جسٹس افتخار بحال

پاکستانی

محفلین
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل کورٹ بنچ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی آئینی پٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں ان کے عہدے پر متفقہ طور پر بحال کرتے ہوئے ریفرنس کو اکثریتی فیصلے کے تحت کالعدم قرار دیا ہے۔


مزید
 

سیفی

محفلین
پہلے کہا جاتا تھا کہ حکومت عدلیہ کے بحران سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے جامعہ حفصہ کا ایشو کھڑا کر رہی ہے۔ تاہم یہ بات اس لئے نادرست تھی کہ جامعہ حفصہ کا معاملہ اوائل فروری سے چلا آرہا تھا اور چیف جسٹس کا قضیہ مارچ میں شروع ہوا۔

یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے اسلام پسندوں کی بیخ کنی، دارالحکومت کے دل میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو نشانِ عبرت بنانے کے لئے عدلیہ کا ایشو کھڑا کیا اور جب لال مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تو یہ معاملہ بھی اپنے انجام کو پہنچا دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔اور شکوہ کناں عوام کو ایک اور شغل دے دیا گیا۔
 

غازی عثمان

محفلین
اب جسٹس صاحب مٹھائی کب کھلائیں گے؟؟؟؟؟؟؟

کہیں مٹھائی لیکر کراچی نہ آجائیں ،،،، 12 مئے کے بعد وہ اسلام آباد میں ہی اچھے لگتے ہیں۔
 

سیفی

محفلین
یہاں تو ریلوے کے وزیر کو جب ٹرین حادثے پر استعفیٰ کے لئے کہا جاتا ہے کہ مہذب قوموں کے رہنماؤں کا دستور ہے تو کمال ڈھٹائی سے جواب ملتا ہے کہ میں کوئی ٹرین کا ڈرائیور تھا
 

shahzadafzal

محفلین
یہاں تو ریلوے کے وزیر کو جب ٹرین حادثے پر استعفیٰ کے لئے کہا جاتا ہے کہ مہذب قوموں کے رہنماؤں کا دستور ہے تو کمال ڈھٹائی سے جواب ملتا ہے کہ میں کوئی ٹرین کا ڈرائیور تھا
لیکن کچھ تو ہو گا!!!!!!

یا مشرف یا شوکت عزیز!!!!!
 

باسم

محفلین
اللہ کے فضل و کرم سے اور آپ سب کی حمایت سے پاکستان کی عوام کی دعاؤں کے ساتھ سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کو کلی طور پر بحال کردیا ہے اور صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا ہے
میں چیف جسٹس کے وکلا کی طرف سے پوری قوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں اللہ تعالی کے حضور عاجزی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اور چیف جسٹس کو درست فیصلے کرنے کی توفیق دے۔ اعتزاز احسن
چیف جسٹس نے فرائض سنبھال لیے پروٹوکول بحال ہوگیا اور ان کے گھر اور گاڑی پر قومی پرچم لہرادیے گیے
تمام قوم سے دو رکعت شکرانہ کے نفل پڑھنے کی اپیل کی گئی ہے
 

ابوشامل

محفلین
پہلے کہا جاتا تھا کہ حکومت عدلیہ کے بحران سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے جامعہ حفصہ کا ایشو کھڑا کر رہی ہے۔ تاہم یہ بات اس لئے نادرست تھی کہ جامعہ حفصہ کا معاملہ اوائل فروری سے چلا آرہا تھا اور چیف جسٹس کا قضیہ مارچ میں شروع ہوا۔

یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے اسلام پسندوں کی بیخ کنی، دارالحکومت کے دل میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو نشانِ عبرت بنانے کے لئے عدلیہ کا ایشو کھڑا کیا اور جب لال مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تو یہ معاملہ بھی اپنے انجام کو پہنچا دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔اور شکوہ کناں عوام کو ایک اور شغل دے دیا گیا۔

میری طرف سے بھی تمام ساتھیوں اور اہل پاکستان کو مبارک ہو لیکن اس سلسلے میں سب سے اہم نکتہ سیفی نے اٹھایا ہے، اور اس دلیل نے واقعی مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
 

امن ایمان

محفلین
باسم آپ نے میرے لفظوں کو میرے ٹائپ کرنے سے پہلے ہی لکھ دیا۔۔۔۔:)

شکر ہے دکھوں کے موسم میں نوید بہار کی ایک صدا تو آئی۔۔۔!
 

ساجداقبال

محفلین
اللہ اس فیصلے کو ہم محرومیوں کے مارے عوام کیلیے وسیلہ بنائے اور وہ نظام لائے جس کیلیے لال مسجد کے شہداء نے اپنا خون بہایا۔۔۔اٰمین
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

آپ سب دوستوں کو اس تاریخی فیصلے پر مبارک ہو، لیکن ابھی کچھ دن انتظار کر لیں، مبادا آپ کی خوشی قبل از وقت نہ ثابت ہو۔ اس مقدمے کے فیصلے دوران جسٹس رمدے نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالتیں فیصلے سنا دیتی ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔ جسٹس رمدے کا اشارہ 1993 میں نوازشریف کی حکومت کی بحالی کے عدالتی فیصلے کا تھا جس پر اس وقت کے پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان نے شعر پڑھا تھا کہ:

گمان مبر کہ بپایاں رسید کار مغان
ہزار بادہ ناخوردہ در رگ تاک است

اس سے مراد غلام اسحاق خان مرحوم کی یہ تھی کہ ابھی گیم ختم نہیں ہوئی بلکہ شروع ہوئی ہے۔ اور اس کے بعد واقعی قوم کے سامنے سیاست کے میدان میں ایک شرمناک کھیل کھیلا گیا۔ پنجاب اور سرحد کی صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئیں۔ پنجاب ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی بحال کی تو گورنر پنجاب نے اسے چند منٹ بعد پھر توڑ دیا۔ بالآخر فوج نے نوازشریف کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت کے اس شرمناک سیاسی کھیل تماشے میں موجودہ مقدمے کے ہیرو اعتزاز احسن بڑھ بڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔

تو دعا کریں کہ اب ویسا ہی کھیل دوبارہ نہ شروع ہو جائے۔ گجرات کے چوہدریوں کو اس طرح کے کھیل بہت پسند ہیں۔

والسلام
 

رضوان

محفلین
مبارک ہو تمام جمہوریت پسند، آمریت مخالفوں اور جدوجہد پر یقین رکھنے والوں کو۔
ایسے وقت میں جب سیاسی پارٹیاں تزبزب کا شکار ہوں ٹریڈ یونین اور طلباء یونین کا وجود ہی صاف کردیا گیا ہو مڈل کلاس طبقہ جبر کے خلاف صف آرا ہوکر کچھ چھین لے یہ بہت بڑی بات ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ پاکستان کا “یومِ باسل“ ہے۔
وکلا کی اس جدوجہد میں کتنے ہی مشکل مقامات آئے لیکن آفرین ہے کالے کوٹوں پر جنہوں نے اپنے بے مثال اتحاد اور سیاسی شعور سے ان رکاوٹوں کو عبور کیا۔ یہ فیصلہ جو ایک سنگِ میل ہے ایک پیغام ہے ان قوتوں کے نام جو پاکستان کے عوام کے سیاسی شعور سے مایوس ہوگئے ہیں۔ ایک دفعہ پھر ثابت ہوگیا کہ کوئی جائز ایشو ہو اور قیادت پر اعتماد ہو تو کارکن ہر تعصب سے بالاتر ہوکر اپنے کاز اپنے مقصد کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔
وکلاء برادری جو پنجابی بھی ہیں سندھی بلوچی مہاجر اور پٹھان بھی، سیاسی طور پر بھی کوئی پیپلز پارٹی کا حامی تو کوئی اے این پی اور ایم کیو ایم کے لیے ہمدردیاں رکھتے تھے بلکہ کئی ایک اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں میں بہت زیادہ فعال ہیں لیکن اس ایشو پر اس نکتہ پر بلا کسی تفریق کے کندھے سے کندھا ملائے نظر آئے نہ ایم کیو ایم کوئی دراڑ ڈال سکی نا مسلم لیگ ق کے ابن الوقت کچھ بگاڑ سکے۔ نا کسی وکیل نے شیعہ سنی اور مُلا اور سوشلسٹ کا دائرہ کھینچا اور نا ان اختلافات کا ہلکا سا شائبہ اس تحریک میں داخل ہوسکا۔
یقینًا یہ اسی شعور کا نتیجہ ہے کہ کوئی وکیل پھر بھی وکیل ہی رہتا ہے چاہے وہ کسی نسل کسی مزہبی اور سیاسی گروہ سے تعلق رکھتا ہو اور اگر نصب العین واضح ہو تو چھوٹے موٹے اختلافات خود ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ آج بلوچ وکیل ایک طرف اپنے حقوق کے لیے مرکز اور فوجی سرکار کیخلاف صف آرا ہے تو ساتھ ہی عدلیہ کی آزادی کے لیے پنجاب کی وکیل برادری سے بھی جڑا رہا۔ اس تحریک نے اپنے وقتوں کی مزدور تحریکوں کی یاد دلا دی آمریت کے پروردہ ہمیں جتنے خانوں‌میں بانٹ لیں‌ کتنے ہی ٹاؤٹوں کے ذریعے عوام کو ایک دوسرے کے سامنے صف آرا کردیں جب عوام جاگتی ہے تو یہ چوہدری، خان ، ارباب صرف بے غیرتی سے اپنے زخم ہی چاٹتے رہتے ہیں۔ کونسا حربہ انہوں نے اس تحریک کو کمزور کرنے کے لیے نہیں آزمایا دھمکایا گیا پولیس سے اٹھوایا گیا لاتھی چارج تو لاتھی چارج گولیوں سے راستہ روکا گیا بم بلاسٹ رہ گیا تھا وہ بھی کر دیکھا۔ لاکھ آفرین ہو عدلیہ کی آزادی کے متوالوں کو کہ اس ابتلاء اور آزمائش سے سرخرو ہوئے ساتھ ہی اس راہ میں کام آنے والوں کو سرخ سلام جنہوں نے اپنی جانیں وار دیں ان کی عظمتوں پر کوئی شک نہیں۔
جس وقت سپریم کورٹ میں چوہدری افتخار کی بحالی کا فیصلہ سنایا جا رہا تھا تو پہلی ایک دو لائنیں سننے کے بعد ہی وکلا برادری نے پرجوش نعروں سے باقی اعلان سننے ہی نا دیا اور “گو مشرف گو“ کے نعروں سے سپریم کورٹ کی عمارت گونج اٹھی۔ یہ کامیابی یقینًا مشرف کو تو نا بھجواسکے لیکن شاید کئی اور جمہوری تحریکوں کے لیے مہمیز ثابت ہو۔
نبیل ایسے اقدامات سے وقتی طور پر تو مایوسی پھیلے مگر درحقیقت کچھ اور چہرے اپنا اعتبار کھو دیں گے۔ پچھلا فیصلہ(غلام اسحاق والا) کسی اور تناظر میں تھا اب لڑ کر لیا ہے فرق بہت واضح ہے اگر جدوجہد نا ہوتی تو انہی عدالتوں نے چوہدری افتخار کو ٹرخا دینا تھا۔
 

ساجداقبال

محفلین
نبیل بھائی کا اندیشہ بے جا نہیں، ہمارے عدالتوں نے ماضی میں بھی کچھ اچھے فیصلے دیے لیکن عملدرآمد ندارد۔ حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کا کیا ہوا؟ کیا ذمہ داروں کو کوئی سزا ملی؟ الٹا تین دہائیوں تک رپورٹ کو دبائے رکھا گیا۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ یہ فیصلے سابقہ فیصلوں کیطرح وقتی نہ ہو، بلکہ اس کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچیں۔
 

رضوان

محفلین
نبیل
آپ نے غلام اسحاق خان کے شرمناک کھیل کا حوالہ دیا کہ جب سپریم کورٹ نے نواز شریف والی اسمبلیاں بحال کردیں تو اس پیرِکذب و مکر نے اسمبلیاں توڑ کر دوسرا ہی کھیل شروع کردیا۔ آج کا فیصلہ مختلف ہے کہ فوج اگر ویسا ہی قدم اٹھانا چاہے تو اسے ننگی جارہیت پر اترنا ہوگا۔ دوسرا یہ فیصلہ کسی نے رحم کھا کر نہیں کیا بلکہ وکلا برادری کے بےمثال اتحاد اور قربانیوں کا ثمر ہے۔
جن کا دیں پیرویء کذب و ریا ہے اُن کو
ہمتِ کفر ملے، جراتِ تحقیق ملے
جن کے سر منتظر تیغِ جفا ہیں انکو
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
 
Top