قرآن و حدیث کے مطابق سچے پیر کی تلاش میں ہمیں مندرجہ ذیل باتوں کو پہچان بنانا ہو گا
۱- اللہ کے ولیوں کو کسی قسم کا خوف نہ ہو گا
2-- اللہ کے ولیوں کو کسی قسم کا غم نہ ہو گا
۳- اللہ کے ولی سب سے پہلے اپنے اوپر واجبی حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں ، وہ حقوق اللہ کے ہوں جیسے :نماز ، روزہ ، حج و زکاۃ ، بھلائی کا حکم دینا ، برائی سے روکنا اور جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ یا بندوں کے حقوق ہوں ، حتی کہ حیوانوں اور دیگر مخلوقات کے حقوق میں بھی کوتاہی سے کام نہیں لیتے
4-اللہ کے ولیوں کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ صرف فرائض کی ادائیگی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ فرائض کے ساتھ ساتھ فرائض ہی کے جنس سے جو نوافل ہیں ان کا بھی اہتمام کرتے ہیں
جعلی عاملوں کا شکار بے بس عوام
ربط
پاکستانی معاشرے میں لوگ عقل کا استعمال کرنا ہی نہیں چاہتے اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلی عامل اور پیر لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں اب یہی دیکھ لیجیے جعلی عامل کے کہنے پر
ملتان میں خزانہ تلاش کرتے ہوئے نوجوان کی ہلاکت نے جہاں اس ملک کے ہوس زر میں ڈوبے معاشی نظام کے منہ پر تھپڑ مارا ہے وہیں توہم پرستی میں ڈوبے معاشرے کی ذہنی بلوغت کو بھی آشکارا کردیا ہے ۔
ہمارے ملک کا نوجوان سرمایہ جو اس وقت ملکی آبادی کا تقریباً چالیس فیصد بتایا جاتا ہے ،اگر ان کی
اکثریت ’’خیالی خزانے‘‘ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، کچھ چوراہوں اور پارکوں میں ہیرو بنتے دکھائی دیتے ہیں ، اور کچھ ہفتے اور اتوار کی صبح شہر کی سڑکوں پر موٹر سائکلوں پر اپنے جوہر دکھاتے پائے جاتے ہیں ۔باقی جو نوجوان بچ جاتے ہیںوہ مایوسی کا شکار ہو کر جرائم کی دنیا میں داخل ہو رہے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا کوئی معاشرہ اپنے ملک کی آبادی کے چالیس فیصد قیمتی سرمائے سے اس طرح لاتعلق ہو سکتا ہے جیسے ہم ہو چکے ہیں؟ اگر ان نوجوانوں کے لئے مثبت سرگرمیوں ، کھیلوں اور مختلف ہنر کے ذرائع پیدا کر دیے جائیں تو ہو سکتا ہے یہ نوجوان حقیقت میں ایسا خزانہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو اس ملک کو مالا مال کر دئے، اور اس مثبت تبدیلی کی ابتدا صرف حکومت یا وہ سرمایہ دارانہ طبقہ کرسکتا ہے جن کے پاس دولت کی فروانی ہے۔ اگر ان لوگوں کے سرمائے کی مٹھی بھر ’’سخاوت‘‘ سے ملک کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے ۔ اور ہمارا نوجوان طبقہ ترقی کی نئی راہوں پر کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب توہم پرستی میں جکڑے معاشرے میں ملتان جیسے واقعات کا تسلسل یہ بتانے کے لئے کافی نہیں کہ ہم ذہنی طور پرمفلوج معاشرے کا حصہ ہیں۔ جہاں سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اپنی اولادوں کو جعلی عاملوں کی ہوس کی تسکین کے لئے پیش کر دیا جاتا ہے اور بعد میں ہم شکایت کرتے پھرتے ہیں کہ فلاں جعلی عامل یا پیر نے ہماری بچی یا بچے کے ساتھ یہ سلوک کر دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بنیادی طور پر قصور جعلی پیروں یا عاملوں کا نہیں بلکہ ہماری اپنی کمزوریوں،بے وقوفیوں اور لالچ کا ہے جس سے یہ فراڈ افراد بھرپورفائدہ اٹھاتے ہیں ۔
پاکستان میں جعلی پیروں اور عاملوں کے کہنے پر توہم پرست اور کمزور عقائد رکھنے والے افراد کی جانب سے انسانی جانیں لینے خصوصا کم سن بچوں کے قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور عزت لٹنے کے واقعات سے اخبارات کے صفحے کالے نظر آتے ہیں۔ مگر پھر بھی ان واقعات میں کمی کے بجائے دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جعلی پیروں کے ہتھے چڑھنے والوں میں اکثریت ایسے افراد کی ہوتی ہے جو اپنے
مالی حالات اور تنگدستی سے چھٹکارا اور راتوں رات ترقی کے لئے “شارٹ کٹ” اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ
مخلتف ذہنی اور جسمانی بیماریوں کے شکار افراد بھی آسانی سے جعلی پیروں اور عاملوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ عوام کی جعلی پیروں یا عاملوں کے ہاتھوں لٹنے کے ایسے واقعات کی وجہ کچھ بھی ہو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی فلاح وبہبود اور تحفظ کو یقینی بنائے۔ کیونکہ
ریاست کا کردار
بہت اہم ہے ریاست اور معاشرے کی فطرت ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور جن معاشروں کے اندر سماجی انصاف ہوتا ہے وہاں اس طرح کے جرائم بھی کم نظر آتے ہیں۔ لہذا حکومتی سطح پر بھی ان جعلی عاملوں اور پیروں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے بچاوؤکے حوالے سے موثر قانون سازی اور نفاذ کی ضرورت ہے ۔ بلکہ اس حوالے سے مذہبی علما کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کا خاتمہ کیا جا سکے۔
میڈیا کا کردار
دوسری جانب میڈیا بھی عوام کو گمراہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں جعلی دوایاں، جعلی ڈاکٹر، جعلی پیر، تعویز گنڈے اور نہ جانے کس کس طرح کے اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں۔ بلکہ کئی چینلز پر تو کئی ایسے پروگرامز بھی نشر کئے جارہے ہیں جو جعلی عاملوں کے کام کو تقویت دیتے ہیں ۔پیمرا کو چاہئے کہ وہ میڈیا پر نشر ہونے والے پروگرامز اور اشتہارات پر پابندی عائداور جعلی پیروں اور عاملوں کے فروغ دینے والے چینلز کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے۔
جن معاشروں میں غور فکر پر پابندیاں لگا دی گئی ہوں یا جہاں انسان کے زوق کی تسکین کے جائز راستے بند ہو چکے ہوں، جہالت عام ہو چکی ہو تو اسے معاشروں میں توہم پرستی کو اپنا راستہ بناتے دیر نہیں لگتی ۔ معاشرے کی ذہنی حالت کو تبدیل کئے بنا جعل سازوں سے بچنا مشکل ہے ۔اور اس سوچ کو تبدیل کرنے کے لئے ہمیں عملی طور پر خود آگے بڑھ کر جعلی پیروں اور عاملوں کی حوصلہ شکنی کرنے اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی ضرورت ہے کہیں کل کو ئی ہمارا اپنا ان دھوکے بازوں کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے