معظم جاوید
محفلین
ذرا غور کیجئے!
کیا آپ پاکستانی ہیں! کیا آپ مسلمان ہیں!
بہترین انسان وہ ہے، جو انسانوں کو نفع پہنچائے! (حدیث نبویؐ)
گذشتہ چند سالوں سے ملکی حالات تیزی کے ساتھ تنزلی کی طرف گامزن ہیں۔معاشی طور پر سفید پوش طبقہ بری طرح پس گیا ہے اور غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ملک کی دوسری صنعتوں کی طرح کتابی صنعت بھی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ 1980ء تک عموماً کتابوں کی تعدادِاشاعت دوہزار کاپی (2000) سے زیادہ رہتی تھی۔ جو اگلے دس سالوں میں کم ہوکر ایک ہزار (1000) رہ گئی اور اب یہ صورتحال ہے کہ کتاب کا پہلا ایڈیشن صرف پانچ سو تعداد میں شائع کیا جا رہا ہے۔ چند اشاعتی ادارے اپنی نئی کتب محض تین سو (300) کی تعداد میں شائع کرنے پر مجبور ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی ایک اشاعتی ادارے کے ساتھ کتنے لوگ منسلک ہوتے ہیں۔یقینانہیں!
پہلے مرحلے میں تو ادیب، شاعر، مؤلف یا مرتب کار ہوتا ہے، جو اپنی دن رات کی محنت کے بعد کتاب کا مسودہ بناتا ہے۔
دوسرے مرحلہ پر کمپوزنگ کا سلسلہ ہوتا ہے۔ جہاں اس کتاب کی کتابت یا تحریر عمل میں لائی جاتی ہے۔یہاں کم از کم تین افراد کام کرتے ہیں۔
تیسرامرحلہ سرورق کی ڈیزائننگ کا ہوتا ہے جہاں ایک یا دو ڈیزائنرز مل کر کتاب کا سرورق بناتے ہیں۔
چوتھا مرحلہ کتابت کی غلطیوں کی نشاندہی کا ہوتا ہے جس کیلئے کم ازکم دو پروف ریڈرز مسلسل کام کرتے ہیں۔
پانچواں مرحلہ کتابت شدہ مواد کی پیسٹنگ کا ہوتا ہے۔ اس میں پیسٹر مسلسل محنت کے بعد خام کاپیاں تیار کرتا ہے جو پریس جانے کی تیار ہوتی ہیں۔
چھٹا مرحلہ کتابی کاغذ اور سرورق کاغذ کے انتخاب کا ہوتا ہے، جس کیلئے پبلشر کاغذ مارکیٹ میں جاتا ہے اور اکثر کئی چکر لگانے کے بعد اسے مطلوبہ کاغذ ملتا ہے۔
ساتواں مرحلہ خام کاپیوں کی پلیٹ میکنگ کا ہوتا ہے۔ لوہے کی چادر کی بنی پلیٹوں پر خام کاپیوں کا عکس کندہ کیا جاتا ہے اس کام میں کم ازکم پانچ افراد کام کرتے ہیں۔
آٹھواں مرحلہ پرنٹنگ پریس میں چھپائی کا ہوتا ہے۔ جس میں کم ازکم پانچ سے دس افراد کام کرتے ہیں۔
نواں مرحلہ سرورق کی چھپائی کا ہوتا ہے جو الگ پرنٹنگ پریس میں کیا جاتا ہے یہاں تین سے پانچ افراد کام کرتے ہیں۔
دسواں مرحلہ لمینیشن کا ہوتا ہے جس میں مشین کے ذریعےسرورق پر پلاسٹک کا چمکدار شیٹ چڑھایا جاتا ہے۔
گیارہواں مرحلہ چھپے ہوئے کاغذ کی جلدبندی اور کتابی تشکیل کا ہوتا ہے جو دفتری خانہ میں کیا جاتا ہے۔ یہاں کام کرنے والے افراد کی تعداد کم ازکم بیس ہوتی ہے۔
بارہواں مرحلہ مکمل تیار شدہ کتاب کی تقسیم کا ہوتا ہے جس کے لئے پبلشر تمام پاکستان میں موجود کتب فروشوں کو مخصوص کمیشن پر کتب پہنچاتا ہے۔ اس میں آمدورفت و پیکنگ وغیرہ کا خرچ بذمہ پبلشر ہوتا ہے۔ اس عمل میں محکمہ ڈاک، گڈز کمپنیاں اور ایجنٹ حضرات شامل ہوتے ہیں۔
ان تمام مراحل میں غریب مزدور طبقہ بھی شامل ہے جو کتب کی اشاعت کے دوران خام میٹریل کو ہتھ ریڑھی، چھکڑوں اور پیدل سر پر اُٹھا کر اپنا محنتانہ وصول کرتے ہیں۔
ایک کتاب کی مکمل تیاری کے دوران کم ازکم بیس سے تیس دن کا مسلسل وقت صرف ہوتا ہے۔
سادہ الفاظ میں یہ سمجھ لیجئے کہ کسی ایک کتاب کی اشاعت میں کم ازکم ڈیڑھ سے دوسو افراد مل جل کر کام کرتے ہیں، اور اپنے اپنے حصے کا رزقِ حلال حاصل کرتے ہیں۔یعنی پورے پاکستان میں قریباً سترہ سے بیس لاکھ افراد کتابی صنعت سے وابستہ ہیں۔ ان میں وہ مزدور طبقہ شامل نہیں ہے جو بوجھ ڈھونے کا کام کرتا ہے۔ جوں جوں کتابوں کی اشاعت کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے توں توں ان لوگوں کی آمدن سکڑتی جارہی ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں تقریباً چالیس فی صد لوگ مایوس ہوکر کسی دوسری محنت مزدوری میں مشغول ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں شرح خواندگی دن بہ دن بڑھ رہی ہے مگر کتابی صنعت زوال کا شکار ہو رہی ہے۔
اس کی ایک وجہ آپ لوگ بھی ہیں!!!
جی ہاں! آپ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بازار سے سو پچاس روپے کی ایک کتاب خرید کر لاتے ہیں اور اپنے سکینر کی مدد سے اسے سکین کرکے پی ڈی ایف بناتے ہیں، اپنی نمودونمائش اور فنکاری کا رعب جھاڑنے کیلئے اسے انٹرنیٹ پر شیئر کرتے ہیں اور آپ جیسے ہزاروں لوگ بازار سے انہیں خریدنے کے بجائے دھڑا دھڑ مفت ڈاؤن لوڈ کرتے رہتے ہیں۔
ذرا سوچئے۔۔۔ ۔۔!!!
کیا یہ کتابیں ان کی اپ لوڈرز کی ذاتی ملکیت ہوتی ہیں؟
کیا یہ اپ لوڈرز، سرعام چوری اور سینہ زوری کے مرتکب نہیں ہوتے؟
کیا یہ اپ لوڈرز، ایک کتاب اپ لوڈ کرکے ڈیڑھ سے دوسو افراد کی مزدوری پر ڈاکہ نہیں مارتے؟
کیا دوسروں کی دن رات کی محنت کو یوں اُڑانا دین اسلام کے تحت جائز ہے؟
کیا اشاعت ِعلم ودین کے نام پر خود محنت کرنے کے بجائے دوسروں کا نقصان کرنا جائز ہے؟
کیا نبی کریمﷺ نے یہ نہیں فرمایا: بہترین مسلمان (مومن) وہ شخص ہے جس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
اگر آپ خود کو قابلیت و اہلیت میں یکتا سمجھتے ہیں اور انٹرنیٹ کی دُنیا میں واقعی کچھ کرکے دکھانا چاہتے ہیں تو مثبت راہیں اختیار کیجئے۔ علم کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں تو اپنی تعلیم و قابلیت کو استعمال کیجئے، اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کریں (جو باعث ثواب ہو گا) دوسرے کی روزی روٹی پر لات مار کر آپ یقیناً گناہ عظیم کما رہے ہیں۔ یاد رکھئے! مسلمان پیدا ہونا کوئی کمال نہیں ہے کیونکہ یہ آپ کے بس میں نہیں ہے، خدا باری تعالیٰ جسے چاہتا ہے مسلمان کے گھر میں پیدا کر دیتا ہے۔ اصل امتحان تو ایک عمدہ مسلمان بن کر دکھانا ہے، یہی اصل کمال ہے۔ اس کمال کا حقیقی نمونہ نبی کریمﷺ نے خود پیش کیا ہے جس کے آج بھی اہل مغرب معترف ہیں۔ غیر مسلم دُنیا میں سو عظیم شخصیات میں نبی کریمﷺ کو پہلا نمبر کیوں دیا گیا ہے، ذرا غور کیجئے۔ اولیاء کرامؒ کی سیرت اور ملفوظات پر غور کیجئے کہ انہوں نے نہ صرف خود کر دکھایا بلکہ سیرت نبویؐ پر چلنے کی کڑی تاکید و تلقین بھی کی۔
اب بس کیجئے! جو ہو چکا سو چکا۔۔۔ ۔ خود سے وعدہ کیجئے کہ اب ایسا نہیں کیا جائے گا۔
یاد رکھئے! جنوری 2013ء سے سائبرورلڈ کے بین الاقوامی جملہ حقوق قوانین کے تحت پورے پاکستان میں جملہ حقوق کی کاررائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ ایسی تمام ویب سائٹس اور بلاگز کو ختم کر دیا جائے گا جہاں کسی بھی پاکستانی پبلشر کی شائع کردہ کتاب پائی جا ئے گی۔ صرف ایسی کتب کو باقی رہنے دیا جائے گا جن کی ڈیجیٹل اشاعت کی اجازت خود پبلشر یا مصنف نے دی ہو گی۔ پبلشرز فورم میں اس ضمن میں بھی فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ کتب کی ڈیجیٹل ترسیل کا کام باقاعدہ سائبر ایجنٹس کو سونپ دیا جائے تاکہ جو لوگ کتب کی پی ڈی ایف حاصل کرنے کے متمنی ہیں وہ باقاعدہ ویب سٹور یعنی ایمزن یا مقررہ سائٹس سے ہی پی ڈی ایف خرید سکتے ہیں۔
اس ضمن میں مزید اپ ڈیٹس سے میں آپ کو آگاہ کرتا رہوں گا۔ شکریہ
معظم جاویدؔ بخاری
کیا آپ پاکستانی ہیں! کیا آپ مسلمان ہیں!
بہترین انسان وہ ہے، جو انسانوں کو نفع پہنچائے! (حدیث نبویؐ)
گذشتہ چند سالوں سے ملکی حالات تیزی کے ساتھ تنزلی کی طرف گامزن ہیں۔معاشی طور پر سفید پوش طبقہ بری طرح پس گیا ہے اور غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ملک کی دوسری صنعتوں کی طرح کتابی صنعت بھی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ 1980ء تک عموماً کتابوں کی تعدادِاشاعت دوہزار کاپی (2000) سے زیادہ رہتی تھی۔ جو اگلے دس سالوں میں کم ہوکر ایک ہزار (1000) رہ گئی اور اب یہ صورتحال ہے کہ کتاب کا پہلا ایڈیشن صرف پانچ سو تعداد میں شائع کیا جا رہا ہے۔ چند اشاعتی ادارے اپنی نئی کتب محض تین سو (300) کی تعداد میں شائع کرنے پر مجبور ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی ایک اشاعتی ادارے کے ساتھ کتنے لوگ منسلک ہوتے ہیں۔یقینانہیں!
پہلے مرحلے میں تو ادیب، شاعر، مؤلف یا مرتب کار ہوتا ہے، جو اپنی دن رات کی محنت کے بعد کتاب کا مسودہ بناتا ہے۔
دوسرے مرحلہ پر کمپوزنگ کا سلسلہ ہوتا ہے۔ جہاں اس کتاب کی کتابت یا تحریر عمل میں لائی جاتی ہے۔یہاں کم از کم تین افراد کام کرتے ہیں۔
تیسرامرحلہ سرورق کی ڈیزائننگ کا ہوتا ہے جہاں ایک یا دو ڈیزائنرز مل کر کتاب کا سرورق بناتے ہیں۔
چوتھا مرحلہ کتابت کی غلطیوں کی نشاندہی کا ہوتا ہے جس کیلئے کم ازکم دو پروف ریڈرز مسلسل کام کرتے ہیں۔
پانچواں مرحلہ کتابت شدہ مواد کی پیسٹنگ کا ہوتا ہے۔ اس میں پیسٹر مسلسل محنت کے بعد خام کاپیاں تیار کرتا ہے جو پریس جانے کی تیار ہوتی ہیں۔
چھٹا مرحلہ کتابی کاغذ اور سرورق کاغذ کے انتخاب کا ہوتا ہے، جس کیلئے پبلشر کاغذ مارکیٹ میں جاتا ہے اور اکثر کئی چکر لگانے کے بعد اسے مطلوبہ کاغذ ملتا ہے۔
ساتواں مرحلہ خام کاپیوں کی پلیٹ میکنگ کا ہوتا ہے۔ لوہے کی چادر کی بنی پلیٹوں پر خام کاپیوں کا عکس کندہ کیا جاتا ہے اس کام میں کم ازکم پانچ افراد کام کرتے ہیں۔
آٹھواں مرحلہ پرنٹنگ پریس میں چھپائی کا ہوتا ہے۔ جس میں کم ازکم پانچ سے دس افراد کام کرتے ہیں۔
نواں مرحلہ سرورق کی چھپائی کا ہوتا ہے جو الگ پرنٹنگ پریس میں کیا جاتا ہے یہاں تین سے پانچ افراد کام کرتے ہیں۔
دسواں مرحلہ لمینیشن کا ہوتا ہے جس میں مشین کے ذریعےسرورق پر پلاسٹک کا چمکدار شیٹ چڑھایا جاتا ہے۔
گیارہواں مرحلہ چھپے ہوئے کاغذ کی جلدبندی اور کتابی تشکیل کا ہوتا ہے جو دفتری خانہ میں کیا جاتا ہے۔ یہاں کام کرنے والے افراد کی تعداد کم ازکم بیس ہوتی ہے۔
بارہواں مرحلہ مکمل تیار شدہ کتاب کی تقسیم کا ہوتا ہے جس کے لئے پبلشر تمام پاکستان میں موجود کتب فروشوں کو مخصوص کمیشن پر کتب پہنچاتا ہے۔ اس میں آمدورفت و پیکنگ وغیرہ کا خرچ بذمہ پبلشر ہوتا ہے۔ اس عمل میں محکمہ ڈاک، گڈز کمپنیاں اور ایجنٹ حضرات شامل ہوتے ہیں۔
ان تمام مراحل میں غریب مزدور طبقہ بھی شامل ہے جو کتب کی اشاعت کے دوران خام میٹریل کو ہتھ ریڑھی، چھکڑوں اور پیدل سر پر اُٹھا کر اپنا محنتانہ وصول کرتے ہیں۔
ایک کتاب کی مکمل تیاری کے دوران کم ازکم بیس سے تیس دن کا مسلسل وقت صرف ہوتا ہے۔
سادہ الفاظ میں یہ سمجھ لیجئے کہ کسی ایک کتاب کی اشاعت میں کم ازکم ڈیڑھ سے دوسو افراد مل جل کر کام کرتے ہیں، اور اپنے اپنے حصے کا رزقِ حلال حاصل کرتے ہیں۔یعنی پورے پاکستان میں قریباً سترہ سے بیس لاکھ افراد کتابی صنعت سے وابستہ ہیں۔ ان میں وہ مزدور طبقہ شامل نہیں ہے جو بوجھ ڈھونے کا کام کرتا ہے۔ جوں جوں کتابوں کی اشاعت کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے توں توں ان لوگوں کی آمدن سکڑتی جارہی ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں تقریباً چالیس فی صد لوگ مایوس ہوکر کسی دوسری محنت مزدوری میں مشغول ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں شرح خواندگی دن بہ دن بڑھ رہی ہے مگر کتابی صنعت زوال کا شکار ہو رہی ہے۔
اس کی ایک وجہ آپ لوگ بھی ہیں!!!
جی ہاں! آپ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بازار سے سو پچاس روپے کی ایک کتاب خرید کر لاتے ہیں اور اپنے سکینر کی مدد سے اسے سکین کرکے پی ڈی ایف بناتے ہیں، اپنی نمودونمائش اور فنکاری کا رعب جھاڑنے کیلئے اسے انٹرنیٹ پر شیئر کرتے ہیں اور آپ جیسے ہزاروں لوگ بازار سے انہیں خریدنے کے بجائے دھڑا دھڑ مفت ڈاؤن لوڈ کرتے رہتے ہیں۔
ذرا سوچئے۔۔۔ ۔۔!!!
کیا یہ کتابیں ان کی اپ لوڈرز کی ذاتی ملکیت ہوتی ہیں؟
کیا یہ اپ لوڈرز، سرعام چوری اور سینہ زوری کے مرتکب نہیں ہوتے؟
کیا یہ اپ لوڈرز، ایک کتاب اپ لوڈ کرکے ڈیڑھ سے دوسو افراد کی مزدوری پر ڈاکہ نہیں مارتے؟
کیا دوسروں کی دن رات کی محنت کو یوں اُڑانا دین اسلام کے تحت جائز ہے؟
کیا اشاعت ِعلم ودین کے نام پر خود محنت کرنے کے بجائے دوسروں کا نقصان کرنا جائز ہے؟
کیا نبی کریمﷺ نے یہ نہیں فرمایا: بہترین مسلمان (مومن) وہ شخص ہے جس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
اگر آپ خود کو قابلیت و اہلیت میں یکتا سمجھتے ہیں اور انٹرنیٹ کی دُنیا میں واقعی کچھ کرکے دکھانا چاہتے ہیں تو مثبت راہیں اختیار کیجئے۔ علم کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں تو اپنی تعلیم و قابلیت کو استعمال کیجئے، اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کریں (جو باعث ثواب ہو گا) دوسرے کی روزی روٹی پر لات مار کر آپ یقیناً گناہ عظیم کما رہے ہیں۔ یاد رکھئے! مسلمان پیدا ہونا کوئی کمال نہیں ہے کیونکہ یہ آپ کے بس میں نہیں ہے، خدا باری تعالیٰ جسے چاہتا ہے مسلمان کے گھر میں پیدا کر دیتا ہے۔ اصل امتحان تو ایک عمدہ مسلمان بن کر دکھانا ہے، یہی اصل کمال ہے۔ اس کمال کا حقیقی نمونہ نبی کریمﷺ نے خود پیش کیا ہے جس کے آج بھی اہل مغرب معترف ہیں۔ غیر مسلم دُنیا میں سو عظیم شخصیات میں نبی کریمﷺ کو پہلا نمبر کیوں دیا گیا ہے، ذرا غور کیجئے۔ اولیاء کرامؒ کی سیرت اور ملفوظات پر غور کیجئے کہ انہوں نے نہ صرف خود کر دکھایا بلکہ سیرت نبویؐ پر چلنے کی کڑی تاکید و تلقین بھی کی۔
اب بس کیجئے! جو ہو چکا سو چکا۔۔۔ ۔ خود سے وعدہ کیجئے کہ اب ایسا نہیں کیا جائے گا۔
یاد رکھئے! جنوری 2013ء سے سائبرورلڈ کے بین الاقوامی جملہ حقوق قوانین کے تحت پورے پاکستان میں جملہ حقوق کی کاررائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ ایسی تمام ویب سائٹس اور بلاگز کو ختم کر دیا جائے گا جہاں کسی بھی پاکستانی پبلشر کی شائع کردہ کتاب پائی جا ئے گی۔ صرف ایسی کتب کو باقی رہنے دیا جائے گا جن کی ڈیجیٹل اشاعت کی اجازت خود پبلشر یا مصنف نے دی ہو گی۔ پبلشرز فورم میں اس ضمن میں بھی فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ کتب کی ڈیجیٹل ترسیل کا کام باقاعدہ سائبر ایجنٹس کو سونپ دیا جائے تاکہ جو لوگ کتب کی پی ڈی ایف حاصل کرنے کے متمنی ہیں وہ باقاعدہ ویب سٹور یعنی ایمزن یا مقررہ سائٹس سے ہی پی ڈی ایف خرید سکتے ہیں۔
اس ضمن میں مزید اپ ڈیٹس سے میں آپ کو آگاہ کرتا رہوں گا۔ شکریہ
معظم جاویدؔ بخاری