کتابی جملہ حقوق پر بحث اور آپ کی آرأ
السلام علیکم!
میں آپ سب لوگوںکا بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نے میرے اُٹھائے گئے موضوع پر جواب آرائی کی زحمت کی۔ کچھ سوال اُٹھائے گئے تو کچھ اعتراضات! کہیں میرے ایمان پر انگلی اُٹھائی گئی تو کہیں اردو ادب کی خدمت کا تقاضا۔کہیں پبلشرز کے غیرمنصفانہ روئیے کی بات ہوئی تو کہیں مصنف کی بے بسی کا ماتم۔
پہلے ضرورت ہے کہ میں آپ لوگوں کے سامنے اپنا تعارف پیش کروں کہ میں کون ہوں؟
میرا نام ’سید محمد معظم جاوید بخاری‘ ہے۔ میں بنیادی طور پر ایک مصنف ہوں۔ 1983ء سے علم و ادب سے وابستہ ہوں۔ میں نے بچوں کی کہانیوں سے اپنے لکھنے کا آغاز کیا۔ اس دور میں سولہ صفحات پر مشتمل ایک کہانی کا معاوضہ پچیس روپے دیا جاتا تھا اور ہمراہ پچیس کہانیاں بطور رائلٹی دی جاتی تھیں۔ اس کہانی کی قیمت فروخت پچیس پیسے ہوتی تھی۔ میں نے اپنے طور پر یہ قدم اُٹھایا اور بغیر کسی شناخت کے مجھے پبلشرز نے معاوضہ ادا کیا۔ ان پبلشرز میں ذکاء پبلشرز، مثالی پبلیکیشنز، الاسد پبلی کیشنز، فرخ پبلشرز، علی ہجویری پبلشرز، طور پبلشرز، مکتبہ یادگار لاہور شامل تھے۔ ان میں چند ایک ابھی تک باقی ہیں۔ 1985ء میں، میں باقاعدہ بڑی کتب کی طرف توجہ کی۔ میں چونکہ مارشل آرٹس سے وابستہ تھا اس لئے میں نے بڑی محنت سے جوڈو، کراٹے، کنگ فو اور دیگر دفاعی آرٹس پر کتابوں کا سلسلہ شروع کیا۔ قریباً چوراسی کتب ان موضوعات پر مرتب کیں جو پاکستان کے مختلف پبلشرز نے شائع کیں، ان سب کتب کا معاوضہ مجھے دیا گیا۔ ایک کتاب بھی مفت نہیں دی گئی۔ اسی دورانئے میں، میں دیگر معلوماتی موضوعات پر بھی کام کیا۔ قریباً ساڑھے چار سو کے قریب کتب شائع ہوئی۔ یہ سب کام تدوین کی مد میں شمار کیا جاتا ہے، اس لئے اس کا کوئی کریڈٹ مجھے نہیں جاتا۔ میں نے عمروعیار، ٹارزن، حاتم طائی، ہرکولیس جیسے بچوں کے کرداروں پر بھی کئی 80 صفحاتی ناول تحریر کئے جو مکتبہ یادگار، روبی پبلی کیشنز، مکتبہ باب علم، نقش پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوئے۔ 1990ء میں نے تدوین کا کام ترک کرکے تخلیق و تصنیف کا کام شروع کیا اور ماہنامہ حکایت کے ساتھ وابستہ ہوا۔ میں نے پہلا تاریخی ناول ’المختار‘ شروع کیا جو ماہنامہ حکایت میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ انیس اقساط کے بعد اس ناول کو ’متنازعہ‘ قرار دے کر بند کر دیا۔ اس پر الزام عائد کیا گیا کہ یہ فرقہ واریت پھیلانے کا کام کر رہا ہے حالانکہ میں نے اسے مسند شیعہ و سنی تاریخ سے اخذ کیا تھا۔ اس دوران میں نے جاوید بخاری کے نام سے متعدد کہانیاں لکھیں۔ چند ناول بھی اسی نام سے شائع ہوئے۔ 2003ء میں نے نئے تاریخی ناول ’قاہرہ کا قہر‘ کا آغاز کیا جو چھتیس اقساط میں شائع ہوا۔ بعد میں اس کا پہلا ایڈیشن مکتبہ داستان اور دوسرا ایڈیشن مکتبہ خزینہ علم و ادب نے شائع کیا۔ 2006ء میں نے نئے تاریخی ناول ’اور چراغ بجھ گیا!‘ کا آغاز کیا جو گیارہ اقساط بعد بند کر دیا گیا کیونکہ میرے اور پبلشرز کے درمیان نظریاتی اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ وہ ناول زیر طبع ہے امید ہے کہ 2013ء میں کتابی شکل میں شائع ہو جائے گا۔
اب آئیے آپ کے خیالات کی طرف!
محترم تلمیذ صاحب خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جوعوام بلامعاوضہ مستفید ہو رہے ہیں تو ان کا کیا ہوگا؟ اس کا جواب نبیل صاحب نے دے دیا کہ کتب کی پی ڈی ایف یا ڈیجیٹل فارمیٹ مخصوص ایپ سٹور کو دئیے جانے پر پبلشرز فورم میں غور ہو رہا ہے۔ محترم قیصرانی صاحب پبلشرز کی پالیسی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ پبلشرز کتاب کے مکمل جملہ حقوق اپنے نام ضبط کر لیتے ہیں۔ جی ہاں! یہ بات درست ہے، ایسا ہی ہوتا ہے مگر یہ مصنف کی رضامندی کے بغیر نہیں ہوتا۔ مصنف خود اپنے حقوق دائمی طور پر پبلشرز کو فروخت کرتا ہے۔ دونوں کے درمیان مخصوص معاوضہ طے ہوتا ہے اور وہ معاوضہ لیکر مصنف اپنے دائمی حقوق سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں میرے سامنے ہیں یعنی میں ان کا چشم دید گواہ ہوں۔ جب ایک مصنف خود اپنے ہاتھ کاٹ لیتا ہے تو اس میں پبلشرز کو محض کوسنا درست نہیں۔ جب آپ کہیں بھی کوئی چیز فروخت کرنے جاتے ہیں تو خریدار اپنی بولی لگاتا ہے اور اپنی شرائط سے آگاہ کرتا ہے۔ اگر آپ اس سے متفق ہوتے ہیں تو ہی وہ اس چیز کا مالک بنتا ہے، وہ آپ سے زبردستی اسے حاصل نہیں کر سکتا۔ تجارت میں نفع کو پہلے دیکھا جاتا ہے، تاجر ہمیشہ ایسا سودا پسند کرتا ہے جس میں اس کی تجارت عمدہ منافع حاصل کرے۔ بہت سارے مصنفین ایسے ہیں جو پبلشر کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ ان کا منہ بولا معاوضہ ادا کرے اور ان کی شرائط کو مقدم رکھے مگر یہ تعداد زیادہ نہیں ہے۔ ہمارے طبقے میں سینکڑوں مصنفین ایسے موجود ہیں جو اپنی مالی ضروریات سے مجبور ہو کر پبلشرز کے سامنے سرنگوں ہو جاتے ہیں۔ آپ جن مصنفین کا ذکر فرما رہے ہیں، وہ اسی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پبلشرز کس قسم کی کتاب کو شائع کرتے ہیں، یہ سوال اہم ہے۔ ہر لکھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ اس نے دن رات ایک کرکے جو مسودہ تیار کیا ہے، وہ نایاب و اہم ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ بک جائے گا۔ یہ دراصل ایک خوش فہمی ہے۔ مغرب میں مصنف براہ راست اپنا مسودہ پبلشرز کو نہیں فروخت کرتا بلکہ وہ ایسی ایجنسیوں یا ایجنٹس سے رابطہ کرتا ہے جو اپنی خدمات اس کام کیلئے پیش کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایسا رواج موجود نہیں۔ پڑھنے والوں کو ممکن ہے کہ یہ برا لگے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں پچہتر فیصد مصنفین کے مسودات ان کے اپنے نہیں ہوتے، حتیٰ کہ شعراء و ادباء کی مقبول عام تحریریں بھی ان کی ذاتی تخلیقات نہیں ہوتی۔ اس قسم کے انکشافات اگر پڑھنا ہوں تو ان کیلئے نقوش، فنون جیسے ادبی رسائل و جرائد کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ یہ مسودات پہلے سے مسروقہ ہوتے ہیں، اس لئے مصنفین انہیں اونے پونے میں پبلشرز کو فروخت کر دیتے ہیں۔ پبلشرز کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ مسودہ مسروقہ ہے یا ذاتی تخلیق۔ اسے محض تجارت سے غرض ہوتی ہے۔ چونکہ مصنف کے ساتھ کئے گئے قانونی معاہدے کے تحت وہ خود قانونی پر محفوظ ہوتا ہے اس لئے وہ بلادھڑک مسودات کو کتابی شکل میں شائع کر دیتا ہے۔ تمام پبلشرز ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ان میں بعض نہایت نفیس اور قدردان ہوتے ہیں تو بعض بالکل متضاد۔ مصنفین کو میرا ذاتی مشورہ ہے کہ وہ اپنے تخلیقات کیلئے پبلشرز کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں۔ محترم قیصرانی مزید کہتے ہیں کہ ایک بندہ دوسرے کے حق پر ڈاکہ مار رہا ہے اور تیسرا پہلے حق پر۔ بات ختم… برادرم! بات ختم نہیں، یہ غلط عمل ہے ہمیں مل جل کر اس عمل کی مذمت کرنا چاہئے۔ ہم بنیادی طور پر مسلمان ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ روز محشر اپنے رب کے سامنے سرخرو رہیں اور ایسے اعمال کے ساتھ ہوں جن سے ہماری گردنیں کم ازکم شرمسار نہ ہوں۔ بے شک ہمارا رب بڑا غفور رحیم ہے مگر ہمیں بے راہ رو بھی نہیں ہو جانا چاہئے۔ ایک مصنف کے اپنے بس میں ہے کہ وہ اپنی کتاب کے جملہ حقوق اپنی ملکیت میں رکھے اور ایسا بے شمار مصنفین کرتے بھی ہیں۔ اگر ایک مصنف خود دائمی جملہ حقوق پبلشرز کو دے دیتا ہے تو اس میں کس کا قصور ہے؟
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان میں اردو زبان میں اتنا کام نہیں کیا گیا جتنا تقسیم ہند سے پہلا ہوتا رہا ہے۔ سرسیداحمد خان مرحوم سے لیکر احمدندیم قاسمی ، اشفاق احمد وغیرہم تک جتنا کام کیا گیا ہے، اس کا ایک چوتھائی حصہ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ 1963ء سے قبل شائع ہوئی تمام کتب جملہ حقوق سے آزاد ہیں۔ انہیں کوئی پبلشر شائع کر سکتا ہے مگر جدید ایڈیشن کو من و عن پی ڈی ایف میں منتقل کرنا جرم ہے کیونکہ ان کی تدوین و اشاعت میں پبلشر کا سرمایہ لگا ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اسے انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف کی شکل میں ہونا چاہئے تو اس کیلئے آپ اس کی کمپوزنگ یا ٹائپنگ خود کریں، اس کا سرورق خود ڈیزائن کریں اور اسے غلطیوں سے پاک کرکے اس کی پی ڈی ایف بنائیں اور اسے بخوشی جس فورم سے چاہیں ، متعارف کرائیں۔ اب اگر کوئی دوسرا شخص آپ کی تشکیل کردہ پی ڈی ایف پر اپنا نام اور ویب سائٹ کا نام لگا کر آپ کے تمام کریڈٹ کو ختم کرکے اس کی ملکیت کو اپنا بنا کر ظاہر کرتا ہے تو پھر کیا آپ کو غصہ نہیں آئے گا۔ چلئے میں یہاں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں۔ میں نے 2005ء میں بچوں کی رنگین کہانیاں تیار کیں۔ اس کا کتابی ایڈیشن شائع ہوا۔ میں نے پبلشر کو آمادہ کیا کہ اس کا ڈیجیٹل ایڈیشن انٹرنیٹ پر شائع کرنا چاہئے تاکہ ان سبق آموز کہانیوں سے پاکستان کے باہر مقیم افراد مستفید ہو سکیں۔ میں نے ان کہانیوں کی پی ڈی ایف تشکیل دیں اور انہیں سکربڈ پر اپ لوڈ کر دیا مختلف اردو فورمز میں اس کی تشہیر بھی کر دی۔ بے شمار لوگوں نے انہیں پڑھا، پسند کیا اور ڈاؤن لوڈ کیا۔ کچھ دنوں بعد وہ کہانیاں مختلف بلاگز اور سائٹس پر فری ڈاؤن لوڈنگ کیلئے پڑی دکھائی دیں۔ ان پر مختلف لوگوں نے اپنے مونوگرامز، قلمی نام اور دیگر تحریریں لکھ کر انہیں اپنی ذاتی ملکیت ظاہر کیا۔ حالانکہ یہ ان کی ملکیت ہی نہیں تھیں۔ اگر یقین نہ آئے تو گوگل پر سرچ کر کے دیکھ لیں۔ نادان کی دوستی، نافرمانی کی سزا، بھروسہ مت کرو، عقل کا استعمال وغیرہم بیس کہانیوں کا سیٹ ہے۔ اگلے برس میں، میں نے ہیری پوٹر سیریز کے دو ناولوں کے تراجم کرکے انہیں انٹرنیٹ پر متعارف کرایا۔ یہ دونوں تراجم بلاجازت کئے گئے تھے، اس لئے مجھے جے کے رولنگ کی طرف سے ممانعت کا نوٹس ملا۔ میں نے اپنے تئیں کوشش کی کہ وہ اردو میں اس سیریز کے ڈیجیٹل رائٹس فراہم کر دیں مگر مجھے کامیابی نہیں ہوئی۔ وہ ناول ابھی تک مختلف سائٹس پر دستیاب ہیں مگر ان کے ساتھ بھی بالا سلوک کیا گیا ہے۔
محترم محمد احمد نے اردو ادب کی اہمیت کی اجاگر کی ہے، یہ درست ہے کہ کتاب استاد کا درجہ رکھتی ہے اور اس سے انسان میں زندگی کا شعور اور رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ پاکستانی جواں نسل کے ساتھ المیہ ہے کہ وہ مغرب کی دیوانگی میں مبتلا ہو چکی ہے۔ مغربی لٹریچر کو مستند سمجھتی ہے اور اپنے ہم زبان لوگوں کی تصنیفات کو غیرمعیاری۔ محترم ساجد مصنفین کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ خود اپنی کتب شائع کریں۔ ایسا کسی حد تک ہو رہا ہے مگر اس میں مالی مشکلات آڑے آتی ہیں۔ پروفیشنل حضرات جس انداز میں کاروبار کرتے ہیں، ان کے روابط کی وسعت اور مالی آسانیوں کے باعث انہیں بھرپور منافع ملتا ہے جبکہ ایک مصنف کو ایسی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ جب مصنف مسلسل محنت کے بعد پبلشر بن جاتا ہے تو اس کا طریق کار مصنفین جیسا نہیں رہتا بلکہ وہ بھی منافع بخش کاروبار کو ترجیح دیتا ہے۔ میں ایسے کئی پبلشرز کو جانتا ہوں جو خود مصنف بھی ہیں۔ ایسا کہنا کہ مصنف سولو فلائٹ کے ذریعے اپنی کتب کی اشاعت کر سکتا ہے اور بھرپور منافع کما سکتا ہے، غیر حقیقی ہے۔ اگر مصنف پبلشر بن جائے تو وہ تخلیقات کا عمل جاری نہیں رکھ پائے گا۔ بطور پبلشراس کی مصروفیات کا دائرہ بڑھ جائے گا۔ کہاوت ہے کہ جس کا کام، اسی کو ساجھے! حقیقت پر مبنی ہے۔ خوش فہمیاں پال لینا بہت آسان ہوتا ہے۔ کتاب کی قیمت کا تعلق بنیادی اخراجات سے ہوتا ہے۔ 1985ء میں نیوز پرنٹ کاغذ کا ایک رم صرف ساٹھ روپے کا ملتا تھا جبکہ آج بازار میں اس کی قیمت پندرہ سو روپے کے قریب ہے۔ سفید کاغذ ایک سو بیس روپے فی رم ملتا تھا جو آج دو ہزار کے لگ بھگ ہے۔اسی طرح تمام مراحل میں اخراجات کا قد بڑھا ہے، کم نہیں ہوا۔ اس میں گورنمنٹ بھی ملوث ہے جس نے کتابی صنعت کے استیصال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کتابی دُنیا میں سب سے زیادہ منافع حاصل کرنے والا حقیقی طبقہ عام دوکاندار ہے جس کے منافع کی شرح چالیس فی صد سے زائد ہے۔ میں یہاں پبلشرز کی حمایت نہیں کر رہا، مگر یہ حقیقت ہے کہ پبلشرز طبقہ اس منافع کو حاصل نہیں کر پا رہا جو اسے ملنا چاہئے، یہی وجہ ہے کہ بیشتر پبلشرز نے اس شعبے کو ترک کرکے مختلف کاروبار کو ترجیح دی ہے۔ ایک مثال پیش ہے کہ ایک پبلشرز (نام حذف کر دیا گیا) ایک بڑا اشاعتی ادارہ تھا جس نے ایم راحت، ماہا ملک، رفعت سراج، عمیرہ احمد، محی الدین نواب، علیم الحق حقی جیسے بے شمار مصنفین کو رائلٹی بیس پر شائع کیا، گذشتہ ماہ میرا اتفاقاً ادھر گزر ہوا تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ وہاں الماریوں میں کتب کے بجائے چائنہ کی سٹیشنری مصنوعات سجی ہوئی تھیں۔ اس نے مجھے جو کچھ بتایا، وہ نہایت مایوس کن تھا۔ قدآور ناموں کی کتب کے باوجود اس کا مستحکم ادارہ بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر تھا۔ یہ صرف ایک مثال ہے، اگر میں تفصیل سے بیان کروں تو سینکڑوں اداروں کی تاریخ بیان کر سکتا ہوں۔ آپ لوگوں کا ایسا سوچنا غلط ہے کہ پبلشرز اندھا دھند منافع سمیٹ رہے ہیں۔
آپ لوگ نئے دور کی جدت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، یہ درست ہے کہ کمپیوٹر کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے نئی سمتیں اور نئی جہتیں فراہم کر دی ہیں، ای بکس اور ٹیبلٹس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آپ لوگ ماشاء اللہ جوان ہیں، نئے نسل کے نمائندے ہیں، آپ کو ہم سے زیادہ سے اس ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل ہے۔ آپ قیصر عباس صاحب کے طریق کار کو اپنائیں۔ اس نوجوان نے اپنی پہچان خود پیدا کی ہے۔ وہ جب اپنی پہلی کتاب ’ٹک ٹک ڈالر‘ لیکر پبلشرز کے پاس آیا تھا تو اس کی حوصلہ شکنی کی گئی مگر اس نے ہمت نہیں ہاری اور آج وہ اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ میڈیا اسے خود مدعو کر کے اس سے نوجوان نسل کی رہنمائی کیلئے مشورے طلب کر رہا ہے۔ آپ اپنے اردگرد مصنفین سے رابطے رکھیں اور ان سے تصنیفات حاصل کریں، ان کی اہمیت و اقدار کو پرکھیں اور خود ان کی ڈیجیٹل فارمیٹس تیار کرکے نئی نسل کو پیش کریں۔ کسی کی حق تلفی تو نہ کریں۔ جب آپ لگاتار کسی پروجیکٹ پر دن رات خرچ کریں گے تو یقینا آپ کو احساس ہو گا کہ اس میں آپ کو کیا حاصل ہوا؟ سائبر بزنس کی راہیں کھلی ہیں، بے روزگاری سے نجات کیلئے یہ بھی ایک طریقہ ہے جسے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ آپ لوگ ایپ سٹور بنائیں اور اپنی مطبوعات کو فروخت کریں، مختلف پبلشرز کے پاس جائیں، انہیں قائل کریں، ان سے شائع شدہ کتب کے ڈیجیٹل حقوق حاصل کریں اور جائز راستے سے اپنا رزق حاصل کریں۔ یہ اردوادب کی خدمت ہوگی۔یاد رکھئے معاشرے میں جو شخص روتا دھوتا دکھائی دیتا ہے، وہ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی سزا بھگت رہا ہے۔ اگر آپ آج خود کو صحیح عادت ڈالیں گے اور جائز طریقوں کو اختیار کریں گے تو یقینا اس کے ثمرات آپ کو آئندہ زندگی میں ملتے رہیں گے۔
محترم فاتح صاحب نے تبصرہ کیا ہے کہ پبلشرز حضرات کتب پر طبع اوّل لکھ کر کئی ایڈیشن شائع کرتے ہیں تاکہ مصنفین کو معاوضہ نہ ادا کیا جا سکے۔ اس قسم کی وارداتیں بھی ہوتی ہیں مگر ان کے خلاف کارروائیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ مصنفین کا ایک گروہ کتاب کے ایک ایڈیشن کے حقوق پبلشر کو صرف ایک سال کی مدت کیلئے دیتا ہے اور اگلے سال وہ یہ حقوق کسی دوسرے پبلشر کو دے دیتا ہے۔ یہ ان کا ذاتی حق ہے۔ اس ضمن میں دو وجوہات ہیں، ایک پبلشر ٹیکس سے بچنے کیلئے کتب پر دوسرا ایڈیشن نہیں لکھواتا، دوسرا یہ کہ مصنف اپنے ذاتی حق کے تحت سابقہ معاوضہ سے زیادہ کی مانگ کرتا ہے جس پر پبلشر اسے یہ باور کراتا ہے کہ کتاب کا تو پہلا ایڈیشن ہی فروخت نہیں ہو سکا۔ یہ کاروباری بددیانتی ہے جس کے باعث تنزلی رونما ہو رہی ہے۔ لیکن یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ تمام پبلشرز ایسے نہیں ہیں۔ یہ میں اپنی زندگی کے حقیقی تجربات کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ آپ کو کئی کتب پر جدید ایڈیشن کے سنہ ملیں گے۔ ایک پرانا اور حقیقی پبلشر اور ایک نیا اور حادثاتی پبلشر، دونوں میں فرق ہوتا ہے۔ یہ کہنا اور کرنا درست عمل نہیں ہے کہ قارئین کتابیں سکین کرنے کے بجائے خود ٹائپ کرکے یونیکوڈ میں مہیا کیا کریں۔ یہ بھی حق تلفی ہے، ان مصنفین کے ساتھ جن کی وہ حقیقی ملکیت ہیں۔
میں آپ لوگوں کا دشمن نہیں ہوں اور نہ ہی ان پبلشرز کا حمایتی، جو بے ایمانی، ناجائز منافع خوری اور مصنفین کے استیصال پر یقین رکھتے ہیں۔ میں خود متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہوں اور تمام عمر اسی کوشش میں مگن رہا ہوں کہ کم ازکم میرے ہاتھوں کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ میں پبلشرز سے ہٹ کر اس طبقے میں بھی اُٹھا بیٹھا ہوں جو کسی کتاب کی اشاعت کے دوران نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ میں نے ان کی مالی مشکلات کو دیکھا ہے، ان کے سمٹتے ہوئے روزگار کو دیکھا ہے۔ وہ صبح سے شام تک کڑی محنت کرتے ہیں مگر اب بے کار بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ جب نصابی کتب کا دور چلتا ہے تو ان کے مرجھائے ہوئے چہرے دمک اُٹھتے ہیں۔ یہ دور صرف مارچ اپریل تک ہی محدود رہتا ہے، باقی سال وہ لوگ سخت پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔ میں دُعاگو ہوںکہ اللہ ان کی مشکلات میں کمی کرے اور انہیں مالی بحران سے نجات دے۔میں نے اسی جذبے کے تحت آپ لوگوں سے درخواست کی ہے کہ آپ خدا کے حضور خود کو ان کا مجرم نہ بنائیں اور نہ ہی ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں جو ان کے حق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ وہ پبلشرز سے طے شدہ معاوضہ پر تو مطمئن ہیں مگر کام کی عدم دستیابی کے ہاتھوں مجبور و پریشان ہیں۔ آپ انہیں مالی فوائد تو فراہم نہیں کر سکتے مگر ان کے پیشے کو تباہی کی طرف مت دھکیلیں۔
محترم فاتح صاحب آپ اس ضمن میں لکھنا چاہتے ہیں، ضرور لکھئے۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ جنوری 2013ء میں کوئی ملکی قانون لایا جا رہا ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ قانونی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ کاپی رائٹس ایکٹ کو بین الاقوامی ایکٹ کے تناظر میں رکھ کر کارروائی کا حق استعمال کیا جا نے والا ہے۔ کاپی رائٹس ایکٹ سے کون کتنا استفادہ کرتا ہے؟ یہ میری سر درد نہیں ہے۔ ہر پاکستانی کو کسی بھی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کا پورا پورا اختیار حاصل ہے۔ اگر مصنفین کا طبقہ سمجھتا ہے کہ ان کا حق غضب کیا جا رہا ہے تو وہ عدالت میں جا سکتے ہیں اور متعلقہ پبلشر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں، مگر صرف وہی مصنفین جنہوں نے دائمی جملہ حقوق اپنی مرضی سے پبلشرز کو فروخت نہیں کئے۔آپ جن سوفٹ وئیرز کی چوری کا ذکر کر رہے ہیں۔ وہ ان پبلشرز نے پائریٹ نہیں کئے ہیں۔ یہ کمال بھی نئی نسل کے کھاتے میں جاتا ہے۔ ان پیج کی تشکیل ہوئی اور اس کی فروخت کیلئے باقاعدہ ڈیلرز مقرر کئے گئے مگر ایک بڑی تعداد نے اس سوفٹ وئیر کو خریدنا پسند نہیں کیا کیونکہ یہ انٹرنیٹ پر مفت دستیاب ہوتا ہے۔ میں ایسے اداروں کو بھی بخوبی جانتا ہوں جہاں پر ان پیج باقاعدہ خرید کر انسٹال کیا گیا ہے۔ چوری کرنا اچھی عادت نہیں ہے۔ اگر ایک ڈاکو کسی بڑے زمیندار کو لوٹ کر ڈاکہ کی رقم غرباء میں تقسیم کر دیتا ہے تو اسے احسن عمل ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا…!
معظم جاوید بخاری