محترم قارئین!
السلام علیکم!
بعدازخیریت نیک مطلوب ہے۔ مجھے ازحد تعجب ہے کہ آپ لوگوں کے ذہن میں میری کچھ عجیب سی تصویر نشوونما پا گئی ہے۔ آپ کے تبصرہ ہائے سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں اردوادب کا سنگین دشمن ہوں اور لوگوں سے ان کا کوئی بنیادی حق چھیننے میں کوشاں ہوں یا پھر میں جملہ حقوق کا ڈنڈا آپ کے سر پر مارنے کیلئے بے چین و بے تاب ہوں۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے!!!
پہلے میں کچھ معاملات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ تلمیذ صاحب نے قیمت و کمیشن کے ضمن فرمایا کہ کوئی ایسا طریقہ وضح کیا جائے جس سے کتاب کی قیمت اور کمیشن کی شرح کا صحیح اندازہ ہو سکے۔ ایسا کوئی فارمولا نہیں ہے۔ میری ماضی میں مختلف پبلشرز سے اس ضمن میں بات ہوئی ہے۔ منافع کی شرح کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی چیز میں منافع کی شرح مقرر کرنے کا حق مینوفیکچر کو مذہبی لحاظ سے حاصل ہے، بلفاظ دیگر ہمارا مذہب کسی بھی مینوفیکچر پر پابندی نہیں لگاتا کہ وہ منافع کی شرح لازماً کم رکھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ تمام پبلشرز منافع کی شرح زائد نہیں حاصل کرتے۔ چند بڑے ادارے اس میدان میں کتب کی قیمت ہزار روپے یا زائد رکھتے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں لگ بھگ ساڑھے چار ہزار پبلشرز ہیں اس لئے ان کے درمیان مبازرتی کیفیت رونما رہتی ہے۔ جس کی بدولت قیمت پر کنٹرول رہتا ہے۔ اکژیتی اشاعتی اداروں میں کتب کے موضوعات یکساں ہیں۔ اب دوسرا کمیشن کا معاملہ ، اس میں بنیادی طور پر پبلشرز کی ذاتی کوتاہی کارفرما ہے۔ جب کتاب کی فروخت میں فل سٹاپ لگ جاتا ہے تو وہ خود کمیشن کی شرح بڑھا کر اسے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بک سیلر کو جب ایک بار زائد کمیشن کی لت لگ جاتی ہے تو وہ پبلشرز کو مجبور کرتا ہے کہ اسے زائد کمیشن ہی فراہم کریں، اگر پبلشر ایسا نہیں کرتا تو وہ اس سے مال نہیں خریدتے۔ یہ ایک قسم کی بلیک میلنگ ہے جو قریباً ہر کاروبار میں پائی جاتی ہے۔ پبلشر ایک کتاب جس کی قیمت پچیس روپے ہو ،کا ایڈیشن پانچ سو شائع کرتا ہے تو تمام ایڈیشن کی فروخت کے بعد اسے قریباً ایک ہزار روپے کا منافع حاصل ہوتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ مکمل ایڈیشن کی فروخت میں کم ازکم ڈیڑھ سے تین ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔ اسی لئے ایک پبلشر چار یا چھ کتابوں کا سیٹ بنا کر شائع کرتا ہے۔ جن کتب کی قیمت نہایت زیادہ ہوتی ہیں، ان میں رائٹرز کی ریالٹی بھی شامل ہوتی ہے جو ایڈیشن کے مطابق انہیں ادا کی جاتی ہے۔ یہ مصنفین زیادہ تر شہرت یافتہ حیثیت کے مالک ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر مستنصر حسین تارڈ، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، حامد میر وغیرہم۔ پبلشر ان کی ریالٹی اپنے منافع سے نہیں دیتا بلکہ وہ قاری کے جیب سے حاصل کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ لوگ ان اعداد وشمار کو مبالغہ آرائی قرار دیں مگر پاکستان میں یہی حقیقت ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ محترمہ بے نظیربھٹو کی کتاب مفاہمت کی ریالٹی براہ راست آصف علی زرداری کو دی جاتی ہے اور اس کی شرح عام مصنفین کے لحاظ سے کہیں زیادہ ہے۔
مصنفین کے گروہ میں کی بڑی تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو دوسروں کے کام کو چوری کرکے یا پرانی کتب کو کاغذ پر اتار کر اپنے نام سے شائع کراتا ہے۔ وہ حقیقی مصنفین کا حق غصب کرتے ہیں اور مسروقہ تحریروں کو اونے پونے فروخت کرتے ہیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ رہا ہے کہ وہ لوگ بھی آج صاحب کتب ہیں جو ماضی میں ایسے کام کرتے رہے جن کا علم و ادب سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔ پبلشرز کے حلقے میں ایسے مصنفین کو قینچی ماسٹر کا لقب دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ان کے بغیر پبلشرز کا کام نہیں چلتا۔
شکوہ کناں مصنفین کا تقاضا ہے کہ پبلشرز ان کی کتب کا ایڈیشن صحیح طرح فروخت نہیں کرتے، ان کی کتب کو گوداموں میں بند رکھتے ہیں یا پھر ان کی کتب ختم ہو چکی ہوتی ہیں اور وہ جان بوجھ کر دوسرا ایڈیشن نہیں چھاپتے۔ اس ضمن میں چھوٹی سی وضاحت ضروری ہے۔ کوئی بھی کاروباری شخص اپنا سرمایہ لگا کر اسے بلاک کرنا نہیں پسند کرتا اور نہ ہی کسی منافع بخش مصنوع کو بلاوجہ چھوڑنا پسند کرتا ہے۔ ہر پبلشر کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے شوروم میں موجود ڈیڈ ایٹم جلدازجلد نکل جائے۔ اگر اسے زیادہ عرصہ پڑا رہنے دیا گیا تو اس کی ہیئت بدل جائے گی اور نئی کتاب کی صورت پرانی جیسی ہو جائے گی۔ ایسی صورت بھی رونما ہوتی رہتی ہے جس پر وہ بچ رہنے والی کتاب کو اونے پونے داموں میں کباڑئیوں کو دے دیتا ہے۔ یونیورسٹی روڈ پر بیٹھے ہوئے کتابوں کے کباڑئیے اس کی گواہی دے سکتے ہیں۔ یہ لوگ لگاتار پبلشرز کے آفس میں چکر کاٹتے رہتے ہیں۔
ہر کتاب بکنے والی نہیں ہوتی۔ مصنفین جب کوئی کتاب لکھتے ہیں تو وہ اپنے تئیں یہی سوچتے ہیں کہ انہوں نے جس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے وہ بڑا ضروری اور جاندار ہے۔ کسی بھی کتاب کے موضوع کا فیصلہ ہمیشہ قارئین ہی کرتے ہیں۔ دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ ایک مصنف خود ذاتی سرمایہ سے پبلشر کی خدمات حاصل کرتا ہے اور کتاب شائع کرتا ہے۔ پبلشر تمام مراحل کی ذمہ داری لے کر اسے کتاب مکمل حالت میں فراہم کرتا ہے۔ مصنف اس کی فروخت کیلئے یا تو خود کوشش کرتا ہے یا پھر پبلشر کو ذمہ داری سونپتا ہے۔ کچھ عرصے بعد مصنف یہ شکوہ کرتا دکھائی دیتا ہے کہ پبلشر نے اس کی کتاب کی ترسیل کا کام ذمہ داری سے نہیں نبھایا۔ اس کی حقیقت دونوں صورتوں میں موجود ہے۔ پہلی یہ کہ مصنف کا الزام حقیقتاً درست ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ پبلشر آنے والے تمام بک سیلرز اور گاہکوں کو اس نئی کتاب کی خریداری کی دعوت دیتا ہے مگر بک سیلرز یا گاہک صرف انہی کتب میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں جو دھڑادھڑ بک سکیں۔ وہ کسی بھی تجرباتی کتاب کو خریدنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس صورت میں عموماً نئے یا غیرمعروف مصنفین کی کتب صحیح طور پر بک نہیں پاتیں۔ پبلشر کو کسی بھی کتاب کے بکنے میں منافع ملنے کی توقع ہوتی ہے لہٰذا وہ اپنے منافع کو گنوانے کی حماقت نہیں کرتا۔ جو ادارے جان بوجھ کر ایسی کتاب کو کھڈے لائن لگاتے ہیں وہ عموماً بڑی شہرت کے حامل اور مالی طور پر مستحکم ہوتے ہیں۔ انہیں کتاب کی اشاعت کے دوران بھرپور منافع مل چکا ہوتا ہے اس لئے وہ مزید منافع کے چکر میں نہیں پڑتے۔
ایک معاملہ بدستور اُٹھتا رہا ہے کہ پبلشر کا ایک گروہ آزاد کتب کا ایڈیشن شائع کرتا ہے اور اس پر جملہ حقوق کا لیبل لگا دیتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ کسی بھی آزاد کتاب کو من و عن فوٹو سٹیٹ کرکے شائع نہیں کیا جا سکتا، یہ کاپی رائٹس ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ ایسا کرنے پر پبلشر قانونی پنجے میں پھنس سکتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ علامہ اقبال کی کتب کے رائٹس شیخ غلام علی اینڈ سنز کے پاس تھے جو 80ء کی دہائی میں آزاد ہوئے۔ کئی پبلشرز نے علامہ اقبال کا کلام شائع کیا۔ ان میں ایسے لوگ جنہوں نے براہ راست شیخ غلام اینڈ سنز کی کتابت اُٹھائی تھی، ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔ جن پبلشرز نے اپنی کتابت و تزئین کی تھی، وہ اس لپیٹ میں نہیں آئے۔ جب ایک پبلشر کسی بھی آزاد کتاب کو ری پرنٹ کرتا ہے تو اس میں کتابت، تزئین اور دیگر اشیاء اس کی ملکیت شمار ہوتی ہیں۔ کوئی دوسرا اگر انہیں من و عن ہی شائع کر دے تو وہ جملہ حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار پاتا ہے۔ یہ جملہ حقوق کی قسم صرف پبلشرز کے درمیان ایک تحفظ کے معنی رکھتی ہے۔ اگر پبلشرز آزاد کتب کو شائع نہ کریں تو یقیناً آپ کچھ سالوں بعد ان کتب کے مطالعے سے محروم ہو سکتے ہیں۔ آزاد و نایاب کتب زیادہ تر لائبریریوں سے ہی حاصل کی جاتی ہیں، اگر آپ کو مفت کتاب پڑھنے کی حاجت ہے تو لائبریری موجود ہے، اگر آپ اس کتاب کو ذاتی لائبریری کی زینت بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو پبلشر سے تعاون کرنا ہوگا۔ وہ اس پر سرمایہ کاری کرتا ہے تو اسے یہ حق ملنا چاہئے۔
محترم محمد وارث نے کافی ساری باتیں اُٹھائی ہیں جن میں ایک پروف ریڈنگ کی غلطیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ غلطیاں اخبارات، میڈیا چینلز پر بھی باقی رہ جاتی ہیں۔ ایک پبلشر باقاعدہ ایک پروف ریڈر کو مسودہ بھجواتا ہے اور اس میں سے غلطیوں کی نشاندہی پر اسے معاوضہ بھی ادا کرتا ہے۔ یہ براہ راست پروف ریڈر کا معاملہ ہے کہ وہ اپنے کام میں کتنی دیانت داری اختیار کرتا ہے؟پروف ریڈر جن غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے، انہیں درست کرنے کی ذمہ داری کمپوزنگ سنٹر کی ہوتی ہے۔ پبلشر ان دونوں ذمہ دار لوگوں پر اعتماد رکھتا ہے، جب اسے کسی کتاب میں غلطیوں کی شکایت ملتی ہے تو وہ ان دونوں لوگوں کی کلاس بھی لگاتا ہے کیونکہ اس نے اس ضمن میں معاوضہ ادا کر دیا ہوتا ہے۔ جب غلطیوں پر مشتمل کوئی کتاب بازار میں پہنچ جاتی ہے تو اسے ختم ہونے میں کچھ عرصہ لگتا ہے۔ پبلشر صرف سنگین غلطیوں والی کتب کو ہی ضائع کرتا ہے، باقی ماندہ کے دوسرے ایڈیشن میں ان غلطیوں کی اصلاح کرلیتا ہے۔ آپ کسی بھی پبلشر کی کسی کتاب میں غلطی پائیں تو براہ مہربانی اسے آگاہ کریں (اس ضمن میں اس کا رویہ آپ کو خود معلوم ہو جائے گا)
آپ یہ کہنا کہ یہ درست نہیں کہ کتابی صنعت صرف انٹرنیٹ کے باعث اجڑ گئی ہے، میرے خیال میں غیرحقیقی ہے۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ کتاب صرف اس طبقے کی ضرورت ہے جو پڑھنا لکھنا جانتا ہے۔ ناخواندہ افراد کتاب سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد یقینا ناخواندہ نہیں ہیں۔جب وہ طبقہ جو پڑھنے لکھنے سے آشنا ہے، اسے مختلف فورمز اور بلاگز سے مفت کتب کے لنکس مل جائیں اور وہ چند منٹوں کے بعد مطلوبہ کتاب کو اپنے کمپیوٹر میں ڈاؤن لوڈ کر لے تو اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ بازار جائے اور وہاں سے پیسے دے کر مطلوبہ کتاب حاصل کرے۔ قریباً تمام بڑے شہروں میں انٹرنیٹ کا حصول کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ کیبل نیٹ عام سی بات ہے۔ کمپیوٹر بھی اتنا مہنگا نہیں رہا کہ کسی کی استطاعت سے باہر ہو۔ اب تو لیپ ٹاپ ٹیکنالوجی اور اس کی مفت تقسیم سے ایک بڑا طبقہ انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے کے قابل ہو چکا ہے۔ اس لئے کتابی صنعت کو حقیقتاً نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر زیادہ لوگ اس صنعت میں داخل ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ نووارد کی سرمایہ کاری کو تباہ کر دیا جائے۔
شکریہ
معظم جاوید بخاری