
Perceives attacks on their character or reputation that are not apparent to others and is quick to react angrily or to counterattack.
مثال:
خود پر حملہ محسوس کرنا:
غصے بھرا رد عمل دینا:
ہمم۔۔۔ حضرت۔ یہ تو کافی گمبھیر سمسیا ہو گئی ہے۔ پی پی ڈی کے مریض کے ساتھ گفتگو سے کسی کار آمد نتائج کا اخذ کرنا تو کافی مشکل ہو جائے گا۔ کیا کیا جائے؟
یعنی پرویز ہود کی اچھی خاصی انالسز۔ اب پرویز ہود کو مزید ذلیل کرنے سے فرصت ملی ہو تو موضوع پر آجائیں۔ یا اسے بھی فرار کی ایک کوشش سمجھی جائے؟
 

آصف اثر

معطل
کالم نگار تو پھر بھی "دنیاوی علوم" کہلائے جانے والے شعبوں کو رو رہا ہے۔ ان گناہگار آنکھوں نے تو جامعہ میں تبلیغی جماعت کے لڑکوں کو اصول الدین پڑھنے والے لڑکوں کے سامنے اصرار کرتے دیکھا ہے کہ انہیں یہ "دنیاوی سرگرمیاں" چھوڑ کر "اللہ کی راہ" میں نکلنا چاہیے۔ :bulgy-eyes:
یار اگر ”میں نے یہ سنا، میں نے وہ سنا“ کے ناممکن الثبات الزامات لگاتے لگاتے تھک گئے ہو تو موضوع پر آجائیں۔
 

محمد سعد

محفلین
یعنی پرویز ہود کی اچھی خاصی انالسز۔ اب پرویز ہود کو مزید ذلیل کرنے سے فرصت ملی ہو تو موضوع پر آجائیں۔ یا اسے بھی فرار کی ایک کوشش سمجھی جائے؟
حضرت، آپ کا مرض بڑھتا جا رہا ہے۔ صرف ایک لائن میں دو بار پرویز ہود کے ساتھ وابستہ جنون کا اظہار۔ جب علامات کچھ کنٹرول ہو جائیں پھر بات کر لیں گے۔ فی الحال آپ آرام کر لیں۔ کوئی بات نہیں۔
 

آصف اثر

معطل
حضرت، آپ کا مرض بڑھتا جا رہا ہے۔ صرف ایک لائن میں دو بار پرویز ہود کے ساتھ وابستہ جنون کا اظہار۔ جب علامات کچھ کنٹرول ہو جائیں پھر بات کر لیں گے۔ فی الحال آپ آرام کر لیں۔ کوئی بات نہیں۔
چلیں فرار میں ہی عافیت نظر آرہی ہے تو جائیں۔ پہلے بھی دو بار فراد ہوچکے ہیں۔ روک کون سکتاہے۔
 
آخری تدوین:
Top