جشن آزادی کیسے منائیں۔
سوال تو اچھا ہے۔
ادھر تو یہ ہوگا۔
جھنڈیاں لگیں گی۔
جھنڈے لگیں گے۔ (ساتھ والوں سے غیر اعلانیہ شرط لگا کر کہ بانس اور جھنڈا دونوں کس کے بڑے ہیں)
بچے سٹکر خریدیں گے۔ بڑے بیج لگائیں گے۔
ٹی وی والے ترانے گائیں گے۔
14 اگست والے دن وطن کی محبت میں سرشار نواجوان۔۔۔۔
موٹر سائیکلوں پر جھنڈے لگائے۔
ٹنڈوں پر جھنڈے بنوائے
سائنلنسر کی بانسریاں نکلوائے۔۔
پورے شہر میں گشت فرمائیں گے۔۔
اس کے بعد جھنڈے یا تو اتر جائیں گے یا بارشوں میں گل جائیں گے۔
جھنڈیاں کئی دنوں تک کوڑے کے ڈھیروں پر یا پیروں تلے رلتی پھریں گی۔
جذبے ٹھنڈے ہوجائیں گے۔
اور مادر وطن بھی ہمیشہ کی طرح ایک ٹھنڈا سانس لے کر پھر کسی مسیحا کے انتظار میں لگ جائے گی کہ شاید۔۔۔۔
شاید ۔۔۔ کوئی اٹھے اور اس قوم کی تقدیر بدل دے ۔ اس ملک کی تقدیر بدل دے جس کی نگاہیں 60 سالوں سے اس انتظار میں پتھرا گئی ہیں۔