تلمیذ
لائبریرین
کتابی جملہ حقوق پر بحث اور آپ کی آرأ
کتابی دُنیا میں سب سے زیادہ منافع حاصل کرنے والا حقیقی طبقہ عام دوکاندار ہے جس کے منافع کی شرح چالیس فی صد سے زائد ہے۔ میں یہاں پبلشرز کی حمایت نہیں کر رہا، مگر یہ حقیقت ہے کہ پبلشرز طبقہ اس منافع کو حاصل نہیں کر پا رہا جو اسے ملنا چاہئے
معظم جاوید بخاری
آپ کے اس جزو دوم نےصحیح صورت حال واضح کی ہے اور پبلشنگ کے کاروبار کے پوشیدہ گوشوں پر سے پردہ اٹھاتے ہوئےہمارے علم میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ سچ ہے کسی بھی کاروبار کے اندرونی حالات کا علم صرف انہیں لوگوں کو ہی ہو سکتا ہے جو پوری طرح اس میں داخل ہوں۔
یہاں پر میں آپ کی تحریر سے اپنے اس اقتباس شدہ نکتے کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے عرض گزار ہوں کہ آپ نے تو پبلشر کے نقطہ نظر سے ٹھیک لکھا ہوگا لیکن میری طرح کے ہر عام قاری کو معلوم ہے کہ کتاب کو اسکی مطبوعہ قیمت پر کبھی نہیں خریدنا چاہئے۔ کیونکہ اس میں 'کمیشن' لازماً شامل ہوتا ہے۔ اب اس کمیشن کی شرح پبلشر سے چل کر تھوک فروش اور مڈل مین سے ہوتے ہوئے پرچون فروش تک آتے آتے بہت کم رہ جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی نو سو روپے کی لکھی ہوئی قیمت والی ایک کتاب کو ایک عام خریدار تقریباً چھ سوا چھ سو میں حاصل کر کے اپنے تئیں بہت خوش ہو جاتا ہے۔ لیکن حقیقتاً اس کتاب کی طباعت اور مارکیٹنگ وغیرہ پر میرے خیال میں اس رقم کی نسبت کافی کم خرچہ آیا ہوا ہوتا ہے۔
کیا کوئی ایسا طریقہ نہیں کہ قاری کے لئے کتاب پر آئے ہوئے حقیقی خرچےاور اس کی قیمت فروخت کے اس بہت زیادہ فرق کو کم کیا جا سکےتاکہ کتابوں کے شائقین چودہ پندرہ سو روپے والی کتاب کا بھاری پتھر اپنی ہلکی جیب کی بے بضاعتی کی بنا پر صرف چوم کر نہ چھوڑ سکیں؟